امن ہی واحد راستہ ہے

بھارت اور پاکستان کو جنگ کے بجائے اصل مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے جو کہ عوام کے اصل مسائل ہیں۔

یہ جاننے کے باوجود کہ جنگ کبھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی اور ہر جنگ کا نقصان جنگ میں حصہ لینے والے ممالک کا ہی ہوتا ہے خصوصاً بھارت اور پاکستان کے معاملے میں جنگ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

پاکستان اور بھارت کے میڈیا میں ایک ہیجان کی کیفیت ہے اور یہ کیفیت بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے۔ امریکا، روس اور چین دونوں ممالک کو تصادم سے گریزکا مشورہ دے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں تشویش پائی جا رہی ہے کہ دو ممالک جو مہلک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں تصادم کی راہ پر ہیں۔ اس تشویش کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ ٹکراؤ کسی بڑی جنگ میں تبدیل ہو گیا تو اس قدر خوفناک تباہی ہو گی کہ پوری دنیا اس سے بری طرح متاثر ہو گی۔ برصغیر صدیوں پیچھے چلا جائے گا۔

آخر اس صورتحال کے پس پردہ کیا ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی، تصادم اور جنگ کی فضا رہی ہے اور اس کا محور کشمیر کا تنازعہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان غیر اعلانیہ جنگ کا اعتراف سابق صدر اور فوج کے سابق سربراہ جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا۔

یہ بات انھوں نے بھارت کی سرزمین پر بھارتی میڈیا کے سامنے کہی تھی، اس وقت جنرل پرویز مشرف کی بھارت میں زبردست پذیرائی ہوئی تھی لیکن بعد میں صورتحال تبدیل ہو گئی خصوصاً بی جے پی کی حکومت میں آنے کے بعد یہ تبدیلی اس طرح آئی کہ بی جے پی نے پاکستان مخالف فضا پیدا کر کے ہیجانی کیفیت پیدا کی اور نفرت کے نام پر بھاری ووٹ حاصل کیے اور اقتدار کے حصول کے لیے نفرت اور انتہا پسندی کی سیاست کو زینہ بنایا۔ پارٹی میں مسلح جتھے بھی بنائے گئے جو مخالفین کو کچلنے کا کام بھی کرتے تھے۔

بی جے پی کے عروج پر آنے کے نتیجے میں بھارت کا سیکولر رخ بری طرح متاثر ہوا ہے اور وہاں موجود سیکولر جماعتیں مزید کمزور ہوئی ہیں، اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ میڈیا میں بھی ہندو انتہا پسندی اور مسلم دشمنی کو فروغ دیا گیا ہے۔ موجودہ حالات کی ایک بڑی وجہ بی جے پی کی یہی سیاست ہے۔

وہ میڈیا میں یہ بات باورکرانا چاہتی ہے کہ وہی ایک ایسی جماعت ہے جو پاکستان کو بھرپور جواب دے سکتی ہے یا اس پر بالادستی جتا سکتی ہے۔ اس لیے وہ کچھ ایسے واقعات اور شواہد کو میڈیا میں عام کرنا چاہتی ہے کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا، چاہے اس کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ پاکستان میں بھی میڈیا پر ہیجان انگیز صورتحال ہے لیکن پاکستان کے ممتاز شعرا، دانشور اور محققین ہمیشہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تصادم کے مخالف رہے اور ہر موقعے پر یہ باور کراتے رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان امن کے ذریعے ہی ترقی اور خوشحالی کی راہ اختیار کی جا سکتی ہے۔


بدقسمتی سے سرد جنگ جو روس اور امریکا کے درمیان افغانستان میں ایک خوفناک جنگ میں تبدیل ہو گئی تھی، اس کے نتیجے میں پاکستان لپیٹ میں آگیا اور پاکستان میں مذہبی انتہا پسند گروپ مسلح ہو گئے۔ طالبان کا قیام عمل میں آیا اور طالبان مختلف طاقتوں کی سرپرستی میں افغانستان میں برسر اقتدار آ گئے۔ اس تمام صورتحال سے پاکستان الگ تھلگ نہ رہ سکا۔ دہشتگردی، کلاشنکوف اور ہیروئن کو فروغ ملا۔ امریکا میں 9 ستمبر کو امریکی ٹریڈ ٹاور پر حملے کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر پاکستان دباؤ میں آیا اور اسے طالبان کے خلاف امریکا کی مدد کرنی پڑی پاکستان خود دہشتگردوں کے حملوں کی لپیٹ میں آیا۔

فوج کو دہشتگردوں کے خلاف لڑائی میں کافی حد تک کامیابی ہوئی، لیکن صورتحال بہت پیچیدہ ہے خود امریکا افغانستان میں مکمل کنٹرول حاصل نہ کر سکا۔ اس طرح دہشتگردی کا نیٹ ورک مزید پھیل گیا اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک کاروبار کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ جو کچھ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہے اس میں ایک نیا عنصر افغانستان بھی ہے جو زیادہ خطرناک ہے۔ پاکستان اور بھارت کی قیادت کو اس مسئلے پر بھی توجہ دینی ہو گی اس وقت فضا کچھ اور ہے جذبات آگے ہیں دانش پیچھے ہے۔

بھارت اور پاکستان کو جنگ کے بجائے اصل مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے جو کہ عوام کے اصل مسائل ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام کے مسائل تقریباً ایک جیسے ہیں۔ بھارت میں غربت اہم ترین مسئلہ ہے۔ پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے میں دونوں ممالک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔

دونوں ممالک روزگار کے نئے ذرایع پیدا نہیں کر سکے دونوں ممالک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے بھارت میں بھی اچھی حکمرانی نہیں ہے۔ پاکستان اس میں مزید پیچھے ہے۔ توانائی کی کمی، صحت کی سہولتوں کی کمی، آلودگی، تعلیم کی کمی بھی دونوں ممالک کے مسائل ہیں۔ آج کے جدید دور میں ریاست کی کامیابی کا دارومدار عوام کی خوشحالی اور ترقی سے نتھی ہے۔ دنیا کا کوئی ملک بھی کشیدگی اور محدود پیمانے کی جنگ کی کیفیت میں اپنی معیشت کو فروغ نہیں دے سکتا۔

یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ کشیدگی اور محدود پیمانے کی جنگ کسی بڑی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔ بڑی جنگ ساری ترقی اور انفرا اسٹرکچر کو ختم کر سکتی ہے۔ اگر بی جے پی نے محض انتخابات جیتنے کے لیے یہ ہیجان برپا کیا ہے تو پھر جو کچھ ہوکا ہے اس سے آگے نہیں جانا چاہیے۔ بھارت کی سیکولر قوتوں کو بھی سوچنا ہو گا کہ بھارت میں نفرت کی سیاست کیوں فروغ پا رہی ہے وہ اسے روکنے میں کیوں ناکام ہیں اور اگر یہ سلسلہ بڑھتا رہا تو اس کا انجام کیا ہو گا۔

دونوں ممالک کے اہل دانش کی ذمے داری ہے کہ وہ ایک ایسا سازگار ماحول پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے عوام خوشحال و خودمختار ہوں ریاست کے امور میں ان کا عمل دخل بڑھے۔ دنیا بھر میں بڑی بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں ترقی یافتہ ممالک میں نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں ان ایجادات کے بعد آنیوالے وقتوں میں پوری دنیا ایک تبدیل شدہ دنیا ہو گی۔

خوشحالی کے اس سفر میں ہم اسی وقت شریک ہوں گے جب ہم ایک پرامن اور خوشحالی کی منزل کی جانب بڑھنے کے لیے سازگار ماحول میں ہوں گے۔ ہمیں ایک ایسا ماحول تیار کرنا ہو گا۔ نفرت کی سیاست تقسیم اور تباہی دے سکتی ہے، خوشحالی کے لیے امن ہی واحد راستہ ہے۔
Load Next Story