تکریم انسانیت اور خون ِناحق
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : ’’ ظلم کرنے سے بچو کیوں کہ ظلم قیامت کے دن اندھیرا ہوگا۔‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے مظلوم بندوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں، مفہوم : ''میری عزت و جلالت کی قسم! میں تمہاری مدد ضرور کروں گا، چاہے تھوڑی دیر سے ہو۔''
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : '' ظلم کرنے سے بچو کیوں کہ ظلم قیامت کے دن اندھیرا ہوگا۔'' اسی طرح صحیح مسلم میں ہے کہ ہشام بن حکیم بن حزامؓ نے حمص کے ایک عامل کو دیکھا کہ وہ کچھ قبطیوں سے جزیہ وصول کرنے کے لیے انہیں دھوپ میں کھڑا کر کے تکلیف دے رہا تھا، تو انہوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ''اللہ عزوجل ایسے لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیا کرتے ہیں۔''
افسوس! آج جس کے پاس طاقت و اختیار ہے، اس نے ظلم کرنا اپنے لیے جائز سمجھ لیا ہے۔ کم زور سے چوک چوراہے میں کان پکڑوائے جاتے ہیں، ان کی بے عزتی کی جاتی ہے، سب کے سامنے مارا جاتا ہے۔ دنیا میں کسی کو مصیبت میں مبتلا کرنے والا کیا اس بات سے ڈرتا نہیں کہ قیامت کے دن یہ ظلم اس پر اندھیرے بن جائیں گے۔
سنن نسائی کی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ''اللہ تعالی کے نزدیک پوری دنیا کا زوال و تباہی ایک مسلمان کے قتل سے کم تر ہے۔'' ساری دنیا تباہ ہو جائے اللہ کے ہاں چھوٹا عمل ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک مسلمان کو قتل کیا جائے۔ لیکن آج مسلمان اس طرح قتل کیا جاتا ہے کہ جس طرح ایک مکھی کو مارا جاتا ہے اور اس قتل پر کوئی دکھ یا ملال بھی نہیں کیا جاتا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم : '' جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اِس کے بغیر کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اُس نے گویا تمام انسانیت کو قتل کردیا۔'' (سورۃ مائدہ) وہ نفس چاہے مسلمان کا ہو یا کافر کا، اس سے غرض نہیں۔ جس نے ظلماً ایک انسان کا قتل کیا، اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی مسلمان کو قتل کیا اور قتل کرنے پر فخر کیا۔ یعنی گناہ کو قبول کرنے کے بہ جائے دلیلیں دینا شروع کر دیں، خوشی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ بدقسمتی سے ایسا ہوتا رہا ہے، لوگ قتل کی ذمے داری قبول کرتے رہے ہیں۔ کبھی معصوم بچوں کو شہید کر کے، کبھی اسکولوں پر حملہ کر کے اور کبھی مارکیٹوں پر حملہ کر کے قبول کرلینا کہ یہ حملہ ہم نے کیا ہے۔ یعنی معصوموں کو قتل کرکے خوش بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے انسان کی فرضی عبادت قبول کرے گا اور نہ کوئی نفلی عبادت۔ اللہ کے نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ ہر گناہ معاف کردے گا، سوائے شرک کے۔ علاوہ ازیں وہ شخص بھی جس نے کسی مسلمان کو قتل کیا، اللہ تعالیٰ اس کو بھی معاف نہیں کرے گا۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قتل ناحق سے متعلق بڑی وعیدیں بیان کی ہیں۔ کسی مسلمان کو قتل کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اگر آسمان کے سارے فرشتے اور زمین کے سارے لوگ ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو جہنم میں گرا دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کا ٹھکانا مستقل جہنم ہوگا۔ روز قیامت مقتول اللہ کے پاس آئے گا اور کہے گا: یااللہ! تو اس سے پوچھ تو سہی کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا، حالاں کہ زندگی تُونے دی ہوئی تھی اس نے مجھے ناحق قتل کیوں کیا ؟
اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرب قیامت مسلمانوں میں قتل عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ قاتل کو معلوم نہیں ہوگا کہ میں نے قتل کیوں کیا اور مقتول کو بھی پتا نہیں ہوگا کہ مجھے قتل کیوں کیا گیا؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی حرمت بیان کرتے ہوئے بیت اللہ کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: '' اے بیت اللہ! تیری حرمت تیری شان بڑی ہے، مگر اللہ کی قسم ایک مومن کی حرمت اللہ کے ہاں تجھ سے زیادہ ہے۔'' کیا آج ایک مسلمان کی حرمت کو اتنا زیادہ سمجھا گیا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا کہ قرب قیامت قتل عام ہوگا، تب ایک صحابیؓ نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ قتل کی کثرت تو اس وقت بھی موجود ہے، ہم کافروں کی گردنیں کاٹتے ہیں، جو باغی ہوتے ہیں انہیں بھی قتل کر دیتے ہیں۔ فرمایا: نہیں اس وقت چھوٹی چھوٹی چیزوں کی وجہ سے قتل عام ہو جائے گا، بچوں کے جھگڑنے پر قتل ہو جائیں گے۔ فرمایا: اس زمانے کے اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی۔ یہ ظلم اہل اقتدار کرے یا پھر کوئی عام شہری، ظلم ظلم ہے۔
مسلمان کو قتل کرنا صرف تین صورتوں میں جائز ہے۔ ایک جب وہ مرتد ہو جائے، مگر یہ قتل بھی صرف حکومت کرے گی، عوام میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں۔ دوسرا قتل کے بدلے قتل، یعنی قاتل کو قتل کیا جائے، مگر یہ حق بھی صرف حکومت کا ہے۔ تیسرا وہ شخص جو شادی شدہ زانی ہو، اسے سنگسار کیا جائے گا، مگر یہ بھی حکومت کرے گی۔ قصاص میں قتل سے متعلق قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ بدلے میں قتل کرنا تمہارے لیے زندگی ہے۔ غور کریں یہ کیسے زندگی ہے؟ ایک قتل ہوگیا اور پھر دوسرے کو حکومت قتل کر دے، کیسے ہے یہ زندگی؟ اس نکتے کو سمجھنا بالکل آسان ہے، آج قاتل اقرار کرتا ہے کہ میں نے پچاس قتل کیے، اگر پہلے قتل پر اس کی گردن اتاری جاتی تو باقی 49 انسانوں کی جان بچ جاتی۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اللہ کی حدود میں سے کسی ایک حد کو نافذ کر دیا جائے، وہ مسلسل چالیس دنوں تک رحمت کی بارش سے زیادہ بہتر ہے۔ آج حدود ختم ہوگئی ہیں، جب حدود ختم ہو جائے تو قتل بڑھے گا، ظلم بڑھے گا۔ مظلوم چاہے کافر ہی کیوں نہ ہو، جب وہ ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتے ہیں۔ فرمایا: ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو، صحابہؓ نے پوچھا، مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ آتا ہے مگر ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ تو فرمایا اسے پکڑ کر دنیا میں قصاص دلوا دیا جائے جس سے وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا۔ لوگوں میں شعور پیدا کرنا چاہیے۔ اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اسلام نے ناحق قتل کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نگاہ میں بہت بڑا جرم شمار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گھروں، جانوں اور مالوں کو محفوظ فرمائے اور مقتدر اداروں کو انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : '' ظلم کرنے سے بچو کیوں کہ ظلم قیامت کے دن اندھیرا ہوگا۔'' اسی طرح صحیح مسلم میں ہے کہ ہشام بن حکیم بن حزامؓ نے حمص کے ایک عامل کو دیکھا کہ وہ کچھ قبطیوں سے جزیہ وصول کرنے کے لیے انہیں دھوپ میں کھڑا کر کے تکلیف دے رہا تھا، تو انہوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ''اللہ عزوجل ایسے لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیا کرتے ہیں۔''
افسوس! آج جس کے پاس طاقت و اختیار ہے، اس نے ظلم کرنا اپنے لیے جائز سمجھ لیا ہے۔ کم زور سے چوک چوراہے میں کان پکڑوائے جاتے ہیں، ان کی بے عزتی کی جاتی ہے، سب کے سامنے مارا جاتا ہے۔ دنیا میں کسی کو مصیبت میں مبتلا کرنے والا کیا اس بات سے ڈرتا نہیں کہ قیامت کے دن یہ ظلم اس پر اندھیرے بن جائیں گے۔
سنن نسائی کی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ''اللہ تعالی کے نزدیک پوری دنیا کا زوال و تباہی ایک مسلمان کے قتل سے کم تر ہے۔'' ساری دنیا تباہ ہو جائے اللہ کے ہاں چھوٹا عمل ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک مسلمان کو قتل کیا جائے۔ لیکن آج مسلمان اس طرح قتل کیا جاتا ہے کہ جس طرح ایک مکھی کو مارا جاتا ہے اور اس قتل پر کوئی دکھ یا ملال بھی نہیں کیا جاتا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم : '' جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اِس کے بغیر کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اُس نے گویا تمام انسانیت کو قتل کردیا۔'' (سورۃ مائدہ) وہ نفس چاہے مسلمان کا ہو یا کافر کا، اس سے غرض نہیں۔ جس نے ظلماً ایک انسان کا قتل کیا، اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی مسلمان کو قتل کیا اور قتل کرنے پر فخر کیا۔ یعنی گناہ کو قبول کرنے کے بہ جائے دلیلیں دینا شروع کر دیں، خوشی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ بدقسمتی سے ایسا ہوتا رہا ہے، لوگ قتل کی ذمے داری قبول کرتے رہے ہیں۔ کبھی معصوم بچوں کو شہید کر کے، کبھی اسکولوں پر حملہ کر کے اور کبھی مارکیٹوں پر حملہ کر کے قبول کرلینا کہ یہ حملہ ہم نے کیا ہے۔ یعنی معصوموں کو قتل کرکے خوش بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے انسان کی فرضی عبادت قبول کرے گا اور نہ کوئی نفلی عبادت۔ اللہ کے نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ ہر گناہ معاف کردے گا، سوائے شرک کے۔ علاوہ ازیں وہ شخص بھی جس نے کسی مسلمان کو قتل کیا، اللہ تعالیٰ اس کو بھی معاف نہیں کرے گا۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قتل ناحق سے متعلق بڑی وعیدیں بیان کی ہیں۔ کسی مسلمان کو قتل کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اگر آسمان کے سارے فرشتے اور زمین کے سارے لوگ ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو جہنم میں گرا دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کا ٹھکانا مستقل جہنم ہوگا۔ روز قیامت مقتول اللہ کے پاس آئے گا اور کہے گا: یااللہ! تو اس سے پوچھ تو سہی کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا، حالاں کہ زندگی تُونے دی ہوئی تھی اس نے مجھے ناحق قتل کیوں کیا ؟
اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرب قیامت مسلمانوں میں قتل عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ قاتل کو معلوم نہیں ہوگا کہ میں نے قتل کیوں کیا اور مقتول کو بھی پتا نہیں ہوگا کہ مجھے قتل کیوں کیا گیا؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی حرمت بیان کرتے ہوئے بیت اللہ کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: '' اے بیت اللہ! تیری حرمت تیری شان بڑی ہے، مگر اللہ کی قسم ایک مومن کی حرمت اللہ کے ہاں تجھ سے زیادہ ہے۔'' کیا آج ایک مسلمان کی حرمت کو اتنا زیادہ سمجھا گیا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا کہ قرب قیامت قتل عام ہوگا، تب ایک صحابیؓ نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ قتل کی کثرت تو اس وقت بھی موجود ہے، ہم کافروں کی گردنیں کاٹتے ہیں، جو باغی ہوتے ہیں انہیں بھی قتل کر دیتے ہیں۔ فرمایا: نہیں اس وقت چھوٹی چھوٹی چیزوں کی وجہ سے قتل عام ہو جائے گا، بچوں کے جھگڑنے پر قتل ہو جائیں گے۔ فرمایا: اس زمانے کے اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی۔ یہ ظلم اہل اقتدار کرے یا پھر کوئی عام شہری، ظلم ظلم ہے۔
مسلمان کو قتل کرنا صرف تین صورتوں میں جائز ہے۔ ایک جب وہ مرتد ہو جائے، مگر یہ قتل بھی صرف حکومت کرے گی، عوام میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں۔ دوسرا قتل کے بدلے قتل، یعنی قاتل کو قتل کیا جائے، مگر یہ حق بھی صرف حکومت کا ہے۔ تیسرا وہ شخص جو شادی شدہ زانی ہو، اسے سنگسار کیا جائے گا، مگر یہ بھی حکومت کرے گی۔ قصاص میں قتل سے متعلق قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ بدلے میں قتل کرنا تمہارے لیے زندگی ہے۔ غور کریں یہ کیسے زندگی ہے؟ ایک قتل ہوگیا اور پھر دوسرے کو حکومت قتل کر دے، کیسے ہے یہ زندگی؟ اس نکتے کو سمجھنا بالکل آسان ہے، آج قاتل اقرار کرتا ہے کہ میں نے پچاس قتل کیے، اگر پہلے قتل پر اس کی گردن اتاری جاتی تو باقی 49 انسانوں کی جان بچ جاتی۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اللہ کی حدود میں سے کسی ایک حد کو نافذ کر دیا جائے، وہ مسلسل چالیس دنوں تک رحمت کی بارش سے زیادہ بہتر ہے۔ آج حدود ختم ہوگئی ہیں، جب حدود ختم ہو جائے تو قتل بڑھے گا، ظلم بڑھے گا۔ مظلوم چاہے کافر ہی کیوں نہ ہو، جب وہ ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتے ہیں۔ فرمایا: ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو، صحابہؓ نے پوچھا، مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ آتا ہے مگر ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ تو فرمایا اسے پکڑ کر دنیا میں قصاص دلوا دیا جائے جس سے وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا۔ لوگوں میں شعور پیدا کرنا چاہیے۔ اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اسلام نے ناحق قتل کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نگاہ میں بہت بڑا جرم شمار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گھروں، جانوں اور مالوں کو محفوظ فرمائے اور مقتدر اداروں کو انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین