جعفر ایکسپریس کے مسافر
اقلیتوں پر ظلم کرنے والوں میں پاکستانی مسلمانوں کی نوے فیصد اکثریت شامل نہیں
سندھ کے اندرونی علاقوں میں ہندو اقلیت کے ساتھ مبینہ زیادتیوں کی خبریں اور اس کے خلاف ہندو کمیونٹی کے احتجاج کی اطلاعات بھی کافی عرصے سے میڈیا میں آ رہی تھیں لیکن جب جیکب آباد سے جعفر ایکسپریس کے ذریعے 60 ہندو خاندانوں کی بھارت روانگی کے مناظر اور خبریں میڈیا میں آئیں تو اندازہ ہوا کہ اندر ہی اندر پکنے والی یہ کھچڑی کس مقام تک آ پہنچی ہے۔ جب ہندو خاندانوں کی ہندوستان جانے کی خبریں عام ہوئیں تو حکومت کی طرف سے یہ موقف سامنے آیا کہ یہ محض پروپیگنڈا ہے، جس کا مقصد حکومت کو بدنام کرنا ہے۔ لیکن اس کے بعد 60 خاندانوں کے واہگہ بارڈر پر پہنچنے اور انھیں روکنے کی اطلاعات آئیں۔
ان خبروں میں یہ بتایا گیا کہ بھارت جانے والے ہندو خاندانوں کو اس وقت تک بھارت جانے نہیں دیا جائے گا جب تک کہ وہ این او سی پیش نہیں کرتے۔ اس خبر کے بعد ہندو خاندانوں کے واہگہ پر احتجاج اور دھرنے کی خبریں ٹی وی پر دِکھائی گئیں۔ اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ ہندو خاندانوں کو بھارت جانے کی اجازت دے دی گئی، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ ہندو خاندان بھارت ترکِ وطن کرکے نہیں جا رہے ہیں بلکہ یاترا کے لیے جارہے ہیں، جلد واپس آجائیں گے۔ اس حوالے سے ٹی وی پر صوبائی وزیر اقلیتی امور اور ہندو پنچایت کے ایک رہنما کے درمیان تلخ تکرار بھی دِکھائی گئی۔ ہندو وزیر اقلیتی امور فرما رہے تھے کہ سندھ میں ہندوئوں پر ہونے والے مظالم کی خبریں محض پروپیگنڈا ہیں اور ہندو پنچایت کے رہنما ہندوئوں پر ہونے والے مظالم کے سچ ہونے پر اصرار کر رہے تھے۔ بات زیادہ بگڑی تو صدر زرداری نے اس مسئلے کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔
ہم یہ کالم لکھ ہی رہے تھے کہ اخبارات آ گئے۔ ایکسپریس میں اس حوالے سے چھپنے والی چار اہم خبروں پر ہماری نظر پڑی۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ 115 مزید ہندو واہگہ کے راستے بھارت چلے گئے، میرپورخاص سے 18 ہندو خاندانوں کی بھارت جانے کی خبر بھی اسی خبر کے ساتھ چھپی۔ ایک اور خبر میں بتایا گیا کہ سندھ کے ایک علاقے کھپرو سے دو سو ہندو پہلے ہی بھارت جا چکے ہیں۔ ان ترکِ وطن کرنے والوں میں زیادہ تعداد ڈاکٹروں اور تاجروں کی ہے، جن کے نام بھی اس خبر میں شایع ہوئے ہیں۔ نقل وطن کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
ایکسپریس ہی میں چھپنے والی خبروں کے مطابق ایچ آر سی پی کی سربراہ زہرہ یوسف نے انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان سے بھی پچاس ہندو خاندان بھارت جا چکے ہیں۔ زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ ترکِ وطن کا یہ رجحان ہمارے معاشرے میں بڑھتی اور پھیلتی مذہبی انتہا پسندی کا نتیجہ ہے۔ اسی روز کی ایک خبر کے مطابق ''فوکس'' کے زیرِ اہتمام لاہور میں منعقد ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں اقلیتوں کے نمایندوں نے اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اقلیتوں کی جان و مال کے عدم تحفظ کی وجہ سے اقلیتیں پاکستان سے ترکِ وطن کر رہی ہیں۔
سندھ میں کئی برسوں سے اقلیتوں پر ہونے والی زیادتیوں کی خبریں آتی رہی ہیں۔ ان زیادتیوں کی سنگینی میں اس وقت اضافہ ہوا جب میڈیا میں یہ خبریں آنے لگیں کہ سندھ کے بعض علاقوں میں نوجوان ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان بنا کر ان سے شادیاں کی جا رہی ہیں۔ ان زیادتیوں کے خلاف ہندو برادری کی طرف سے احتجاج کی خبریں بھی میڈیا میں آتی رہیں لیکن ہماری وفاقی اور صوبائی حکومت اس عرصے میں سوتی رہی اور اس وقت اس کی آنکھ کھلی جب 60 ہندو خاندان واہگہ پہنچ گئے اور بھارت جانے سے روکنے پر انھوں نے احتجاجی دھرنا دیا۔ اگر ان زیادتیوں کے حوالے سے ابتدا ہی میں سخت اقدامات کیے جاتے اور ہندو برادری کو ان زیادتیوں کے خلاف تحفظ فراہم کیا جاتا تو بات اِتنی نہ بگڑتی جتنی بگڑ چکی ہے۔ اور ہمارے قومی چہرے پر ایک اور داغ کا اضافہ نہ ہوتا جو پہلے ہی سے داغ دار چلا آ رہا ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ اس سنگین صورتِ حال کے باوجود کوئی وفاقی یا صوبائی حکمران یا اکابرین اقلیتوں کے خلاف ہونے والی ان زیادتیوں کی اصل اور بنیادی محرکات کو تلاش کرنے کے بجائے چند انتظامی اقدامات کے ذریعے اس کا حل دریافت کر کے آرام سے سو جائیں گے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہندو خاندانوں کا بھارت جانا محض حکومت کو بدنام کرنے کا پروپیگنڈا نہیں بلکہ اس میں کچھ تلخ حقیقتیں بھی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اقلیتوں پر ظلم کرنے والوں میں پاکستانی مسلمانوں کی نوّے فیصد اکثریت شامل نہیں۔ یہ کارنامے ایک چھوٹا سا حلقہ انجام دے رہا ہے، جن میں مقامی بااثر عناصر اور مذہبی انتہا پسند شامل ہیں۔
ہم یہاں پاکستانی اقلیتوں کے بارے میں اکابرین کے فرمودات کا ذکر کریں گے نہ پاکستانی آئین میں درج اقلیتوں کے حقوق کا حوالہ دیں گے۔ البتہ ہم یہاں کچھ ایسے تاریخی حقائق کا ذکر ضرور کریں گے جن کا برصغیر میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے تعلقِ باہمی سے ہے۔ برصغیر کی مجموعی آبادی میں ہندوئوں کی تعداد 88 فیصد اور مسلمانوں کی تعداد تقریباً 12 فیصد رہی ہے۔ ہندوستان پر مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور میں بھی تقریباً یہی تناسب رہا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طویل عرصے میں 88 فیصد آبادی نے 12 فیصد آبادی کے خلاف کوئی ملک گیر تحریک کیوں نہیں چلائی۔
اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ اس ایک ہزار سالہ دور میں برصغیر میں مذہبی انتہا پسندی کی کبھی وہ صورتِ حال نہیں تھی جو انگریزوں کے ہندوستان چھوڑنے سے کچھ عرصہ پہلے پیدا ہوئی اور ہندوستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کے کلچر کا آغاز ہوا اور اس کی انتہا تقسیم کے دوران وہ خون خرابہ تھا، جس میں 22 لاکھ انسان مارے گئے۔ انتہا پسندی کے پیچھے ان سامراجی طاقتوں کا ہاتھ تھا جو نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد بھی برصغیر میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے تھے۔ 1947ء کے بعد اگرچہ کبھی کبھار فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، جن میں گجرات کے فسادات سرفہرست ہیں لیکن ہندوستان کی آبادی کی اکثریت اس کے خلاف رہی۔ گجرات کے اینٹی مسلم فسادات کے خلاف ہندو شاعروں نے المیہ نظمیں لکھیں۔ ہندوستان کے دانشوروں، ادیبوں، شاعروں نے ان فسادات کی مذمت کی۔
ہندوستان میں اگرچہ مذہبی انتہا پسند گروہ موجود ہیں لیکن ان کی انتہا پسندی اس سطح پر نہیں پہنچی جہاں پاکستان کی انتہا پسندی کھڑی ہوئی ہے۔ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ میں بھی ایک سامراجی ملک امریکا کا ہاتھ ہے، جس نے روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے عسکریت پسندوں کی بڑے پیمانے پر کاشت کی، افغانستان سے روس کے جانے کے بعد یہ انتہا پسندی مختلف طریقوں سے اس خطے میں فروغ پاتی رہی، جن میں دہشت گردی، خودکش حملوں کا وہ کلچر سرفہرست ہے جس نے اس خطے کو ہی نہیں بلکہ مسلم ملکوں اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سندھ میں ہندو اقلیت کے ساتھ ہونے والا سلوک، پنجاب میں عیسائی کمیونٹی کے خلاف توہینِ رسالت کے حوالے سے ہونے والی مبینہ زیادتیاں دراصل اسی مذہبی انتہا پسندی کی پروڈکٹ ہیں جو ساری دنیا پر ایک بلائے عظیم کی طرح مسلط ہو رہی ہے۔ جب تک اس عفریت کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اور مذہبی تعصبات کی حوصلہ افزائی بند نہیں کی جاتی، اقلیتوں پر ہونے والی زیادتیوں کو محض انتظامی اقدامات سے نہیں روکا جاسکتا۔