جنوبی ایشیا میں اعلیٰ تعلیم کے لیے کوششیں
یہ تمام مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو بڑھانا ہے۔
KARACHI:
اکانومسٹ انٹیلی جینس یونٹ (EIU)نے 'جنوبی ایشیا میں اعلیٰ تعلیم' پر حال ہی میں ایک خصوصی رپورٹ شایع کی ہے جس کے مطابق جنوبی ایشیا میں اعلیٰ تعلیم ایک چوراہے پر کھڑی ہے۔آبادیاتی، سیاسی اور اقتصادی مسائل جیسے عوامل کی موجودگی کے پیش نظر پورے علاقے کی حکومتیںاعلیٰ تعلیم کی ضرورت کو قومی اور عالمی سطح پر مقابلے کے ایک مسئلہ اورعلمی معیشت کی ترقی کے لیے ایک اہم محرک کے طور پر لیتی ہیں۔
یہ تمام مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو بڑھانا ہے۔ کثیرآبادی والا ملک ہونے اور متوسط طبقے کی تعداد روزافزوں ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کی بڑھتی ہوئی طلب کو اس وقت پورا کرنا ممکن نہیں ہے جب کہ دوسری طرف اقتصادی ترقی کے لیے اعلیٰ تعلیم کی ضرورت و اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔2010 میں 15 سے 24 سال کے 318 ملین نوجوانوںکی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے پہلے سے ہی کوشاں جنوبی ایشیا کو اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 2020ء تک اس عمر کے مزید 15 ملین نوجوانوںکی اعلیٰ تعلیم کی اضافی ڈیمانڈ کا سامنا ہو گا۔چنانچہ گنجائش بڑھانے کے ساتھ ساتھ علاقے کی حکومتوں کے لیے یہ بھی لازم ہو گا کہ وہ اعلیٰ تعلیم تک صحیح طریقے سے رسائی کو یقینی بنائیں تاکہ معاشی طور پر کمزوراور صنفی امتیاز کے شکار ہر دو طبقات کو اعلیٰ تعلیم کے یکساں مواقع حاصل ہو سکیں۔ ان ممالک میں سے اکثر میں ایک بڑی رکاوٹ اعلیٰ تعلیم کے اداروں تک طبعی رسائی ہے۔
بعض ممالک میں شہری آبادیوں اور سہولتوں کے تیزی سے ارتکاز کے باوجود دوردراز دیہاتی آبادیوں کو کمزور انفراسٹرکچر اور دشوار گزار راستوں جیسے مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے طلباء کے لیے اعلیٰ تعلیم کے اداروں تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم بعض ممالک میں فاصلاتی اور آن لائن طریقہ تعلیم کے ذریعے بہتر طور پر کام چلایا جا سکتا ہے خاص طور پر پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں ، جہاں موبائل ٹیکنالوجی کا استعمال بہت بڑھ گیاہے۔ نجی شعبہ کے پاس اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور اس کے معیار کو بہتر بنانے کی صلاحیت اور گنجائش موجود ہے بشرطیکہ ناقص اور غیر معیاری تعلیمی اداروں کی روک تھام کے لیے سخت اور موثر قواعد و ضوابط کا نفاذ کیا جائے۔اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو عام کرنے سے بیروزگاری میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے خاص طور پر ایسی صورت میں جب مارکیٹ کی ضرورتوں اور پیش کیے جانے والے کورسوں کے درمیان عدم مطابقت ہو۔ نتیجہ کے طور پر مہارت کے خلا، مہارت کے نقائص اور ناقابل ملازمت گریجویٹس میں اضافے جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔لہذا نصاب اور پروگرام ڈویلپمنٹ کو ملازمت کے شعبہ سے ہم آہنگ کرنے میں فائدہ ہے۔اس تناظر میں اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ صنعتی شعبہ کو یونیورسٹیوں اور ریگولیٹری اداروں کی گورننگ باڈیز میں نمایندگی دی جائے۔
دوسرا چیلنج کوالٹی کا ہے۔تاہم حالیہ سالوں میں اس ترقی اور کامیابی کے باوجود جنوبی ایشیائی یونیورسٹیاں، پاکستان اور بھارت کے استثنیٰ کے ساتھ، عالمی سطح پر درجہ بندی کے لحاظ سے ابھی تک بہت نیچے ہیں۔اگر معیاری تعلیم میں ترقی کرنا ہے تو پھرعلاقے میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کو سیاسی آلودگی اور بیوروکریٹک رویے سے پاک کرنا ہو گا اور اسے پاکستان میں کی جانے والی اصلاحات کی طرز پر خودمختار بنانا ہو گا۔ بھارت اور بنگلہ دیش آج اپنے ہاںیونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC)کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) میں بدلنے کے لیے نئی قانون سازی کے عمل سے گزر رہے ہیں جو کہ پاکستان دس سال سے زائد عرصہ پہلے 2002ء میں کر چکا ہے۔
تیسرا چیلنج تعلیمی معیشت کی نشوونما کے لیے تحقیق کا مفید اور ہم آہنگ ہونا ہے۔ چند استثنات کے ساتھ(جن میں بھارت کے انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، IIT اور انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ، IIM قابل ذکر ہیں) جنوبی ایشیا میں پوسٹ گریجویٹ تعلیم کا منظر نامہ ترقی کے ابتدائی مرحلہ میں ہے۔تحقیق کی اساس کے حامل پوسٹ گریجویٹ پروگرام اور یونیورسٹیوں کی دستیابی طلب کے مقابلے میں بہت کم ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ خطے کا انحصار تدریسی بنیاد رکھنے والے کالجوں پر ہے۔ تاہم، اس کمی کے باوجود، پاکستان نے گذشتہ دو سالوں میںتحقیقی تصانیف کی اشاعت میں 50فیصد اضافے کے ساتھ، جو کہ دنیا بھر میں دوسرا سب سے بڑا اضافہ ہے، ریسرچ کے شعبے میں نمایاں ترقی کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کوملائیشیا اور ترکی جیسے ممالک کی طرح خطے میں تعلیمی مرکز کے طور پر پروان چڑھانے کا آغاز کر دیا ہے۔
اس نے حال ہی میں آئوٹ ریچ، ریسرچ، انوویشن اور کمرشلائزیشن پروگراموں کے اجراء اور بزنس اینڈ ٹیکنالوجی انکوبیٹرز کے قیام کے ساتھ بھی ترقی کی جانب ایک اہم پیش رفت کی ہے جس کی بدولت اعلیٰ تعلیم ملکی معیشت کو نئی بلندیوں کی جانب لے جانے اور معاشرے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے درست سمت میں گامزن ہو جائے گی۔پاکستان اس امر کی انتہائی خواہش رکھتا ہے کہ اس کا اعلیٰ تعلیم کا شعبہ وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرقی ایشیا کے چوراہے پرتعلیمی معیشت کے لیے ایک علاقائی مرکز بن جائے بالکل اسی طرح جیسے ایشین ٹائیگرز نے ساٹھ کی دہائی میں کیا تھا اور جیسے بھارت اپنی یونیورسٹیوں کو اقتصادی ترقی کے دل کے قریب تر لانے کے لیے ان دنوں کر رہا ہے۔آخری چیلنج بلاشبہ سرمایہ کی فراہمی ہے۔پاکستان کے حوالے سے تبصرہ میں مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2002 اور 2008 کے درمیان ایک بڑی رقم کی فراہمی کے بعد 2009 میں سابق حکومت کی جانب سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میںبہت زیادہ کٹوتی کر دی گئی اور یونیورسٹیوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ حکومت پر اپنا انحصار کم سے کم کر دیں اوراپنے ذرایع سے سرمایہ کا اہتمام کریں۔حال ہی میں منتخب ہونے والی موجودہ حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے لیے مختص رقم میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 10فیصد اضافہ کیا ہے۔
دوسری طرف بھارت اقتصادی مدارکو مستحکم کرنے کے لیے اعلیٰ تعلیم کی اہمیت کو پہچان چکا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی مرکزی حکومت کی معاشی حکمت عملی، گیارہویں پانچ سالہ منصوبہ (2007-2012)،میںتیسرے درجے کی تعلیم پر سرکاری خزانے سے اخراجات میں نو گنا اضافہ شامل ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت واحد ملک ہے جس نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ اس عرصے کے دوران ایک بہت بڑی تعدادمیں یونیورسٹیوں اورانڈین انسٹیٹیوٹس آف ٹیکنالوجی (IITs) کی تشکیل کی گئی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان سارے اقدامات میں سب سے زیادہ زور انسانی وسائل کی ترقی پر دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ رواں مالی سال میں بھی بھارت نے اپنے ہائیر ایجوکیشن بجٹ میں 18فیصد اضافے کی منظوری دی ہے۔ ایک حکومتی عہدیدار کا اندازہ ہے کہ اگر بھارت نے اپنے موجودہ ترقیاتی اہداف حاصل کرنا ہیں تو اسے 2020 تک ہزاروں نئی یونیورسٹیوں کی ضرورت ہو گی۔ اس سلسلے میں اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی استعداداور گنجائش میں اضافے اور سرمائے کی فراہمی کے نئے وسائل تلاش کرنے کے لیے ایک زوردار مہم چلائی جائے۔
تاہم محض فنڈز میں اضافہ یونیورسٹی کی کوالٹی کو بہتر بنانے کے لیے ناکافی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اداروں کا موثر نظم و نسق بھی برابر اہمیت رکھتا ہے اور یہ دونوں عوامل گاڑی کے دو پہیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان نے حالیہ سالوں میںیونیورسٹی لیڈر شپ اور گورننس پروگرام کا آغاز کیا ہے جس کے تحت ہائیر ایجوکیشن کمیشن نئے آنے والے وائس چانسلر حضرات اور یونیورسٹیوں کی سینئر مینجمنٹ کو ان کی استعداد کار بڑھانے کے لیے غیر ملکی شراکت داروں کے ذریعے تربیت فراہم کرتا ہے۔اکانومسٹ کی رپورٹ کے آخر میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشنز اور یونیورسٹیوںکو زیادہ خودمختاری، اچھے نظم و نسق اور سرمائے کی مناسب فراہمی کے ساتھ بااختیار بنا کرتعلیم کے معیار کو بہتر بنانے اور تعلیمی معیشت کے طور پر خطے کو ترقی دینے کی جانب ٹھوس پیش رفت کی جا سکتی ہے۔
(مضمون نگار ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے چیئرمین ہیں )