فلاحی کاموں کی اصلیت
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کھربوں روپے کی امداد کا کوئی دوسرا زیادہ موثر اور باعزت راستہ نہیں ڈھونڈا جاسکتا…؟
پیپلزپارٹی نے اپنی پانچ سالہ حکومت کے دوران عوام کی بھلائی کے جو کام کیے ہیں، ان میں بینظیر انکم سپورٹ قسم کے پروگرام سرفہرست ہیں، جن کی تشہیر سب سے زیادہ کی جاتی رہی، اس قسم کے پروگراموں کا مقصد ان غریب ترین خاندانوں کی مدد کرنا ہوتا ہے جن کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہوتا، اخباری اطلاعات کے مطابق اس پروگرام میں اربوں نہیں کھربوں روپے خرچ کیے گئے، اس پروگرام کے تحت بے وسیلہ خاندانوں کو ماہانہ ہزار دو ہزار روپے دیے گئے، ظاہر ہے حکومت کو اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے ہی فلاحی کام انجام دینا پڑتاہے لیکن ان فلاحی کاموں کا المیہ یہ ہے کہ ایک خاندان خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو ، موجودہ آسمان کو چھوتی مہنگائی میں ہزار دو ہزار کی مالی امداد پر گزارہ نہیں کرسکتا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کھربوں روپے کی امداد کا کوئی دوسرا زیادہ موثر اور باعزت راستہ نہیں ڈھونڈا جاسکتا...؟جن خاندانوں کی اس پروگرام کے حوالے سے مدد کی جارہی ہے، ان خاندانوں میں یقیناً کوئی تو ایسا ایک لڑکا یا لڑکی ہوںگے جو کام کرسکتے ہیں۔ اگر ان کھربوں کی رقم سے مختلف صنعتیں قائم کی جائیں یا کاٹیج انڈسٹری کا جال پھیلادیاجائے تو روزگار کے ہزاروں مواقعے فراہم ہوسکتے ہیں، جو بے وسیلہ خاندانوں کا ایک باعزت وسلیہ روزگار بن سکتے ہیں اور یہ خاندان ہزار دو ہزار کی تشنہ مدد سے نکل کر آٹھ دس ہزار کی باعزت آمدنی تک پہنچ سکتے ہیں۔
اس وقت ہمارے ملک میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری رک گئی ہے، جس کی وجہ سے ہماری پہلے سے دگر گوں معیشت تباہی کے کنارے کھڑی ہے اور حکمران طبقات کی کوشش کے باوجود سرمایہ کاری کا کوئی راستہ نہیں نکل پارہاہے ، سرمایہ کاری کا مقصد اگرچہ معاشی ترقی ہوتاہے لیکن اس کا ایک اہم پہلو یہ ہوتاہے کہ سرمایہ کاری سے روزگار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں جو بھاری رقوم کھربوں تک ماہانہ انکم سپورٹ پروگراموں کے نام پر خرچ کی جارہی ہیں۔ کیا اس بھاری سرمائے کو ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ صنعتی فروغ کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتا...؟
اگر ان کھربوں روپوں کے خرچ سے بڑی اور چھوٹی صنعتیں قائم کی جائیں تو وہ بے وسیلہ خاندان جو ہزاردو ہزار روپے ماہانہ امداد لے کر بھی اپنی ضرورتوں کا ایک معمولی حصہ پورا نہیں کرسکتے وہ ممکنہ طورپر اس رقم سے قائم ہونے والی صنعتوں میں باعزت طریقے سے روزگار حاصل کرکے اپنی آمدنی میں اضافہ نہیں کرسکتے...؟ اس حوالے سے خاص طورپر ایسی صنعتیں قائم کی جاسکتی ہیں جن میں خواتین کام کرتی ہیں، مثلاً گارمنٹ کی صنعت ہے۔ یہ ایک ایسی صنعت ہے جو زر مبادلہ کمانے کی بڑی اہلیت رکھتی ہے اگر اس صنعت کو ایک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ فروغ دیاجائے تو نہ صرف ملکی معیشت میں بہتری آسکتی ہے بلکہ خواتین کے روزگار کے بہتر مواقعے پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہاں ہم نے صرف ایک صنعت کا حوالہ دیا ہے، فارما یعنی دوائیں بنانے سمیت کئی اور صنعتیں ایسی ہیں جن میں خواتین کے لیے روزگار کے بہت بڑے مواقعے پیدا ہوسکتے ہیں۔
پیپلزپارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں اس قسم کے فلاحی کاموں پر کھربوں روپے خرچ کیے ہیں ان کاموں کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جاسکتاہے کہ پیپلزپارٹی کی جگہ لینے والی اس کی حریف نواز حکومت نے بھی اس قسم کے پروگراموں کو جاری رکھنے کی حمایت کی ہے، اس قسم کے فلاحی کام سرمایہ دارانہ نظام کی استحصالی فطرت پرپردہ ڈالنے کی ایک کوشش تو ہوسکتی ہے لیکن ان پروگراموں سے نہ ملک میں غربت کم ہوسکتی ہے نہ بے وسیلہ خاندانوں کو دو وقت کی روٹی مہیا ہوسکتی ہے، لیکن اس قسم کے فلاحی کاموں کا پروپیگنڈہ اتنے بڑے پیمانے پر کیاجاتاہے کہ خود اس پروپیگنڈہ مہم پر کروڑوں بلکہ اربوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں اور نتیجہ عموماً صفر ہی نکلتاہے۔ مشکل یہ ہے کہ اس قسم کے کاسمیٹک فلاحی کاموں کی مخالفت بھی نہیں کی جاسکتی۔
کیونکہ یہ کام عوام کی براہ راست بھلائی یا امداد ے نام پر کیے جاتے ہیں، ان پروگراموں کو شروع کرنیوالوں کی نیت خواہ کتنی ہی نیک کیوں نہ ہو حقیقت یہ ہے کہ ان فلاحی کاموں میں بھی بہت بڑے پیمانے پر کرپشن ہوتی ہے، آج کل بھوکوں کو کھانا کھلانے کے نیک کام بہت بڑے پیمانے پر کیے جارہے ہیں شہر کے مختلف علاقوں میں جگہ جگہ بھوکوں کو کھانا کھلانے کے لنگر کھلے ہوئے ہیں جہاں لمبی لمبی قطاروں میں سیکڑوں بھوکے روٹی کے انتظار میں گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا بلا شبہ ایک نیک کام ہے لیکن اس کے سائیڈ افیکٹس پر نظر ڈالنے کی بہت کم ہی زحمت کی جاتی ہے مثلاً ہمارا ذاتی مشاہدہ اس حالے سے یہ ہے کہ ان لنگر خانوں کی لائنوں میں بہت سارے ایسے بے روزگار لوگ بیٹھے رہتے ہیں جو ان لنگر خانوں میں فراہم کی جانیوالی روٹی کو خیرات اور ایسی روٹی کھانے کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے بھی یہ روٹی کھانے پر مجبور اس لیے ہوتے ہیں کہ پیٹ کی آگ انسان کو توہین اور ذلت پر مجبور کردیتی ہے۔
رمضان کے مہینے میں فلاحی کام کرنے والوں کا ایک سیلاب سا آجاتاہے، اخبارات اور ٹی وی پر لاکھوں روپوں کے اشتہارات دیکر عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ ان کے فلاحی اداروں کو فطرہ اور زکوٰۃ دیکر ثواب دارین حاصل کریں اور یہ فلاحی ادارے رمضان میں کروڑوں روپوں کی زکوٰۃ اور فطرہ وصول کرتے ہیں۔ سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ اور فطرہ جمع کرنے کی ایک منظم مہم چلاتے ہیں اور کروڑوں روپے جمع کرلیتے ہیں۔ ہوسکتاہے یہ جماعتیں ان رقوم کا کسی حد تک بہتر استعمال بھی کرتی ہوں لیکن کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کرسکتا ہے کہ زکوٰۃ، فطرہ، خیرات ہی کے زمرے میں آتے ہیں اور خیراتی کاموں کی سر پرستی کرنا اس لیے برا ہوتاہے کہ خیرات کو انسان کی تذلیل سمجھاجاتاہے، مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرف سے بھی کسی اسپتال کے لیے زکوٰۃ اور فطرے کی اپیل کی جارہی ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو محسن پاکستان کا لقب اس لیے دیاجاتاہے کہ انھوں نے ایٹم بم بناکر پاکستان کو بھارت کی ممکنہ جارحیت سے بچایا۔
ایٹم بم ہوسکتاہے ہماری قومی سلامتی کے لیے ضروری ہو لیکن اس کا دوسرا خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ ہتھیار خواہ اسے کوئی تیار کرے اور یہ ہتھیار کسی ملک میں بھی ہو انسانوں کے لیے ایک ایسا ہولناک خطرہ ہیں جس کے ارادی یا غیر ارادی استعمال سے جو تباہی آسکتی ہے اس کا اندازہ ہیروشیما او رناگا ساکی میں 1945 میں استعمال ہونے والے ان دو ایٹم بموں سے ہوسکتاہے جو آج کے آیٹم بموں کے مقابلے میں بہت کم طاقتور تھے یہ بات یہاں ہم نے برسبیل تذکرہ کی ہے اصل بات یہ ہے کہ آخر پاکستان کے اس نامور ایٹمی سائنسدان کو عوام سے زکوٰۃ اور فطرہ مانگنے کی توہین آمیز ضرورت کیوں پیش آئی...؟ اگر ڈاکٹر قدیر خان عوام کے لیے کوئی فلاحی کام کرنا چاہتے ہیں تو کیا حکومت کی یہ ذمے داری نہیں کہ وہ ڈاکٹر خان کو خود کسی اسپتال کی تعمیر کے لیے رقم فراہم کرکے فطرہ اور زکوٰۃ مانگنے کی توہین سے بچالے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ خواہ وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہو یا ڈاکٹر خان کے اسپتال کا پروگرام یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ بے وسیلہ لوگوں کو ماہانہ ہزار دو ہزار کی خیرات سے بچاکر ان کے باعزت روزگار کی سبیل کرے اور ڈاکٹر خان کو فطرہ اور زکوٰۃ کی اپیل سے بچانے کے لیے عوام کی ضرورت کے مطابق خود اسپتال قائم کرے اور اگر ڈاکٹر خان عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو حکومت اپنے کسی اسپتال کی سربراہی ان کے سپرد کردے، یہ ایک آبرومندانہ طریقہ ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام چونکہ اپنی نا انصافیاں فلاحی کاموں میں چھپاتاہے اس لیے پسماندہ ملکوں میں فلاحی کاموں کی سرپرستی بھی کرتا ہے اور اس کی تشہیر بھی کرتا ہے۔