پیمرا حکام نے خصوصی میڈیا گروپ پر غیر ملکی فنڈز لینے کے الزامات زبانی لگائے تھے جاوید جبار
زبانی بیانات میں مخصوص میڈیا گروپ پر غیرملکی فنڈز لینے کا الزام لگایا، سیکریٹری کمیشن اور میں نے نوٹس لیے
میڈیا کمیشن کے رکن جاوید جبار نے اپنے تحریری بیان میں پیمرا کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین راشد احمد کی قیادت میں پیمرا ٹیم نے کچھ پروگراموں کی تشہیر اور پروڈکشن کیلیے مخصوص میڈیا گروپ ٹی وی چینلز اور ان سے منسلک صحافیوں کے غیرملکی فنڈر لینے کا حوالہ دیا تھا اور اس حوالے سے مختلف نام اور وصول کی جانیوالی رقم بھی بتائی تھی۔
اس سے قبل چیئرمین پیمرا نے سپریم کورٹ کے سامنے حقائق چھپاتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ پیمرا کے حکام نے مخصوص میڈیا ہاؤس پر غیرملکی فنڈز لینے کا الزام نہیں لگایا تھا۔ پیمرا نے سپریم کورٹ کو مزید بتایا تھا کہ الیکٹرونک میڈیا کو فنڈنگ کے ذرائع کی تحیقات کرنا پیمرا کا کام نہیں۔ جاوید جبار نے اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ یہ دونوں دعوے حقائق کیخلاف ہیں۔ جاوید جبار نے کہا ہے کہ چیئرمین پیمرا راشد احمد نے ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں قائم کمیشن کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ اس موقع پر سیکریٹری کمیشن سلیم گل اور میں بھی موجود تھے۔ پیمرا کی نمائندگی 5 افسران نے کی جن میں چیئرمین راشد احمد، ڈاکٹر اے جبار، اشفاق جمانی، سہیل احمد، ناصر شامل تھے۔ پیمرا حکام کی آراء کو ممبر اور سیکریٹری نے تحریر کیا اور کچھ مواقع پر چیرمین ناصر اسلم زاہد نے بھی نوٹس لیے۔ آراء کی کوئی ٹیپ ریکارڈنگ نہیں ہوئی۔ میڈیا کمیشن رپورٹ کے پہلے اور دوسرے حصے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ رپورٹ کے دوسرے حصے میں زبانی آراء کے نوٹس کو شامل کیا گیا ہے۔ پیمرا کے دعوؤں اور ریمارکس کو آبزرویشنز اور سفارشات سے الگ کرنے کیلیے (italic) میں دیا گیا۔
کمیشن سے ملنے والی دوسری شخصیات کے ریمارکس کے ساتھ بھی یہی طرز عمل اختیار کیا گیا۔ رپورٹ کے دوسرے حصے کے صفحہ 103 پر پیمرا حکام کی طرف سے مخصوص میڈیا گروپ کے پروگراموں کیلیے بیرونی فنڈنگ کے حوالے سے ریمارکس کو لکھ دیا گیا تھا۔ یہ درست ہے کہ اگلے مرحلے پر وزارت انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ کی رپورٹ میں بیرونی فنڈنگ کے حوالے سے دعوے شامل نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پیمرا حکام کی طرف سے زبانی دعوے کیے گئے۔ بین الاقوامی طور پر مسلمہ اصول کے مطابق کسی عدالت یا کمیشن کے سامنے زبانی بیانات بھی درست اور باضابطہ تصور ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانیوالی رپورٹ کے ایک ایک صفحہ کا تفصیلی طور پر جائزہ لیا گیا ہے۔
یہ افسوسناک ہے کہ پیمرا ایک مرحلے پر بیانات دے کر مکر گیا۔ اب یہ سپریم کورٹ پر ہے کہ وہ اس حوالے سے مناسب کارروائی کرے۔ پیمرا کے بیان کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پرائیویٹ چینلز کے فنڈنگ کے ذرائع کی تحقیقات کرنا پیمرا کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ یہ بات بھی حقائق کے منافی ہے۔ پیمرا آرڈیننس 2002(ترمیم شدہ 2007) کے سیکشن 25 میں کہا گیا ہے کہ کسی ایسے شخص کو لائسنس جاری نہیں کیا جائے گا جسے کسی دوسرے ملک کی حکومت یا ادارے کی مدد حاصل ہو۔ اب یہ پیمرا کی ذمے داری ہے کہ لائسنس کیلیے درخواست دینے والوں کے فنڈنگ کے ذرائع کے حوالے سے تحقیقات کرے اور اس کیلیے انٹیلی جنس اداروں سمیت دوسرے اداروں سے بھی معاونت لی جائے۔
چانچہ یہ کہنا بے جا ہے کہ پیمرا کو کسی چینل کو لائسنس جاری کرتے وقت اور اس لائنسنس کے استعمال کے دوران فنڈنگ کے ذرائع کی تحقیقات کا اختیار نہیں ہے۔ میڈیا کمیشن نے طویل مشاورت کے بعد رپورٹ مرتب کی ہے اور اس میں پیمرا کو خودمختار، آزاد اور غیرجانبدار بنانے کیلیے متعدد تجاویز دی ہیں اور یہ امید کی جاتی ہے کہ بیانات کی ایسی تردیدوں سے پیمرا کی اصلاحات پر توجہ کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔ اس بیان کی کاپیاں رجسٹرار سپریم کورٹ، چیئرمین اور سیکریٹری میڈیا کمیشن کو بھی ارسال کردی گئیں ہیں۔
اس سے قبل چیئرمین پیمرا نے سپریم کورٹ کے سامنے حقائق چھپاتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ پیمرا کے حکام نے مخصوص میڈیا ہاؤس پر غیرملکی فنڈز لینے کا الزام نہیں لگایا تھا۔ پیمرا نے سپریم کورٹ کو مزید بتایا تھا کہ الیکٹرونک میڈیا کو فنڈنگ کے ذرائع کی تحیقات کرنا پیمرا کا کام نہیں۔ جاوید جبار نے اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ یہ دونوں دعوے حقائق کیخلاف ہیں۔ جاوید جبار نے کہا ہے کہ چیئرمین پیمرا راشد احمد نے ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں قائم کمیشن کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ اس موقع پر سیکریٹری کمیشن سلیم گل اور میں بھی موجود تھے۔ پیمرا کی نمائندگی 5 افسران نے کی جن میں چیئرمین راشد احمد، ڈاکٹر اے جبار، اشفاق جمانی، سہیل احمد، ناصر شامل تھے۔ پیمرا حکام کی آراء کو ممبر اور سیکریٹری نے تحریر کیا اور کچھ مواقع پر چیرمین ناصر اسلم زاہد نے بھی نوٹس لیے۔ آراء کی کوئی ٹیپ ریکارڈنگ نہیں ہوئی۔ میڈیا کمیشن رپورٹ کے پہلے اور دوسرے حصے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ رپورٹ کے دوسرے حصے میں زبانی آراء کے نوٹس کو شامل کیا گیا ہے۔ پیمرا کے دعوؤں اور ریمارکس کو آبزرویشنز اور سفارشات سے الگ کرنے کیلیے (italic) میں دیا گیا۔
کمیشن سے ملنے والی دوسری شخصیات کے ریمارکس کے ساتھ بھی یہی طرز عمل اختیار کیا گیا۔ رپورٹ کے دوسرے حصے کے صفحہ 103 پر پیمرا حکام کی طرف سے مخصوص میڈیا گروپ کے پروگراموں کیلیے بیرونی فنڈنگ کے حوالے سے ریمارکس کو لکھ دیا گیا تھا۔ یہ درست ہے کہ اگلے مرحلے پر وزارت انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ کی رپورٹ میں بیرونی فنڈنگ کے حوالے سے دعوے شامل نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پیمرا حکام کی طرف سے زبانی دعوے کیے گئے۔ بین الاقوامی طور پر مسلمہ اصول کے مطابق کسی عدالت یا کمیشن کے سامنے زبانی بیانات بھی درست اور باضابطہ تصور ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانیوالی رپورٹ کے ایک ایک صفحہ کا تفصیلی طور پر جائزہ لیا گیا ہے۔
یہ افسوسناک ہے کہ پیمرا ایک مرحلے پر بیانات دے کر مکر گیا۔ اب یہ سپریم کورٹ پر ہے کہ وہ اس حوالے سے مناسب کارروائی کرے۔ پیمرا کے بیان کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پرائیویٹ چینلز کے فنڈنگ کے ذرائع کی تحقیقات کرنا پیمرا کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ یہ بات بھی حقائق کے منافی ہے۔ پیمرا آرڈیننس 2002(ترمیم شدہ 2007) کے سیکشن 25 میں کہا گیا ہے کہ کسی ایسے شخص کو لائسنس جاری نہیں کیا جائے گا جسے کسی دوسرے ملک کی حکومت یا ادارے کی مدد حاصل ہو۔ اب یہ پیمرا کی ذمے داری ہے کہ لائسنس کیلیے درخواست دینے والوں کے فنڈنگ کے ذرائع کے حوالے سے تحقیقات کرے اور اس کیلیے انٹیلی جنس اداروں سمیت دوسرے اداروں سے بھی معاونت لی جائے۔
چانچہ یہ کہنا بے جا ہے کہ پیمرا کو کسی چینل کو لائسنس جاری کرتے وقت اور اس لائنسنس کے استعمال کے دوران فنڈنگ کے ذرائع کی تحقیقات کا اختیار نہیں ہے۔ میڈیا کمیشن نے طویل مشاورت کے بعد رپورٹ مرتب کی ہے اور اس میں پیمرا کو خودمختار، آزاد اور غیرجانبدار بنانے کیلیے متعدد تجاویز دی ہیں اور یہ امید کی جاتی ہے کہ بیانات کی ایسی تردیدوں سے پیمرا کی اصلاحات پر توجہ کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔ اس بیان کی کاپیاں رجسٹرار سپریم کورٹ، چیئرمین اور سیکریٹری میڈیا کمیشن کو بھی ارسال کردی گئیں ہیں۔