جنگ اور سوشل میڈیائی جگت بازی

ہم بحیثیت قوم جنگ کےلیے بالکل تیار نہیں؛ ہمارے پاس اسلحہ ہے نہ تربیت، نہ جنگی ماحول سے واقفیت نہ کوئی مقصد

ہم بحیثیت قوم جنگ کےلیے بالکل تیار نہیں؛ ہمارے پاس اسلحہ ہے نہ تربیت، نہ جنگی ماحول سے واقفیت نہ کوئی مقصد۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

LONDON:
جنگ کی بدولت پیدا ہونے والے حالات کے بارے میں بھارت اور پاکستان کے باسی کیکا جانتے ہیں؟ جنگ کی باتیں سوشل میڈیا پر ہی جچتی ہیں۔ کبھی تصور کیجیے گا کہ آپ کا بڑا بھائی چارپائی پر لیٹا ہوا ہے، ایک ٹانگ سے محروم ہے۔ کبھی تصور کیجیے، آپ کی عزیز ترین ہستی، آپ کے والد، بارود کے دھوئیں سے اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔ کبھی تصور کیجیے گا کہ آپ کا چھوٹا بھائی، آپ کا بیٹا، بھتیجا یا بھانجا خون میں لت پت آپ کی گود میں سسک رہا ہے۔ کبھی تصور کیجیے گا کہ آپ خود اپنے جسم سے نکلتے خون کے فواروں کو دیکھ کر بے ہوش ہورہے ہیں۔

جنگ جگتوں سے نہیں میرے دوست! میرے بھائی! اس دور میں بارود اور گولیوں سے لڑی جاتی ہے۔ ایک سیکنڈ کے تیسویں حصے میں بارہ گولیاں فائر کرنے والے چھوٹے سے نائن ایم ایم پستول کی تصویریں اور یوٹیوب پر ریویوز دیکھ کر خود کو بہادر سمجھنا جنگ ناآشنا ماحول میں تو درست ہے، مگر جب سامنے والے کے پاس اے کے سینتالیس ہو اور اس کے سامنے وہی ویڈیوز والا نائن ایم ایم بھی لے کر کھڑے ہوجایا جائے تو دونوں میں سے کسی ایک کے جسم پر پڑنے والے زخم کی شدت کے احساس سے ہی چہرے زرد ہوجائیں گے؛ اور دونوں ہتھیاروں سے نکلنے والی ہلاکت خیز گولیوں کا دو انسانی جسموں کو چیر ڈالنے کا تجربہ کسی کےلیے جگت کے معانی رکھتا ہوگا مگر ہوش مند اور عقلمند طبقہ، جس نے تاریخ کا مطالعہ بھی کر رکھا ہے اور مشاہدہ بھی، کبھی اس بھیانک منظرنامے میں سے گیدڑ بھبکیوں اور عجیب مراثیانہ دھمکیوں کو پسند نہیں کرسکتا۔

دراصل یہ وقت کسی جنگ کےلیے موزوں نہیں، بلکہ کوئی بھی وقت کسی جنگ کےلیے موزوں نہیں۔ مگر اس وقت پر غیر موزوں ہونے کی خصوصیت اس لیے ہے کہ مسلمان قوم کی حیثیت سے ہم مکمل ان فٹ ہیں۔ ہم میدان کے قابل ہی نہیں۔ میں وجوہ گنوائے دیتا ہوں، نتیجہ آپ خود اخذ کرتے رہیے گا۔

امریکا میں عام شہری کو قانونی اسلحہ حاصل کرنے میں اتنی آسانی ہے جتنی ہماری قوم کو ایک موٹرسائیکل یا کار حاصل کرنے میں۔ جبکہ انہی امریکیوں کےلیے غیر قانونی اسلحہ حاصل کرنا بالکل ایسے ہے جیسے ہماری قوم کےلیے بازار سے چینی، گھی یا گوشت حآصل کرنا۔ 2017 کے ایک سروے میں شمالی امریکا کی آبادی کی مناسبت سے چھوٹے آتشیں ہتھیاروں کی تعداد کا اندازہ لگایا گیا، جس کے مطابق ہر 100 لوگوں کے پاس 120 چھوٹے آتشیں آلات یعنی پستول یا شاٹ گن وغیرہ موجود ہیں۔

امریکا ایک ترقی یافتہ ملک ہے، جبکہ ہم ترقی پذیر بھی پوری طرح نہیں ہوئے۔ ہم دن رات یہ راگ تو الاپ لیتے ہیں کہ امریکا میں جنسی آزادی ہے، عورتیں مردوں کے برابر کام کرتی ہیں، بلکہ مردوں کے شانہ بشانہ؛ وہاں کے قوانین، وہاں کی تعمیرات، وہاں کے رہن سہن، وہاں کی سڑکیں، حتی کہ وہاں کے گٹر بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ بنے ہوئے ہیں تو ہم اسلحے کے مقابلے میں پیچھے کیوں ہیں؟ میرا نکتہ یہ ہے کہ وہ سامان حرب جو اپنی حفاظت کےلیے پاس رکھنا لازمی ہے، ہماری قوم پر حرام کر دیا گیا ہے۔ کبھی ایک بتیس بور کے پستول کا لائسنس بنوا کر دیکھیے، آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ اسلحہ حاصل کرنا کتنا مشکل ہے۔ اس قوم کو عملی طور پر جنگ کے ماحول سے ایک صدی دور کردیا گیا ہے، اب اس قوم میں صرف بیانات اور بیانیوں کی جنگوں کا ادراک باقی رہ گیا ہے اور بس۔

اب انہیں شیخ رشید کے اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے بیان ہی لگّا کھاتے ہیں، کسی عملی شخص کی زمینی حقائق پر مبنی بات نہ انہوں نے کبھی سنی نہ انہیں ریاست نے سننے دی۔ باتوں کی جنگوں کے بجائے عملی جنگ کی بات کرنے والوں کو ٹارچر سیلوں میں ڈال ڈال کر ظلم کی وہ داستانیں رقم کی گئیں کہ الامان۔ ایسے حالات سے گزر گزرا کر جو قوم باقی بچی ہے، وہ بچّی ہے۔ نازک اندام، ہنستی کھلکھلاتی، بہری بچّی، جو ریل کی پٹڑی پر چلتی جا رہی ہے، اس کے پیچھے سے ریل چیختی چنگھاڑی ہارن دیتی ہوئی آرہی ہے اور وہ اپنی اٹکھیلیوں میں مگن، خراماں خراماں چلے جا رہی ہے۔

ہم بحیثیت قوم جنگ کےلیے بالکل بھی تیار نہیں۔ نہ ہمارے پاس اسلحہ ہے نہ تربیت، نہ جنگی ماحول سے واقفیت۔ اور سب سے بڑھ کر مقصدیت کا نہ ہونا۔ میں بحیثیت ایک فرد، اپنی قوم کے بڑے چھوٹوں سمیت سب سے سوال کرتا ہوں کہ اگر انہیں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ کا مقصد معلوم ہے تو بتائیں؟ اگر میرے بزرگ جنگ کا مقصد دو قومی نظریہ بتائیں تو ایک عدد مسکراہٹ ان کےلیے۔ دو قومی نظریہ قائدِاعظمؒ کے ساتھ ہی زیارت میں فوت ہوچکا اور اس وقت مزارِ قائد میں دفن ہے۔


دوقومی نظریہ تو بہت دور کی بات ہے، کیا پاکستانی آبادی ایک ''مکمل قوم'' کہلائے جانے کی اہل ہے؟ نہیں! بالکل نہیں! اگر جنگ کا مقصد کشمیر کی آزادی بتاتے ہیں تو افسوس! یہ مکمل بناوٹی، سطحی اور افسانوی مقصد ہے۔ اپنے دو قومی نظریئے کے احیا و اطلاق میں بھی تھکاوٹ محسوس کرنے والا ملک کب کشمیر کی آزادی کی جہد کرسکے گا؟ اگر آپ مقصد معاشیات رکھیں تو اس جنگ سے قبل بھی انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک کی معیشتیں اپنی اپنی ڈگر پر ترقی پذیر ہیں۔ معیشت اس جنگ کی وجہ بالکل نہیں۔

میرا خیال یہ ہے کہ جنگ بے مقصد ہے۔

اگر آپ یہ کہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہندوؤں سے جنگ کرنے لگے ہیں تو بھی یہ بات قابلِ قبول نہیں۔ انڈیا کے تو مسلمان بھی پاکستان کے مسلمانوں سے جنگ کرنے کے خواہاں ہیں، کبھی پوچھ کر دیکھ لیجیے گا۔

یہاں ایک جملہ دے دیا جاتا ہے کہ جنگ جذبوں سے لڑی جاتی ہے، اسلحے سے نہیں؛ اور پھر مزید حوالے دے دیئے جاتے ہیں کہ ہمارے پرکھوں نے دریاؤں میں گھوڑے دوڑائے ہیں۔ اللہ کے نیک بندو! انہوں نے دریاؤں میں گھوڑے بعد میں دوڑائے تھے، پہلے انہوں نے خشکی پر گھوڑے دوڑانے سیکھے تھے! کیا کوئی جانتا ہے کہ عقبہ بن نافع نے کتنی عمر میں گھڑ سواری سیکھی تھی؟ آپ جذبوں کی بات کرتے ہیں، کیا آپ میں عمدہ جذبے موجود ہیں؟ کیا آپ اپنے ''جذبوں'' کو اپنی پھرتی میں، اپنی جنگی صلاحیت میں ڈھال سکتے ہیں؟ کیا آج، اس دور میں آپ میں سے کوئی اپنے آپ کو اس لیول کا ڈرائیور سمجھتا ہے کہ نوے کی رفتار پر کھڈوں میں گاڑی دوڑاتے ہوئے، آنے والی گولیوں اور راکٹوں سے بچے بھی اور دریں اثناء دشمن پر تاک کر بڑی گن سے نشانہ بھی باندھے؟ اگر نہیں تو آپ کو یہ حق حاصل نہیں کہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی بات کریں۔

میرے محترم ''بڑے بڑے'' قائدین! چونکہ آپ حرب و ضرب سے آگاہ ہیں، سو اب کی بار آپ خود میدان میں اتریئے گا، لڑیئے گا۔ ہماری قوم لڑنے کے ہنر سے ناآشنا ہے۔ ہم چھوٹے لوگ آپ بڑے بڑوں کی بڑی بڑی تلواروں کے سائے میں کچھ دن کا آرام چاہتے ہیں۔ لڑیئے کہ آپ کے ووٹ پورے ہوں۔ اور ہو سکے تو شہید ہوجائیے گا تاکہ ہم فخر سے آپ کے بھی زندہ ہونے کے نعرے فضا میں بلند کرسکیں:

زندہ ہے فلاں فلاں زندہ ہے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story