عمران خان کی حقیقت پسندانہ آفر
یہ نیا پاکستان اور نئی سوچ ہے۔ بھارت کو بھی اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کی کسی بھی کارروائی کا بھرپور جواب دے گا سوچے گا نہیں۔ عمران خان نے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا ہے کہ پلوامہ واقعے کی تحقیقات کی پیشکش بھی کرتا ہوں اگر بھارت ثبوت دے تو میں خود ایکشن لوں گا۔ یہ نیا پاکستان اور نئی سوچ ہے۔ بھارت کو بھی اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔
عمران خان نے کہا کہ بھارت نے شواہد کے بغیر پاکستان پر الزام لگایا ہے اور یہ نہیں سوچا کہ اس قسم کی کارروائیوں میں پاکستان کا کیا فائدہ ہے؟ عمران خان نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے پر ہم بھارت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ ایسے موقع پر جب کہ پاکستان ترقی کی منازل طے کر رہا ہے کوئی احمق ہی ہوگا جو ایسے موقع کو خود سبوتاژ کرے۔
حالیہ برسوں میں پلوامہ کا واقعہ سب سے زیادہ جانی نقصان کا واقعہ ہے جس پر بھارت کا چراغ پا ہونا ایک فطری بات ہے لیکن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اس حقیقت کا علم ہونا چاہیے کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ایسا ملک جو خود دہشت گردی کا شکار ہے خود دہشت گردی میں کس طرح ملوث ہوسکتا ہے؟
دہشت گردی صرف پاکستان اور ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک عالمی بیماری بن گئی ہے اور اس کا مقابلہ اسی تناظر میں کرنا پڑے گا۔ اگر اس مسئلے کا مطالعہ علاقائی تناظر میں کیا جائے تو حقائق تک پہنچنا مشکل ہوجائے گا۔ مودی سرکار کو اس مسئلے کا محدود تناظر میں جائزہ نہیں لینا چاہیے۔
اس قسم کے واقعات کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑا مسئلہ موجود ہوتا ہے اور اس حقیقت سے دنیا واقف ہے کہ اس خطے میں دہشت گردی کا آغاز مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہوا ۔ بدقسمتی سے مسئلہ کشمیر اب تک بھارتی حکمرانوں کی ضد کی وجہ سے حل نہ ہوسکا۔ اس حوالے سے پاکستان کا موقف واضح اور حقائق پر مبنی ہے اب سے سات دہائیاں پہلے مسئلہ کشمیر کو خود بھارت اقوام متحدہ میں لے گیا تھا۔
اقوام متحدہ نے اس مسئلے کا حل رائے شماری تجویز کیا اگر بھارت اس مسئلے کو حل کرنے میں مخلص ہوتا تو کشمیر میں رائے شماری کروا کر اس مسئلے کو ختم کرنے کی کوشش کرتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ بھارت کا حکمران طبقہ ''میں نہ مانوں'' کی ضد کرتا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ مسئلہ پیچیدہ تر ہوتا چلا گیا۔ بنیادی طور پر یہ مسئلہ رائے شماری کا نہیں بلکہ طاقتور اور کمزور کا مسئلہ ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان فوجی حوالے سے بھارت سے چھوٹا ملک ہے اگر پاکستان بھارت کا ہم پلہ ملک ہوتا تو یہ مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔
اقوام متحدہ کا فیصلہ تسلیم کرلیا جاتا تو کشمیر پاکستان کا حصہ بن جاتا کیونکہ کشمیری عوام ابتدا سے پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ہندوستان اسی خوف کی وجہ سے رائے شماری سے گریزاں رہا جس کا نتیجہ دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگوں کی شکل میں نکلا اس کمزور پوزیشن سے نکلنے کے لیے پاکستان نے ایٹمی ہتھیار تیار کرلیے بھارت چونکہ پہلے ہی سے ایٹمی ملک ہے لہٰذا پاکستان پر ایٹمی ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا۔
پنڈت نہرو سمیت بھارت میں کوئی ایسی قیادت سامنے نہیں آئی جو کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کی محدود سوچ سے نکل کر اس خطے کے اجتماعی مفادات کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتی۔ ہندوستانی سلاطین کی اس ذہنیت نے اس خطے کو جہنم میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے ایک ارب سے زیادہ مفلوک الحال عوام 71 سال سے انتہائی معاشی بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اس کا سب سے بڑا سبب مسئلہ کشمیر ہے۔ حکمران طبقات کی سوچ ہمیشہ محدود ہوتی ہے وہ ہمیشہ سرمایہ دارانہ نظام کے فلسفے ''قومی مفاد'' کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ مفادات کا ٹکراؤ، کشیدگی اور جنگوں کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔
بھارت علم کے شعبے میں پاکستان سے آگے ہے اس تناظر میں بھارت کو اس حقیقت سے آگہی ہونی چاہیے کہ دنیا میں سائنس ٹیکنالوجی اور جدید علوم نے حکومتوں ملکوں کا وہ تصور ختم کرکے رکھ دیا ہے جو ملکوں کو کشیدگی اور جنگوں کی طرف لے جاتا ہے۔ اب ملکوں سے زیادہ ملکوں میں رہنے والے عوام زیادہ اہم ہیں اور ساری دنیا کے دانشور عوام کو اس حوالے سے باشعور بنانے اور ایک دوسرے کے قریب لانے کی بے حد کوشش کر رہے ہیں اسی حوالے سے بھارت کو زیادہ آفاقی وژن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر جیسے فرقہ وارانہ مسائل پر کھلے ذہن کے ساتھ غور کرکے دونوں ملکوں کے درمیان دوریوں کو نزدیکیوں میں بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
حیرت کی بات ہے کہ بھارت کا دانشور طبقہ حکمرانوں کی سوچ کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کے ایک فوجی حکمران نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی روایتی پالیسی کو بائی پاس کرکے اس مسئلے کے حل کے لیے ایسی متوازن تجاویز پیش کی تھیں کہ اگر بھارت میں کوئی کھلے دل کھلے ذہن کے لوگوں پر مشتمل حکومت ہوتی تو پاکستانی صدر کی تجاویز پر عملدرآمد کے لیے تیار ہوجاتی لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بھارتی حکومت ماضی کے شخصی حکمرانوں کی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے برصغیر کے عوام کو معاشی بدحالیوں سے نکالنے کے اس موقع کو ضایع کرکے بادشاہ بنے رہنے کی سوچ کا مظاہرہ کررہی ہے۔
پاکستان میں 71 سال بعد اشرافیائی حکومتوں کی جگہ ایک مڈل کلاسر برسر اقتدار آیا ہے اور وہ کھلے بندوں کہہ رہا ہے کہ پلوامہ المیے کی وہ کھلی تحقیقات کے لیے تیار ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم کی طرف سے یہ ایک حقیقت پسندانہ آفر ہے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو اس پیشکش پر کھلے دل سے سوچنا چاہیے۔ جب تک دنیا میں ملکوں اور حکومتوں کے بجائے عوام اور ان کے مسائل کو ترجیح نہیں دی جائے گی نہ دنیا جنگوں اور اسلحہ بندی کے کلچر سے باہر آئے گی نہ دنیا کے اربوں عوام غربت و افلاس کے دائرے سے باہر آسکیں گے۔ اب یہ بھارتی حکمرانوں کی فکر پر منحصر ہے کہ وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرکے برصغیر کے عوام کو معاشی بدحالی سے نکلنے دیں یا انھیں معاشی بدحالی کا شکار رہنے دیں۔
عمران خان نے کہا کہ بھارت نے شواہد کے بغیر پاکستان پر الزام لگایا ہے اور یہ نہیں سوچا کہ اس قسم کی کارروائیوں میں پاکستان کا کیا فائدہ ہے؟ عمران خان نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے پر ہم بھارت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ ایسے موقع پر جب کہ پاکستان ترقی کی منازل طے کر رہا ہے کوئی احمق ہی ہوگا جو ایسے موقع کو خود سبوتاژ کرے۔
حالیہ برسوں میں پلوامہ کا واقعہ سب سے زیادہ جانی نقصان کا واقعہ ہے جس پر بھارت کا چراغ پا ہونا ایک فطری بات ہے لیکن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اس حقیقت کا علم ہونا چاہیے کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ایسا ملک جو خود دہشت گردی کا شکار ہے خود دہشت گردی میں کس طرح ملوث ہوسکتا ہے؟
دہشت گردی صرف پاکستان اور ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک عالمی بیماری بن گئی ہے اور اس کا مقابلہ اسی تناظر میں کرنا پڑے گا۔ اگر اس مسئلے کا مطالعہ علاقائی تناظر میں کیا جائے تو حقائق تک پہنچنا مشکل ہوجائے گا۔ مودی سرکار کو اس مسئلے کا محدود تناظر میں جائزہ نہیں لینا چاہیے۔
اس قسم کے واقعات کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑا مسئلہ موجود ہوتا ہے اور اس حقیقت سے دنیا واقف ہے کہ اس خطے میں دہشت گردی کا آغاز مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہوا ۔ بدقسمتی سے مسئلہ کشمیر اب تک بھارتی حکمرانوں کی ضد کی وجہ سے حل نہ ہوسکا۔ اس حوالے سے پاکستان کا موقف واضح اور حقائق پر مبنی ہے اب سے سات دہائیاں پہلے مسئلہ کشمیر کو خود بھارت اقوام متحدہ میں لے گیا تھا۔
اقوام متحدہ نے اس مسئلے کا حل رائے شماری تجویز کیا اگر بھارت اس مسئلے کو حل کرنے میں مخلص ہوتا تو کشمیر میں رائے شماری کروا کر اس مسئلے کو ختم کرنے کی کوشش کرتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ بھارت کا حکمران طبقہ ''میں نہ مانوں'' کی ضد کرتا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ مسئلہ پیچیدہ تر ہوتا چلا گیا۔ بنیادی طور پر یہ مسئلہ رائے شماری کا نہیں بلکہ طاقتور اور کمزور کا مسئلہ ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان فوجی حوالے سے بھارت سے چھوٹا ملک ہے اگر پاکستان بھارت کا ہم پلہ ملک ہوتا تو یہ مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔
اقوام متحدہ کا فیصلہ تسلیم کرلیا جاتا تو کشمیر پاکستان کا حصہ بن جاتا کیونکہ کشمیری عوام ابتدا سے پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ہندوستان اسی خوف کی وجہ سے رائے شماری سے گریزاں رہا جس کا نتیجہ دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگوں کی شکل میں نکلا اس کمزور پوزیشن سے نکلنے کے لیے پاکستان نے ایٹمی ہتھیار تیار کرلیے بھارت چونکہ پہلے ہی سے ایٹمی ملک ہے لہٰذا پاکستان پر ایٹمی ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا۔
پنڈت نہرو سمیت بھارت میں کوئی ایسی قیادت سامنے نہیں آئی جو کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کی محدود سوچ سے نکل کر اس خطے کے اجتماعی مفادات کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتی۔ ہندوستانی سلاطین کی اس ذہنیت نے اس خطے کو جہنم میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے ایک ارب سے زیادہ مفلوک الحال عوام 71 سال سے انتہائی معاشی بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اس کا سب سے بڑا سبب مسئلہ کشمیر ہے۔ حکمران طبقات کی سوچ ہمیشہ محدود ہوتی ہے وہ ہمیشہ سرمایہ دارانہ نظام کے فلسفے ''قومی مفاد'' کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ مفادات کا ٹکراؤ، کشیدگی اور جنگوں کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔
بھارت علم کے شعبے میں پاکستان سے آگے ہے اس تناظر میں بھارت کو اس حقیقت سے آگہی ہونی چاہیے کہ دنیا میں سائنس ٹیکنالوجی اور جدید علوم نے حکومتوں ملکوں کا وہ تصور ختم کرکے رکھ دیا ہے جو ملکوں کو کشیدگی اور جنگوں کی طرف لے جاتا ہے۔ اب ملکوں سے زیادہ ملکوں میں رہنے والے عوام زیادہ اہم ہیں اور ساری دنیا کے دانشور عوام کو اس حوالے سے باشعور بنانے اور ایک دوسرے کے قریب لانے کی بے حد کوشش کر رہے ہیں اسی حوالے سے بھارت کو زیادہ آفاقی وژن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر جیسے فرقہ وارانہ مسائل پر کھلے ذہن کے ساتھ غور کرکے دونوں ملکوں کے درمیان دوریوں کو نزدیکیوں میں بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
حیرت کی بات ہے کہ بھارت کا دانشور طبقہ حکمرانوں کی سوچ کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کے ایک فوجی حکمران نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی روایتی پالیسی کو بائی پاس کرکے اس مسئلے کے حل کے لیے ایسی متوازن تجاویز پیش کی تھیں کہ اگر بھارت میں کوئی کھلے دل کھلے ذہن کے لوگوں پر مشتمل حکومت ہوتی تو پاکستانی صدر کی تجاویز پر عملدرآمد کے لیے تیار ہوجاتی لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بھارتی حکومت ماضی کے شخصی حکمرانوں کی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے برصغیر کے عوام کو معاشی بدحالیوں سے نکالنے کے اس موقع کو ضایع کرکے بادشاہ بنے رہنے کی سوچ کا مظاہرہ کررہی ہے۔
پاکستان میں 71 سال بعد اشرافیائی حکومتوں کی جگہ ایک مڈل کلاسر برسر اقتدار آیا ہے اور وہ کھلے بندوں کہہ رہا ہے کہ پلوامہ المیے کی وہ کھلی تحقیقات کے لیے تیار ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم کی طرف سے یہ ایک حقیقت پسندانہ آفر ہے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو اس پیشکش پر کھلے دل سے سوچنا چاہیے۔ جب تک دنیا میں ملکوں اور حکومتوں کے بجائے عوام اور ان کے مسائل کو ترجیح نہیں دی جائے گی نہ دنیا جنگوں اور اسلحہ بندی کے کلچر سے باہر آئے گی نہ دنیا کے اربوں عوام غربت و افلاس کے دائرے سے باہر آسکیں گے۔ اب یہ بھارتی حکمرانوں کی فکر پر منحصر ہے کہ وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرکے برصغیر کے عوام کو معاشی بدحالی سے نکلنے دیں یا انھیں معاشی بدحالی کا شکار رہنے دیں۔