پولیس مقابلے اور بے گناہوں کی ہلاکت

بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ پولیس کے پورے نظام کو تبدیل کیا جائے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan March 02, 2019
[email protected]

مستقبل کی ڈاکٹر، نمرہ بیگ پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان ہونے والی فائرنگ کا شکار ہوگئی ۔ نمرہ اپنے تین بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھی، نمرہ کے والد چند سال قبل انتقال کرگئے تھے۔ ان کی والدہ ایک غیر سرکاری کالج میں معلمہ ہیں۔

نمرہ نے انٹر سائنس کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا تھا۔ وہ میرٹ کی نشستوں پر ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی میں داخلے کی اہل قرار پائی تھی۔ اس نے تمام امتحانات محنت سے پاس کیے۔ اب وہ میڈیکل کے آخری سال میں تھی۔ نمرہ کی ماں اور بہن بھائی نمرہ کے ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔

گزشتہ ہفتے نارتھ کراچی میں دن کے وقت انڈا موڑ کے قریب ڈاکوؤں نے راہ گیروں کو لوٹنا شروع کیا۔ پولیس کی موبائل کو بھی اتفاق سے اطلاع ہوگئی ۔ پولیس اہلکاروں کو دیکھ کر ڈاکوؤں نے فائرنگ شروع کردی۔ پولیس والوں نے اندھا دھند گولیاں برسائیں۔ نمرہ وہاں سے گزررہی تھی، ایک گولی نمرہ کے سر میں لگی اور وہ گر گئی۔ کسی نے ایمبولینس والوں کو ٹیلی فون کیا۔ نمرہ کو پہلے ایک پرائیوٹ اسپتال لے جایا گیا۔

ڈاکٹر نے بتایا کہ نمرہ کے سر میں گولی لگی ہے۔ نمرہ کو سرکاری اسپتال منتقل کیا گیا، نمرہ کا خاندان اپنے ماموں کے ساتھ رہتا ہے۔ ماموں کو اطلاع ملی تو وہ نمرہ کے بھائی کے ساتھ اسپتال پہنچے۔ ڈاکٹروں نے بری خبر سنائی کہ نمرہ اس دنیا میں نہیں رہی۔ اب نمرہ کے اہل خانہ کو ایک اور عذاب سے گزرنا پڑا۔ اسپتال میں نمرہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے خاتون ڈاکٹر موجود نہیں تھی۔

میڈیکل لیگو ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹروں نے ایک خاتون ڈاکٹر سے رابطہ کیا۔ انھوں نے اس تکنیکی نکتے کی بناء پر اسپتال آنے سے انکار کیا کہ یہ واردات نارتھ کراچی میں ہوئی ہے۔ اس بناء پر پوسٹ مارٹم کے لیے میت کو دوسرے اسپتال پہنچایا جائے، گھنٹوں گزرگئے۔ نمرہ کے گھر میں آہ و بکا کا منظر تھا۔ 4 گھنٹوں بعد ایک خاتون ڈاکٹر نے پوسٹ مارٹم مکمل کیا۔ نمرہ کے ماموں رپورٹروں کے سامنے سوال کر رہے تھے کہ نمرہ کا خون کس کے سر ہے؟

گزشتہ سال ایک خاندان کورنگی روڈ پر کار میں سفر کررہا تھا۔ کورنگی روڈ پر ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے اس خاندان کی کار رک گئی۔ ایک نوجوان نے کار کا شیشہ کھٹکھٹایا اور بندوق دکھا کرکہا کہ موبائل اور پرس اس کے حوالے کردیں۔ کار کے مکینوں نے اپنے اپنے موبائل اور پرس خاموشی سے مسلح نوجوان کے حوالے کردیے۔ کچھ دیر بعد پولیس موبائل کہیں سے آئی۔ پولیس اہلکاروں اور ڈاکوؤں میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ ایک اندھی گولی کار میں بیٹھی اسکول کی طالبہ ایمل کے سر پر لگی۔ ایمل کو اسپتال پہنچایا گیا جہاں ایمرجنسی میں مریضوں کے علاج کی سہولتیں نہیں تھیں۔ ایمل انتقال کرگئی۔

