افواہ خوف اور سوشل میڈیا

جنگ کے اس ماحول میں افواہوں کا بازار گرم ہے، سوشل میڈیا افواہیں پھیلانے میں انتہائی سبک رفتار ہے


سوشل میڈیا افواہیں پھیلانے میں انتہائی سبک رفتار ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

KARACHI: پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے دوران جہاں دونوں حکومتیں اپنے موقف کی کامیابی کیلئے کوشاں ہیں، وہیں سوشل میڈیا پر دونوں ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے کیخلاف صف آرا ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک میں بسنے والے افراد جنگ کیلئے بے تاب ہیں۔ لیکن شاید یہ لوگ جنگ کی تباہ کاریوں سے واقف نہیں۔ جنگ کی تباہ کاریاں محسوس کرنا ہوتو مہاجر کیمپوں میں موجود افغانوں سے پوچھیں۔ جنگ کا حال جاننا ہو تو شامی پناہ گزینوں کی داستانیں سن لیں۔ جنگ کے بارے میں علم نہیں تو یورپی سرحدوں پر مدد کے منتظر تارکین وطن سے پوچھ لیں۔ جنگ کا اگر علم نہیں تو عراق، افغانستان، شام، لبنان، موغادیشو الغرض درجنوں ایسے ممالک اور یاستیں سامنے آجائیں گی جو اس سے حالیہ پندرہ سے بیس برسوں میں متاثر ہوئی ہیں۔

ہمارے عوام نے جنگ کو پاک بھارت کرکٹ میچ سمجھ لیا ہے۔ جس میں نعرہ تکیبر اور جے ہری رام کی آوازیں ہی بلند ہوتی ہیں۔ اور بعض اوقات تو سٹہ لگتا ہے؛ شاید کروڑوں کا لگتا ہوگا۔ لیکن صاحبان قدر دان اور مہربان جنگ میں سٹے نہیں لگتے، جنگ میں نعروں پر ہی اکتفا نہیں ہوتا۔ جنگ میں جانیں ضائع ہوتی ہیں، ملک تباہ ہوتے ہیں، املاک کا نقصان ہوتا ہے۔ جنگ ایک بار شروع ہوجائے تو اس کا اختتام ہونے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔

میں لائن آف کنٹرول کا باسی ہوں، میں نے ایل او سی پر فائرنگ کے مناظر دیکھے ہیں، میں نے فوجی اور سویلین کی لاشیں اٹھائی ہیں۔ میں نے اپنے پیاروں، دوستوں اور عزیزوں کو کھویا ہے۔ میں نے گھروں میں اشیائے خورو نوش کی قلت کا سامنا کیا ہے، میں آج بھی ان مناظر کو یاد کرتا ہوں جب ایل او سی پر بھارتی فوج کی فائرنگ سے اسکولوں کے بچے شہید ہوئے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ والدین بچوں کو اسکول بھیجنے سے قبل امام ضامن باندھ کر لاکھوں دعائیں مانگ کر بھیجا کرتے تھے۔ میں کیسے بھول سکتا ہوں کہ میرے شہر کی مسجد پر بھارتی مارٹر گولوں کی فائرنگ سے چودہ نمازی شہید ہوئے تھے۔ میرے سامنے آج بھی وہ چھوٹے معصوم بچے موجود ہیں جو بھارتی جارحیت کے باعث ساری زندگی کیلئے معذور ہوگئے تھے۔ گذشتہ چند دنوں سے آفس میں انڈین میڈیا کی مانیٹرنگ اسائمنٹ تھا۔ یقین جانیں، بھارتی میڈیا، اینکرز اور رپورٹرز جس طرح جنگ کی خواہش کا اظہار کرر ہے ہیں، وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔

انہیں شاید کارگل وار میں مارے جانے والے سورماؤں کی لاشیں بھول گئی ہیں۔ شاید وہ مقبوضہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر مارے جانے والے اپنے سپاہیوں اور ان کے خاندانوں کو بھول گئے ہیں۔ جس گھر میں لاش جاتی ہے ناں... وہاں ایک فرد کی موت نہیں ہوتی، وہاں کئی جانیں یکدم ہی ضائع ہوتی ہیں۔ کاش آپ لوگ کسی ماں کا درد سمجھ سکیں، جس کا بیٹا محاذ پر لڑتے ہوئے مارا جاتا ہے۔ کاش آپ اس بیوہ کا درد سمجھ سکیں جس کا سہاگ بارڈر پر لڑتے ہوئے آگ کے شعلوں کی نظر ہوجاتے ہیں۔ کاش آپ اس بیٹی کے زخموں کو جان سکیں جس کا باپ اس کے سہانے مستقبل کے خواب دیکھتے دیکھتے اپنی جان کی بازی ہار گیا۔

نہیں، ہرگز نہیں۔ آپ ان درد اور مصائب کو جان ہی نہیں سکتے۔ ہاں جنگ کی باتیں کرکے آپ کی ٹی آر پی ضرور بڑھے گی۔ الفاظ کے گورکھ دھندے میں گولیوں کی گھن گرج دب جائے گی۔ خدارا اپنے دیس کے باسیوں کے حال پررحم کیجیے۔

رہی پاکستان کی بات تو یاد رکھیں، پاکستانی عوام، میڈیا، فوج اور حکومت سبھی امن کے خواہاں ہیں۔ لیکن ہماری امن کی خواہش کو کمزور نہ سمجھیے؛ مسلمان کیلئے تو اصل زندگی موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ ایمان، تقویٰ اور جہاد ہماری فوج کا سلوگن ہے۔ کسی بھی مہم جوئی اور محاذ آرائی کا مقابلہ کرنے کیلئے صرف آرمی ہی نہیں، پاکستان کا ہر شہری اپنے دیس کا سپاہی ہے۔

جنگ کے اس ماحول میں افواہوں کا بازار گرم ہے۔ سوشل میڈیا افواہیں پھیلانے میں انتہائی سبک رفتار ہے۔ بلا تحقیق ویڈیوز، تصاویر اور دیگر مواد سوشل میڈیا پر شیئر کیا جارہا ہے۔ ابھی گذشتہ دنوں کی بات ہے، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹوئٹر پر ویڈیوز کی بھرمار تھی۔ ان ویڈیو ز میں فوجی طیاروں کی حرکات و سکنات، ٹینکوں اور چھوٹے ہتھیاروں کا استعمال دکھایا گیا۔ صارفین کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ویڈیوز ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر پاک فوج کی کارروائی کی ہے۔

میں نے جب ان ویڈیوز کے بارے میں تحقیق کرنا شروع کی تومعلوم ہوا یہ آرمی کی تربیتی مشقوں کی تھیں۔ اسی طرح چند افراد رات بھر دعوے کرتے رہے کہ فلاں فلاں محاذوں پر بھاری توپ خانے اور ٹینکوں کی فائرنگ جاری ہے۔ جب ان محاذوں کے قریبی علاقوں میں رابطہ کیا گیا تو اطلاعات اس کے برعکس تھیں۔ یاد رکھیں، افواہیں دشمن کی جانب سے پھیلائی جاتی ہیں۔ جس کا مقصد ملک کے اندر خوف و ہراس پیدا کرکے عوام کے اندر خوف اور ڈر پھیلا کر اپنے مقاصد حاصل کئے جاسکیں۔ لیکن ہم دشمن کے اس پروپیگنڈے کا خود شکار ہوجاتے ہیں۔

اس وقت پاکستانی میڈیا کا کردار انتہائی مثبت ہے۔ میڈیا پر اعتماد کریں، آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے مواد کو آگے پھیلائیں۔ یہاں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر رہنے والے شہریوں سے بھی اپیل ہے کہ خدارا حساس مقامات کی ویڈیوز اور تصاویر کی تشہیر نہ کریں۔ کیوں کہ دفاعی اعتبار سے آپ کی یہ حرکت خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔ بہرحال جنگ کی خواہش کرنا بھی تکلیف دہ ہے۔ جنگ کا نام ہی انتہائی ہولناک ہے۔ اس کی تباہی کا اندازہ آج کے نوجوانوں، بھارتی اینکرز کو نہیں ہے۔

صحافی معاشرے کی آنکھ اور زبان ہوتا ہے، جو نہ صرف عوام کو معلومات کے ساتھ ساتھ شعور اور آگاہی دیتا ہے، بلکہ عوام کے الفاظ کو زبان بھی بخشتا ہے۔ صحافی کی غیر ذمہ داری قوموں کی تباہی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جیسے پاکستانی عوام، حکومت، میڈیا اور فوج امن کی خواہش لے کر ہاتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔ بھارتی حکومت، عوام اور اداروں کو اس کا مثبت جواب دینا چاہیے۔

کیوں کہ ہم نے مل کر لڑنا ہے، جہالت کے اندھیروں کے خلاف۔ ہم نے ہتھیار نہیں قلم اٹھانا ہے، امن دشمنوں کیخلاف۔ اور عوام کو شعور دینے کیلئے، ہمیں دونوں ممالک میں عوام کی زندگیاں بدلنا ہیں۔ ہم نے اپنے ممالک کو دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں بنانا ہے۔ ہم جنگیں کریں گے، غربت، مہنگائی اور جہالت کیخلاف... آئیے ہمارے ساتھ قدم ملائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں