ڈاؤوس تا کراچی

عالمی فورم پر ہونے والے غور و فکر کے نتائج سے پاکستان کے موجودہ حالات میں استفادہ کا مقصد بھی حاصل کیا گیا۔


اکرام سہگل March 02, 2019

کراچی کونسل آن فارن ریلیشنز(KCFR) نے 24 فروری 2019 کو شہر قائد میں ایک تقریب منعقد کی جسکے مہمان خصوصی سابق چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس (ر) ثاقب نثار تھے۔ تقریب کا موضوع گلوبل ڈیویلپمنٹ کے تناظر میں پاکستان کے مسائل اور ان کے متوقع حل کی نشان دہی اور بین الاقوامی اور مقامی افکار میں ربط پیدا کرنا تھا۔

اس مباحثے میں Pathfinder گروپ اور Martin Dow گروپ سہولت کار تھے۔ KCFR ریاست اور سماجی اداروں میں موثر اصلاحات کے ذریعے پاکستانی عوام کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے کوشاں ہے۔ اتوار کومنعقدہ KCFR کا سیشن Pathfinder اور Martin Dowکی کوششوں کا تسلسل ہے، جنھوں نے قبل ازیں ڈاووس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم میں پاکستان کی پریزنٹیشن تیار کی تھی۔

اس طرح ڈاؤوس کے عالمی مباحثے کو نہ صرف پاکستانی عوام تک پہنچایا گیا، بلکہ عالمی فورم پر ہونے والے غور و فکر کے نتائج سے پاکستان کے موجودہ حالات میں استفادہ کا مقصد بھی حاصل کیا گیا۔ اس ایونٹ کے انعقاد کے ذریعے KCFR نے کامیابی سے عالمی افکار کو مقامی سوچ سے ہم آہنگ کیا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اس نوع کی سرگرمیوں کے ذریعے مسائل کے سدباب میں عوامی دل چسپیوں کو مہمیز کیا جائے گا۔

آرگنائزرز نے تقریب کے لیے اتوار کی صبح کا انتخاب کرکے کراچی کے عوام کو اچھا خاصا چیلنج دے دیا تھا، جو ہفتے بھر کی تھکن کے باعث اتوار کی صبح جلدی اٹھنے کے قطعی عادی نہیں۔منتظمین نے میاں ثاقب نثارکے خیالات اور افکار سے استفادہ کرنے کے لیے،لگ بھگ 220 افراد کو(کیٹرنگ پر مامور سو افراد کے علاوہ) اکٹھا کر لیا۔

ڈاکٹر ہما بقائی نے، جو KCFR کی سیکریٹری جنرل اور پرائم منسٹر کی خارجہ امور کی ایڈوائزی کونسل کی رکن ہیں، اپنے افتتاحی کلمات میں اس سرگرمی کے ورلڈ اکنامک فورم میں گذشتہ ماہ ہونے والی سرگرمی سے ربط پر روشنی ڈالی، جہاں سیارہ زمین کے ماحول میں آنے والی گراوٹ سے جنم لیتی ان سماجی وماحولیاتی مشکلات پر بات کی گئی تھی، جن کے نتیجے میں دنیا بھر میں غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ انھوں نے یاد دہانی کروائی کہ ڈاووس میں ہونے والی تقریب کا پیغام یہ تھا کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام، جو منافع میں مسلسل اضافے پر انحصار کرتا ہے، اسے ہر صورت تبدیل ہونا ہوگا، اور آج کا وقت ایسے سرمایہ دارانہ نظام کا متقاضی ہے، جس میں سرمایہ دار کا ضمیر بھی شامل ہو۔

میاں ثاقب نثار نے ڈاکٹر ہما بقائی کے خیالات کے تسلسل میں پاکستان کے سلگتے ہوئے مسائل پر اظہار خیال کیا۔ انھوں نے سورہ رحمان کی اِس آیت کے ساتھ ''اور تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے'' سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ یہ قرآن پاک کی پر اثر ترین آیات میں سے ایک ہے،جس میں خدا ہمیں اپنی بیش قیمت نعمتوں کی سمت متوجہ کرتا ہے۔اس نے ہمیں نعمتیں عطا کیں اور لازم کیا کہ ہم ان کا شکر کریں، جن میں پانی اور پھل شامل ہیں۔

میاں ثاقب نثار نے یاددہانی کروائی کہ پاکستان ہمیں بیٹھے بٹھائے حاصل نہیں ہوا، اس کے لیے بے پناہ افراد نے جدوجہد کی۔انھوں نے کہا کہ یہ ریاست اللہ کا تحفہ ہے اور قوم کے لیے رحمت ہے۔بہ قول ان کے،''ہم نے اسے مفت میں حاصل نہیں کیا، نہ ہی یہ ہمیں خیرات میں ملا ، یہ قائد اعظم کی جدوجہد، علامہ اقبال کے خواب اور بابا بلے شاہ کے ویژن کا نتیجہ ہے، اس کے علاوہ اس میں بیشمار افراد کی قربانیاں شامل ہیں۔''انھوں نے کہا کہ ہجرت کے بعد جو افراد پاکستان پہنچتے تھے، وہ ایسی خوشی اور طمانیت محسوس کرتے کہ فرط جذبات سے ان کی آنکھیں چھلک پڑتیں البتہ اب جذبہ حب الوطنی ماند پڑ رہا ہے، جو پریشان کن ہے۔

انھوں نے کہا کہ ریاست پاکستان اپنے قیام کے ستر برس بعد بھی کمزور ریاست ہے، اس کے ادارے اپنے بنیادی وظیفے کی ادائیگی میں ناکام نظر آتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ کوئی بھی ریاست اپنے عوام کے بغیر مستحکم نہیں ہو سکتی البتہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوسکا۔ یہاں اشرافیہ کے مختصر سے ٹولے نے اِسے اپنے مفادات اور اقتدار کے حصول کا ذریعہ بنا لیا۔جب کہ اصل کام عوام کواپنے ساتھ شامل کرکے ملک کو مضبوط اور مستحکم بنانا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تعلیم لازمی ہے۔جب عوام کو اپنے حقوق کا علم ہوگا اور اپنی ذمے داریوں کا احساس ہوگا، تب ہی وہ ریاست اور اس کے اداروں کو موثر بنانے میں کردار ادا کرسکیں گے۔

میاں ثاقب نثار نے دو مزید اہم مسائل کی نشان دہی کی۔ پہلا پانی کا مسئلہ اور دوسرابڑھتی آبادی کا معاملہ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پانی کو ذخیرہ کرنے، تقسیم اور اس کے انتظام کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرناضروری ہے۔ غیرمحفوظ پانی کے باعث عوام کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیںاور طبی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کولاحق ہونے والی نصف بیماریوں سے فقط صاف پانی کی فراہمی سے بچا جاسکتا ہے۔

سوال و جواب کے سیشن میں میاں ثاقب نثار نے بڑی فصاحت سے ان سوالوں کے جواب دیے، جوذاتی طور پر ان کے دل کے بے حد قریب ہیں، یعنی صاف پانی کی فراہمی اور اُسے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت۔ سابق چیف جسٹس نے زور دے کر کہا کہ اگر اس ضمن میں شعور پیدا نہیں کیا گیا، تو ہمیں مستقبل میں خطرناک نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ اس موقع پر انھوں نے دیامیر بھاشا ڈیم کی ملک و قوم کے لیے اہمیت کا ایک بار پھر حوالہ دیا اور کہا کہ پانی کے بغیر پاکستان ایک صحرا بن سکتا ہے۔ فرد کے جینے کے حق اور ناقص گورننس سے متاثر غریب افراد کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے واضح کیا کہ بنیادی انسانی ضروریات تمام شہریوں کو میسر نہیں، بالخصوص انھیں تو قطعی نہیں، جو معاشی پیمانے کی نچلی سطح پر موجود ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان کے مشن کا بنیادی محور گورننس کے نظام میں بنیادی انسانی حقوق کی قدر کی شمولیت ہے۔ اس موقع پر انھوں نے عدالتی نظام، اٹھارویں ترمیم، صوبائی خود مختاری کی اہمیت، وسائل کا ضیاع اور آبادی میں اضافے جیسے موضوعات پر مفصل روشنی ڈالی۔ سیاست کی سمت آنے کی افواہوں کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ وسائل سے محروم افراد کے لیے بلامعاوضہ قانونی مشاورت کے سلسلے میں اقدامات ان کے پیش نظر ہیں۔

یہ تھے ایک سچے پاکستانی کے خیالات و افکار، جو انسانیت کی خدمت کے لیے کوشاں ہے۔

(فاضل مصنف دفاعی تجزیہ کار اور سیکیورٹی امور کے ماہر ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