سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان کو 28 اگست تک کی مہلت دیدی
عدلیہ کے کردار سے متعلق عمران خان کے الفاظ قابل گرفت اوربادی النظر میں عدالت کے لئے گالی کے مترادف ہے،سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کو تفصیلی جواب جمع کرانے کے لئے 28 اگست تک کی مہلت دے دی اس دوران عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے کردار سے متعلق عمران خان کے الفاظ قابل گرفت اوربادی النظر میں عدالت کے لئے گالی کے مترادف ہے۔
توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران عمران خان نے کے وکیل حامد خان نے اپنے مؤکل کی جانب سے سپریم کورٹ میں تحریری جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ شرمناک کا لفظ اعلیٰ عدلیہ کے لئے نہیں بلکہ ریٹرننگ افسران کے لئے استعمال کیا گیا تھا، عمران خان نے مفروضے کی بنیاد پر بیان دیا جس پر توہین عدالت کا نوٹس جاری نہیں کیا چاہئے تھا، چیف جسٹس نے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ماتحت عدلیہ کے لئے شرمناک کے الفاظ استعمال کئے جاسکتے ہیں، عدلیہ کو گالی دیں گے تو خرابی ہوگی اور شرمناک کا لفظ گالی ہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے بارے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر دھاندلی کی گئی،سپریم کورٹ نے عمران خان کی جانب سے تحریری جواب کو مسترد کرتے ہوئے انہیں تفصیلی جواب جمع کرانے کے لئے 28 اگست تک کی مہلت دے دی۔
اس موقع پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب سے مایوسی ہوئی ہمیں بہتر جواب کی توقع تھی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے نے کہا کہ آپ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی عدلیہ میں تفریق کیسے کرسکتے ہیں اور کیسے کہہ سکتے ہیں خیبر پختونخوا کی عدلیہ اچھی اور پنجاب کی بری ہے۔
اس سے قبل جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس عظمت سعید پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت ہوتی تو چیف جسٹس نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ نے کوئی تحریری جواب تیار کیا جس پر حامد خان نے کہا کہ وہ کل ہی امریکا سے آئے ہیں اس لئے تحریری جواب تیار نہیں کرسکے لیکن اگر عدالت تیار ہو تو زبانی جواب دے سکتے ہیں جس کے حامد خان نے اپنے موکل کی جانب سے مختصر جواب دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان توہین عدالت کا سوچ بھی نہیں سکتے اور نہ ہی انہوں نے ججز کو بدنام کرنے کی کوئی مہم شروع کر رکھی ہے، عمران خان نے عدلیہ بحالی کی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا اور وہ قانون کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔
حامد خان نے مزید دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سے بہت توقعات ہیں اور امید کرتے ہیں کہ عدلیہ ہماری شکایت سنے گی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان نے جن 4 حلقوں میں اعتراض اٹھاتے ہوئے انگوٹھوں کے نشان سے ووٹوں کی تصدیق چاہی ہم نے خود اس معاملے کو دیکھا اور تصدیق کرائی، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 25 کا پتا ہوگا جس کے تحت عمران خان نے پنجاب کے جن 31 حلقوں سے انتخابی عذرداریاں جمع کرائیں انہیں متعلقہ ٹربیونلز کو بھجوادیا گیا ہے اور آپ کو عذرداریوں کے نتائج کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔
چف جسٹس نے کہا ہے کہ عمران خان کی 26 جولائی کی تقریر میں عدلیہ کے کردار کو شرمناک کہا گیا جس پر حامد خان نے کہا کہ شرمناک کا لفظ عدلیہ کے لئے استعمال نہیں کیا، اس حوالے سے تاثر قائم کرنے میں جلدی کی جارہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جلدی نہیں کی جارہی، آپ کہیں گے تو وقت دے دیں گے لیکن عمران خان جیسے بڑے رہنما کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اور عدلیہ کو بدنام نہیں کرنا چاہئے تھا، دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو باہمی عزت واحترام کو ملحوظ خاص رکھنا چاہئے، ہمارے لئے بھی اراکین پارلیمنٹ کے لئے بہت عزت واحترام ہے۔
دوران سماعت عمران خان نے اجازت لے کر روسٹرم پر آکر اپنے جواب میں کہا کہ میرے ایجنڈے پر عدلیہ کی آزادی تھی اور میں عدلیہ کی آزادی کے لئے 8 دن جیل میں رہا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں عدلیہ کی آزادی کے لئے لوگوں نے نوکریاں تک چھوڑدیں۔
توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران عمران خان نے کے وکیل حامد خان نے اپنے مؤکل کی جانب سے سپریم کورٹ میں تحریری جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ شرمناک کا لفظ اعلیٰ عدلیہ کے لئے نہیں بلکہ ریٹرننگ افسران کے لئے استعمال کیا گیا تھا، عمران خان نے مفروضے کی بنیاد پر بیان دیا جس پر توہین عدالت کا نوٹس جاری نہیں کیا چاہئے تھا، چیف جسٹس نے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ماتحت عدلیہ کے لئے شرمناک کے الفاظ استعمال کئے جاسکتے ہیں، عدلیہ کو گالی دیں گے تو خرابی ہوگی اور شرمناک کا لفظ گالی ہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے بارے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر دھاندلی کی گئی،سپریم کورٹ نے عمران خان کی جانب سے تحریری جواب کو مسترد کرتے ہوئے انہیں تفصیلی جواب جمع کرانے کے لئے 28 اگست تک کی مہلت دے دی۔
اس موقع پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب سے مایوسی ہوئی ہمیں بہتر جواب کی توقع تھی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے نے کہا کہ آپ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی عدلیہ میں تفریق کیسے کرسکتے ہیں اور کیسے کہہ سکتے ہیں خیبر پختونخوا کی عدلیہ اچھی اور پنجاب کی بری ہے۔
اس سے قبل جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس عظمت سعید پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت ہوتی تو چیف جسٹس نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ نے کوئی تحریری جواب تیار کیا جس پر حامد خان نے کہا کہ وہ کل ہی امریکا سے آئے ہیں اس لئے تحریری جواب تیار نہیں کرسکے لیکن اگر عدالت تیار ہو تو زبانی جواب دے سکتے ہیں جس کے حامد خان نے اپنے موکل کی جانب سے مختصر جواب دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان توہین عدالت کا سوچ بھی نہیں سکتے اور نہ ہی انہوں نے ججز کو بدنام کرنے کی کوئی مہم شروع کر رکھی ہے، عمران خان نے عدلیہ بحالی کی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا اور وہ قانون کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔
حامد خان نے مزید دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سے بہت توقعات ہیں اور امید کرتے ہیں کہ عدلیہ ہماری شکایت سنے گی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان نے جن 4 حلقوں میں اعتراض اٹھاتے ہوئے انگوٹھوں کے نشان سے ووٹوں کی تصدیق چاہی ہم نے خود اس معاملے کو دیکھا اور تصدیق کرائی، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 25 کا پتا ہوگا جس کے تحت عمران خان نے پنجاب کے جن 31 حلقوں سے انتخابی عذرداریاں جمع کرائیں انہیں متعلقہ ٹربیونلز کو بھجوادیا گیا ہے اور آپ کو عذرداریوں کے نتائج کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔
چف جسٹس نے کہا ہے کہ عمران خان کی 26 جولائی کی تقریر میں عدلیہ کے کردار کو شرمناک کہا گیا جس پر حامد خان نے کہا کہ شرمناک کا لفظ عدلیہ کے لئے استعمال نہیں کیا، اس حوالے سے تاثر قائم کرنے میں جلدی کی جارہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جلدی نہیں کی جارہی، آپ کہیں گے تو وقت دے دیں گے لیکن عمران خان جیسے بڑے رہنما کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اور عدلیہ کو بدنام نہیں کرنا چاہئے تھا، دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو باہمی عزت واحترام کو ملحوظ خاص رکھنا چاہئے، ہمارے لئے بھی اراکین پارلیمنٹ کے لئے بہت عزت واحترام ہے۔
دوران سماعت عمران خان نے اجازت لے کر روسٹرم پر آکر اپنے جواب میں کہا کہ میرے ایجنڈے پر عدلیہ کی آزادی تھی اور میں عدلیہ کی آزادی کے لئے 8 دن جیل میں رہا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں عدلیہ کی آزادی کے لئے لوگوں نے نوکریاں تک چھوڑدیں۔