او آئی سی کا پاکستان سے ’’حسن سلوک‘‘

یہ تنظیم بخوبی جانتی ہے کہ بھارت نے پاکستانی فضائی حدودکی خلاف ورزی کی ہے اورپاکستانی علاقے پرباقاعدہ حملہ بھی کیا ہے۔


Tanveer Qaisar Shahid March 01, 2019
[email protected]

تقریباً پانچ درجن اسلامی ممالک کی متفقہ تنظیم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان سے وفاکی ہے؟ عالمی اسلامی برادری کے ایک معروف اور مشہور رکن ، پاکستان ، کے خلاف ایک غیر مسلم ملک نے جارحیت کا ارتکاب کیا ہے اور ''اسلامی تعاون تنظیم'' نے اِسی جارح بھارت کو اپنے اہم ترین اجلاس سے خطاب کرنے کی دعوت دے ڈالی ہے ۔ حالانکہ بھارت تومسلمان ممالک کی اِس تنظیم کا رکنِ رکین بھی نہیں ہے ۔

یہ تنظیم بخوبی جانتی ہے کہ بھارت نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستانی علاقے پرباقاعدہ حملہ بھی کیا ہے لیکن اِس زیادتی کے باوجود بھارت کو دی گئی دعوت منسوخ نہیںکی جارہی ؛ چنانچہ یہ دعوت دینے والوں کے خلاف پاکستان اور پاکستانی عوام کا اجتماعی احتجاج تو بنتا ہے۔

ہمارے وزیر خارجہ، شاہ محمود قریشی، نے وطنِ عزیز کی سینئر قیادت کے مشورے سے بجا طور پر، درست فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس تنظیم کے اہم ترین اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے ۔ بھارت وہاں بیٹھے گا تو پاکستان وہاں نہیں بیٹھے گا۔ ہر گز نہیں !!پاک بھارت سخت کشیدگی کے اس ماحول میں پاکستان کو اگرچہ اپنے عالمی دوستوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے باوصف پاکستان نے اس اجلاس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کرکے دراصل قومی حمیت کا اقدام کیا ہے ۔

کوئی پچاس سال پہلے اسلامی ممالک نے مل کر فیصلہ کیا تھا کہ اُن کی بھی اپنی ایک متفقہ اور طاقتور آرگنائزیشن یا تنظیم ہونی چاہیے؛ چنانچہ Organisation Of Islamic Cooperation(او آئی سی)کے نام سے ایک ادارہ معرضِ عمل میں لایا گیا ۔ قیام کا مقصدِ وحید یہ تھا کہ جب بھی عالمِ اسلام کاکوئی چھوٹا یا بڑا ملک کسی بڑے بحران کی زَد میں آئے تو سب اسلامی رکن ممالک مل کر اُس کی اعانت کریں گے اور اُسے بحران اور بھنور سے نکال لے جائیں گے ۔ اسے عالمِ اسلام کی اجتماعی اور متفقہ آواز کہا گیا تھا۔ اِسی پس منظر میں او آئی سی کا ماٹو اِن الفاظ میںمنتخب کیا گیا: To safeguard the interests and ensure the progress and well being of Muslimsپاکستان او آئی سی کا بانی رکن ہے۔

اُس وقت بھی بھارت نے چالاکی سے اس کی رکنیت حاصل کرنا چاہی تھی، یہ کہہ کر کہ بھارت میں پاکستان سے بھی زیادہ مسلمان آباد ہیں، اس لیے بھارت او آئی سی کارکن بن سکتا ہے۔ کئی مسلمان ممالک بھارت کو رکنیت دینے پر تیار بھی ہو گئے تھے لیکن جنرل صدر یحییٰ خان نے جرأت دکھائی اور او آئی سی کے ایک اجلاس سے پہلے منتظمین کو وارننگ دی تھی کہ اگر بھارت یہاں بیٹھے گا تو پاکستان یہاں سے اُٹھ جائے گا۔یوں انڈیا کا خواب ادھورارہ گیا۔ بھارت نے مگر اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ مئی2017ء میں بنگلہ دیش کی حسینہ واجد نے او آئی سی کے طاقتور ارکان سے پُرزور مطالبہ کیا تھا کہ بھارت کو اگر رکن نہیں بنانا تو نہ بنائیں لیکن اسے ''آبزروَر'' تو بنا یا جانا چاہیے ۔ یوں او آئی سی میں بھارت کو اپنی ناک آگے کرنے کا ایک موقع فراہم کر دیا گیا ۔

اب یکم اور دو مارچ2019ء کو ابوظہبی میں او آئی سی کا اجلاس منعقد کیا جارہا ہے ۔ بہانہ یہ ہے کہ او آئی سی کی پچاسویں سالگرہ منائی جائے ۔ یوں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اہم ترین اجلاس بھی ابو ظہبی میں ہی بلا لیا گیا ہے ۔ پاکستان تو رکن ہونے کے ناتے از خود مدعو تھا ہی ، لیکن پاکستان اور اہلِ پاکستان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے جب متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بھی دعوت دی گئی ہے ۔

انھیں ابو ظہبی کے وزیر خارجہ ، شیخ عبداللہ، کی طرف سے بطورِ ''گیسٹ آف آنر'' بلایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ موصوفہ اسلامی ممالک کے جملہ وزرائے خارجہ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب فرمائیں گی ۔انھیں یہ دعوت اُس وقت دی گئی تھی کہ جب ابھی بھارتی جنگی طیاروں نے پاکستان کے علاقے ''بالا کوٹ'' پر حملہ نہیں کیا تھا۔ ظاہر ہے اب حالات مزید کشیدہ ہُوئے ہیں ۔ او آئی سی کے ایک رکن ملک کے خلاف بھارت نے جارحیت کا مجرمانہ ارتکاب کیا ہے؛ چنانچہ او آئی سی کے کرتا دھرتا اور سیکریٹری جنرل، ڈاکٹر یوسف العثیمین، پر لازم تھا کہ وہ ازخود سشما سوراج کی دعوت منسوخ کر دیتے یا ڈپلومیٹک انداز میں معذرت کر لی جاتی۔

یہ قدم شیخ عبداللہ کو بھی اُٹھانا چاہیے تھا کہ اسلامی اخوت اور حمیت کا یہی تقاضا تھا ۔ ایسا مگر نہ ہو سکا ؛چنانچہ پاکستانی وزیر خارجہ نے صحیح فیصلہ کیا ہے کہ وہ او آئی سی کے مذکورہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے شاہ محمود قریشی صاحب نے خود بھی او آئی سی کے ذمے داران اور میزبانوں سے بات چیت کی ، انھیں بھارت بارے پاکستانی تحفظات سے آگاہ بھی کیا ، لیکن لگتا ہے بھارتی محبت میں او آئی سی کے سیکریٹری جنرل اور ابوظہبی کے حکام نے پاکستان کی درخواست کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ ایسے میں پاکستان کو وہی قدم اُٹھانا چاہیے تھا جو اس نے اُٹھایا ہے ۔خاص طور پر موجودہ حالات میں تو او آئی سی کے کسی بھی اجلاس میں بھارتی وجود قابلِ برداشت نہیں ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو او آئی سی میں عین اُس وقت دعوت دی گئی ہے جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتیوں کے مظالم انتہا کو پہنچ رہے ہیں ۔ جب بھارت او آئی سی کے ایک معزز اور نمایاں ترین ملک کے خلاف جارحیت کر چکا ہے ۔ اگر پاکستان پر بھارتی حملہ نہ ہُوا ہوتا تو شائد پاکستان اس دعوت پر معترض بھی نہ ہوتا۔ اِسی لیے تو کہا جارہا تھا کہ ممکن ہے او آئی سی کے اس اجلاس میں پاک بھارت وزرائے خارجہ کا مصافحہ بھی ہو جائے ۔ لیکن اب حالات مختلف اور سنگین ہیں۔اگرچہ جدہ میں ہونے والے او آئی سی کے ایک حالیہ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ بھارت کشمیریوں پر فوجی کارروائیاں فوری بند کرے لیکن بھارت نے او آئی سی کے اس مطالبے کو بھی مسترد کردیا ہے ۔

کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ او آئی سی میں بھارت کو مدعو کرکے پاکستان کی توہین کی گئی ہے ؟ بھارت مگر بہت خوش اور مطمئن ہے ۔ بھارت اِس دعوت کو Rare Moveکہہ رہا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ بڑھ بڑھ کر متحدہ عرب امارات اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کی تعریفیں کررہی ہے ۔ بھارت اِس دعوت کو اپنی بڑی سفارتی فتح قرار دے رہا ہے ۔ متحدہ عرب امارات میں بھارتی سفیر، نودیپ سُوری، نے خصوصاً عرب حکمرانوں کا غیر معمولی الفاظ میں شکریہ ادا کیا ہے ۔

کیا یہ امر محض اتفاقی ہے کہ بھارت کو اوآئی سی میںاسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی اس کانفرنس میں عین اُسوقت دعوت دی گئی ہے جب حال ہی میں سعودی ولی عہد اور سعودی وزیر خارجہ نے بھارت کا دَورہ کیا تھا؟ایک عرب برادر ملک کے معروف انگریزی اخبارنے لکھا ہے کہ او آئی سی کے مذکورہ اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ کو بلایا جانا پاکستان کے لیے ''ایک بڑی پسپائی'' ہے ۔

اِسی عرب اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک معروف عرب ملک میں متعین سابق بھارتی سفیر، تلمیذ احمد، نے کہا ہے :'' یہ دعوت بھارتی قیادت کی سفارتی فتح ہے ۔ پاکستان او آئی سی کو بھارت کے خلاف غلط طور پر استعمال (مِس یوز) کرتا رہا ہے ۔او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بھارت کے خلاف پاکستان کی قرار دادیں ہمیشہ زہریلی ہُوا کرتی تھیں۔ اب مگر ایسا نہیں ہو سکے گا۔''

سچی بات یہ ہے کہ ہمیں یہ الفاظ اچھے نہیں لگے ۔ ایک ذمے دار مسلمان ملک کے ذمے دار اخبار کو پاکستان کے بارے میںیہ الفاظ شایع نہیں کرنے چاہئیں تھے ۔ پاکستانیوں کے دل دُکھے ہیں ۔حکم ہے کہ مسلمان اللہ کی رسّی کو متحد ہو کر تھام لیں۔ کیا او آئی سی نے یہ رسّی تھام رکھی ہے؟ کیا اسلامی اخوت پر ذاتی اور گروہی مفادات غالب نہیں آگئے؟ کیا پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کے اس موقعے پر او آئی سی کو یہ رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں