فحش اخلاقیات اور قوموں کا زوال
ہم معاشرے میں موجود غلاظت اور گندگی کو پیش کرتے ہیں،اگر معاشرہ ہی اتنا غلیظ ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور
دنیا بھر کے فحش ادب پر نظرڈالیں، اس کے درجات کا غور سے جائزہ لیں، آپ کو سراسر فحش ترین، فحش تر اور فحش ادب ہر زبان میں مل جائے گا۔ ادب کی دنیا میں کوئی بھی معاشرہ، زبان یا ثقافت ہو، تحریر جو خالصتاً فحش مقاصد کے تحت لکھی گئی آج تک ادب میں جگہ نہ بناسکی۔ البتہ کہانی کے اسلوب، نظم غزل یا شاعری کی ضرورت کے تحت اگر فحش نگاری ہوئی تو ایسے ادیب اور شاعر کا اس کی ادبی سطح اور صلاحیت کے مطابق مقام متعین کیا گیا۔ اس مقام کو متعین کرنے میں ایک بات کا ہر جگہ خیال رکھا گیا کہ اس ادیب نے معاشرتی ذمے داری کو نبھاتے ہوئے کس طرح بات خوبصورت استعاروں اور تشبیہوں میں لپیٹ کر بیان کی تا کہ بات بھی لوگوں تک پہنچ جائے اور اس کی تحریر عامیانہ اور بازاری بھی نہ کہلائے۔
اس کے باوجود ایسا ادب لکھنے والے لوگ صدیوں تک باقی تمام ادیبوں اور شاعروں سے علیحدہ ہی تصور ہوتے رہے۔ ان کا سب سے بڑا دفاع اپنے حق میں یہ ہوتا تھا کہ ہم معاشرے میں موجود غلاظت اور گندگی کو پیش کرتے ہیں۔ اگر معاشرہ ہی اتنا غلیظ اور کریہہ ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور۔ جب ان کے ناقد ان پر یہ الزام لگاتے تھے کہ یہ کافی محنت اور کوشش و جستجو کے بعد معاشرے میں سے غلاظت ڈھونڈتے ہیں، اس میں افسانوی رنگ بھرتے ہیں اور پھر اپنے اندر چھپی جنسی خواہش کی بھی تسکین کرتے ہیں اور پڑھنے والے کے جذبات کو بھی جنسی آتش میں سلگتی ہوئی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا میں کسی فحش ادب کی ابتدائی تاریخ اٹھالیں آپ کو یہ جسم بیچنے والی بازاری عورتوں اور طوائفوں کے گرد گھومتا ہوا نظر آئے گا۔موپساں کے جنسی تجربات وہیں سے شروع ہوتے ہیں اور پھر دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ مادام باواری کے کردار سے لے کر لیڈی چیٹرلیز کے اعلیٰ خاندانی پس منظر تک کا سفر معاشرے میں موجود ایک مختصر سی تعداد یعنی بازاری عورتوں کی دنیا سے شروع ہوتا ہے۔ سعادت حسن منٹو کے وہ سب افسانے جن پر کبھی فحش نگاری کے الزام لگے ان میں طوائف یوں جلوہ گر ہے جیسے برصغیر میں یہی ایک عورت رہتی ہے اور اسی کو پیش کرنا عین حقیقت نگاری ہے۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی فحش نگاری پر مقدمے چلے تو لوگ اپنے دفاع میں گزشتہ صدیوں میں لکھی گئی کتابوں میں موجود فحاشی کو لے کر سامنے آگئے۔ کوئی خانہ کعبہ میں اسلام سے پہلے لٹکائے گئے سات معلقات کو لے آیا تو کسی نے مولانا روم کی مثنوی کا دفتر پنجم کھول کر رکھ دیا۔ کوئی حافظ اور سعدی کے شعر پیش کرتا رہا تو کسی نے ہیر وارث شاہ سے رانجھے اور ہیر کی ملاقات کا قصہ اور میاں محمد بخش کی سیف الملوک سے پری بدیع الجمال کے سراپے کا نقشہ گنگنایا۔ مغرب میں تو بائبل کے پرانے عہد نامے میں سے پیغمبروں کے حالات میں موجود جنسی منظر کشی کو حوالے کے طور پر پیش کیا۔ ہندو مذہب کے ماننے والے کام شاستر اٹھا لائے اور کھجرا ہومندر میں مورتیوں کی صورت موجود جنسی آسنوں کی تصویریں سند کے طور پر پیش کردیں۔
سب کے سب اپنی فحش نگاری پر اپنے آبائو اجداد اور پہلی نسلوں کی تحریروں کے حوالے پیش کرتے رہے۔ اور یہ دلیل دیتے رہے کہ اگروہ یہ سب کرسکتے تھے تو ہم پر کیوں پابندی ہے۔ کوئی اس بحث کی طرف نہ گیا کہ جن معاشروں میں ایسی فحش نگاری عروج پر پہنچی اور پورا معاشرہ اس میں ڈوبا تو پھر ان کے زوال کو کتنا عرصہ لگا۔ تہذیبوں کے دو بڑے ماخذ یونان اور روم کے زوال کی داستانیں اٹھالیں عبرت کے لیے کافی ہیں۔ یونان کی تہذیب میں جب Aphrodite کی پرستش شروع ہوئی، زنا اور فحش نگاری کو ایک معاشرتی رویہ بنایا گیا، طوائفوں کو معاشرتی مرتبہ میسر ہوا تو پھر اس کے بعد تاریخ نے یونان کا نام عروج کے مقام سے کھرچ کر پھینک دیا۔
یہی حال دو سو سال قبل مسیح کے روم کا تھا جب وہاں فحش نگاری، زنا، اخلاق باختگی کا طوفان اٹھا۔ برہنہ عورتوں کی دوڑ فلورا سے لے کر سیسرو کی فحش نگاری کی وکالت تک اور رومن کھیلوں میں سرعام عورتوں کی غنڈوں کے ہاتھوں آبروریزی تک سب کچھ ہونے لگا۔ یہ وہ ماحول تھا جب اس عظیم سلطنت کا وہ زوال آیا کہ افریقہ کے بربر ان پر چڑھ دوڑے اور اسے نیست و نابود کردیا۔ ایران میں جب مزدکیت نے فحش اخلاقیات کو عام کیا تو حالت یہاں تک آگئی کہ مزدک نے بھرے دربار میں شہنشاہ سے کہا، یہ تیری ملکہ بھی تیری نہیں بلکہ اس سے ہر شہری استفادہ کرسکتا ہے، تو پھر اس کے کچھ عرصے بعد ہی ایران کی ہزاروں سال بادشاہت عرب کے بادیہ نشینوں کے ہاتھ زمین بوس ہوگئی۔
فحاشی کے ہاتھوں ذلیل ہونے والی ایک اور تہذیب بابل کی ہے جہاں جسم فروشی کو مذہبی تقدس دیا گیا اور معاشرے کو فحاشی کے چلن پر آگے بڑھایا گیا تو یہ تہذیب یوں صفحہ ہستی سے مٹی کہ آج صرف اس کے کھنڈرات باقی ہیں۔ ہندوستان میں بھی جب وید کی تعلیمات اور بدھ کے افکار کے بعد مذہب میں جنسی اخلاقیات کو اہمیت ملی اور معاشرہ جنسی آسنوں اور کام شاستروں میں گم ہوا تو وسط ایشیا کے ہن اس پر چڑھ دوڑے اور پھر دو ہزار سال تک یہ ہر فاتح کے لیے ایک نرم چارے کے سوا کچھ نہ تھا۔
اس کے باوجود فحش نگاری کے وکیل یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ ہم کوئی نئے نہیں ہیں۔ یہ تو ہماری صدیوں سے روایت کا حصہ ہے۔ یہ سب دلیلیں آج سے پچاس سال قبل کی دنیا کی تھیں۔ لیکن آج تو شاید دنیا اس دلیل کے عالم سے نکل چکی ہے۔ 1969ء میں جب پہلی فحش فلم آئی تو پورے مغرب میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا لیکن آج سو ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری اسی صنعت میں ہے۔ اخلاقیات کے زوال کی اس کہانی کے کتنے دکھ ہیں۔ اس پر کتابوں کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں اور ہر گھر جس عذاب میں مبتلا ہے اس کے لیے کسی موپساں اور سعادت حسن منٹو کو طوائف کے کوٹھے پر جانے کی ضرورت نہیں۔ سب یاتو اپنے عیب چھپائے زندگی گزارتے ہیں یا پھر ڈھٹائی اور بے شرمی سے اس کا اقرار کرتے ہیں۔
میرے ملک میں یہ بحث اور دلیلیں ادب اور تحریر تک تھیں، لیکن اب ایک اور بحث کا دروازہ کھل چکا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا، یہاں کیا فحش ہے اور کیا نہیں ہے۔ دلیلیں پرانی ہیں، ہم تو وہی دکھائیں گے جو معاشرے میں ہے، یہ صدیوں سے ہوتا آیا ہے، لیکن ایک فرق ہے، ایک تمیز ہے جو آپ کوکرنا ہوگی، کتاب کے بارے میں آپ کو یہ حق حاصل تھا کہ کونسی خرید کر گھر لائیں اور کونسی نہیں، اگر لائیں تو اسے کسی طرح چھپا کر رکھیں، فلم بھی سینما گھر میں لگتی تھی۔ آپ کو آزادی حاصل تھی کس قسم کی فلم دیکھیں اور کس قسم کی نہ دیکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایسی فلمیں بننا شروع ہوئیں جو گھر میں بیٹھ کر دیکھنے کے قابل نہ تھیں تو اس ملک کے سینما گھر اجڑ گئے۔
لیکن ٹیلی ویژن آپ کے لائونج، بیڈ روم یا ڈرائنگ روم میں ایک جیتے جاگتے کردار کی طرح آچکا ہے۔ آپ سو جاتے ہیں، یہ جاگتا ہے۔ آپ اسے چھپا کر، تالے میں بند کرکے نہیں رکھ سکتے۔ یہ ایک زندہ جاگتا کردار ہے۔ اس میں وہی کچھ چلایا جاسکتا ہے جو باقی گھر کے کرداروں کے اخلاق کے مطابق ہو۔ ویسے ہی کپڑے جو سارے گھر میں موجود لوگوں نے پہنے ہوں۔ ویسی ہی شرم و حیا جو باپ ماں، بیٹا اور بیٹی کی موجودگی میں گھر میں نظر آتی ہے۔ اس لیے کہ اگر چار کردار گھر کے وہ ہیں تو پانچواں ٹیلی ویژن ہے۔
اگر بیٹی اپنی خوبصورت ٹانگیں اور کمر کے پیچ و خم لائونج میں سب کے سامنے چھپا کر رکھتی ہے تو اسکرین بھی اس سے مختلف نہیں ہوسکتی۔ ورنہ پھر تاریخ دو انجام بتاتی ہے۔ ایک یہ کہ پورا معاشرہ اس رنگ میںڈھل جاتا ہے اور اپنے زوال پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے یا پھر لٹھ مار مذہبی لوگ عروج پکڑتے ہیں جیسے انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ دوم کے زمانے میں اور روم میں عیسائیت کے عروج سے ہوا۔ یہ لوگ ان چار ماں بہن بھائی اور باپ کی اخلاقیات کے مطابق سب سیدھا کردیتے ہیں۔
اس کے باوجود ایسا ادب لکھنے والے لوگ صدیوں تک باقی تمام ادیبوں اور شاعروں سے علیحدہ ہی تصور ہوتے رہے۔ ان کا سب سے بڑا دفاع اپنے حق میں یہ ہوتا تھا کہ ہم معاشرے میں موجود غلاظت اور گندگی کو پیش کرتے ہیں۔ اگر معاشرہ ہی اتنا غلیظ اور کریہہ ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور۔ جب ان کے ناقد ان پر یہ الزام لگاتے تھے کہ یہ کافی محنت اور کوشش و جستجو کے بعد معاشرے میں سے غلاظت ڈھونڈتے ہیں، اس میں افسانوی رنگ بھرتے ہیں اور پھر اپنے اندر چھپی جنسی خواہش کی بھی تسکین کرتے ہیں اور پڑھنے والے کے جذبات کو بھی جنسی آتش میں سلگتی ہوئی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا میں کسی فحش ادب کی ابتدائی تاریخ اٹھالیں آپ کو یہ جسم بیچنے والی بازاری عورتوں اور طوائفوں کے گرد گھومتا ہوا نظر آئے گا۔موپساں کے جنسی تجربات وہیں سے شروع ہوتے ہیں اور پھر دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ مادام باواری کے کردار سے لے کر لیڈی چیٹرلیز کے اعلیٰ خاندانی پس منظر تک کا سفر معاشرے میں موجود ایک مختصر سی تعداد یعنی بازاری عورتوں کی دنیا سے شروع ہوتا ہے۔ سعادت حسن منٹو کے وہ سب افسانے جن پر کبھی فحش نگاری کے الزام لگے ان میں طوائف یوں جلوہ گر ہے جیسے برصغیر میں یہی ایک عورت رہتی ہے اور اسی کو پیش کرنا عین حقیقت نگاری ہے۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی فحش نگاری پر مقدمے چلے تو لوگ اپنے دفاع میں گزشتہ صدیوں میں لکھی گئی کتابوں میں موجود فحاشی کو لے کر سامنے آگئے۔ کوئی خانہ کعبہ میں اسلام سے پہلے لٹکائے گئے سات معلقات کو لے آیا تو کسی نے مولانا روم کی مثنوی کا دفتر پنجم کھول کر رکھ دیا۔ کوئی حافظ اور سعدی کے شعر پیش کرتا رہا تو کسی نے ہیر وارث شاہ سے رانجھے اور ہیر کی ملاقات کا قصہ اور میاں محمد بخش کی سیف الملوک سے پری بدیع الجمال کے سراپے کا نقشہ گنگنایا۔ مغرب میں تو بائبل کے پرانے عہد نامے میں سے پیغمبروں کے حالات میں موجود جنسی منظر کشی کو حوالے کے طور پر پیش کیا۔ ہندو مذہب کے ماننے والے کام شاستر اٹھا لائے اور کھجرا ہومندر میں مورتیوں کی صورت موجود جنسی آسنوں کی تصویریں سند کے طور پر پیش کردیں۔
سب کے سب اپنی فحش نگاری پر اپنے آبائو اجداد اور پہلی نسلوں کی تحریروں کے حوالے پیش کرتے رہے۔ اور یہ دلیل دیتے رہے کہ اگروہ یہ سب کرسکتے تھے تو ہم پر کیوں پابندی ہے۔ کوئی اس بحث کی طرف نہ گیا کہ جن معاشروں میں ایسی فحش نگاری عروج پر پہنچی اور پورا معاشرہ اس میں ڈوبا تو پھر ان کے زوال کو کتنا عرصہ لگا۔ تہذیبوں کے دو بڑے ماخذ یونان اور روم کے زوال کی داستانیں اٹھالیں عبرت کے لیے کافی ہیں۔ یونان کی تہذیب میں جب Aphrodite کی پرستش شروع ہوئی، زنا اور فحش نگاری کو ایک معاشرتی رویہ بنایا گیا، طوائفوں کو معاشرتی مرتبہ میسر ہوا تو پھر اس کے بعد تاریخ نے یونان کا نام عروج کے مقام سے کھرچ کر پھینک دیا۔
یہی حال دو سو سال قبل مسیح کے روم کا تھا جب وہاں فحش نگاری، زنا، اخلاق باختگی کا طوفان اٹھا۔ برہنہ عورتوں کی دوڑ فلورا سے لے کر سیسرو کی فحش نگاری کی وکالت تک اور رومن کھیلوں میں سرعام عورتوں کی غنڈوں کے ہاتھوں آبروریزی تک سب کچھ ہونے لگا۔ یہ وہ ماحول تھا جب اس عظیم سلطنت کا وہ زوال آیا کہ افریقہ کے بربر ان پر چڑھ دوڑے اور اسے نیست و نابود کردیا۔ ایران میں جب مزدکیت نے فحش اخلاقیات کو عام کیا تو حالت یہاں تک آگئی کہ مزدک نے بھرے دربار میں شہنشاہ سے کہا، یہ تیری ملکہ بھی تیری نہیں بلکہ اس سے ہر شہری استفادہ کرسکتا ہے، تو پھر اس کے کچھ عرصے بعد ہی ایران کی ہزاروں سال بادشاہت عرب کے بادیہ نشینوں کے ہاتھ زمین بوس ہوگئی۔
فحاشی کے ہاتھوں ذلیل ہونے والی ایک اور تہذیب بابل کی ہے جہاں جسم فروشی کو مذہبی تقدس دیا گیا اور معاشرے کو فحاشی کے چلن پر آگے بڑھایا گیا تو یہ تہذیب یوں صفحہ ہستی سے مٹی کہ آج صرف اس کے کھنڈرات باقی ہیں۔ ہندوستان میں بھی جب وید کی تعلیمات اور بدھ کے افکار کے بعد مذہب میں جنسی اخلاقیات کو اہمیت ملی اور معاشرہ جنسی آسنوں اور کام شاستروں میں گم ہوا تو وسط ایشیا کے ہن اس پر چڑھ دوڑے اور پھر دو ہزار سال تک یہ ہر فاتح کے لیے ایک نرم چارے کے سوا کچھ نہ تھا۔
اس کے باوجود فحش نگاری کے وکیل یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ ہم کوئی نئے نہیں ہیں۔ یہ تو ہماری صدیوں سے روایت کا حصہ ہے۔ یہ سب دلیلیں آج سے پچاس سال قبل کی دنیا کی تھیں۔ لیکن آج تو شاید دنیا اس دلیل کے عالم سے نکل چکی ہے۔ 1969ء میں جب پہلی فحش فلم آئی تو پورے مغرب میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا لیکن آج سو ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری اسی صنعت میں ہے۔ اخلاقیات کے زوال کی اس کہانی کے کتنے دکھ ہیں۔ اس پر کتابوں کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں اور ہر گھر جس عذاب میں مبتلا ہے اس کے لیے کسی موپساں اور سعادت حسن منٹو کو طوائف کے کوٹھے پر جانے کی ضرورت نہیں۔ سب یاتو اپنے عیب چھپائے زندگی گزارتے ہیں یا پھر ڈھٹائی اور بے شرمی سے اس کا اقرار کرتے ہیں۔
میرے ملک میں یہ بحث اور دلیلیں ادب اور تحریر تک تھیں، لیکن اب ایک اور بحث کا دروازہ کھل چکا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا، یہاں کیا فحش ہے اور کیا نہیں ہے۔ دلیلیں پرانی ہیں، ہم تو وہی دکھائیں گے جو معاشرے میں ہے، یہ صدیوں سے ہوتا آیا ہے، لیکن ایک فرق ہے، ایک تمیز ہے جو آپ کوکرنا ہوگی، کتاب کے بارے میں آپ کو یہ حق حاصل تھا کہ کونسی خرید کر گھر لائیں اور کونسی نہیں، اگر لائیں تو اسے کسی طرح چھپا کر رکھیں، فلم بھی سینما گھر میں لگتی تھی۔ آپ کو آزادی حاصل تھی کس قسم کی فلم دیکھیں اور کس قسم کی نہ دیکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایسی فلمیں بننا شروع ہوئیں جو گھر میں بیٹھ کر دیکھنے کے قابل نہ تھیں تو اس ملک کے سینما گھر اجڑ گئے۔
لیکن ٹیلی ویژن آپ کے لائونج، بیڈ روم یا ڈرائنگ روم میں ایک جیتے جاگتے کردار کی طرح آچکا ہے۔ آپ سو جاتے ہیں، یہ جاگتا ہے۔ آپ اسے چھپا کر، تالے میں بند کرکے نہیں رکھ سکتے۔ یہ ایک زندہ جاگتا کردار ہے۔ اس میں وہی کچھ چلایا جاسکتا ہے جو باقی گھر کے کرداروں کے اخلاق کے مطابق ہو۔ ویسے ہی کپڑے جو سارے گھر میں موجود لوگوں نے پہنے ہوں۔ ویسی ہی شرم و حیا جو باپ ماں، بیٹا اور بیٹی کی موجودگی میں گھر میں نظر آتی ہے۔ اس لیے کہ اگر چار کردار گھر کے وہ ہیں تو پانچواں ٹیلی ویژن ہے۔
اگر بیٹی اپنی خوبصورت ٹانگیں اور کمر کے پیچ و خم لائونج میں سب کے سامنے چھپا کر رکھتی ہے تو اسکرین بھی اس سے مختلف نہیں ہوسکتی۔ ورنہ پھر تاریخ دو انجام بتاتی ہے۔ ایک یہ کہ پورا معاشرہ اس رنگ میںڈھل جاتا ہے اور اپنے زوال پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے یا پھر لٹھ مار مذہبی لوگ عروج پکڑتے ہیں جیسے انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ دوم کے زمانے میں اور روم میں عیسائیت کے عروج سے ہوا۔ یہ لوگ ان چار ماں بہن بھائی اور باپ کی اخلاقیات کے مطابق سب سیدھا کردیتے ہیں۔