پولیس حکام نے فوری طور پر مؤقف اختیار کیا کہ ایمل کوگولی ڈاکوؤں کی بندوق کی گولی لگی۔ پوسٹ مارٹم ہوا۔ رپورٹ تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ سپریم کورٹ نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لیا۔ اس ایمبولینس، اسپتال اور پولیس اہلکار کو ذمے دار قرار دیا گیا۔ گزشتہ سال کے اوائل میں شاہراہ فیصل پر اسی طرح کا واقعہ ہوا۔ پولیس موبائل رکشے میں سوار ڈاکوؤں کا پیچھا کر رہی تھی۔ ڈاکو رکشے سے اتر کر فرار ہوگئے۔ پولیس والوں نے رکشہ ڈرائیور کوگولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ پولیس حکام نے رکشہ ڈرائیور کی موت کی ذمے داری حسب معمول ڈاکوؤں پر عائد کی مگر بعد میں ملنے والی شہادتوں اور پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتہ چلا کہ رکشہ ڈرائیور کو پولیس اہلکارکی گولی لگی تھی۔

پولیس مقابلے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ پولیس کی ٹیمیں ملزمان کی کمین گاہوں پر چھاپہ مارتی ہیں۔ یہ ملزمان مزاحمت کرتے ہیں اور پولیس پر فائرنگ کرتے ہیں۔ پولیس والے جواب میں فائرنگ کرتے ہیں اور کبھی کبھی ملزمان ہلاک اور کچھ زخمی حالت میں پکڑے جاتے ہیں۔ پولیس کی تاریخ میں پولیس مقابلوں کی ایک اور خطرناک قسم ہے۔ پولیس کی ٹیمیں گرفتار ملزمان کو مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے دور دراز مقامات پر لے جاتی ہیں۔

عام طور پر ملزمان کے سابق ساتھی انھیں چھڑوانے کے لیے آجاتے ہیں، پولیس اور ملزمان میں فائرنگ ہوتی ہے۔ اس فائرنگ کی زد میں آکر زیر حراست ملزمان ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ نامعلوم افراد فرار کے راستے کو بہتر حکمت عملی سمجھتے ہیں مگر نمرہ اور ایمل کی اموات اگرچہ پولیس مقابلوں کے درمیان ہوئی ہیں مگر ان کی نوعیت دیگر پولیس مقابلوں سے مختلف ہے۔ پولیس کے نظام پر تحقیق کرنے والے ماہرین اس طرح کی اموات کو پولیس کے ناقص نظام کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

پولیس کا اندرونی نظام جبر پر مبنی ہے ، جو پولیس اہلکار بھرتی ہوتے ہیں وہ سفارش اور رشوت کی بنیاد پر اس آسامی کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ ان کے ذہن میں انسان کی اہمیت کا تصور نہیں ہوتا۔ یہ اہلکار مسلسل اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ رقم کمائی جائے۔ ان کے افسران بھی ان کے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کرتے۔ پولیس کانسٹیبل ،ہیڈ محرر اور اے ایس آئی ایک غیر پسندیدہ ماحول میں کام کرتے ہیں۔ ان پولیس اہلکاروں کے ڈیوٹی کے اوقات کا تعین نہیں ہوتا۔ ساری رات موبائل پر فرائض انجام دینے والے صبح بھی فرائض انجام دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ایک سینئر سابق سرکاری وکیل شاہد علی اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پولیس کے اعلیٰ افسران سے لے کر کانسٹیبل تک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ملزمان کو گرفتار کر کے عدالتوں سے سزا دلوانے کا عمل ناقص ہے۔ کمزور عدالتی نظام کی بناء پر ملزمان بری ہو جاتے ہیں اور ان میں سے بعض ملزمان پولیس اہلکاروں کی زندگی درگور کرتے ہیں۔ اس بناء پر ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ پھر افغان جنگ کی بناء پر ملک میں جدید اسلحہ آسانی سے دستیاب ہے۔ ملزمان کے پاس جدید اسلحہ ہوتا ہے۔ وہ پولیس والوں کو بے دریغ نشانہ بناتے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ کے دوران کراچی میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی شرح خطرناک حد تک بڑھی ہے۔

