گاندھی کی سوچ
انتہا پسندوں کے غلبے میں پاک بھارت دوستی کامیاب نہیں ہوسکتی
تمام انسان برابر نہیں ہوتے، انسان کا کردار اسے عظیم بناتا ہے۔ بعض اوقات انسانی کردار کا کوئی واقعہ امر ہوجاتا ہے اور اس کے لیے اچھائی یا برائی کا نشان بن جاتا ہے۔ ایسے ہی دو کرداروں کا تعلق بھارت سے ہے، ایک گاندھی جی اور دوسرا نتھو رام گوڈ۔ گاندھی جی نے تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے حصّے کی دولت پاکستان کے حوالے نہ کرنے پر احتجاج کیا اور اپنی بات منوانے کے لیے تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کردی اور متعصب ہندوئوں کو مجبور کردیا کہ وہ پاکستان کی دولت پر ناجائز قبضہ نہ کریں۔ سیکولر سوچ کے حامی ہندو گاندھی جی کے اس واقعے کو فخر سے بیان کرتے ہیں۔
دوسری جانب ایک تعصب پرست ہندو نتھو رام گوڈ کو گاندھی جی کا یہ اندازِ سوچ پسند نہ آیا اور اس نے گاندھی جی کا قتل کرکے یہ ثابت کردیا کہ قائدِاعظم یا مسلمانوں نے ہندوئوں کی جس سوچ کا اندازہ لگایا تھا وہ اس سے بھی زیادہ شدّت پسند ہیں اور مسلمانوں کو علیحدہ وطن کا حق نہیں ہے۔ نتھو رام کی متعصب سوچ کس قدر گہری تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ نتھو رام نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد اس کی لاش جلا کر راکھ دریائے گنگا میں نہ بہائی جائے بلکہ اس وقت کا انتظار کیا جائے کہ جب پاکستان کا وجود ختم ہو اور بھارت پھر سے متحدہ بھارت بن جائے یعنی پاکستان واپس بھارت میں ضم ہوجائے اور جب ایسا ہوجائے تو پھر دریائے سندھ میں اس کی راکھ بہا دی جائے۔
اس کے ہمنوا آج بھی اس کی برسی کے موقعے پر اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ کب اس خواب کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ اس بات کا ذکر Larry Collins اور Dominique نے اپنی کتاب Freedom at Midnight میں بھی کیا ہے۔
کچھ لوگ یقیناً گاندھی جی کے بارے میں (مسلمانوں کے حوالے سے) زیادہ اچھی رائے نہیں رکھتے ہوں گے اور یقیناً ان کے پاس حالات، واقعات کے حوالے اور دلائل بھی ہوں گے لیکن بہرحال گاندھی کا پاکستان کے حق میں بھوک ہڑتال کرنا انھیں نتھو رام جیسے گروہ سے تعلق رکھنے والے ہندوئوں سے ممتاز کرتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بھارت میں آج بھی ہندوئوں میں اس طرح کے دو طبقے یا گروہ ملتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کچھ انتہا پسند قسم کے لوگ ہوں گے، تاہم ان کی تعداد بھارت کے مقابلے میں انتہائی قلیل ہوگی اور انھیں عوام کی ایک فیصد بھی حمایت حاصل نہ ہوگی (جیسا کہ پاکستان میں آج تک ہونے والے انتخابی نتائج اس کا ثبوت ہیں) جب کہ بھارت میں معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک نے کس طرح محنت سے ترقی کی منازل طے کیں اور کررہا ہے جب کہ پاکستان کس طرح مخالف سمت میں سفر کررہا ہے۔ اتنی ترقی کرنے کے باوجود بھارت کا امریکا و یورپی ممالک کے برابر نہ آنے کی وجہ بھارتی معاشرے کی برائیاں ہیں، جس میں سے ایک تعصب بھی ہے۔ پاک بھارت دوستی کی کوششوں کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹیں پاکستان سے زیادہ بھارت کی جانب سے ہیں۔ بھارتی میڈیا اس مہم کو اتنی کوریج نہیں دے رہا جتنا کہ پاکستانی میڈیا کوریج دے رہا ہے۔ پاکستانی چینلز بھارتی ٹی وی چینلز کے مقابلے میں بھارتی پروگراموں کو زیادہ وقت دے رہے ہیں۔
پاکستان میں لبرل سوچ کے حامل افراد اور ادارے اچھے پاک بھارت تعلقات کے لیے کوششیں کرتے رہتے ہیں بلکہ دیگر اعتدال پسند جماعتیں بھی کوششیں کرتی رہتی ہیں جیسا کہ خود نواز شریف کے سابقہ حکومتی دور میں پاک بھارت بس سروس شروع کرنے کے لیے کوششیں کی گئیں لیکن بھارت کی پالیسی پر حاوی قوتیں وہ ماحول اور حالات پیدا کرتی ہیں کہ کوششیں کرنے والوں کو عوامی سطح پر جواب دینا مشکل ہوجاتا ہے، مثلاً بے نظیر بھٹو کا بھارتی پنجاب کی علیحدگی پسند تحریک کو کچلنے میں جو کردار تھا، اس کی تعریف خود بھارتی رائے عامہ آج بھی تسلیم کرتی ہے۔ مگر آج ہم دیکھیں کہ افغانستان میں بھارتی سرگرمیاں اور بلوچستان میں ان کا کردار کیا کہہ رہا ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے اور ہوتا رہا ہے، جس کی گواہ خود بھارت کی عدالتوں کے بعض فیصلے بھی ہیں، پھر حال ہی میں برما میں مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم پر احتجاج کے لیے بھارتی مسلمانوں نے ریلی نکالی تو پولیس نے فائرنگ کردی جس سے کئی مسلمان ہلاک ہوگئے۔ دوسری طرف بھارتی کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اپنے وزیراعظم کو خط لکھ کر سندھ میں ہندو خاندانوں کے مسئلے پر بات کرنے پر مجبور کرتی ہیں اور اعتراض کرتی ہیں کہ پاکستان نے بھارت آنے والے ہندوئوں کو روک کر تحقیقات کیوں کی؟
(واضح رہے کہ ایک طبقے کا خیال ہے کہ ان خاندانوں کی بھارت ہجرت درحقیقت ایک سازش ہے، ماضی کے واقعات کو سامنے رکھا جائے تو یہ خیال غلط نہیں تاہم سازش ہو تب بھی یہ ہماری ذمے داری ہے کہ کسی قیمت پر بھی ایسے حالات و واقعات کو روکا جائے اور اس سوال پر بھی غور کیا جائے کہ جب انھوں نے تقسیم کے وقت ہجرت نہیں کی تو آج ایسا کیوں ہے؟ بلاشبہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ رویہ آج بھی جاری ہے تاہم ہمیں اپنی ذمے داری ضرور ادا کرنی چاہیے)۔
درحقیقت نتھو رام ہو یا بھارتی کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کی سوچ، ایسے تمام عناصر مل کر مسلمانوں کو اس بات کا احساس دِلاتے ہیں کہ انھوں نے علیحدہ وطن لینے کا نہ صرف درست فیصلہ کیا بلکہ یہ بھی کہ انھیں اپنے وجود کے لیے دوستی نہیں بلکہ بھارت سے مقابلے کے لیے تیاری کرنا ہوگی۔
موجودہ دور میں میڈیا خاص کر ٹی وی چینلز کا کردار نہایت اہم ہے اور یہ رائے عامہ کو ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں کیا جارہا ہے۔ انتہا پسندوں کے غلبے میں پاک بھارت دوستی کامیاب نہیں ہوسکتی، اچھی سوچ کے حامل افراد کے غلبے اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے دونوں اطراف کے میڈیا خصوصاً بھارتی میڈیا کو اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ جب بھارتی میڈیا گاندھی کی سوچ پر عملی قدم رکھے گا، تب پاک بھارت دوستی صحیح معنوں میں پروان چڑھ سکے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر این ڈی خان جیسے دانشور بھی (کچھ عرصے قبل پاک بھارت کی ایک تقریب میں) اس بات پر سخت افسوس کا اظہار کرچکے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے بھرپور تعاون خاص کر بے نظیر بھٹو دورِ حکومت میں بھرپور تعاون کے باوجود بھارت کی جانب سے مثبت اور عملی تعاون نہیں آیا۔ بھارت کی جانب سے دوستی کے مثبت رویے اپنانے کے لیے بھارتی میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے اگر وہ کرنا چاہے تو۔ بس اسی صورت ہمارا ترقی کرتا دشمن، ترقی کرتا دوست بن سکتا ہے۔
دوسری جانب ایک تعصب پرست ہندو نتھو رام گوڈ کو گاندھی جی کا یہ اندازِ سوچ پسند نہ آیا اور اس نے گاندھی جی کا قتل کرکے یہ ثابت کردیا کہ قائدِاعظم یا مسلمانوں نے ہندوئوں کی جس سوچ کا اندازہ لگایا تھا وہ اس سے بھی زیادہ شدّت پسند ہیں اور مسلمانوں کو علیحدہ وطن کا حق نہیں ہے۔ نتھو رام کی متعصب سوچ کس قدر گہری تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ نتھو رام نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد اس کی لاش جلا کر راکھ دریائے گنگا میں نہ بہائی جائے بلکہ اس وقت کا انتظار کیا جائے کہ جب پاکستان کا وجود ختم ہو اور بھارت پھر سے متحدہ بھارت بن جائے یعنی پاکستان واپس بھارت میں ضم ہوجائے اور جب ایسا ہوجائے تو پھر دریائے سندھ میں اس کی راکھ بہا دی جائے۔
اس کے ہمنوا آج بھی اس کی برسی کے موقعے پر اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ کب اس خواب کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ اس بات کا ذکر Larry Collins اور Dominique نے اپنی کتاب Freedom at Midnight میں بھی کیا ہے۔
کچھ لوگ یقیناً گاندھی جی کے بارے میں (مسلمانوں کے حوالے سے) زیادہ اچھی رائے نہیں رکھتے ہوں گے اور یقیناً ان کے پاس حالات، واقعات کے حوالے اور دلائل بھی ہوں گے لیکن بہرحال گاندھی کا پاکستان کے حق میں بھوک ہڑتال کرنا انھیں نتھو رام جیسے گروہ سے تعلق رکھنے والے ہندوئوں سے ممتاز کرتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بھارت میں آج بھی ہندوئوں میں اس طرح کے دو طبقے یا گروہ ملتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کچھ انتہا پسند قسم کے لوگ ہوں گے، تاہم ان کی تعداد بھارت کے مقابلے میں انتہائی قلیل ہوگی اور انھیں عوام کی ایک فیصد بھی حمایت حاصل نہ ہوگی (جیسا کہ پاکستان میں آج تک ہونے والے انتخابی نتائج اس کا ثبوت ہیں) جب کہ بھارت میں معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک نے کس طرح محنت سے ترقی کی منازل طے کیں اور کررہا ہے جب کہ پاکستان کس طرح مخالف سمت میں سفر کررہا ہے۔ اتنی ترقی کرنے کے باوجود بھارت کا امریکا و یورپی ممالک کے برابر نہ آنے کی وجہ بھارتی معاشرے کی برائیاں ہیں، جس میں سے ایک تعصب بھی ہے۔ پاک بھارت دوستی کی کوششوں کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹیں پاکستان سے زیادہ بھارت کی جانب سے ہیں۔ بھارتی میڈیا اس مہم کو اتنی کوریج نہیں دے رہا جتنا کہ پاکستانی میڈیا کوریج دے رہا ہے۔ پاکستانی چینلز بھارتی ٹی وی چینلز کے مقابلے میں بھارتی پروگراموں کو زیادہ وقت دے رہے ہیں۔
پاکستان میں لبرل سوچ کے حامل افراد اور ادارے اچھے پاک بھارت تعلقات کے لیے کوششیں کرتے رہتے ہیں بلکہ دیگر اعتدال پسند جماعتیں بھی کوششیں کرتی رہتی ہیں جیسا کہ خود نواز شریف کے سابقہ حکومتی دور میں پاک بھارت بس سروس شروع کرنے کے لیے کوششیں کی گئیں لیکن بھارت کی پالیسی پر حاوی قوتیں وہ ماحول اور حالات پیدا کرتی ہیں کہ کوششیں کرنے والوں کو عوامی سطح پر جواب دینا مشکل ہوجاتا ہے، مثلاً بے نظیر بھٹو کا بھارتی پنجاب کی علیحدگی پسند تحریک کو کچلنے میں جو کردار تھا، اس کی تعریف خود بھارتی رائے عامہ آج بھی تسلیم کرتی ہے۔ مگر آج ہم دیکھیں کہ افغانستان میں بھارتی سرگرمیاں اور بلوچستان میں ان کا کردار کیا کہہ رہا ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے اور ہوتا رہا ہے، جس کی گواہ خود بھارت کی عدالتوں کے بعض فیصلے بھی ہیں، پھر حال ہی میں برما میں مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم پر احتجاج کے لیے بھارتی مسلمانوں نے ریلی نکالی تو پولیس نے فائرنگ کردی جس سے کئی مسلمان ہلاک ہوگئے۔ دوسری طرف بھارتی کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اپنے وزیراعظم کو خط لکھ کر سندھ میں ہندو خاندانوں کے مسئلے پر بات کرنے پر مجبور کرتی ہیں اور اعتراض کرتی ہیں کہ پاکستان نے بھارت آنے والے ہندوئوں کو روک کر تحقیقات کیوں کی؟
(واضح رہے کہ ایک طبقے کا خیال ہے کہ ان خاندانوں کی بھارت ہجرت درحقیقت ایک سازش ہے، ماضی کے واقعات کو سامنے رکھا جائے تو یہ خیال غلط نہیں تاہم سازش ہو تب بھی یہ ہماری ذمے داری ہے کہ کسی قیمت پر بھی ایسے حالات و واقعات کو روکا جائے اور اس سوال پر بھی غور کیا جائے کہ جب انھوں نے تقسیم کے وقت ہجرت نہیں کی تو آج ایسا کیوں ہے؟ بلاشبہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ رویہ آج بھی جاری ہے تاہم ہمیں اپنی ذمے داری ضرور ادا کرنی چاہیے)۔
درحقیقت نتھو رام ہو یا بھارتی کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کی سوچ، ایسے تمام عناصر مل کر مسلمانوں کو اس بات کا احساس دِلاتے ہیں کہ انھوں نے علیحدہ وطن لینے کا نہ صرف درست فیصلہ کیا بلکہ یہ بھی کہ انھیں اپنے وجود کے لیے دوستی نہیں بلکہ بھارت سے مقابلے کے لیے تیاری کرنا ہوگی۔
موجودہ دور میں میڈیا خاص کر ٹی وی چینلز کا کردار نہایت اہم ہے اور یہ رائے عامہ کو ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں کیا جارہا ہے۔ انتہا پسندوں کے غلبے میں پاک بھارت دوستی کامیاب نہیں ہوسکتی، اچھی سوچ کے حامل افراد کے غلبے اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے دونوں اطراف کے میڈیا خصوصاً بھارتی میڈیا کو اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ جب بھارتی میڈیا گاندھی کی سوچ پر عملی قدم رکھے گا، تب پاک بھارت دوستی صحیح معنوں میں پروان چڑھ سکے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر این ڈی خان جیسے دانشور بھی (کچھ عرصے قبل پاک بھارت کی ایک تقریب میں) اس بات پر سخت افسوس کا اظہار کرچکے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے بھرپور تعاون خاص کر بے نظیر بھٹو دورِ حکومت میں بھرپور تعاون کے باوجود بھارت کی جانب سے مثبت اور عملی تعاون نہیں آیا۔ بھارت کی جانب سے دوستی کے مثبت رویے اپنانے کے لیے بھارتی میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے اگر وہ کرنا چاہے تو۔ بس اسی صورت ہمارا ترقی کرتا دشمن، ترقی کرتا دوست بن سکتا ہے۔