اڑتا ہوا وقت

پیرزادہ سلمان کثیر المطالعہ و مشاہدہ ہونے کی بنا پر اپنی سوچ اور فکر میں الگ تھلگ سا نظر آتا ہے۔

آرٹس کونسل کراچی میں ایک نوجوان اکثر نظر آتا تھا، دنیا بھر کے ادب ، فلسفے، سیاست ، مذاہب ، انسانی تاریخ ، کھنڈرات ، تہذیبیں ۔ میں اس کی باتیں سنتا اور خوش ہوتا مگر اس نوجوان سے باقاعدہ تعارف حاصل نہ ہو سکا تھا ۔ اسی دوران ایک اور صحافی بھی میرے دل کو بھا گیا تھا، اور میں اس صحافی سے ملاقات کے لیے اس کے اخباری دفتر جا پہنچا ۔

صحافی اپنے کمرے میں موجود نہیں تھا، میں نے دوسرے کمرے بھی جھانکے مگر وہ نہ ملا۔ میں ناکام واپس لوٹ آیا۔ دو تین روز بعد اسی نوجوان سے آرٹس کونسل میں ملاقات ہو گئی، ہاتھ میں انگریزی ناول اور گفتگو جاری، محفل میں سحر انصاری اور اداکار طلعت حسین بھی موجود تھے۔ یہ دونوں محترم اشخاص بھی وسیع مطالعہ اور مشاہدہ رکھتے ہیں ۔

گفتگو جاری تھی کہ اس نوجوان کا نام سامنے آیا، سحر انصاری صاحب بول رہے تھے ''پیر زادہ سلمان! تم نے گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں ہونے والی نشست کی رپورٹنگ خوب کی ہے''۔ پیر زادہ سلمان کا سن کر میں چونک سا گیا ''آپ پیرزادہ سلمان ہیں !'' وہ نوجوان ذرا سا اٹھا اور بولا ''جی میں ہی ہوں۔''

''ارے بھئی! میں تو آپ کے اخباری دفتر میں آپ سے ملاقات کے لیے گیا تھا ، مگر آپ موجود نہیں تھے۔'' پھر میں نے اس نوجوان سے مزید کہا کہ '' آپ بہت باصلاحیت صحافی ہیں، رات دس بجے تقریب ختم ہوتی ہے اور آپ دفتر پہنچ کر تقریب کی مفصل رپورٹ لکھ کر ''خوبصورت پیرائے'' میں لکھ لیتے ہیں جو اگلے ہی روز اخبار میں شایع ہو جاتی ہے۔''

پیرزادہ سلمان سے یہ میری باقاعدہ پہلی ملاقات تھی اور آج اس نوجوان کی شاعری کی کتاب ''وقت'' میرے سامنے ہے۔ اپنی ذات کا مکمل احاطہ کیے کتاب کا ٹائٹل جو بیک ٹائٹل تک پھیلا ہوا ہے تیزی سے گزرتا ہوا وقت جو کسی کا انتظار نہیں کرتا اور گزرتا چلا جاتا ہے۔ ایک طرف خود پیرزادہ ہے اور دوسری طرف اس کا '' پیار ''۔ یہ دنیا پیار کرنے کی جگہ ہے دنیا بنانے والے نے یہی بات سوچ کر ''کن'' کہا تھا ۔ کتاب پڑھنے کے بعد کتاب کا ٹائٹل سوچ کی بہت سی پرتیں کھولتا ہے۔ آدم اور حوا کا زمین پر اترنا ، ایک دوسرے کی تلاش میں سرگرداں اور پھر ملاقات ۔ کبھی مجھے لگتا ہے کہ پیرزادہ اور اس کا پیار دو پتے جو ''شاخ سے ٹوٹ کے ہوا کے ہوئے'' اور یہ شجر کی شاخ سے ٹوٹ کر گرنے والے دو پتے، جنگل جنگل، دریا دریا، کو بہ کو کبھی ہوا کے دوش پر کبھی پانی کے بہاؤ کے ساتھ سرحدیں ان کے لیے نہیں، یہ آزاد پتے ہوا کے جھونکوں کے ساتھ سرحدیں پار کرلیتے ہیں۔

پیرزادہ سلمان کا ایمان ''محبت'' ہے اس کا یقین ہے کہ شام ہونے سے پہلے اڑتے ہوئے وقت کو تھام لو، پیار، پیار بس پیار۔ پیرزادہ اپنے مسلک کا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے:

میرؔ و غالبؔ کو سنتے جاتے ہیں

جونؔ سے بھی کلام رکھیں گے

جون ایلیا ایک منفرد انسان، منفرد شاعر، سلمان کے ہاں رچا بسا جون ایلیا۔ چار اشعار کی غزل:

سب ہے بے کار' یار جانے دے

چھوڑ تکرار' یار جانے دے

پاس رکھ اپنے' ہر دلیل اجل


ہم ہیں تیار' یار جانے دے

دیکھ کر اس کے دل فریب خطوط

ہوگیا پیار' یار جانے دے

اک ہمارا وجود' اس پر یہ

عشق کا بار' یار جانے دے

-------

اس جہان کہنہ میں ڈھونڈتا نیا کیا ہے

لوگ تک وہی ہیں سب' اسیرکیا، ہوا کیا ہے

آج بھی جدا ہوتی گردنوں کے منتظر ہیں

خون کے تمدن میں رسم خوں بہا کیا ہے

پیرزادہ سلمان کثیر المطالعہ و مشاہدہ ہونے کی بنا پر اپنی سوچ اور فکر میں الگ تھلگ سا نظر آتا ہے۔ ''وقت'' ایسی ہی الگ تھلگ شاعری کی کتاب ہے۔ پیرزادہ سلمان خود اپنے بارے میں لکھتے ہیں ''لوگ صحافت کو میرا شغل سمجھتے ہیں، انھیں معلوم نہیں کہ صحافت میری ریاضت ہے، لفظوں کو جوڑنے اور توڑنے کی ریاضت'' سلمان کا اپنے بارے میں یہ لکھنا غور طلب ہے ''مجھے کچھ ایسے تخلیق کاروں نے بھی سہارا دیا جو اس دنیا کے نہیں، البتہ متاثر مجھے صرف ایک شخص نے کیا ہے اور وہ ہے پیرزادہ سلمان ۔''

پیرزادہ کی اسی سوچ کا نتیجہ اس کی شاعری ہے۔
Load Next Story