اس بناء پر اندھادھند فائرنگ ہی پولیس اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ شاہد علی یہ بھی کہتے ہیں کہ اس طرح کے مقدمات میں پولیس والوں کو بہت کم سزائیں ہوتی ہیں، یوں انھیں کسی قسم کے احتساب کا خوف نہیں ہوتا۔ شاہد علی کا یہ بھی کہنا ہے کہ محکمہ پولیس کے قواعد کے تحت پولیس کا کوئی اہلکار کسی بھی ملزم پر ازخود گولی نہیں چلاسکتا۔ پولیس موبائل کا انچارج اپنے ڈی ایس پی اور ایس پی سے ہدایات لینے کا پابند ہے مگر کبھی بھی اس قاعدے پر عمل نہیں ہوتا۔ پولیس اہلکاراس کا یہ جواز فراہم کرتے ہیں کہ پولیس افسران سے فوری طور پر رابطہ ممکن نہیں ہوتا، یوں اپنے تحفظ کے اصول کے تحت بندوق کا استعمال لازمی ہوجاتا ہے۔

ایمل کے والدین نے اپنی بیٹی کی ہلاکت کے معاملے پر قانونی چارہ جوئی کی، یوں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس واقعہ کا ازخود نوٹس لیا۔ سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران یہ ثابت ہوا کہ ایمل کی موت پولیس کانسٹیبل کی گولی سے ہوئی۔ سپریم کورٹ نے ایمبولینس کے نظام میں خرابی اور نجی اسپتالوں میں ہنگامی صورتحال میں لانے والے مریضوں کے فوری علاج نہ ہونے کے واقعات کے تدارک کے لیے ہدایات جاری کیں۔

ایمل کے والدین نے غلطی کے ذمے دار پولیس اہلکار کو معاف کردیا مگر وزیر اعلیٰ سندھ نے نجی اسپتالوں میں ہر مریض کے علاج کے لیے قانون سندھ اسمبلی سے منظور کرایا، یوں ایمل کے والدین کی جدوجہد سے حکومت سندھ ایک بہتر قانون بنانے میں کامیاب ہوئی۔ ایمل کے واقعے کے بعد کراچی پولیس کے سربراہ ڈاکٹر امیر شیخ نے فیصلہ کیا کہ موبائل پر فرائض انجام دینے والے اہلکاروں کو کلاشنکوف جیسے بھاری ہتھیاروں کے بجائے ٹومی گن فراہم کی جائے گی، یوں انھوں نے اتنا مقدس فریضہ انجام دیا مگر انھوں نے مسئلہ کا حقیقی حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔

سندھ اسمبلی کے اراکین نے اس واقعے کی سنگینی کو محسوس کیا مگر اس قرارداد کی منظوری کو کافی سمجھا کہ نمرہ کو انتقال کے بعد ایم بی بی ایس کی ڈگری دی جائے۔ اراکین نے اس طرح کے واقعات کے تدارک کے لیے قانون سازی پر توجہ نہیں دی، یوں یہ اراکین عوام کی جانوں کے تحفظ کا بنیادی فریضہ انجام دینے میں ناکام رہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت پولیس میں اصلاحات پر یقین نہیں رکھتی ۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف کے 2002ء کے پولیس آرڈر کو مفلوج کرکے لارڈ میکالے کا پولیس ایکٹ دوبارہ نافذ کردیا گیا ۔

بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ پولیس کے پورے نظام کو تبدیل کیا جائے۔ پولیس اہلکاروں کی بھرتی ان کے حالات کار کو بہتر بنانے، پولیس کے محکمے میں انسانی حقوق کی بالادستی کے تصور کو رائج کرکے اور پولیس میں اندرونی طور پر احتساب اور پھر عدالتی احتساب کے طریقوں کو رائج کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے تاکہ نمرہ اور ایمل کے بعد کوئی اور بے گناہ جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں