بھارتی جنگی جنون اور شہری دفاع کی تربیت

دہشت گردی اور قدرتی آفات و حادثات سے نمٹنے کےلیے شہریوں کی خصوصی تربیت وقت کی اہم ضرورت ہے


شہری دفاع کے فروغ کےلیے طویل المیعاد حکمت عملی وضع کرنا اشد ضروری ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

قدیم دور میں لڑائی کےلیے میدا نِ جنگ کا انتخاب کیا جاتا تھا لیکن موجودہ دور میں سائنسی ترقی کی بدولت انسان نے ایسے تباہ کن ہتھیار تیار کر لیے ہیں جن کے ذریعے کسی شہر کو پلک جھپکنے میں صفحہ ہستی سے مٹایا جاسکتا ہے۔ حال ہی میں پلوامہ حملہ کی آڑ میں بھارتی جنگی جنون انتہا کو پہنچ چکا ہے، جس کی وجہ سے لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں جاری ہیں۔ دونوں ایٹمی طاقت کے حامل ممالک کے پاس دنیا کی طاقتور ترین فوج ہے جو جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے۔ اس لیے جنگ کی صورت میں خدشہ ہے کہ لڑائی صرف سرحدی علاقوں تک ہی محدود نہیں رہے گی، بلکہ شہری آبادی بھی اس کی لپیٹ میں آجائے گی۔

اس بات سے قطع نظر کہ ممکنہ جنگ میں کس ملک کا زیادہ نقصان ہوگا، ہمیں اس معاملہ پر غور کرنا ہوگا کہ جنگ کی صورت میں اپنی شہری آبادی کو کس طرح دشمن کے حملوں کے نقصانات سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔

جنگ کے دوران دشمن کی مقامی آبادی کو نفسیاتی طور پر خوفزدہ کرنے کےلیے شہری علاقوں میں جنگی طیاروں کے ذریعے بمباری اور فائرنگ کی جاتی ہے۔ اس دوران جب ملکی افواج سرحدوں پر دشمن سے نبرد آزما ہوتی ہیں تو شہری آبادی کا فرض ہے کہ انہیں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کےلیے اپنی مدد آپ کے تحت تیار رہنا چاہیے۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنگ میں جب لوگوں نے ملک کے اندرونی محاذ کو مضبوط بنایا تو اس سے نہ صرف شہری نقصانات کم ہوئے، بلکہ سرحدوں پر موجود فوج کو بھی بہت تقویت ملی۔ اس کے برعکس جب مقامی آبادی کا حوصلہ پست ہوا تو فوجی قوت کو بھی ٹھیس لگی اور دشمن اپنے عزائم میں کامیاب ہوگیا۔ اس مقصد کےلیے ضروری ہے کہ ملک کے بیرونی اور اندرونی دفاع کی پالیسیاں مضبوط اور ہم آہنگ ہوں، تاکہ بیرونی قوت کے حملہ کی صورت میں ممکنہ نقصانات کو کم کیا جاسکے۔

جب امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم گرائے تو لاکھوں لوگ صرف اس وجہ سے مارے گئے کہ جنگ کی صورت میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کےلیے ان کی تربیت نہیں کی گئی تھی۔ اس دوران زخمیوں کی کثیر تعداد ابتدائی طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئی اور تربیت یافتہ رضا کار نہ ہونے کی وجہ سے شہر میں خوراک کی سپلائی اور فوج کو اسلحہ کی ترسیل کا نظام بے کار ہوگیا۔ جنگ کے اختتام پر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کےلیے شہریوں کی تربیت کی اشد ضرورت محسوس کی گئی اور کئی ممالک میں اس مقصد کےلیے شہری دفاع کے ادارے قائم کیے گئے جو جنگ اور امن کے دوران پیش آنے والے حادثات اور ناگہانی آفات سے نمٹنے کےلیے شہریوں کی تربیت کرنے لگے۔

قائد اعظم محمد علی جناح شہری دفاع کی تربیت کی اہمیت سے آگاہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے حکم پر ان کے دوست سید یاسر حسین جعفری نے یکم جنوری 1930ء میں نظام اسکاؤٹس ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جس کے سرپرست اعلیٰ قائد اعظم خود، اور پہلے چیف اسکاؤٹ نواب بہادر یار جنگ تھے۔ اس تنظیم کا مقصد ہندوؤں کی تنظیم سیوا سمتی اور انگریزوں کی بوائے اسکاؤٹس کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے مسلمان نوجوانوں کی تربیت کرنا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اسکاؤٹنگ اور سول ڈیفنس کی تربیت دی جانے لگی جس میں نوجوان بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ سرکاری اداروں کے ملازمین کو بھی ابتدائی طبی امداد، بم ڈسپوزل، نشانہ بازی اور آگ پر قابو پانے کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ حکومتی سطح پر 1951ء میں محکمہ شہری دفاع کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے زیر اہتمام لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور مظفرآباد میں مختلف تربیتی کورسز کرائے جانے لگے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران جو لوگ سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر تھے، ان کی بحفاظت منتقلی پاک فوج کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تھا۔

اس معاملہ میں مقامی نوجوانوں کی ٹیموں نے اپنی مدد آپ کے تحت نہ صرف شہریوں کی بحفاظت منتقلی کو یقینی بنایا، بلکہ اندرونِ شہر لوگوں کا حوصلہ بلند کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 1970 کی دہائی میں کالج کے طلبہ کےلیے این سی سی اور طالبات کےلیے ویمن گارڈ کی ٹریننگ شروع کی گئی جس کے خاطرخواہ نتائج حاصل ہوئے۔ نوجوانوں کو نیم فوجی تربیت دینے کا یہ سلسلہ 1997 میں باقاعدہ طور پر ختم کر دیا گیا، لیکن اس کے باوجود زریں عمار جعفری، لیفٹیننٹ (ر) غازی ایاز خان، حکیم لطف اللہ، عبدالخالق شاکر، سردار عبدالمنان خلجی، ملک رسول بخش، تنویر علوی، رانا شوکت محمود، حافظ اللہ بخش ملک اور عبدالرحمٰن ناصر جیسی سماجی شخصیات نے پاکستان سوشل ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے اپنی مدد آپ کے تحت نوجوانوں کی اسکاؤٹس ٹریننگ کا سلسلہ جاری رکھا۔

موجودہ حالات میں پاکستان کو جہاں بیرونی جنگ کا خطرہ لاحق ہے، وہیں آئے روز اندرون ملک ہونے والی دہشت گردی اور قدرتی آفات و حادثات سے نمٹنے کےلیے شہریوں کی خصوصی تربیت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ماضی میں آنے والے زلزلے اور سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کےلیے افواج پاکستان کی مدد حاصل کی گئی۔ ملک کی بیرونی سرحدوں کی حفاظت، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے علاوہ پاک آرمی کو قدرتی آفات سے متاثرہ شہریوں کی بحالی کی بھی اضافی ذمہ دار ی سونپ دی گئی ہے؛ حالانکہ یہ کام تربیت یافتہ رضاکاروں کے ذریعے آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے دہشت گردی کے خطرے سے دوچار ہیں، ایسے میں اسکاؤ ٹنگ اور شہری دفاع کی عملی تربیت طالب علموں کی زندگی کا حصہ بنانے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ مشکل وقت آنے پر تربیت یافتہ شہری ذاتی دفاع کے علاوہ ملک و قوم کی حفاظت کے فرائض بھی انجام دے سکیں۔

شہری دفاع کی تربیت نہ صرف جنگ کے دوران پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کےلیے ضروری ہے، بلکہ زمانہ امن میں اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ زلزلہ، سیلاب، طوفان، خشک سالی، ٹریفک حادثات، آگ لگنے اور صنعتی حادثات جیسے کئی مصائب سے نمٹنے کےلیے شہری دفاع کی تربیت اہمیت کی حامل ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں شہری دفاع کےلیے خطیر بجٹ مختص کیا جاتا ہے، اور نوجوانوں کےلیے اس تربیت کے حصو ل کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ادارہ شہری دفاع طویل عرصہ سے عملی طور پر غیر فعال ہوچکا ہے۔ سال میں ایک دفعہ شہری دفاع کے عالمی دن کے موقع پر ضلعی سطح پر فوٹو سیشن کی خاطرایک تقریب یا ریلی کے ذریعے سال بھر کی کاغذی کاروائی مکمل کر لی جاتی ہے، جبکہ عملی کارکردگی صفر ہے۔

دنیا بھر میں یکم مارچ کو شہری دفاع کا عالمی دن منایا جارہا ہے اور پاکستان کے موجودہ حالات شہری دفاع کےلیے شہریوں کی منظم تربیت کرنے کے متقاضی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں شہری دفاع کے فروغ کےلیے طویل المیعاد حکمت عملی وضع کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ شہری دفاع کی تربیت ہر ایک پاکستانی کےلیے لازمی ہونی چاہیے، تاکہ وہ کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات سے بطریق احسن نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اس مقصد کےلیے ادارہ شہری دفاع اور مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے تعاون سے اسکاؤٹنگ اور شہری دفاع کی تربیت کو ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں قابلِ عمل بنانا ہوگا۔ اس مقصد کےلیے مختلف سماجی تنظیموں کے ذریعے تربیتی ورکشاپس اور عملی کلاسز کا انعقاد مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ شہری دفاع کی تربیت کو میٹرک کی سطح پر نصاب کا لازمی حصّہ قرار دے۔ اس ضمن میں میڈیا بھی اپنا فعال کردارادا کرسکتا ہے، تاکہ عوام میں شہری دفاع کے متعلق آگاہی اور شعور پیدا کیا جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں