پھر وہی ’’پین کلر‘‘دوائیں

کسی حد تک تو یہ جائز ہے کہ جب تک اصل مرض دفع نہیں کیاجاتا تب تک مریض کو تکلیف کا احساس نہ ہو۔

barq@email.com

بلکہ اگر صحیح بات کرنی ہو تو پھر وہی ''ایلوپیتھک علاج''۔ایلوپتھک طرز علاج یا سسٹم آف میڈیسن ہیں تو عوام کو لوٹنے اور امراض سے بھی منافع کمانے کے لیے ہزاروں لاکھوں دوائیں چل رہی ہیں۔لیکن وہ سب تجارتی ہتھکنڈے یا حکومت اور کمپنیوں کی ساجھے داری میں ''لوٹ مار'' کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ بنیادی طور پر صرف''تین''دوائیں ہوتی ہیں (1)اینٹی بائیوٹک یا جراثیم کش(2) سیڈیٹیو یا پین کلر (آرام دہ اور دردکش اور ٹانکس(طاقت کی دوائیں)۔

ہر ڈاکٹر کا نسخہ ان ہی تین اقسام کی دواؤں پر مشتمل ہوتاہے ناموں برانڈوں یا شکلوں صورتوں یعنی گولیوں شربتوں انجکشنوں یا کیپسولوں میں فرق ہوسکتا ہے کیونکہ کمپنیوں کا ایک اپنا طریقہ کار بھی ہوتاہے ڈاکٹروں سے اپنی دوائیوں کے لکھوانے کا۔اس وقت ہم انسانوں کے جسمانی امراض کا ذکر نہیں کررہے ہیں کیونکہ وہ اپنی جگہ ایک طویل داستان خونچکاںہے، مرے ہوؤں کو مارنے نچوڑنے اور کاٹنے کھانے کی۔

اس وقت ہمارا موضوع بحث اس مریض کا علاج ہے جو سترسال سے صاحب فراش ہے دردوتکلیف سے تڑپ رہاہے بستر پر گھل رہاہے روز بروز مزید بیمار ہوتاجا رہا ہے اور معالج ہے کہ اصل مرض کا علاج کرنے کے بجائے اسے ''پین کلر'' سیڈیٹیو اور وقتی سکون آور دوائیں دیے جارہے ہیں۔عام طور پر جب مریض کو افاقہ نہیں ہورہاہو تو معالج بدل لیے جاتے ہیں لیکن یہاں معالج بھی بدلتے رہتے ہیں مگر

مریض عشق پر رحمت خدا کی

مرض بڑھتاگیا جوں جوں دواکی

کیونکہ معالج بھلے ہی بدل جائیں لیکن دوائیں تو وہی ایلوپیتھی کی ہیں۔اینٹی بائیوٹک،پین کلر اور وقتی ٹانک۔

آپ سمجھ گئے تو ہوں گے کہ ہم کون سے سترسالہ مریض کی بات کررہے ہیں اور بے شمار بدلنے والے معالج کون ہیں؟ بدقسمتی سے اب کے جس معالج کولایاگیا اس نے علاج بدلنے کے بہت دعوے کیے تھے لیکن اس نے سب سے زیادہ وقتی ''پین کلر'' دواؤں کا استعمال شروع کردیا اور سکون آور دواؤں کو اصل علاج بتانا شروع کیا۔یہاں تھوڑی سی بات ایک مرتبہ پھر جسمانی بیماریوں کی ہوجائے کہ انسانی جسم میں درد اور بخار خدا کی نعمت ہیں یہ قدرت کی طرف سے خطرے کا ''الارم'' ہوتے ہیں کہ ہوشیار ہوجاؤ تمہارے جسم میں کوئی بیماری حملہ آور ہوگئی ہے۔

اس درد اور بخار کی اطلاع جب اعصابی نظام کے ذریعے دماغ کو پہنچتی ہے تو انسان اس مرض اس خرابی اور درد وبخار کے سرچشمے کا علاج شروع کردیتا، گویا درد وبخار ایک طرح کے جاسوس ہوتے ہیں جو دماغ کو جسم کے کسی حصے میں شورش، بغاوت، بے چینی اور خرابی کی اطلاع دیتے ہیں۔اگر درد اور بخار نہ ہوتا تو جسم میں امراض پھیل کر بڑا نقصان کرتے اور دماغ کو پتہ بھی نہ ہوتا کہ جسم میں کیاکیاخرابی واقع ہورہی ہے۔لیکن پین کلر اور دافع بخار دوائیں اعصابی نظام کی اس خبررسانی کو مفلوج کردیتی ہیں۔درد اور بخار سوزش اور مرض بدستور موجود ہوتے ہیں لیکن مرکز یعنی دماغ کو اس سے بے خبر رکھاجارہاہوتاہے۔


کسی حد تک تو یہ جائز ہے کہ جب تک اصل مرض دفع نہیں کیاجاتا تب تک مریض کو تکلیف کا احساس نہ ہو۔لیکن اگر سارا انحصار ہی پین کلر دواؤں پر رکھا جائے اور اصل مرض کا علاج ہی نہ کیاجائے تو مرض آہستہ آہستہ جسم کو کھاجائے گا اور مریض کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور مرجائے گا۔ہمارے ملک میں بھی جب سے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے ہر حکومت آکر وقتی دردکش دوائیں دینا شروع کردیتی ہے، کبھی امداد، کبھی بھیک، کبھی انکم سپورٹ، کبھی بیت المال، کبھی ہیلتھ کارڈ، کبھی کروڑوں نوکریاں، کبھی کروڑوں مکان، کبھی دارالکفالہ، کبھی گیسٹ ہومز۔ سودی قرضے لے لے کر اور بھیک مانگ مانگ کر ٰخیراتیں بانٹتی ہیں۔ اور یہ کبھی نہیں کیا کہ عوام کو بھیک کے بجائے خودکفالت کی راہ پر ڈالے انھیں ایک وقت کے لیے ایک مچھلی نہ دے بلکہ جال خرید کر دے۔

ارے ہاں ایلوپیتھی علاج کے تیسرے حصے ٹانکس کا تو ہم نے ذکر نہیں کیا۔جسم اگر صحت مند ہو تو یہ اس کی ذمے داری ہے کہ روزمرہ خوراک سے اپنی ضروریات حاصل کرے۔لیکن اگر آپ اوپر سے طاقت کی دوائیں دینا شروع کردیں تو جسم کے اعضاء آہستہ آہستہ اس بیرونی ''بھیک''کے عادی ہوکر اپنا کام چھوڑدیں گے کہ بھیک میں ملتاہے تو محنت یا کام ہی کیوں؟ چنانچہ وہ مفت خورے اور اذکار رفتہ ہوجائیں گے۔ہمارے ملک میں بھی روز اول سے یہی طریقہ علاج چل رہاہے کہ اصل مرض کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور وقتی پین کلر یا طاقت کی دواؤں سے مریض کو ٹرخایا جاتاہے۔ غالب نے کہا ہے کہ

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا

درد کا حد سے گزرناہے دوا ہوجانا

اگر یہ کم بخت وقتی پین کلر اور وٹامن والا علاج نہ کیاجاتا تو عین ممکن تھا کہ لوگ اپنے ''درد'' کا علاج خود ڈھونڈلیتے کیونکہ تنگ آمد بجنگ آمد۔انسان کو جب کسی طرف سے بھی امداد نہ ملے تو وہ ہاتھ پیر ہلانے پر مجبور ہوجاتاہے اور کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو بچالیتاہے

نہ دیدی کہ چوں گربہ عاجزشود

بر آرد چنگال چشم پلنگ

یعنی تم نے دیکھا نہیں کہ جب بلی بھی گھر جاتی ہے تو پنجہ مارکر بھیڑیے کی آنکھ نکال لیتی ہے اور انسان تو ایڈجسٹ کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگر یہ وقتی اور عارضی پین کلر دوائیں اور وقتی وٹامن یا مچھلیاں نہ دی جائیں تو سو فیصد ممکن ہے کہ وہ اپنے درد کا علاج خود ہی سیکھ لے۔رسولﷺ کی مثال تو ہمارے سامنے ہے کہ ایک آدمی جب اپنی تنگ دستی کا رونا لے کرآگیا تو اس دوجہانوں کے شہنشاہ کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ کسی غنی صحابی سے کچھ دینے کے لیے فرماتے لیکن آپﷺ اٹھے بنفس نفیس اس کا کمبل بیچا ایک کلہاڑی اور رسی خرید کردی کہ باقی پیسوں سے گھر میں نان نفقہ ڈال، جا لکڑیاں لا اور بیچ۔
Load Next Story