عبدالحمید جتوئی ایک اصول پرست سیاستدان
عبدالحمید دلیر اور صاف گو انسان تھے اور ہر ناانصافی پر بول پڑتے تھے۔
عبدالحمید جتوئی نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان کی سیاست میں ایک بڑا اور اہم نام رہا ہے جنھوں نے کبھی بھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی اور کسی بھی غلط کام کو سپورٹ نہیں کیا، جس کی وجہ سے انھیں کئی بار جیل جانا پڑا اور دوسری تکالیف کا بھی سامنا کیا۔ اس بااصول انسان نے اپنے ضمیرکا سودا نہیں کیا، جس کی وجہ سے پورے پاکستان میں ان کی بڑی عزت تھی اور لوگ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔
میں جب 10 سال کا تھا تو میری ان سے ملاقات لاڑکانہ شہر میں ہوئی تھی ،کیونکہ ان کا بیٹا اعجاز جتوئی میرے انکل ممتاز راجپر کے دوست تھے، جن کی وجہ سے مجھے بھی ان لوگوں کو دیکھنے اور ملنے کا موقعہ ملا۔ دڑی محلہ لاڑکانہ میں اسلم سنجھرانی جو چیف سیکریٹری ہوکر ریٹائرڈ ہوئے ہیں، ان کے والد وہاں رہتے تھے جہاں پر عبدالحمید جتوئی اور اعجاز جتوئی آیا کرتے تھے، ان خاندانوں میں آپس میں بڑی گہری دوستی تھی۔
عبدالحمید دلیر اور صاف گو انسان تھے اور ہر ناانصافی پر بول پڑتے تھے جس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ جب ضیا الحق کے زمانے میں وہ ایم این اے اور محمد خان جونیجو وزیر اعظم تھے، جب جونیجو نے اسمبلی توڑنے کے اپنے اختیارات ضیا الحق کے حوالے کیے تھے تو اس پر نیشنل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے عبدالحمید نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اچھے انسان نہیں ہیں، جس نے ضیا الحق کو اختیارات دے دیے جب کہ وہ جانتے تھے کہ ضیا الحق آمر ہے جسے اس اختیارات سے اور مضبوط بنایا گیا ہے جو کبھی بھی اسمبلی کو ختم کرسکتا ہے۔
جب 1973ء کا آئین پاس ہو رہا تھا تو اس وقت بھی آئین پر دستخط نہیں کیے اور مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس آئین سے سندھ کی اصلی شناخت ختم ہوجائے گی ، اس انکار کی وجہ سے انھیںجھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔
ان کا کسی بھی سیاسی پارٹی میں شریک ہونا ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا جس کی وجہ سے سندھ میں کئی ایم این ایز اور ایم پی ایز کو پارٹی کی ٹکٹ دلوانے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ ان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ذات پات، مذہب، فرقے یا سیاسی وابستگی پر اعتماد نہیں رکھتے تھے اور ہر آنے والے شخص کی مدد کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے ان کی عزت پورے سندھ کے عوام کرتے تھے۔ وہ ہر شادی اور غمی میں لوگوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے اور ان سے ملنے کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھتے تھے مگرکبھی بھی ناجائز کام کے لیے کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے تھے۔
وہ گاؤں بیٹو جتوئی ضلع دادو میں 1922ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے دو بھائی کریم بخش اور دھنی بخش تھے جو بمبئی لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر بھی رہ چکے تھے۔ جب 1931ء میں دادو کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو اس وقت ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کے صدر خان بہادر محمد پریل کلہوڑو اور نائب صدر جی ایم سید بنے جب کہ قادر بخش جتوئی ممبرکے طور پر بورڈ میں آگئے۔
1954ء میں جب سندھ اسمبلی سے ون یونٹ کی حمایت میں بل پاس ہوا تو اس کی مخالفت پیر الٰہی بخش، شیخ خورشید احمد اور رئیس غلام مصطفیٰ بھرگڑی نے کی تھی جب کہ جی ایم سیدکو ہاؤس اریسٹ کیا گیا تھا۔ رہائی کے بعد جی ایم سید کے ساتھ مل کر عبدالحمید جتوئی، غلام مصطفیٰ جتوئی، مخدوم طالب المولیٰ وغیرہ نے ایک تحریک چلائی۔ 4 مارچ کو احتجاج کرنے والے سندھ یونیورسٹی کے طلبا پر لاٹھیاں برسا کر انھیں جیل میں ڈالا گیا، طلبا کی ضمانت اور کھانے پینے کا بندوبست عبد الحمید جتوئی ہی نے کیا تھا۔ اس وقت کمشنر مسرور حسن تھے ان سے ہاتھ ملانے سے انکار کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ وہ ون یونٹ کے خلاف احتجاج کرنے والے معصوم بچوں پر ظلم کیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس لائق نہیں ہے کہ ان سے ہاتھ ملایا جائے۔
جتوئی صاحب مذہبی انسان تھے وہ غریبوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ ملتے تھے اور وہ ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑی عقیدت سے یاد کرتے تھے۔ انھوں نے کبھی بھی بیوروکریسی کے ناجائز کاموں کو سپورٹ نہیں کیا بلکہ صرف ایماندار اور سچے افسران کی عزت کرتے تھے اور جو افسران عوام کے مسائل کو حل کرتے تھے ان کے لیے دعا کرتے تھے۔ وہ صرف اس صورت میں سرکاری افسران کو کام کہتے تھے جب وہ کام جائز ہوتا تھا۔ اگر کام غلط ہوتا تو وہ انھیں وہیں انکار کردیتے تھے۔ یہ حقیقت تھی کہ جتوئی صاحب اقتدار میں ہوں یانہ ہوں، سرکاری افسران اس کے بھیجے ہوئے کام کو کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے کیونکہ انھیں پتہ ہوتا تھا کہ جتوئی صاحب کبھی بھی ناجائزکام کی حمایت نہیں کرتے۔
انھوں نے لوگوں سے اوطاق میں ملنا ایک معمول بنایا ہوا تھا اور وہ جب بھی اسمبلی سے گھر واپس آتے ہی سب سے پہلے لوگوں سے ملتے تھے پھر گھر جاتے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی زمینوں کی دیکھ بھال خود کرتے اور پالتو جانوروں سے پیار کرتے اور ان کا بے حد خیال کرتے تھے۔ وہ وعدے کے بڑے پکے تھے اور جب وعدہ کرلیا تو اسے نبھانے کے لیے انھیں کتنا بھی نقصان اٹھانا پڑتا تو وہ گھبراتے نہیں تھے۔ اگر کام ناجائز ہے تو پھر وہ اپنے گھر والوں کی بھی سفارش نہیں سنتے تھے۔ وہ کہیں بھی جاتے تو اپنے ساتھ گارڈ نہیں رکھتے تھے اور وہ اپنے علاقے کے لوگوں سے کہتے تھے کہ اگر وہ انھیں صحیح سمجھتے ہیں تو ووٹ دیں اور اگر ان کا دل کہیں اور ہے تو وہ آزاد ہیں اور اپنے ووٹ کا حق آزادی سے استعمال کریں۔
وہ کبھی بھی انتقامی سیاست میں ایمان نہیں رکھتے تھے اگر انھیں کسی نے کہا کہ وہ انھیں ووٹ نہیں دیں گے تو وہ برا نہیں مناتے بلکہ وہی شخص اگر ان کے پاس کام کے لیے آتا تو وہ کام کردیتے تھے اور اس سے کوئی شکایت نہیں کرتے جو ان کے مخالفین تھے وہ بھی ان کی ایمانداری، سچائی اور انصاف کو مانتے تھے کیونکہ وہ بے ایمان اور کرپٹ آدمی کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ جب لوگ ان کے پاس اپنے فیصلے لے کر آتے تو وہ مطمئن ہوتے تھے اور ان کے کیے ہوئے فیصلے پورے سندھ میں مشہور تھے۔ چور اچکے قسم کے لوگ ان کے سائے سے بھی ڈرتے تھے۔
جتوئی صاحب کا کردار بے داغ تھا اور سندھ کے بڑے بڑے وڈیرے اور زمیندار اور سیاستدان جن میں شاہ نواز جونیجو، جام صادق، اختر علی جی قاضی، الٰہی بخش سومرو وغیرہ ان کی بڑی عزت کرتے تھے حتیٰ کہ ضیا الحق جیسا آمر بھی ان کا بڑا احترام کرتے تھا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ انھوں نے جب بھی قومی اسمبلی یا سندھ اسمبلی میں تقریر کرتے تو وہ یادگار بن جاتی تھی۔ انھوں نے کالا باغ ڈیم کی بھی کھل کر مخالفت کی اورکہا تھا کہ جو اس پروجیکٹ کی حمایت کرے، اسے اس کے جنازہ میں شریک نہ ہونے دیا جائے۔
تعلیم کے حوالے سے سیکنڈ اسٹینڈرڈ انگریزی تک پڑھے ہوئے تھے۔ انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت کی تھی اور 1953ء میں سندھ اسمبلی کے ممبر بنے۔ وہ پی پی پی کے بنیادی ممبران میں سے تھے اور 1970ء کی الیکشن میں پارٹی کی ٹکٹ سے اپنے حلقے سے MNA منتخب ہوئے۔ آئین پاس ہونے کے دوران بھٹو سے اختلافات بڑھ گئے اور انھوں نے پارٹی چھوڑ دی۔ جب کہ 1964ء میں وہ سید امیر حیدر شاہ کے ہاتھوں شکست کھا گئے تھے۔ وہ 1985ء میں غیر سیاسی پارٹی الیکشن میں ایم این اے اور 1996ء میں بھی بطور ایم این اے کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ وہ 1980ء میں سندھ نیشنل الائنس کے چیئرمین بھی منتخب ہوئے تھے۔ بھٹوکے دور اقتدار کے دوران انھیں تین بار گرفتار کیا گیا تھا۔
عبدالحمید جتوئی نے 11 جنوری 2006ء میں اس دنیا کو خیر باد کہا اور جب ان کی تدفین کی رسومات ہو رہی تھیں تو لاکھوں لوگوں کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ وہاں پر ہر طبقے کے لوگ آئے ہوئے تھے، خاص طور پر سیاسی اور سماجی شخصیات نے جو اپنے تاثرات لکھے ہیں وہ پڑھنے کے لائق ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ہدایت کا مینار تھے جس نے ہمیشہ سیاسی، سماجی اور تاریخی شخصیات کو بھی گائیڈ کیا۔ ان کی ہدایت لوگوں کو سچائی اور کامیابی کی راہ پر لے جاتی تھی۔ ان کی جدائی سے اصولوں کی سیاست کی موت ہوگئی ہے۔
ان کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا اور ان کے فیصلے تاریخی ہوتے تھے اور انھیں ثقافت، سندھی رسم و رواج کا محافظ کہتے تھے۔ ان کے صاحبزادے لیاقت جتوئی سیاست کے میدان میں آئے، چیف منسٹر بن گئے مگر وہ عبدالحمید جتوئی نہیں بن سکے، جب کہ ان کے بیٹے اعجاز جتوئی کسی حد تک باپ کی طرح کام کرنا چاہتے تھے لیکن موت نے انھیں مہلت نہیں دی۔
میں جب 10 سال کا تھا تو میری ان سے ملاقات لاڑکانہ شہر میں ہوئی تھی ،کیونکہ ان کا بیٹا اعجاز جتوئی میرے انکل ممتاز راجپر کے دوست تھے، جن کی وجہ سے مجھے بھی ان لوگوں کو دیکھنے اور ملنے کا موقعہ ملا۔ دڑی محلہ لاڑکانہ میں اسلم سنجھرانی جو چیف سیکریٹری ہوکر ریٹائرڈ ہوئے ہیں، ان کے والد وہاں رہتے تھے جہاں پر عبدالحمید جتوئی اور اعجاز جتوئی آیا کرتے تھے، ان خاندانوں میں آپس میں بڑی گہری دوستی تھی۔
عبدالحمید دلیر اور صاف گو انسان تھے اور ہر ناانصافی پر بول پڑتے تھے جس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ جب ضیا الحق کے زمانے میں وہ ایم این اے اور محمد خان جونیجو وزیر اعظم تھے، جب جونیجو نے اسمبلی توڑنے کے اپنے اختیارات ضیا الحق کے حوالے کیے تھے تو اس پر نیشنل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے عبدالحمید نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اچھے انسان نہیں ہیں، جس نے ضیا الحق کو اختیارات دے دیے جب کہ وہ جانتے تھے کہ ضیا الحق آمر ہے جسے اس اختیارات سے اور مضبوط بنایا گیا ہے جو کبھی بھی اسمبلی کو ختم کرسکتا ہے۔
جب 1973ء کا آئین پاس ہو رہا تھا تو اس وقت بھی آئین پر دستخط نہیں کیے اور مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس آئین سے سندھ کی اصلی شناخت ختم ہوجائے گی ، اس انکار کی وجہ سے انھیںجھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔
ان کا کسی بھی سیاسی پارٹی میں شریک ہونا ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا جس کی وجہ سے سندھ میں کئی ایم این ایز اور ایم پی ایز کو پارٹی کی ٹکٹ دلوانے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ ان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ذات پات، مذہب، فرقے یا سیاسی وابستگی پر اعتماد نہیں رکھتے تھے اور ہر آنے والے شخص کی مدد کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے ان کی عزت پورے سندھ کے عوام کرتے تھے۔ وہ ہر شادی اور غمی میں لوگوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے اور ان سے ملنے کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھتے تھے مگرکبھی بھی ناجائز کام کے لیے کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے تھے۔
وہ گاؤں بیٹو جتوئی ضلع دادو میں 1922ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے دو بھائی کریم بخش اور دھنی بخش تھے جو بمبئی لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر بھی رہ چکے تھے۔ جب 1931ء میں دادو کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو اس وقت ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کے صدر خان بہادر محمد پریل کلہوڑو اور نائب صدر جی ایم سید بنے جب کہ قادر بخش جتوئی ممبرکے طور پر بورڈ میں آگئے۔
1954ء میں جب سندھ اسمبلی سے ون یونٹ کی حمایت میں بل پاس ہوا تو اس کی مخالفت پیر الٰہی بخش، شیخ خورشید احمد اور رئیس غلام مصطفیٰ بھرگڑی نے کی تھی جب کہ جی ایم سیدکو ہاؤس اریسٹ کیا گیا تھا۔ رہائی کے بعد جی ایم سید کے ساتھ مل کر عبدالحمید جتوئی، غلام مصطفیٰ جتوئی، مخدوم طالب المولیٰ وغیرہ نے ایک تحریک چلائی۔ 4 مارچ کو احتجاج کرنے والے سندھ یونیورسٹی کے طلبا پر لاٹھیاں برسا کر انھیں جیل میں ڈالا گیا، طلبا کی ضمانت اور کھانے پینے کا بندوبست عبد الحمید جتوئی ہی نے کیا تھا۔ اس وقت کمشنر مسرور حسن تھے ان سے ہاتھ ملانے سے انکار کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ وہ ون یونٹ کے خلاف احتجاج کرنے والے معصوم بچوں پر ظلم کیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس لائق نہیں ہے کہ ان سے ہاتھ ملایا جائے۔
جتوئی صاحب مذہبی انسان تھے وہ غریبوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ ملتے تھے اور وہ ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑی عقیدت سے یاد کرتے تھے۔ انھوں نے کبھی بھی بیوروکریسی کے ناجائز کاموں کو سپورٹ نہیں کیا بلکہ صرف ایماندار اور سچے افسران کی عزت کرتے تھے اور جو افسران عوام کے مسائل کو حل کرتے تھے ان کے لیے دعا کرتے تھے۔ وہ صرف اس صورت میں سرکاری افسران کو کام کہتے تھے جب وہ کام جائز ہوتا تھا۔ اگر کام غلط ہوتا تو وہ انھیں وہیں انکار کردیتے تھے۔ یہ حقیقت تھی کہ جتوئی صاحب اقتدار میں ہوں یانہ ہوں، سرکاری افسران اس کے بھیجے ہوئے کام کو کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے کیونکہ انھیں پتہ ہوتا تھا کہ جتوئی صاحب کبھی بھی ناجائزکام کی حمایت نہیں کرتے۔
انھوں نے لوگوں سے اوطاق میں ملنا ایک معمول بنایا ہوا تھا اور وہ جب بھی اسمبلی سے گھر واپس آتے ہی سب سے پہلے لوگوں سے ملتے تھے پھر گھر جاتے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی زمینوں کی دیکھ بھال خود کرتے اور پالتو جانوروں سے پیار کرتے اور ان کا بے حد خیال کرتے تھے۔ وہ وعدے کے بڑے پکے تھے اور جب وعدہ کرلیا تو اسے نبھانے کے لیے انھیں کتنا بھی نقصان اٹھانا پڑتا تو وہ گھبراتے نہیں تھے۔ اگر کام ناجائز ہے تو پھر وہ اپنے گھر والوں کی بھی سفارش نہیں سنتے تھے۔ وہ کہیں بھی جاتے تو اپنے ساتھ گارڈ نہیں رکھتے تھے اور وہ اپنے علاقے کے لوگوں سے کہتے تھے کہ اگر وہ انھیں صحیح سمجھتے ہیں تو ووٹ دیں اور اگر ان کا دل کہیں اور ہے تو وہ آزاد ہیں اور اپنے ووٹ کا حق آزادی سے استعمال کریں۔
وہ کبھی بھی انتقامی سیاست میں ایمان نہیں رکھتے تھے اگر انھیں کسی نے کہا کہ وہ انھیں ووٹ نہیں دیں گے تو وہ برا نہیں مناتے بلکہ وہی شخص اگر ان کے پاس کام کے لیے آتا تو وہ کام کردیتے تھے اور اس سے کوئی شکایت نہیں کرتے جو ان کے مخالفین تھے وہ بھی ان کی ایمانداری، سچائی اور انصاف کو مانتے تھے کیونکہ وہ بے ایمان اور کرپٹ آدمی کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ جب لوگ ان کے پاس اپنے فیصلے لے کر آتے تو وہ مطمئن ہوتے تھے اور ان کے کیے ہوئے فیصلے پورے سندھ میں مشہور تھے۔ چور اچکے قسم کے لوگ ان کے سائے سے بھی ڈرتے تھے۔
جتوئی صاحب کا کردار بے داغ تھا اور سندھ کے بڑے بڑے وڈیرے اور زمیندار اور سیاستدان جن میں شاہ نواز جونیجو، جام صادق، اختر علی جی قاضی، الٰہی بخش سومرو وغیرہ ان کی بڑی عزت کرتے تھے حتیٰ کہ ضیا الحق جیسا آمر بھی ان کا بڑا احترام کرتے تھا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ انھوں نے جب بھی قومی اسمبلی یا سندھ اسمبلی میں تقریر کرتے تو وہ یادگار بن جاتی تھی۔ انھوں نے کالا باغ ڈیم کی بھی کھل کر مخالفت کی اورکہا تھا کہ جو اس پروجیکٹ کی حمایت کرے، اسے اس کے جنازہ میں شریک نہ ہونے دیا جائے۔
تعلیم کے حوالے سے سیکنڈ اسٹینڈرڈ انگریزی تک پڑھے ہوئے تھے۔ انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت کی تھی اور 1953ء میں سندھ اسمبلی کے ممبر بنے۔ وہ پی پی پی کے بنیادی ممبران میں سے تھے اور 1970ء کی الیکشن میں پارٹی کی ٹکٹ سے اپنے حلقے سے MNA منتخب ہوئے۔ آئین پاس ہونے کے دوران بھٹو سے اختلافات بڑھ گئے اور انھوں نے پارٹی چھوڑ دی۔ جب کہ 1964ء میں وہ سید امیر حیدر شاہ کے ہاتھوں شکست کھا گئے تھے۔ وہ 1985ء میں غیر سیاسی پارٹی الیکشن میں ایم این اے اور 1996ء میں بھی بطور ایم این اے کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ وہ 1980ء میں سندھ نیشنل الائنس کے چیئرمین بھی منتخب ہوئے تھے۔ بھٹوکے دور اقتدار کے دوران انھیں تین بار گرفتار کیا گیا تھا۔
عبدالحمید جتوئی نے 11 جنوری 2006ء میں اس دنیا کو خیر باد کہا اور جب ان کی تدفین کی رسومات ہو رہی تھیں تو لاکھوں لوگوں کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ وہاں پر ہر طبقے کے لوگ آئے ہوئے تھے، خاص طور پر سیاسی اور سماجی شخصیات نے جو اپنے تاثرات لکھے ہیں وہ پڑھنے کے لائق ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ہدایت کا مینار تھے جس نے ہمیشہ سیاسی، سماجی اور تاریخی شخصیات کو بھی گائیڈ کیا۔ ان کی ہدایت لوگوں کو سچائی اور کامیابی کی راہ پر لے جاتی تھی۔ ان کی جدائی سے اصولوں کی سیاست کی موت ہوگئی ہے۔
ان کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا اور ان کے فیصلے تاریخی ہوتے تھے اور انھیں ثقافت، سندھی رسم و رواج کا محافظ کہتے تھے۔ ان کے صاحبزادے لیاقت جتوئی سیاست کے میدان میں آئے، چیف منسٹر بن گئے مگر وہ عبدالحمید جتوئی نہیں بن سکے، جب کہ ان کے بیٹے اعجاز جتوئی کسی حد تک باپ کی طرح کام کرنا چاہتے تھے لیکن موت نے انھیں مہلت نہیں دی۔