انٹر بورڈ میں خلاف ضابطہ اسکروٹنی اور نمبر بڑھانے کا انکشاف
محکمہ اینٹی کرپشن امتحانی کاپی کی دوبارہ جانچ پرچیئرمین انٹربورڈ پروفیسرانعام احمدسے وضاحت طلب کرے گا۔
صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن انٹر بورڈ کراچی سے امتحانی کاپیوں کے حاصل کردہ ریکارڈ کی چھان بین کے بعد اسکروٹنی کے نام پر کاپیوں کی ''ری اسسمنٹ''کاسراغ لگانے میں کامیاب ہوگیا ہے اور امتحانی کاپی کی دوبارہ جانچ چیئرمین انٹربورڈ پروفیسرانعام احمدکی منظوری سے کیے جانے کامعاملہ سامنے آیاہے۔
''ایکسپریس'' کو محکمہ اینٹی کرپشن اورانٹربورڈ کراچی کے 2مختلف ذرائع سے معلوم ہواہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن ریکارڈکی چھان بین کے دوران ایک ایسی کاپی تک جاپہنچا جس میں کمپیوٹرسائنس کی ایک طالبہ کا نتیجہ کاپی کی دوبارہ جانچ ''ری اسسمنٹ'' کے بعد تبدیل کیاگیابظاہریہ نتیجہ اسکروٹنی کے نام پر تبدیل کیا گیا جس میں ری اسسمنٹ کی گنجائش ہی نہیں ہوتی تاہم اس کے باوجود انٹرکمپیوٹرسائنس کے اردوکے مضمون کی کاپی کے2سوالات کی دوبارہ جانچ کے بعد حاصل کردہ مارکس تبدیل کرتے ہوئے اس میں مزیداضافہ کیاگیا۔
اینٹی کرپشن کے ذرائع سے حاصل دستاویزکے مطابق اس سلسلے میں 15 نومبر 2018 کو ایک نوٹ اسسٹنٹ کنٹرولر آف ایکزامینیشن اعجاز حسین کی جانب سے ڈپٹی کنٹرولر آف ایگزامنیشن اور کنٹرولرآف ایگزامنیشن کی معرفت چیئرمین انٹربورڈ کوپیش کیاگیا جس کے ساتھ اسکروٹنی کو بنیاد بناتے ہوئے بعض سوالات کی ازسرنوجانچ کے بعد رول نمبر 76938 اور 3038کوڈنمبرکی حامل امتحانی کاپی بھی منسلک کی گئی اس نوٹ میں سفارش کی گئی کہ انٹرسال دوم سالانہ امتحانات 2018 کے نتائج 25ستمبر2018کوجاری کیے گئے تھے اوراس سلسلے میں اسکروٹنی کی مدت 3 اکتوبر سے 2 نومبر 2018 تک مقررکی گئی اوراس دورانیے میں امیدوار کی جانب سے اسکروٹنی کی موصولہ درخواست کے بعد کیس اسکروٹنی کے لیے پیش کیاگیا اوردوران اسکروٹنی متعین اسکروٹنی آفیسرکی جانب سے جانچ پڑتال میں کچھ تضادات کی نشاندہی کی گئی ہے جس کی بنیادپراس اسکرپٹ کانتیجہ تبدیل کیا جارہا ہے اور''ریفرٹوہیڈ ایگزامنر''کی بنیادپرسوال نمبر3اورسوال نمبر8میں مارکس کی تبدیلی کے بعد طالبہ کے حاصل کردہ نمبر 26سے بڑھاکر30کیے جا رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایاکہ اسکروٹنی کے سلسلے میں پہلے ایک ایگزامنرکی تقرری کی گئی جس نے کاپی کاجائزہ لے کر ''نوچینج''کی رپورٹ پیش کی جب متعلقہ استاد سے کچھ سوالات کی 'ری چیکنگ' کی سفارش کی گئی توان کی جانب سے انکارکردیاگیاجس کے بعد کراچی کے نجی کالج کے ایک ٹیچرکاتقررکرکے یہ اسکروٹنی ان کے حوالے کی گئی جوخلاف ضابطہ طورپرسوالات کی 'ری اسسمنٹ'کے لیے تیارہوگئے اور سوال نمبر3میں دیے گئے4مارکس کوکاٹ کر 6 کیا گیا اور اسی طرح سوال نمبر8میں حاصل کردہ 3مارکس کوکاٹ کر 5 کیا گیاجس کے ساتھ ایگزامنرنے باقاعدہ اپنے دستخط بھی کر ڈالے جس کے بعد طالبہ کے حاصل کردہ نمبردوبارہ جانچ کے بعد 26سے بڑھ کر30ہوگئے اورکمپیوٹرمیں فیڈ پروگرام کے تحت اسے 3''گریس مارکس'' دے کر33نمبرسے پاس کر دیاگیا۔
واضح رہے کہ تعلیمی بورڈمیں اسکروٹنی کے مروجہ قانون کی روسے کسی بھی طالب علم کانتیجہ محض اس وقت تبدیل کیاجاسکتاہے جب کوئی سوال اسسمنٹ سے رہ جائے یاجوابی کاپی میں دیے گئے مارکس کوٹوٹل کرتے ہوئے کوئی سوال ''ٹوٹلنگ'' سے بچ جائے صرف اسی صورت میں غیرجانچ شدہ سوال کی جانچ یاٹوٹلنگ سے رہ جانے والے سوال کے مارکس ٹوٹل مارکس میں شامل کیے جاتے ہیں تاہم کسی بھی صورت کسی جانچ شدہ سوال کی دوبارہ جانچ ممکن نہیں تاہم اب مذکورہ کیس میں اردوکی کاپی میں 2مختلف سوالات کی دوبارہ جانچ کرکے نتیجہ تبدیل کرنے اورفیل طالبہ کوپاس کرنے کامعاملہ سامنے آیاہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس معاملے پراینٹی کرپشن حکام اپنی رپورٹ تیار کر کے متعلقہ صوبائی وزیرکو بھجوارہے ہیں۔
''ایکسپریس'' کو محکمہ اینٹی کرپشن اورانٹربورڈ کراچی کے 2مختلف ذرائع سے معلوم ہواہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن ریکارڈکی چھان بین کے دوران ایک ایسی کاپی تک جاپہنچا جس میں کمپیوٹرسائنس کی ایک طالبہ کا نتیجہ کاپی کی دوبارہ جانچ ''ری اسسمنٹ'' کے بعد تبدیل کیاگیابظاہریہ نتیجہ اسکروٹنی کے نام پر تبدیل کیا گیا جس میں ری اسسمنٹ کی گنجائش ہی نہیں ہوتی تاہم اس کے باوجود انٹرکمپیوٹرسائنس کے اردوکے مضمون کی کاپی کے2سوالات کی دوبارہ جانچ کے بعد حاصل کردہ مارکس تبدیل کرتے ہوئے اس میں مزیداضافہ کیاگیا۔
اینٹی کرپشن کے ذرائع سے حاصل دستاویزکے مطابق اس سلسلے میں 15 نومبر 2018 کو ایک نوٹ اسسٹنٹ کنٹرولر آف ایکزامینیشن اعجاز حسین کی جانب سے ڈپٹی کنٹرولر آف ایگزامنیشن اور کنٹرولرآف ایگزامنیشن کی معرفت چیئرمین انٹربورڈ کوپیش کیاگیا جس کے ساتھ اسکروٹنی کو بنیاد بناتے ہوئے بعض سوالات کی ازسرنوجانچ کے بعد رول نمبر 76938 اور 3038کوڈنمبرکی حامل امتحانی کاپی بھی منسلک کی گئی اس نوٹ میں سفارش کی گئی کہ انٹرسال دوم سالانہ امتحانات 2018 کے نتائج 25ستمبر2018کوجاری کیے گئے تھے اوراس سلسلے میں اسکروٹنی کی مدت 3 اکتوبر سے 2 نومبر 2018 تک مقررکی گئی اوراس دورانیے میں امیدوار کی جانب سے اسکروٹنی کی موصولہ درخواست کے بعد کیس اسکروٹنی کے لیے پیش کیاگیا اوردوران اسکروٹنی متعین اسکروٹنی آفیسرکی جانب سے جانچ پڑتال میں کچھ تضادات کی نشاندہی کی گئی ہے جس کی بنیادپراس اسکرپٹ کانتیجہ تبدیل کیا جارہا ہے اور''ریفرٹوہیڈ ایگزامنر''کی بنیادپرسوال نمبر3اورسوال نمبر8میں مارکس کی تبدیلی کے بعد طالبہ کے حاصل کردہ نمبر 26سے بڑھاکر30کیے جا رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایاکہ اسکروٹنی کے سلسلے میں پہلے ایک ایگزامنرکی تقرری کی گئی جس نے کاپی کاجائزہ لے کر ''نوچینج''کی رپورٹ پیش کی جب متعلقہ استاد سے کچھ سوالات کی 'ری چیکنگ' کی سفارش کی گئی توان کی جانب سے انکارکردیاگیاجس کے بعد کراچی کے نجی کالج کے ایک ٹیچرکاتقررکرکے یہ اسکروٹنی ان کے حوالے کی گئی جوخلاف ضابطہ طورپرسوالات کی 'ری اسسمنٹ'کے لیے تیارہوگئے اور سوال نمبر3میں دیے گئے4مارکس کوکاٹ کر 6 کیا گیا اور اسی طرح سوال نمبر8میں حاصل کردہ 3مارکس کوکاٹ کر 5 کیا گیاجس کے ساتھ ایگزامنرنے باقاعدہ اپنے دستخط بھی کر ڈالے جس کے بعد طالبہ کے حاصل کردہ نمبردوبارہ جانچ کے بعد 26سے بڑھ کر30ہوگئے اورکمپیوٹرمیں فیڈ پروگرام کے تحت اسے 3''گریس مارکس'' دے کر33نمبرسے پاس کر دیاگیا۔
واضح رہے کہ تعلیمی بورڈمیں اسکروٹنی کے مروجہ قانون کی روسے کسی بھی طالب علم کانتیجہ محض اس وقت تبدیل کیاجاسکتاہے جب کوئی سوال اسسمنٹ سے رہ جائے یاجوابی کاپی میں دیے گئے مارکس کوٹوٹل کرتے ہوئے کوئی سوال ''ٹوٹلنگ'' سے بچ جائے صرف اسی صورت میں غیرجانچ شدہ سوال کی جانچ یاٹوٹلنگ سے رہ جانے والے سوال کے مارکس ٹوٹل مارکس میں شامل کیے جاتے ہیں تاہم کسی بھی صورت کسی جانچ شدہ سوال کی دوبارہ جانچ ممکن نہیں تاہم اب مذکورہ کیس میں اردوکی کاپی میں 2مختلف سوالات کی دوبارہ جانچ کرکے نتیجہ تبدیل کرنے اورفیل طالبہ کوپاس کرنے کامعاملہ سامنے آیاہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس معاملے پراینٹی کرپشن حکام اپنی رپورٹ تیار کر کے متعلقہ صوبائی وزیرکو بھجوارہے ہیں۔