مستقبل قریب کی سپر پاور چین…
چین کی تہذیب کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔
قدیم ثقافتی تاریخ سے مزین دنیا کی کثیر آبادیاتی کمیونزم سرزمین ''چین'' (سرکاری زبان میں پیپلز جمہوریہ چائنہ) جس کی آبادی تقریباً 1.35 بلین سے تجاوز کرچکی ہے، 22 صوبوں اور 5 خود مختار علاقوں پر مشتمل یہ عظیم سلطنت صدیوں پرانی تاریخ اپنے سینے میں سجائے لازوال تکالیف اور بے سروسامانیوں کے بعد آج آپ کے سامنے دوسری معاشی طاقت بن کر کھڑا ہے۔ چین کی تاریخ اور جدوجہد پر لکھنا بلاشبہ ایک نہایت ہی کٹھن کام ہے جو چند کتابوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے اس کے شمال میں روس، جنوب میں بھارت، تبت، بنگلہ دیش۔ جاپان اور تائیوان اس کے مشرق کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ آبنائے کوریا چین کو جاپان سے جدا کرتا ہے۔ مغربی سمت میں نو آزاد ریاستیں آذر بائیجان، ازبکستان، ترکمانستان قائم ہیں۔
دارالحکومت بیجنگ کے علاوہ اس کا سب سے بڑا شہر شنگھائی ہے، اس کے علاوہ مشہور شہر تیان جن، چونگ کنگ، مکائو اور ہانگ کانگ ہیں۔ ہمالیہ، قراقرم، پامیر اور تُن شان پہاڑوں کا دیو قامتی طویل سلسلہ چین کو جنوب اور وسط ایشیا سے جدا کرتا ہے۔ چین کا قدیم نام Cathay اور لفظ ''چین'' فارسی اور سنسکرت زبانوں کی آمیزش ہے۔ کرنسی یوآن ہے۔ کاغذ کی ایجاد اس کے قدیم دور کا عظیم کارنامہ ہے، اسی وجہ سے دنیا میں سب سے پہلا اخبار شایع کرنے کا اعزاز بھی چین ہی کو حاصل ہے۔ پتنگ بازی کی ابتدا بھی چین ہی سے ہوئی۔ چین کو اقتصادی طاقت بنانے کی بنیاد اس کے لیڈر ڈینگ زیائو پنگ نے رکھی۔ اس کا آغاز گھریلو صنعتوں (Cottage Industries) کو بجلی کی مفت فراہمی اور ٹیکس فری زون دے کر کیا جس کی وجہ سے پیداواری استعداد کے ساتھ ساتھ عالمی معیار کی سستی اشیا کی پیداوار ممکن ہوئی۔
3600 سال پر محیط قیمتی تاریخی دستاویزات اور قدیم یادگاروں پر مشتمل چین کی تہذیب کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ دوسری اقوام کی طرح چین کو بھی ابتدائی غلامانہ معاشرہ اور پھر جاگیردارانہ نظام کے ارتقائی مراحل سے گزرنے کا تجربہ حاصل ہوا۔ کبھی یہ مختلف شاہی خاندانوں کے زیر نگیں رہا تو کبھی بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں غلامی کے آلام سے گزرا۔ بالخصوص تاتاریوں اور منگولوں کے مسلسل حملوں کی وجہ سے چین کے شمال میں دفاعی تحفظ کے لیے دیوار چین تعمیر کرنے کی ضرورت پیش آئی، تاہم ہر دور میں چین کے عوام، دانشور، ماہرین علوم و فنون اور عالموں نے اپنی تہذیب و ثقافت کو نکھارنے اور سنوارنے کا عمل تندہی کے ساتھ جاری رکھا بلکہ اپنے بیش بہا تجربات اور دریافتوں سے ایک عالم کو بہرہ ور بھی کیا۔
کاغذ، بارود، قطب نما اور چھاپہ خانے جیسی انقلاب آفرین ایجادات چین ہی کے ذریعے ساری دنیا تک پہنچی۔ ''دیوار چین'' چینی عوام اور کاریگروں کی مہارت اور جفاکشی کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ قدیم زمانے میں بھی چینی ریشم اور چینی ظروف کی تجارت دنیا بھر کے بازاروں میں ہوا کرتی تھیں۔ انیسویں صدی کے درمیانی عرصے میں یہ عظیم ریاست امریکا، برطانیہ، روس، فرانس، جرمنی، اسپین، بیلجیم اور ہالینڈ کے علاوہ جاپان کی خوفناک لوٹ مار کا نشانہ بنتا رہا۔ اس کے بعد وہ رفتہ رفتہ نیم جاگیردارانہ اور نیم نو آبادیاتی معاشرے میں تبدیل ہوتا گیا۔ طویل عرصے کی صبر آزما جدوجہد کے بعد 1949 میں عوامی جمہوریہ کے قیام کے بعد چین سوشلسٹ مرحلے میں داخل ہوا۔
آثار قدیمہ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہے کہ دس پندرہ لاکھ سال قبل اس وسیع و عریض خطے میں قدیم انسان نے اپنی زندگی کے ابتدائی نقوش مرتب کیے تھے۔ 17 لاکھ سال قبل انسان کی بنیادی خصوصیات کا حامل بوزنہ نما قدیم انسان اس علاقہ میں رہا کرتا تھا۔ تانبہ کی دریافت کے علاوہ پتھر اس وقت بھی اوزار بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔
479-551) ق م(کنفیوشس ازم نے غلامانہ جاگیردارانہ نظام پر کاری ضرب لگائی، اس نظام نے قوم کو انفرادی صلاحیت کیمطابق تعلیم دی ''سیکھنے اور دوبارہ سیکھنے'' اور پرانی چیزوں کا ازسرنو جائزہ لینے کے بعد نئی چیزوں کے بارے میں سیکھنے کا درس دیا۔ اس کے مطابق آدمی جتنا بھی علم رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اس کی سطح بلند کرنے کی کوشش کرے۔ اس کا قول تھا جب تمہیں معلوم ہو تو کہو ''مجھے معلوم ہے '' اور جب تمہیں معلوم نہ ہو تو کہو ''مجھے معلوم نہیں ہے''۔ یہ تھا کنفیوشس کا نظریہ حیات۔ چین کے بورژوا جمہوری انقلاب کے داعی سن یت سین نے بھی ملک کو سرمایہ دارانہ غلامی سے آزادی کے لیے تقریباً 60 سال عملی جدوجہد کی۔ جولائی 1905 میں ''احیائے چین کی تنظیم'' ، ''چینی قوم کے احیاء کی تنظیم'' ، ''تنظیم جدید'' اور ''ژی جی ہوئی'' جیسی انقلابی تنظیموں کو فعال کیا۔ سولہویں صدی قبل مسیح سے 1911 تک تقریباً 35 شاہی خاندانوں کی بادشاہت چین میں قائم رہیں۔ روس کے انقلاب کے بعد چین میں مارکسزم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور یوں چینی کمیونسٹ پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔
پاکستان کی چین سے قدیم روایتی دوستی قیام پاکستان سے اب تک قائم و دائم ہے۔ چین وہ واحد ملک ہے جس نے قیام پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ جہاں پاکستان میں ہونے والی ترقیاتی پروجیکٹس کی تکمیل میں چین کا بھرپور تعاون شامل رہا ہے وہاں سب سے بڑا موجودہ کارنامہ صوبہ بلوچستان کی طویل ساحلی پٹی پر عالمی معیار کی طرز پر گوادر بندرگاہ کی تعمیر ہے جس پر ایک وقت میں دو بڑے بحری جہاز لنگر انداز ہونے کے علاوہ چالیس سے پچاس جہاز اینکر کرنے کی گنجائش ہے۔ خطے میں آزاد تجارت کے فروغ کے لیے ایشیا پیسیفک کے پڑوسی ممالک سے معاہدوں کو ممکن بنایا تاکہ چین جمہوری اصلاح کی راہ ہموار کرسکے۔ بلاشبہ 1990 سے چین مختلف عالمی علاقائی تنازعات کا شکار بھی رہا۔ اکیسویں صدی کے نمایاں عالمی کردار، بڑھتے ہوئے دنیا پر اثرات، قابل رشک آبادی، بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیت اور معیشت کو دیکھتے ہوئے تبصرہ دانوں نے اس کو مستقبل کا سپر پاور ہونے کا عندیہ دیا ہے۔
نیوکلیئر ہتھیاروں سے لیس پیپلز لیبریشن آرمی (PLA)، پیپلز لیبریشن آرمی نیوی اور پیپلز لیبریشن آرمی ایئر فورس دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بجٹ 2012 میں ایک سو بلین ڈالر مختص کی گئی رقم پر امریکی حکومت نے گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔اگر ہم چین کی معاشی قوت پر سرسری نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ 2013 میں جی ڈی پی تقریباً 8.227 ٹریلین امریکی ڈالر تھا، جس کا شمار امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ سوویت اسٹائل سے ملتی جلتی چینی معیشت نے پوری چینی قوم کو جدید انڈسٹریل کمیونٹی کی راہ پر گامزن کردیا ہے۔ چینی سرمایہ کاری کا آغاز 1978 میں درآمدات سے ہوا۔ آئی ایم ایف کے مطابق چین کی اوسطاً جی ڈی پی گروتھ 2001-2010 میں 10.5% رہی۔ ماہرین معاشیات کے مطابق بلند پیداواری استعداد، ارزاں لیبر ریٹ اور معیاری اشیائے پیداوار کی وجہ سے معاشی ترقی ممکن ہوئی۔ چین کی شاندار پیش رفت دیکھتے ہوئے کسی دانشمند نے خوب کہا تھا۔
''علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے''
دارالحکومت بیجنگ کے علاوہ اس کا سب سے بڑا شہر شنگھائی ہے، اس کے علاوہ مشہور شہر تیان جن، چونگ کنگ، مکائو اور ہانگ کانگ ہیں۔ ہمالیہ، قراقرم، پامیر اور تُن شان پہاڑوں کا دیو قامتی طویل سلسلہ چین کو جنوب اور وسط ایشیا سے جدا کرتا ہے۔ چین کا قدیم نام Cathay اور لفظ ''چین'' فارسی اور سنسکرت زبانوں کی آمیزش ہے۔ کرنسی یوآن ہے۔ کاغذ کی ایجاد اس کے قدیم دور کا عظیم کارنامہ ہے، اسی وجہ سے دنیا میں سب سے پہلا اخبار شایع کرنے کا اعزاز بھی چین ہی کو حاصل ہے۔ پتنگ بازی کی ابتدا بھی چین ہی سے ہوئی۔ چین کو اقتصادی طاقت بنانے کی بنیاد اس کے لیڈر ڈینگ زیائو پنگ نے رکھی۔ اس کا آغاز گھریلو صنعتوں (Cottage Industries) کو بجلی کی مفت فراہمی اور ٹیکس فری زون دے کر کیا جس کی وجہ سے پیداواری استعداد کے ساتھ ساتھ عالمی معیار کی سستی اشیا کی پیداوار ممکن ہوئی۔
3600 سال پر محیط قیمتی تاریخی دستاویزات اور قدیم یادگاروں پر مشتمل چین کی تہذیب کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ دوسری اقوام کی طرح چین کو بھی ابتدائی غلامانہ معاشرہ اور پھر جاگیردارانہ نظام کے ارتقائی مراحل سے گزرنے کا تجربہ حاصل ہوا۔ کبھی یہ مختلف شاہی خاندانوں کے زیر نگیں رہا تو کبھی بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں غلامی کے آلام سے گزرا۔ بالخصوص تاتاریوں اور منگولوں کے مسلسل حملوں کی وجہ سے چین کے شمال میں دفاعی تحفظ کے لیے دیوار چین تعمیر کرنے کی ضرورت پیش آئی، تاہم ہر دور میں چین کے عوام، دانشور، ماہرین علوم و فنون اور عالموں نے اپنی تہذیب و ثقافت کو نکھارنے اور سنوارنے کا عمل تندہی کے ساتھ جاری رکھا بلکہ اپنے بیش بہا تجربات اور دریافتوں سے ایک عالم کو بہرہ ور بھی کیا۔
کاغذ، بارود، قطب نما اور چھاپہ خانے جیسی انقلاب آفرین ایجادات چین ہی کے ذریعے ساری دنیا تک پہنچی۔ ''دیوار چین'' چینی عوام اور کاریگروں کی مہارت اور جفاکشی کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ قدیم زمانے میں بھی چینی ریشم اور چینی ظروف کی تجارت دنیا بھر کے بازاروں میں ہوا کرتی تھیں۔ انیسویں صدی کے درمیانی عرصے میں یہ عظیم ریاست امریکا، برطانیہ، روس، فرانس، جرمنی، اسپین، بیلجیم اور ہالینڈ کے علاوہ جاپان کی خوفناک لوٹ مار کا نشانہ بنتا رہا۔ اس کے بعد وہ رفتہ رفتہ نیم جاگیردارانہ اور نیم نو آبادیاتی معاشرے میں تبدیل ہوتا گیا۔ طویل عرصے کی صبر آزما جدوجہد کے بعد 1949 میں عوامی جمہوریہ کے قیام کے بعد چین سوشلسٹ مرحلے میں داخل ہوا۔
آثار قدیمہ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہے کہ دس پندرہ لاکھ سال قبل اس وسیع و عریض خطے میں قدیم انسان نے اپنی زندگی کے ابتدائی نقوش مرتب کیے تھے۔ 17 لاکھ سال قبل انسان کی بنیادی خصوصیات کا حامل بوزنہ نما قدیم انسان اس علاقہ میں رہا کرتا تھا۔ تانبہ کی دریافت کے علاوہ پتھر اس وقت بھی اوزار بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔
479-551) ق م(کنفیوشس ازم نے غلامانہ جاگیردارانہ نظام پر کاری ضرب لگائی، اس نظام نے قوم کو انفرادی صلاحیت کیمطابق تعلیم دی ''سیکھنے اور دوبارہ سیکھنے'' اور پرانی چیزوں کا ازسرنو جائزہ لینے کے بعد نئی چیزوں کے بارے میں سیکھنے کا درس دیا۔ اس کے مطابق آدمی جتنا بھی علم رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اس کی سطح بلند کرنے کی کوشش کرے۔ اس کا قول تھا جب تمہیں معلوم ہو تو کہو ''مجھے معلوم ہے '' اور جب تمہیں معلوم نہ ہو تو کہو ''مجھے معلوم نہیں ہے''۔ یہ تھا کنفیوشس کا نظریہ حیات۔ چین کے بورژوا جمہوری انقلاب کے داعی سن یت سین نے بھی ملک کو سرمایہ دارانہ غلامی سے آزادی کے لیے تقریباً 60 سال عملی جدوجہد کی۔ جولائی 1905 میں ''احیائے چین کی تنظیم'' ، ''چینی قوم کے احیاء کی تنظیم'' ، ''تنظیم جدید'' اور ''ژی جی ہوئی'' جیسی انقلابی تنظیموں کو فعال کیا۔ سولہویں صدی قبل مسیح سے 1911 تک تقریباً 35 شاہی خاندانوں کی بادشاہت چین میں قائم رہیں۔ روس کے انقلاب کے بعد چین میں مارکسزم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور یوں چینی کمیونسٹ پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔
پاکستان کی چین سے قدیم روایتی دوستی قیام پاکستان سے اب تک قائم و دائم ہے۔ چین وہ واحد ملک ہے جس نے قیام پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ جہاں پاکستان میں ہونے والی ترقیاتی پروجیکٹس کی تکمیل میں چین کا بھرپور تعاون شامل رہا ہے وہاں سب سے بڑا موجودہ کارنامہ صوبہ بلوچستان کی طویل ساحلی پٹی پر عالمی معیار کی طرز پر گوادر بندرگاہ کی تعمیر ہے جس پر ایک وقت میں دو بڑے بحری جہاز لنگر انداز ہونے کے علاوہ چالیس سے پچاس جہاز اینکر کرنے کی گنجائش ہے۔ خطے میں آزاد تجارت کے فروغ کے لیے ایشیا پیسیفک کے پڑوسی ممالک سے معاہدوں کو ممکن بنایا تاکہ چین جمہوری اصلاح کی راہ ہموار کرسکے۔ بلاشبہ 1990 سے چین مختلف عالمی علاقائی تنازعات کا شکار بھی رہا۔ اکیسویں صدی کے نمایاں عالمی کردار، بڑھتے ہوئے دنیا پر اثرات، قابل رشک آبادی، بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیت اور معیشت کو دیکھتے ہوئے تبصرہ دانوں نے اس کو مستقبل کا سپر پاور ہونے کا عندیہ دیا ہے۔
نیوکلیئر ہتھیاروں سے لیس پیپلز لیبریشن آرمی (PLA)، پیپلز لیبریشن آرمی نیوی اور پیپلز لیبریشن آرمی ایئر فورس دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بجٹ 2012 میں ایک سو بلین ڈالر مختص کی گئی رقم پر امریکی حکومت نے گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔اگر ہم چین کی معاشی قوت پر سرسری نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ 2013 میں جی ڈی پی تقریباً 8.227 ٹریلین امریکی ڈالر تھا، جس کا شمار امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ سوویت اسٹائل سے ملتی جلتی چینی معیشت نے پوری چینی قوم کو جدید انڈسٹریل کمیونٹی کی راہ پر گامزن کردیا ہے۔ چینی سرمایہ کاری کا آغاز 1978 میں درآمدات سے ہوا۔ آئی ایم ایف کے مطابق چین کی اوسطاً جی ڈی پی گروتھ 2001-2010 میں 10.5% رہی۔ ماہرین معاشیات کے مطابق بلند پیداواری استعداد، ارزاں لیبر ریٹ اور معیاری اشیائے پیداوار کی وجہ سے معاشی ترقی ممکن ہوئی۔ چین کی شاندار پیش رفت دیکھتے ہوئے کسی دانشمند نے خوب کہا تھا۔
''علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے''