سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان
محمد بن سلمان کے حالیہ دورے سے سب سے زیادہ فائدہ سعودی جیلوں میں قید 2,107 پاکستانیوں کو ہوا۔
وزیر اعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ ، دونوں کی تعلقات عامہ (پی آر) کی ٹیموں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دو روزہ دورہ پاکستان کی کامیابی کے کریڈٹ کا دعویٰ کیا ہے، جس سے ملک میں سول ملٹری توازن کی جھلک نظر آتی ہے، اگر میاں نواز شریف وزیر اعظم ہوتے تو شاید خارجہ پالیسی کی کامیابی پر اعزازکی ایسی حصے داری ممکن نہ ہوتی ۔
محمد بن سلمان کے ساتھ ایک سو سے زیادہ سعودی تاجر تھے۔ پاکستان اور سعودی عرب نے دیگر کے علاوہ معدنیات، کیمیکلز، زراعت، اور فوڈ پراسینگ سمیت کئی شعبوں میں 21 بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کی مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کیے ۔ ان میں گوادر میں ایک آئل ریفائنری پیٹروکیمیکلز انڈسٹریز بھی شامل ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی خام تیل گوادر پہنچایا جائے گا، یہ اس بندرگاہ کے لیے، جس کا انتظام چینیوں کے پاس ہے بزنس کا ایک اچھا موقع ہوگا۔ سعودی سرمایہ سے لگائی جانے والی آئل ریفائنری کو چینی صوبے ژنجیانگ کی توانائی کی مانگ پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔
دو نئے بجلی گھروں حویلی بہادرشاہ اور بلوکی پاور پلانٹ کو فروخت کرنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں ، پنجاب میں یہ دونوں بجلی گھر پاکستان نے تعمیر کیے تھے۔ مختصر مدت کے فائدے کے لیے ان بجلی گھروں کو بیچنا غیر دانش مندانہ ہو گا،کیونکہ پاکستان کو پہلے ہی غیر ملکی کمپنیوں کا ڈیویڈنڈ ادا کرنا ہے جو زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ بنتا ہے۔ فخر سے سرشار حکومت کو پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کے وعدے پر خوشی ہے ۔ جب فخرکا نشہ اترے گا تو ہوسکتا ہے ہمیں معلوم ہو کہ اس سعودی فراخ دلی کے بدلے میںکیا دیا گیا ۔جب ان پیکیجزکی شرائط اور ضابطوں کو حتمی شکل دی جائے گی تو امید ہے کہ سعودیوں کے ساتھ یہ ڈیل ویسی دھندلی نہیں رہے گی جیسی کہ چین کے ساتھ کی گئی تھی۔
محمد بن سلمان نے بھارت کے ساتھ 44 بلین ڈالر مالیت کے معاہدوں پر دستخط کیے ۔ ان کا اقتصادی ماڈل یہ ہے کہ مسلسل تیل کی آمدنی پر انحصار نہ کیا جائے بلکہ دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کی جائے، سیاحت کی صنعت میں سعودی سرمایہ کاری کو پھیلایا جائے، سعودی عرب اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ وہ دنیا کے 2 ارب مسلمانوں کے لیے مذہبی سیاحتی کشش رکھتا ہے۔
سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ سابق حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو نظر اندازکیا اور تعلقات کچھ دبائو میں رہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے آرمی چیف اور عمران خان نے متعدد دورے کیے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اس وقت دبائو میں آئے جب پاکستان نے سعودی یمن تنازع میں کسی مدد دینے سے انکار کیا ۔ پاکستان کو یہ فکر بھی لاحق تھی کہ اگر اس نے یمن تنازع میں کوئی فعال کردار ادا کیا تو ایران کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہوں گے، جو اس کا مغربی پڑوسی ہے، تاہم حکومت نے جنرل راحیل شریف کو اسلامی ملٹری کائونٹر ٹیرر ازم کولیشن فورسزکی سربراہی کرنے کی اجازت دے دی۔
حال ہی میں ایرانی حکومت نے الزام لگایا کہ ایک دہشت گرد گروپ نے 13 فروری کو ایران میں پاسداران انقلاب پر حملہ کیا جس میں 27 گارڈز مارے گئے اور 13 زخمی ہوئے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے اس حملے کی مذمت کی اور تحقیقات کے لیے تعاون کی پیشکش کی ۔ ایران کے خدشات پر بات چیت کے لیے ایک پاکستانی وفد تہران بھی جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی طرف سے ایران کو تنہا کیا جا رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے بارے میں وارسا میں امریکا اور پولینڈ کی طرف سے مشترکہ طور پر منعقد کی جانے والی کانفرنس میںتمام ایران مخالف قوتیں جمع ہوئیں اور انھوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر خوب لے دے کی ۔
اس کے ساتھ ہی پلوامہ میں ایک حالیہ بم حملے کا جس میں44 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے، بھارت نے فوری طور پر جیش محمد پر الزام عائد کردیا حالانکہ جیش محمد پر پابندی لگی ہوئی ہے ۔ بھارت نے2016 میں پٹھان کوٹ میں ایک حملے کے واقعے میں بھی اس تنظیم کے لیڈر کا نام لیا تھا، اگرچہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایران اور بھارت ، دونوں ملکوں میں حملے کی مذمت کی ہے مگر دنیا پاکستان پر اعتماد نہیں کرتی ۔جب بھی پاک بھارت تعلقات میں تھوڑی سی پیش رفت ہوتی ہے، افغان ، طالبان مذاکرات آگے بڑھتے ہیں تو کچھ نہ کچھ ایسا ہوجاتا ہے جس سے پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ۔
سعودی عرب جو امداد دیتا ہے اس کی وجہ سے پاکستان ہمیشہ زیر بار رہا ہے، سعودی عرب کے پاس پیٹرو ڈالر ہے ۔حتیٰ کہ صدر ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ سعودی عرب تیل کی زیادہ پیداوار سے قیمتوں کو کم رکھے ہوئے ہے اور سعودیوں نے امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو100 بلین ڈالرکے آرڈرز دیے ہوئے ہیں۔
تاہم محمد بن سلمان کے حالیہ دورے سے سب سے زیادہ فائدہ سعودی جیلوں میں قید 2,107 پاکستانیوں کو ہوا جنھیں سعودی عرب عمران خان کی عاجزانہ درخواست پر رہا کر رہا ہے۔ سعودی ولی عہد نے بھی بہت تیزی سے کام کیا اور اگلی ہی صبح پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری ہونے لگے ۔کیا ہم خوش قسمت نہیں ہیں کہ سعودی عرب جمہوری ملک نہیں ہے، جہاں عدلیہ اور پارلیمنٹ سے غیر ملکی قیدیوں کی رہائی کی منظوری درکار ہوتی بلکہ یہ ایک سلطنت ہے جہاں بادشاہ اور ولی عہد کی حکومت ہے ؟