مقامی حکمرانی کا بحران اور حکومتی ترجیحات

پاکستان میں مقامی حکمرانی یا مقامی حکومتوں کا نظام کبھی بھی سیاسی اورجمہوری قوتوں کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں بن سکا۔


سلمان عابد March 01, 2019
[email protected]

پاکستان میں بنیادی طو رپر حکمرانی کا بحران ہے۔ یہ بحران کسی ایک حکومت کا پیدا کردہ نہیں بلکہ ہر سیاسی اور فوجی حکومت کے ادوار میں ہمیں حکمرانی کا بحران بالادست نظر آیا ہے ۔وجہ واضح ہے کہ ہم دنیا میں اچھی حکمرانی کے نظاموں اوران کے تجربات سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی اچھی حکمرانی کا نظام ہماری بڑی سیاسی ترجیحات کا حصہ بن سکا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ حکمرانی کے نظام کے تناظر میں ہمیں ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان واضح خلیج اور بداعتمادی دیکھنے کو ملتی ہے ۔عمومی طور پر دنیا نے اچھی حکمرانی کے لیے عدم مرکزیت یعنی اختیارات کو نچلی سطح پر زیادہ سے زیادہ منتقل کر کے اپنی مقامی حکمرانی یا مقامی حکومتوں کے نظام کو درست سمت اور ایک بااختیار ادارہ بنانے کی طرف پیشقدمی کرکے سیاسی اور جمہوری نظام کی ساکھ کو بحال یا قائم کیا ہوا ہے ۔

پاکستان میں مقامی حکمرانی یا مقامی حکومتوں کا نظام کبھی بھی سیاسی اورجمہوری قوتوں کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں بن سکا ۔یہ ہی وجہ ہے کہ با ر بار کی جمہوریت پر مبنی نظام میں بھی مقامی حکومتوں کا نظام اول تو قائم ہی نہیں ہو سکا اور اگر کبھی نظریہ ضرورت کے تحت ان کو قائم بھی کیا گیا تو اس کو سیاسی، انتظامی اور معاشی طور پر مفلوج رکھ کر حکمرانی کے نظام میں پہلے سے موجود بگاڑ میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کیا گیا ۔

بدقسمتی سے ہماری سیاسی اورجمہوری حکومتوں کا اپنا مزاج غیر جمہوری اورآمرانہ سوچ سے جڑا ہوتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں ذاتی طور پر مرکزیت پر مبنی نظام کی حامی ہیں اوراسی کو بنیاد بنا کر زیادہ سے زیادہ اختیارات کو مرکز تک محدود کرکے سیاسی نظام کو بگاڑا جاتا ہے ۔18ویں ترمیم کے بعد خیال تھا کہ ہم ایک نئے سیاسی نظام کا حصہ بن رہے ہیں جہاں مرکز صوبوں کو اور صوبے ضلع کو اور ضلع تحصیل، ٹاون یا یونین کی سطح پر سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دے کر ایک نئے مضبوط اورمربوط نظام کی بنیاد رکھیں گے۔

1973ء کے آئین کی شق140-Aکے تحت ہر صوبائی حکومت پر لازم ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبہ میں مقامی انتخابات، سیاسی، انتظامی، مالی اختیارات اور یہ اختیارات بیوروکریسی کے بجائے عوام کے منتخب نمایندوں کو دیے جائینگے لیکن سیاسی اورجمہوری حکمران جو ہمیشہ ملک میں جمہوریت کے نظام کا واویلا مچاتے ہیں مگر خود نہ تو جمہوری بننے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی اپنے اقتدار میں مقامی نظام حکومت کو مضبوط بنانا ان کی اہم ترجیح ہے۔

