خلیفۃ الرسولؐ حضرت ابوبکر صدیق
آپؓ نے جرأت و بہادری کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے تمام فتنوں کا خاتمہ کیا
تاریخ اسلام کے اوراق حضرت ابوبکر صدیقؓ کی روشن زندگی، فضائل و مناقب، سیرت و کردار اور سنہرے کارناموں سے بھرے پڑے ہیں جس کی ضُوفشانی سے قیامت تک آنے والے مسلمان و حکم ران ہدایت و راہ نمائی حاصل کرتے رہیں گے۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ اسلام قبول کرنے سے قبل ہی پاکیزگی و بلند کردار، اعلیٰ اخلاق، عقل و دانش، فہم و فراست، امانت و دیانت، اصابت رائے، حلم و بردباری اور خدا ترسی میں مشہور و بے مثال تھے۔ قریش میں صاحب ثروت اور سب سے زیادہ بااخلاق تھے، جو کچھ کماتے غرباء و مساکین پر خرچ کر دیتے۔ آپؓ نے مکہ میں ایک مہمان خانہ بنا رکھا تھا جہاں باہر سے آنے والے مسافروں کو کھانا اور رہائش مفت فراہم کی جاتی تھی۔ زمانۂ جاہلیت میں عرب میں شراب، زنا، جُوا، فسق و فجور اور بُت پرستی اس قدر عام تھی کہ اس سے اپنے آپ کو بچانا بہت مشکل تھا، لیکن حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام لانے سے قبل بھی اپنے آپ کو ان خرافات سے بچاتے ہوئے بے مثال اور پاکیزہ زندگی گزاری۔
سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ فیصلے کرنے اور فصاحت و بلاغت میں کمال رکھتے تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی قتل اور دیگر معاملات کے فیصلے آپؓ سے کرائے جاتے اور خون بہا یعنی دیت کی رقم بھی آپؓ کے پاس جمع کرائی جاتی تھی۔ علم انساب میں بے مثال اور خوابوں کی تعبیر بتانے میں بھی ماہر تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینا شروع کر دی اور آپ ؓ کی ہی دعوتِ اسلام پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عبید بن زیدؓ اور حضرت طلحہؓ فوراً ایمان لائے۔ ابھی تک دعوت اسلام کو خفیہ رکھا گیا تھا، اعلانیہ کسی کو دعوت نہیں دی گئی تھی۔
جب مسلمانوں کی تعداد انتالیس تک پہنچ گئی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اصرار پر حضور ﷺ اپنے ساتھیوں کو لے کر بیت اللہ میں اعلانیہ دعوت اسلام دینے کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیت اللہ میں توحید و رسالت ﷺ پر خطبہ شروع کیا، اسی دن حضور ﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ اسلام لائے اور اس کے تین دن بعد حضرت سیدنا عمر فاروقؓ ایمان لائے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیت اللہ میں خطبہ شروع کرتے ہوئے ابھی دعوتِ اسلام دی ہی تھی کہ کفار و مشرکین چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی شرافت و عزت اور عظمت کے باوجود ان کو اس قدر مارا کہ آپؓ لہولہان ہوکر بے ہوش ہوگئے۔
آپؓ کے قبیلے کے لوگ آپؓ کو اٹھا کر گھر لائے، شام تک آپؓ بے ہوش رہے، جب ہوش میں آئے تو سب سے پہلے اپنے محبوب ﷺ کے حال کے بارے میں دریافت کیا۔ لوگوں نے کہا کہ اب بھی ان کا نام لیتے ہو جس کی وجہ سے یہ سب کچھ تمہارے ساتھ ہوا، آپؓ کی والدہ امُ الخیر نے آپؓ سے کھانے پینے پر اصرار کیا۔ لیکن آپؓ مسلسل انکار کرتے ہوئے یہی اصرار کرتے کہ پہلے مجھے حضور ﷺ کا حال بتاؤ، آپؓ نے اس موقع پر حضور ﷺ کے عشق و محبت میں قسم کھا کر کہا کہ میں اس وقت تک کچھ نہیں کھاؤں پیوؤں گا جب تک میں حضور ﷺ کی زیارت نہ کر لوں۔
آپؓ کی والدہ امُ الخیر سے آپؓ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی اور وہ اس بات کا انتظار کرنے لگیں کہ اندھیرا بڑھ جائے اور لوگوں کی آمد و رفت بھی بند ہوجائے تو میں آپؓ کو حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوجاؤں، کہیں لوگ آپ کو دوبارہ نہ ماریں۔ اس وقت حضور اقدس ﷺ دارارقم میں تشریف فرما تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی والدہ آپؓ کو سہارا دیتے ہوئے وہاں پہنچیں تو حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضور ﷺ کو دیکھتے ہی فرطِ محبت میں آپ ﷺ سے لپٹ گئے، آپؓ کی حالت دیکھ کر رحمتِ کائنات ﷺ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضور ﷺ سے درخواست کی یہ میری والدہ ہیں ان کی ہدایت و ایمان کے لیے دعا فرمائیں۔
حضور ﷺ نے دعا فرمائی اور اسلام کی ترغیب دی تو آپؓ کی والدہ ام الخیر اسی وقت اسلام قبول کرتے ہوئے دولتِ ایمان سے مالا مال ہوگئیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے والد عثمان ابوقحافہؓ مکہ کے باعزت لوگوں میں سے تھے، شروع میں اسلام نہ لائے۔ ایک روز حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنے والد ابوقحافہ ؓ کو لے کر بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے، اس وقت حضور ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے، ان پر نگاہ پڑی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کم زوری و مجبوری میں ان کو کیوں تکلیف دی، مجھے کہا ہوتا، ابوقحافہؓ کے پاس مجھے خود جانا چاہیے تھا۔ جب ابوقحافہؓ آپ ﷺ کے قریب آئے تو حضور ﷺ احتراماً کھڑے ہوگئے اور اپنے پہلو میں بٹھا کر بڑی محبت سے ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور کلمہ پڑھا کر مسلمان کرتے ہوئے نورِ ایمان سے منور کردیا۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے دو وزیر اہلِ آسمان (فرشتوں) سے ہوتے ہیں اور دو وزیر اہلِ زمین سے ہوتے ہیں، میرے دو وزیر اہلِ آسمان سے جبرائیل اور میکائیل ہیں اور اہلِ زمین سے ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔
حضور ﷺ کی دنیا سے رخصتی کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کو متفقہ طور پر خلیفۃ الرسول ؐ اور جانشین بنایا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بڑی جرأت و بہادری کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے اس وقت کے تمام فتنوں کا خاتمہ کیا اور اس کے ساتھ اس وقت کفر کی دو بڑی طاقتیں روم اور فارس کو بھی شکست فاش دی۔ اسلام کی حدود پھیلتی چلی گئیں، ہر طرف امن و سکون اور خلافت راشدہ کے مقدس نظام کے ثمرات و برکات نظر آنے لگے۔ جنگ یمامہ میں کثیر تعداد میں حفاظِ قرآن کی شہادت کے بعد آپؓ نے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے مشورے سے قرآن کی جمع و تدوین کا عظیم کارنامہ بھی سرانجام دیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے دو سال تین ماہ گیارہ دن نظامِ خلافت کو چلانے کے بعد 63 سال کی عمر میں وفات پائی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور روضہ رسولؐ میں اپنے محبوب امام الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کے پہلو میں آسودۂ خاک ہوئے۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ اسلام قبول کرنے سے قبل ہی پاکیزگی و بلند کردار، اعلیٰ اخلاق، عقل و دانش، فہم و فراست، امانت و دیانت، اصابت رائے، حلم و بردباری اور خدا ترسی میں مشہور و بے مثال تھے۔ قریش میں صاحب ثروت اور سب سے زیادہ بااخلاق تھے، جو کچھ کماتے غرباء و مساکین پر خرچ کر دیتے۔ آپؓ نے مکہ میں ایک مہمان خانہ بنا رکھا تھا جہاں باہر سے آنے والے مسافروں کو کھانا اور رہائش مفت فراہم کی جاتی تھی۔ زمانۂ جاہلیت میں عرب میں شراب، زنا، جُوا، فسق و فجور اور بُت پرستی اس قدر عام تھی کہ اس سے اپنے آپ کو بچانا بہت مشکل تھا، لیکن حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام لانے سے قبل بھی اپنے آپ کو ان خرافات سے بچاتے ہوئے بے مثال اور پاکیزہ زندگی گزاری۔
سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ فیصلے کرنے اور فصاحت و بلاغت میں کمال رکھتے تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی قتل اور دیگر معاملات کے فیصلے آپؓ سے کرائے جاتے اور خون بہا یعنی دیت کی رقم بھی آپؓ کے پاس جمع کرائی جاتی تھی۔ علم انساب میں بے مثال اور خوابوں کی تعبیر بتانے میں بھی ماہر تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینا شروع کر دی اور آپ ؓ کی ہی دعوتِ اسلام پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عبید بن زیدؓ اور حضرت طلحہؓ فوراً ایمان لائے۔ ابھی تک دعوت اسلام کو خفیہ رکھا گیا تھا، اعلانیہ کسی کو دعوت نہیں دی گئی تھی۔
جب مسلمانوں کی تعداد انتالیس تک پہنچ گئی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اصرار پر حضور ﷺ اپنے ساتھیوں کو لے کر بیت اللہ میں اعلانیہ دعوت اسلام دینے کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیت اللہ میں توحید و رسالت ﷺ پر خطبہ شروع کیا، اسی دن حضور ﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ اسلام لائے اور اس کے تین دن بعد حضرت سیدنا عمر فاروقؓ ایمان لائے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیت اللہ میں خطبہ شروع کرتے ہوئے ابھی دعوتِ اسلام دی ہی تھی کہ کفار و مشرکین چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی شرافت و عزت اور عظمت کے باوجود ان کو اس قدر مارا کہ آپؓ لہولہان ہوکر بے ہوش ہوگئے۔
آپؓ کے قبیلے کے لوگ آپؓ کو اٹھا کر گھر لائے، شام تک آپؓ بے ہوش رہے، جب ہوش میں آئے تو سب سے پہلے اپنے محبوب ﷺ کے حال کے بارے میں دریافت کیا۔ لوگوں نے کہا کہ اب بھی ان کا نام لیتے ہو جس کی وجہ سے یہ سب کچھ تمہارے ساتھ ہوا، آپؓ کی والدہ امُ الخیر نے آپؓ سے کھانے پینے پر اصرار کیا۔ لیکن آپؓ مسلسل انکار کرتے ہوئے یہی اصرار کرتے کہ پہلے مجھے حضور ﷺ کا حال بتاؤ، آپؓ نے اس موقع پر حضور ﷺ کے عشق و محبت میں قسم کھا کر کہا کہ میں اس وقت تک کچھ نہیں کھاؤں پیوؤں گا جب تک میں حضور ﷺ کی زیارت نہ کر لوں۔
آپؓ کی والدہ امُ الخیر سے آپؓ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی اور وہ اس بات کا انتظار کرنے لگیں کہ اندھیرا بڑھ جائے اور لوگوں کی آمد و رفت بھی بند ہوجائے تو میں آپؓ کو حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوجاؤں، کہیں لوگ آپ کو دوبارہ نہ ماریں۔ اس وقت حضور اقدس ﷺ دارارقم میں تشریف فرما تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی والدہ آپؓ کو سہارا دیتے ہوئے وہاں پہنچیں تو حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضور ﷺ کو دیکھتے ہی فرطِ محبت میں آپ ﷺ سے لپٹ گئے، آپؓ کی حالت دیکھ کر رحمتِ کائنات ﷺ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضور ﷺ سے درخواست کی یہ میری والدہ ہیں ان کی ہدایت و ایمان کے لیے دعا فرمائیں۔
حضور ﷺ نے دعا فرمائی اور اسلام کی ترغیب دی تو آپؓ کی والدہ ام الخیر اسی وقت اسلام قبول کرتے ہوئے دولتِ ایمان سے مالا مال ہوگئیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے والد عثمان ابوقحافہؓ مکہ کے باعزت لوگوں میں سے تھے، شروع میں اسلام نہ لائے۔ ایک روز حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنے والد ابوقحافہ ؓ کو لے کر بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے، اس وقت حضور ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے، ان پر نگاہ پڑی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کم زوری و مجبوری میں ان کو کیوں تکلیف دی، مجھے کہا ہوتا، ابوقحافہؓ کے پاس مجھے خود جانا چاہیے تھا۔ جب ابوقحافہؓ آپ ﷺ کے قریب آئے تو حضور ﷺ احتراماً کھڑے ہوگئے اور اپنے پہلو میں بٹھا کر بڑی محبت سے ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور کلمہ پڑھا کر مسلمان کرتے ہوئے نورِ ایمان سے منور کردیا۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے دو وزیر اہلِ آسمان (فرشتوں) سے ہوتے ہیں اور دو وزیر اہلِ زمین سے ہوتے ہیں، میرے دو وزیر اہلِ آسمان سے جبرائیل اور میکائیل ہیں اور اہلِ زمین سے ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔
حضور ﷺ کی دنیا سے رخصتی کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کو متفقہ طور پر خلیفۃ الرسول ؐ اور جانشین بنایا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بڑی جرأت و بہادری کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے اس وقت کے تمام فتنوں کا خاتمہ کیا اور اس کے ساتھ اس وقت کفر کی دو بڑی طاقتیں روم اور فارس کو بھی شکست فاش دی۔ اسلام کی حدود پھیلتی چلی گئیں، ہر طرف امن و سکون اور خلافت راشدہ کے مقدس نظام کے ثمرات و برکات نظر آنے لگے۔ جنگ یمامہ میں کثیر تعداد میں حفاظِ قرآن کی شہادت کے بعد آپؓ نے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے مشورے سے قرآن کی جمع و تدوین کا عظیم کارنامہ بھی سرانجام دیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے دو سال تین ماہ گیارہ دن نظامِ خلافت کو چلانے کے بعد 63 سال کی عمر میں وفات پائی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور روضہ رسولؐ میں اپنے محبوب امام الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کے پہلو میں آسودۂ خاک ہوئے۔