حکومت کا ایک اور کارنامہ … چیخ
پٹرولیم نرخوں کی یہ چیخ جب بازار میں گونجے گی تو بجلی اور لوڈ شیڈنگ کی چیخ دب جائے گی
موجودہ حکومت اگر چاہے تو کریڈٹ لے سکتی ہے لیکن ہمیں احساس ہے کہ موجودہ ''عوامی جمہوری حکومت'' نہایت ہی مخلص، بے نفس اور بے لالچ طبیعت کی ہے، اس لیے وہ خود سے تو اس عظیم کارنامے کا کریڈٹ نہیں لے گی لیکن ہم اپنی طرف سے یہ کریڈٹ اس کی خدمت میں پیش کریں گے ، اس استدعا کے ساتھ کہ گر قبول افتد زہے عز و شرف ۔۔۔ ایں کار از تو آئد و مرداں چنیں کنند، ملک میں بلکہ تاریخ میں پہلی بار اور شاید آخری بار بھی ایک ایسا کارنامہ کسی حکومت نے انجام دیا ہے جس پر جتنا زیادہ عش عش کیا جائے کم ہے، اس کارنامے کی صحیح تعریف کے لیے ہمارا یہ ایک چھوٹا سا، محدود سا، بے بضاعت سا کالم ایسا ہے جیسا کہ وہ بڑھیا یوسف کو خریدنے کے لیے مصر کے بازار میں سوت کی انٹی لائی تھی یا بقول مرشد
بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے ''کالم''
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
یہ کارنامہ جو تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے کر دکھایا ہے، اس قابل ہے کہ ملک کے سارے درختوں کے قلم بنائے جائیں اور سارے دریائوں کا پانی سیاہ کر کے لکھنا شروع کیا جائے تو شاید دو چار صدیوں میں اس کی پوری تعریف کی جا سکے گی لیکن پھر بھی یہی گلہ رہے گا کہ
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
یہ کارنامہ وہ ''چیخیں'' ہیں جو اب کے ماہ رمضان میں حکومت نے پورے ملک کے پورے عوام کے منہ سے نکلوائیں، ٹائمنگ کا اندازہ اس سے لگائیں کہ یہ چیخیں لگ بھگ سولہ کروڑ عوام کے منہ سے نکلیں لیکن یوں لگا جیسے کسی ایک منہ سے صرف ایک چیخ نکلی ہو، یہ کارنامہ اس لحاظ سے بھی کارنامہ ہے کہ اب تک بہت سے لوگوں، بہت سی حکومتوں اور بہت سے مدبرین نے لوگوں کی چیخیں نکالی ہیں لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی ملک کی ''چیخ'' نکلی ہو، چنگیز خان نے جو چیخ نکالی تھی، وہ صرف خوارزم سے نکالی تھی پھر ہلاکو نے بھی صرف بغداد کی چیخ نکالی تھی، تیمور نے بھی دلی سے چیخ نکلوائی تھی لیکن پورے ملک کے منہ سے اتنی باجماعت طور پر اتنی مکمل چیخ کسی نے بھی نہیں نکالی تھی، اکا دکا اور یہاں وہاں بے ترتیب قسم کی چیخیں تو ہر کوئی نکال کر دکھا سکتا ہے لیکن اتنی مکمل اتنی یک آواز اور اتنی درد ناک چیخ صرف اور صرف ہماری عوامی جمہوریت والی حکومت کا حصہ ہے،
کودا ترے گھر میں کوئی یوں دھم سے نہ ہو گا
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہو گا
اگر یہ صرف چیخ ہوتی تو ہم پھر بھی اسے ایک عام سا کارنامہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے لیکن یہ صرف چیخ ہی نہیں ہے بلکہ چیخ کا تسلسل ہے۔ کبھی آپ نے کسی بچے کو تو دیکھا ہو گا جب وہ رونے کے لیے منہ کھولتا ہے تو منہ کافی دیر تک کھلا ہی رہ جاتا ہے اور اس کی سانس تک غائب ہو جاتی ہے۔ بڑی دیر بعد کہیں جا کر اس کی سانس کی واپسی ہوتی ہے، یہاں بھی اس طرح ہوا ہے جو چیخ اس رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں گرمیوں کے عروج میں اور لوڈ شیڈنگ کے سائے میں عوام کے منہ سے نکلی تو ابھی تک نکلی ہوئی ہے، منہ کھلا ہے اور تاحال سانس کی واپسی کے آثار نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک نادر مثال ہے کہ چیخ تو چل رہی ہے لیکن آوازیں نکل رہی ہیں، وہ کسی شاعر نے کہا تھا نا کہ
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