آج کل پیپلز پارٹی کا ماتم یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اورتحریک انصاف کی حکومت 18ویں ترمیم کی مخالف ہے اوراس کو ختم کرکے صوبائی خود مختاری پر حملہ کرنا چاہتی ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی یہ تو جواب دے کہ اس نے خود 18ویں ترمیم کے تحت اپنے صوبہ سندھ میں کیوں مقامی نظام حکومت کو مفلوج اور یتیم ادارہ بنایا ہوا ہے ۔ صوبائی خود مختاری کبھی بھی ممکن نہیں ہوگی جب تک صوبے اپنی سطح پر ضلعوں کو خود مختاری نہیں دیں گے ۔

وزیر اعظم عمران خان اپنی سیاست میں جن چند نکتوں کو بنیاد پر اپنی اہمیت بڑھاتے تھے ان میں ایک نکتہ مقامی حکومتوں کے نظام کا بھی ہوتا تھا ۔ خیبر پختونخوا میں وہ اپنے مقامی نظام حکومت کو باقی صوبائی حکومتوں کے ماڈل سے بہتر حکومت کا درجہ دیتے تھے ۔ یقینی طور پر ان کا نظام دیگر صوبوں سے کافی بہتر تھا، مگر وہ بھی مکمل طور پر آئین کی شق140-Aکے منافی تھا اورکئی اختیارات پر صوبائی حکومت کا قبضہ تھا لیکن اب جب کہ تحریک انصاف مرکز سمیت پنجاب میں اقتدار میں ہے اوربلوچستان میں اس کی مخلوط حکومت ہے تو خیال تھا کہ وزیر اعظم اپنی سیاسی ترجیحات میں پہلی ترجیح مضبوط اورمربوط مقامی حکومتوں کے نظام کو دینگے۔

ابتدامیں وزیر اعظم عمران خان نے مرکز کی سطح پر ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی جس کا مقصد پہلے سے موجود مقامی نظام حکومت میں بہتری پیدا کرنا اور ایک ایسا نظام لانا جو واقعی مقامی نظام حکومت کی عکاسی کرتا ہو۔پنجاب میں بھی نئے نظام کی نوید سنائی گئی اورکہا گیا کہ ہم نئے نظام کے تحت نئے انتخابات کی مدد سے مقامی نظام کی تشکیل نو کرینگے وزیر اعظم عمران خان خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ایک جیسا نظام لانا چاہتے ہیں، لیکن اپنی حکومت کے ابتدائی چھ ماہ میں وہ مقامی نظام حکومت کے حوالے سے کچھ نہیں کرسکے۔

اس وقت چاروں صوبوں میں مقامی نظام حکومت مفلوج نظام کی صورت میں موجود ہے اور اس کی ذمے دار مرکزی اور صوبائی حکومتیں ہیں جو عملی طورپر اختیارات کو نچلی سطح پر منتقلی کرنے میں غیر سنجیدہ نظر آتی ہیں ۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف سمیت سب نے ہی مقامی حکومتوںکے نظام کے حوالے سے لوگوں کو مایوس کیا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان بھی اپنی ہی جماعت میں موجود سیاسی عناصر کی عملی روایتی سیاست کا شکار ہوگئے ہیں اور لگتا ایسا ہے کہ وہ بھی دیگر حکمرانوں کی طرح سمجھوتے کی سیاست کا حصہ بن گئے ہیں ۔

رہی سہی کسر موجودہ بیوروکریسی نے پوری کردی جنہوںنے نئے نظام کی تشکیل میں حکومت کو روایتی سیاست میں الجھا کر رکھ دیا ہے ۔کیونکہ اس نظام میں جہاں اور بہت سی رکاوٹیں ہیں ان میں ایک بڑی رکاوٹ خود بیوروکریسی ہے جو مقامی نظام پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی قیادت, اور بیوروکریسی مل کر کوئی بھی نیا نظام سامنے نہیں لاسکے۔

کچھ دن قبل وزیر اعظم عمران خان نے ایک دفعہ پھر اس عزم کا اظہا ر کیا ہے کہ مقامی حکومتوں کا نیا نظام حقیقی معنوں میں عوام کو بااختیار بنائے گالیکن یہ سب کچھ کب اورکیسے ممکن ہوگا اوراس کا روڈ میپ کیا ہے کسی کو کوئی خبر نہیں جو پہلے سے موجود مقامی نظام ہے اس پر حکومت کی ترجیح نہ ہونے کے برابر ہے اوروہ اس کے مقابلے میں نیا متبادل نظام لانا چاہتی ہے ۔سندھ میں پیپلز پارٹی اورایم کیو ایم تضاد سمیت خود پیپلز پارٹی کا غیر جمہوری رویہ رکاوٹ ہے ۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے عملی طو رپر کچھ نہیں کیا اوراسی پرانے اور فرسودہ نظام کی مدد سے نظام کو چلایا جارہا ہے ۔ خیبرپختونخوا کی صورتحال بھی کافی مخدوش ہے کیونکہ نئے نظام کی تشکیل کی وجہ سے پہلے سے موجود نظام میں سنجیدگی کی کمی ہے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ چاروں صوبوں میں لوگوں کا حکمرانی کے نظام سے اعتماد کمزور ہورہا ہے اورلگتا ہے کہ عام آدمی کو بااختیار بنانا اورمقامی نظام میں ان کی موثر شمولیت محض ایک سیاسی نعرے سے زیادہ نہیں ۔ تعلیم، صحت، امن و آمان، پانی، سیوریج، تجاوزات، روزگار، امن، انصاف، ماحول، مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، سڑکوں، پارکوں اورگندے نالوں کی تعمیر جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں ۔ مقامی ایم این اے ایم پی اے اور مقامی حکومتوں کے منتخب نمایندوں میں خلیج اور بداعتمادی ہے ۔

اگر صوبے عوام کو بااختیار نہیں کررہے اورمقامی نظام کو مفلوج بنا کر چلانا چاہتے ہیں تو مرکزی حکومت خاموش ہے بلکہ مرکزی حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ ان صوبائی حکومتوں سے قانون کے دائرے میں پوچھے یا احتساب کرے کیونکر مقامی نظام کو موثر انداز میں نہیں چلایا جارہا ۔ عملی طورپر اس وقت ملک کے چاروں صوبوں میں مقامی منتخب چیئرمین، وائس چیئرمین یا ناظم اور کونسلرز موجود ہیں لیکن ان کا کردار مقامی حکمرانی میںکافی محدود ہے اور وہ عملی طور پر اپنی اپنی صوبائی حکومتوں کے سیاسی استحصال کا شکار ہیں ۔

وزیر اعظم عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ وہ اوران کی جماعت اپنے ہی وعدے سے پیچھے ہٹ رہی ہے اوراس کا عملی مظاہرہ ہمیں ان کی حکمرانی کے نظام اورمقامی نظام حکومت کے تناظر میں دیکھنے کو مل رہاہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کم ازکم اپنے دو صوبائی وزرائے اعلیٰ پنجاب اور خیبر پختونخوا سمیت دو صوبائی وزیر بلدیات اور صوبائی سیکریٹری اور ڈی جی بلدیات کو تو احتساب کے دائرے میں لائیں جو ابھی تک ان چھ ماہ میں کوئی نئے مقامی نظام کو عملی خاکہ پیش نہیں کرسکے ۔

حتیٰ کہ صوبائی سطح پر میڈیا اورسول سوسائٹی سمیت سیاسی جماعتوں کی سطح پر بھی کوئی مشاورتی عمل دیکھنے کو نہیں مل سکا ۔جو کمیٹی وزیر اعظم نے اپنی سربراہی میں مقامی نظام کی تشکیل نو کے سلسلے میں بنائی تھی وہ کیونکر اپنا کام مقررہ وقت میں نہیں کرسکی، ا س کا جواب سامنے آنا چاہیے ۔اگر وزیر اعظم عمران خان نے بھی مقامی حکومتوں کے نظام میں وہی پرانی روایتی سیاست ہی کرنی ہے تو پھر نئے پاکستان کا نعرہ محض دکھاوے کے سوا کچھ نہیں ہوگا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں