تعمیرِ سیرت
رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’بلاشبہ میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور اسلام کی تعلیم کے مطابق عبادت محض نماز، روزہ اور حج وغیرہ کا نام نہیں بل کہ اسلام نے عبادت کے مفہوم کو نہایت وسیع معنوں میں لیا ہے۔
اسلام کے پیش نظر ایسے انسان تیار کرنا ہے جو بااخلاق ہوں اور صحیح معنوں میں خلیفۃاللہ بن کر زمین میں کام کریں اور اس کام کے صلے میں اللہ کا تقرب حاصل کریں۔ آپ ﷺ نے افراد کی تربیت کے لیے ان با توں کو سب سے زیادہ اہمیت دی اور انہیں کردار کی پختگی کے لیے لازم قرار دیا ہے۔
علم: علم کا حصول تخلیق انسانی کا ایک اہم جُز ہے۔ یہی وہ جو ہر ہے جس کی بنا پر انسان کو نوری مخلوق فرشتوں پر بھی فضیلت عطا ہوئی ہے۔ خیر و بھلائی کی طرف وہی شخص لپکتا اور اس کو قبول کرتا ہے جو علم و آگہی کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے اور جس کا ضمیر اپنے پروردگار کی عطا کردہ معرفت کی روشنی سے منور ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب علم ہوگا تو اس کو وہ بصیرت حاصل ہوگی جس سے وہ عبادت کی روح اور اس کے فوائد و حقیقت کو سمجھ سکے گا اور پھر اس کو عبادت کا حقیقی لطف بھی حاصل ہوگا۔
تزکیۂ نفوس: کسی بھی مثالی اور صحیح اسلامی تعلیمات کی حامل شخصیت کی تعمیر کے لیے تزکیۂ نفوس نہایت ضروری امر ہے۔ اس کے بغیر صحیح معنی میں مثالی شخصیت کی تعمیر ممکن نہیں۔ اسی لیے اسلام میں تزکیۂ نفوس پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم نے آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے کے جو مقاصد بیان فرمائے ہیں، ان میں سے ایک تزکیۂ نفوس بھی ہے۔ مفہوم: ''درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اُن کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالاں کہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گم راہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔''
تزکیے کے معنی طہارت کے ہیں۔ یعنی آپ ﷺ لوگوں کو ظاہری اور باطنی نجاستوں سے پاک کرتے ہیں۔ انسان کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ جس طرح شریعت ظاہر کے لیے ہے اسی طرح باطن کے لیے بھی ہے۔ جس طرح انسان کو بے شمار بیماریاں لاحق ہوتی ہیں اسی طرح اس کے قلب کے اندر بھی بے شمار بیماریاں ہیں۔ کفر و شرک، بغض و حسد، کینہ و تکبّر، حُبِ مال و جاہ وغیرہ۔ انسان کا دل اس کے جسم کا بادشاہ ہے اور تمام اعضاء کا سردار ہے۔ دل کی اصلاح اور پاکیزگی پر تمام جسم انسانی کی اصلاح کا مدار ہے اور اس لیے تزکیۂ نفس نہایت ضروری ہے۔افراد کی تر بیت کا انحصار ان کی اخلاقی حالت کی بہتری پر ہوتا ہے۔
اگر یہ پہلو کم زور رہ جا ئے تو آئندہ ترقی تو کجا، تنزلی کا امکان غالب رہتا ہے۔ اس لیے آپ ﷺ نے اس پہلو پر بھرپور توجہ مرکوز فرمائی۔ آپ ﷺ نے اپنی بعثت کا اولین مقصد ان الفاظ میں بیان فرمایا: ''بلاشبہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔'' آپ ﷺ ایسے بلند پایہ اخلاق کے حامل تھے کہ آپؐ کے جانیں دشمن بھی آپؐ کی متفقہ حیثیت ''الصادق و الامین'' پر حرف گیری کی جرات نہ کرسکے۔ آپؐ فرماتے تھے: '' تم میں بہتر وہ لو گ ہیں جو اپنے اخلاق میں سب سے اچھے ہوں۔''
صدق و امانت: فلاحی ریاست کی تشکیل کے لیے مطلوب افراد کی تربیت میں بھی صدق و امانت کی اہمیت تسلیم شدہ امر ہے۔ ایک مسلمان کے لیے ہر معاملے میں سچائی سے وابستہ رہنا اور تمام مسائل کو اسی زاویۂ نگاہ سے دیکھنا ازحد ضروری ہے۔ اس کے برعکس جھوٹ ایک بہت بڑی لعنت ہے۔ یہ ایسی بُرائی ہے جو جھوٹے شخص کے اندرونی فساد کی غماز ہے۔ اس لیے آپؐ نے صاف فرما دیا کہ مومن کا جھوٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ''مومن کے اندر تمام خرابیاں پائی جا سکتی ہیں، سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔''
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں، مفہوم: ''اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال درست کردے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا، جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کام یابی حاصل کی۔'' اللہ تعالی کو سچا اور کھرا عمل ہی مطلوب ہے، اس لیے کہ وہ اخلاص سے پُر ہوتا ہے۔ اگر انسان راست باز اور حق گو ہو تو وہ قطعا کسی فعل مذموم کی جانب راغب نہیں ہوگا۔
اسلام کے پیش نظر ایسے انسان تیار کرنا ہے جو بااخلاق ہوں اور صحیح معنوں میں خلیفۃاللہ بن کر زمین میں کام کریں اور اس کام کے صلے میں اللہ کا تقرب حاصل کریں۔ آپ ﷺ نے افراد کی تربیت کے لیے ان با توں کو سب سے زیادہ اہمیت دی اور انہیں کردار کی پختگی کے لیے لازم قرار دیا ہے۔
علم: علم کا حصول تخلیق انسانی کا ایک اہم جُز ہے۔ یہی وہ جو ہر ہے جس کی بنا پر انسان کو نوری مخلوق فرشتوں پر بھی فضیلت عطا ہوئی ہے۔ خیر و بھلائی کی طرف وہی شخص لپکتا اور اس کو قبول کرتا ہے جو علم و آگہی کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے اور جس کا ضمیر اپنے پروردگار کی عطا کردہ معرفت کی روشنی سے منور ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب علم ہوگا تو اس کو وہ بصیرت حاصل ہوگی جس سے وہ عبادت کی روح اور اس کے فوائد و حقیقت کو سمجھ سکے گا اور پھر اس کو عبادت کا حقیقی لطف بھی حاصل ہوگا۔
تزکیۂ نفوس: کسی بھی مثالی اور صحیح اسلامی تعلیمات کی حامل شخصیت کی تعمیر کے لیے تزکیۂ نفوس نہایت ضروری امر ہے۔ اس کے بغیر صحیح معنی میں مثالی شخصیت کی تعمیر ممکن نہیں۔ اسی لیے اسلام میں تزکیۂ نفوس پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم نے آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے کے جو مقاصد بیان فرمائے ہیں، ان میں سے ایک تزکیۂ نفوس بھی ہے۔ مفہوم: ''درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اُن کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالاں کہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گم راہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔''
تزکیے کے معنی طہارت کے ہیں۔ یعنی آپ ﷺ لوگوں کو ظاہری اور باطنی نجاستوں سے پاک کرتے ہیں۔ انسان کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ جس طرح شریعت ظاہر کے لیے ہے اسی طرح باطن کے لیے بھی ہے۔ جس طرح انسان کو بے شمار بیماریاں لاحق ہوتی ہیں اسی طرح اس کے قلب کے اندر بھی بے شمار بیماریاں ہیں۔ کفر و شرک، بغض و حسد، کینہ و تکبّر، حُبِ مال و جاہ وغیرہ۔ انسان کا دل اس کے جسم کا بادشاہ ہے اور تمام اعضاء کا سردار ہے۔ دل کی اصلاح اور پاکیزگی پر تمام جسم انسانی کی اصلاح کا مدار ہے اور اس لیے تزکیۂ نفس نہایت ضروری ہے۔افراد کی تر بیت کا انحصار ان کی اخلاقی حالت کی بہتری پر ہوتا ہے۔
اگر یہ پہلو کم زور رہ جا ئے تو آئندہ ترقی تو کجا، تنزلی کا امکان غالب رہتا ہے۔ اس لیے آپ ﷺ نے اس پہلو پر بھرپور توجہ مرکوز فرمائی۔ آپ ﷺ نے اپنی بعثت کا اولین مقصد ان الفاظ میں بیان فرمایا: ''بلاشبہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔'' آپ ﷺ ایسے بلند پایہ اخلاق کے حامل تھے کہ آپؐ کے جانیں دشمن بھی آپؐ کی متفقہ حیثیت ''الصادق و الامین'' پر حرف گیری کی جرات نہ کرسکے۔ آپؐ فرماتے تھے: '' تم میں بہتر وہ لو گ ہیں جو اپنے اخلاق میں سب سے اچھے ہوں۔''
صدق و امانت: فلاحی ریاست کی تشکیل کے لیے مطلوب افراد کی تربیت میں بھی صدق و امانت کی اہمیت تسلیم شدہ امر ہے۔ ایک مسلمان کے لیے ہر معاملے میں سچائی سے وابستہ رہنا اور تمام مسائل کو اسی زاویۂ نگاہ سے دیکھنا ازحد ضروری ہے۔ اس کے برعکس جھوٹ ایک بہت بڑی لعنت ہے۔ یہ ایسی بُرائی ہے جو جھوٹے شخص کے اندرونی فساد کی غماز ہے۔ اس لیے آپؐ نے صاف فرما دیا کہ مومن کا جھوٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ''مومن کے اندر تمام خرابیاں پائی جا سکتی ہیں، سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔''
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں، مفہوم: ''اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال درست کردے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا، جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کام یابی حاصل کی۔'' اللہ تعالی کو سچا اور کھرا عمل ہی مطلوب ہے، اس لیے کہ وہ اخلاص سے پُر ہوتا ہے۔ اگر انسان راست باز اور حق گو ہو تو وہ قطعا کسی فعل مذموم کی جانب راغب نہیں ہوگا۔