چیخ کی صحیح طوالت کا اندازہ تو تب لگایا جا سکے گا جب چیخنے والے کی سانس واپس آئے گی، ابھی تو منہ کھلا ہی ہوا ہے اور نہ جانے کب تک کھلا رہے گا، جب سانس واپس آئے گی اور چیخ کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گا تب پتہ چلے گا کہ کتنی طویل چیخ تھی اس کا حساب کتاب پھر ''ریٹرن آف چیخ'' کے عنوان سے کیا جائے گا، ہمارے اپنے یہاں تو فلم انڈسٹری بھی اس چیخ کی طرح واپس نہیں آئی ہے لیکن اگر ہالی وڈ، بالی وڈ والوں کو ہمارے ہاں ہونے والے اس عظیم الشان واقعہ کا پتہ چل گیا تو وہ اس پر کم از کم دو فلمیں تو بنا ہی لیں گے، ایک کا نام ہو گا ''چیخ'' اور دوسرے یعنی پارٹ ٹو کا ٹائٹل ہو گا ''دی ریٹرن آف چیخ'' جو یقیناً دونوں ہی بلاک بسٹر ثابت ہوں گی۔
اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی
عام سی چیخیں تو کوئی بھی حکومت، کوئی بھی وزیر اور کوئی بھی افسر حتیٰ کہ سپاہی بھی نکلوا سکتا ہے، یقین کو حق الیقین میں بدلنا ہو گا تو کسی بھی سڑک خصوصاً کے پی کے (خیر پر خیر) کی کسی بھی چھوٹی بڑی سڑک پر نکل جائیں یا کسی سرکاری عمارت کے قریب سے گزرنے کا ''گناہ کبیرہ'' کر لیجیے، آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ چیخیں کیسے نکالی جاتی ہیں لیکن جن چیخوں بلکہ ''مسلسل چیخ'' کے بارے میں ہم حکومت کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں، وہ یہ عام سی چیخیں نہیں ہیں بلکہ وہ چیخ بلکہ ''چیخا'' ہے جس کی گونج تحت الثریٰ سے ثریا تک سنائی دے رہی ہے، اس چیخ یا چیخے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسے آپ ایک ''سیاسی اور سائنسی'' چیخ بھی کہہ سکتے ہیں، سیاسی اس لیے کہ وزیر نکلوا رہے ہیں اور سائنسی اس لیے کہ نئے دور کی نئی ٹیکنالوجی سے نکالی جا رہی ہے ۔۔۔
یعنی اس میں بجلی، گیس، پٹرولیم وغیرہ سے مدد لی جاتی ہے، ابھی حالیہ پٹرولیم بجلی اور گیس کے نرخ تو آپ نے سنے ہی ہوں گے اسے آپ چیخوں کا تسلسل یا کنٹی نیوٹی سمجھ سکتے ہیں کہ بجلی اور لوڈ شیڈنگ کی چیخ ابھی نکل رہی تھی یعنی عوام کے ووکل ساؤنڈ میں موجود تھی کہ اوپر سے پٹرولیم اور گیس کا بٹن دبا کر اسے چیخ کو کئی ہزار گنا کر دیا گیا، اسے غالباً سرکاری زبان میں چیخ کا وولٹیج یا والیوم بڑھانا کہتے ہیں، اکثر لاؤڈ اسپیکروں کو آپ نے دیکھا ہو گا کہ آواز چل رہی ہوتی ہے کہ اچانک اس میں ایک جناتی قسم کی تیز آواز شامل ہو جاتی ہے اور پھر لاؤڈ اسپیکر کی آواز اس میں دب جاتی ہے، یہ پٹرولیم اور گیس کے نرخوں میں نیا اضافہ بھی ٹھیک اسی طرح کی ایک چیز ہے کہ اصل چیخ کو دبا کر نئی آواز کو اتنا ہائی فائی کر دیا کہ سننے والے کانوں میں انگلیاں دے کر بیٹھ گئے۔
پشتو میں جب کسی کے ہاں کوئی ''غم'' ہوتا ہے تو ہمدردی کرنے والے تسلیاں دینے کے بعد آخر میں یہ فقرہ دہراتے ہیں کہ ''خدا کرے تمہیں یہ غم نہ بھولے'' اس بظاہر بددعا میں یہ دعا پوشیدہ ہوتی ہے کہ یہ ''غم'' تو ہے لیکن دوسرا کوئی اس سے بڑا غم آ کر تجھے یہ غم نہ بھلائے، اور یہ کہاوت شاید حکومت نے کہیں سے سنی ہوئی ہے کہ وہ عوام کو ہر ''غم بھلانے'' کے لیے نیا اور اس سے بھی بڑا ''غم'' تیار رکھتی ہے یا یوں کہئے کہ ایک ''چیخ'' نکال کر اسے ختم کرنے یا بھلانے کے لیے اس سے بھی بڑی چیخ نکال دیتی ہے، اب آپ دیکھیں کہ پٹرولیم نرخوں کی یہ چیخ جب بازار میں گونجے گی تو بجلی اور لوڈ شیڈنگ کی چیخ دب جائے گی، پھر اس پٹرولیم کی چیخ کو بھلانے کے لیے ایک مرتبہ پھر بجلی کا جھٹکا دے گی اور یوں چیخ در چیخ کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