حب الوطنی اور نفرت میں فرق رکھیے
امن کی بات کیجیے لیکن کشمیر کو روٹی کا وہ ٹکڑا نہ بنائیے جسے کوئی اور کھا جائے
میرے ایک صحافی دوست نے اپنی منتقم مزاجی کا ایک قصہ کچھ یوں بیان کیا: موصوف جب دسویں جماعت میں تھے جب انہیں کبوتر پالنے کا شوق ہوا۔ سفید کبوتروں کی جوڑی لائے لیکن اگلی ہی صبح اسکول جانے سے پہلے انہیں خدا حافظ کہنے گئے تو محلے والوں کی بلی ان سے انصاف کر چکی تھی۔ جونہی بلی کی نگاہ اُن کی نگاہ سے ٹکرائی تو فوراً خطرہ بھانپتے ہی بھاگنے میں پہل کی۔
ایسی عمر میں عموماً پہلی محبت کبوتر یا بلیوں ہی سے ہوتی ہے اور اپنی محبت کا اتنا برا حال دیکھ کر وہ اپنا بستہ اور اسکول بھول بھال کر، بلی کو پکڑنے بھاگے۔ بلی بے چاری ہاتھ لگی اور پھر مختصر یہ کہ اسے بھی ابدی نیند سلا کر ہی انہوں نے کھانا کھایا۔
بظاہر یہ ایک معمولی واقع ہے مگر نہ جانے کیوں میرے اندر یہ گھنٹی ضرور بجی کہ انتقام کا یہ جذبہ کسی بھی شخص میں بلاوجہ پروان نہیں چڑھتا۔ یقیناً ماضی میں کچھ چیزیں، واقعات یا شخصیات ایسی ضرور رہی ہوں گی جنہوں نے اس جذبے کی پرورش میں اہم کردار ادا کیا ہو گا۔
ذرا اندازہ کیجئے، ان معصوم بچوں کا جنہوں نے آنکھ ہی ایسے علاقے میں کھولی جہاں ان کے باپ دادا برسوں سے اپنی شناخت اور آزادی کی جنگ لڑتے آئے۔ جو بچہ جھولے میں گولی کی آواز سن کر جوان ہوا، اسے گولی کا کیا خوف ہو گا اور بارود کی بو اسے کیا ستاتی ہوگی؟ جہاں ہر قدم پر ذات کی تذلیل کی جاتی ہو، ہر شخص اپنے تشخص کی بقاء کےلیے لڑ رہا ہو وہاں آپ کیسے بدلے میں محبت اور آشتی کی توقع کر سکتے ہیں؟ گو یہ رویہ کسی بھی طرح درست نہیں مگر اس رویےّ کی پرورش خود بھارت عشروں سے کرتا آرہا ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کا نقطہ آغاز، پلوامہ حملہ بنا جو ایک کشمیری نوجوان نے مقبوضہ کشمیر پر قابض بھارتی فوج کے ایک قافلے پر کیا۔ اس سے آپ سب واقف ہیں، مجھے زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
لیکن اگر کچھ غور کریں تو بھارت خود کشمیر میں برسوں سے یہی بیج تو بو رہا ہے۔ جب آپ نفرت کے بیج بو کر اسے انسانی خون سے سیراب کریں گے تو فصل بھی آگ اور خون ہی کی اُگے گی۔ اب اسے کاٹتے ہوئے اتنی تکلیف کیوں؟
دنیا کےلیے شاید یہ ایک واقعہ ہی ہو۔ مگر جن ماؤں نے سال ہا سال لوریاں سنا کر اور چوریاں کھلا کر اپنے جوان پالے، جن لڑکیوں نے ہزاروں خواب سجا کر اپنے ہاتھوں پر ان کے نام کی مہندی رچی، ان سب کی زندگیاں تو مرتے دم تک ویران ہوگئیں۔ انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور مائیں بھی سب کی سانجھی ہی ہوتی ہیں۔ کیا بارڈر کے اِس پار کی یا اُس پار کی، سب کے آنسو عرش ہلا دیتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب نے بہت سچ کہا کہ جنگ کا آغاز ہمارے اختیار میں ہوتا ہے لیکن پھر اس نے کس جانب جانا اور کہاں رکنا ہے، یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا۔
وہ قصہ تو آپ نے سنا ہوگا جس میں دو بندر ایک روٹی کے ٹکڑے پر لڑتے ہیں کہ اس پر کس کا حق زیادہ ہے، یہ سب دیکھ کر پاس سے گزرتی لومڑی ان میں فیصلہ کرانے کےلیے اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔ دونوں برابر حق کے حصول کےلیے پرجوش ہوتے ہیں، مگر لومڑی برابر تقسیم کے چکر میں پوری روٹی خود کھا جاتی ہے۔ بس پھر بندر زیادہ کے چکر میں تھوڑی سے بھی جاتے ہیں۔
ہم سب نے مل کر کشمیر کو بھی ویسا ہی روٹی کا ٹکڑا بنا دیا ہے۔ او آئی سی کا اجلاس جہاں مسلم ممالک کی بیٹھک ہوتی ہے تاکہ ایک دوسرے کو جہاں ممکن ہو مدد دی جا سکے اور اس موقعے پر جب بھارت نہ صرف کشمیر بلکہ پاکستان پر حملے کی باتیں کررہا ہے۔ معصموم انسانوں کے ضیاع کا بھی باعث بن رہا ہے۔ ایسے وقت پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا مہمانِ اعزازی کے طور پر وہاں مدعو ہونا، منافقت پر مبنی تقریر کرنا اور مسلم ممالک کے سربراہان کی جانب سے کشمیر کے معاملے پر کوئی سوال نہ اٹھانا بلاشبہ ہم سب کےلیے باعث تکلیف ہے۔
فنکار کو ہمیشہ امن کا سفیر مانا جاتا ہے لیکن افسوس یہ کہ جہاں عام رائے یہ پائی جاتی ہے کہ مودی سرکار الیکشن جیتنے کےلیے یہ سب اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے مگر وہیں بھارتی فنکار بھی وہ بندر بن کر ناچ رہے ہیں جنہیں صرف ڈگڈگی کے بجنے کا انتظار ہوتا ہے۔
رحم کیجیے حضور! ٹوئٹر پر جنگ و جدل کے پے در پے ٹویٹ داغنے سے پہلے زرا بارڈر پر کھڑے جوانوں کے بارے میں سوچیے، اور ان آوازوں کے بارے میں بھی جو ان کے گھروں سے دعا کی صورت آتی ہیں۔ جنگ میں ماؤں کی گودیں ویران ہوتی ہیں۔ بہنوں کے بھائی جان کی بازی ہارتے ہیں اور مختصر یہ کہ نسلیں برباد ہو جاتی ہیں۔
امن کی بات کیجیے، کشمیر کو روٹی کا وہ ٹکڑا نہ بنائیے جسے کوئی اور کھا جائے۔ کشمیریوں کو ان کا جائز حق ہر صورت ملنا چاہیے۔ آپ امن کے بیج بوئیں تو عزت بھی ملے گی، محبت بھی؛ جبکہ سرجیکل اسٹرائیکس کا بہانہ بنا کر جو شرمندگی آپ کو اب اُٹھانی پڑ رہی ہے، ایسی دو نمبر ڈرامے بازیاں بھی نہیں کرنی پڑیں گی۔
آپ ہندوستان میں رہتے ہیں مگر آپ کی حب الوطنی ثابت کرنے کےلیے آپ کا پاکستان سے نفرت کرنا شرط نہیں ہونا چاہیے۔ اور ایسا ہی ہم پاکستانیوں کےلیے بھی ہے۔ انا کی اس جنگ نے ہماری بہت سی نسلوں کو برباد کیا۔ اب بارود سے کھیلنا چھوڑئیے اور آئیے کہ دنیا کو امن کا سفیر بن کر دکھائیں۔
جاتے جاتے شکریہ ضرور کہوں گی کہ آپ کی اس حرکت نے ہمیں ایک ہی صف میں کھڑا کردیا۔ سیاسی جماعتوں سے لے کر افواجِ پاکستان، نوجوان اور یہاں تک کے بچے بھی ایک سوچ کے حامل ہیں۔
ہم امن کا پرچم لیے کھڑے ہیں۔ مگر اس امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھیے گا۔ ہمارے دین کی تعلیمات بھی ہمیں امن سکھاتی ہیں اور تربیت بھی انسانی جان کی اہمیت بتاتی ہے۔ اپنے نوجوانوں کو بھی بندوق نہیں قلم تھمائیے اور امن کا پیغام لکھنا سکھائیے۔
احمد ندیم قاسمی صاحب کی ایک نظم میرے وطن کے نام
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل، جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے، وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں سے بھی رویدگی محال نہ ہو
خدا کرے کہ نہ خم ہو سر وقار وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
آمین
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ایسی عمر میں عموماً پہلی محبت کبوتر یا بلیوں ہی سے ہوتی ہے اور اپنی محبت کا اتنا برا حال دیکھ کر وہ اپنا بستہ اور اسکول بھول بھال کر، بلی کو پکڑنے بھاگے۔ بلی بے چاری ہاتھ لگی اور پھر مختصر یہ کہ اسے بھی ابدی نیند سلا کر ہی انہوں نے کھانا کھایا۔
بظاہر یہ ایک معمولی واقع ہے مگر نہ جانے کیوں میرے اندر یہ گھنٹی ضرور بجی کہ انتقام کا یہ جذبہ کسی بھی شخص میں بلاوجہ پروان نہیں چڑھتا۔ یقیناً ماضی میں کچھ چیزیں، واقعات یا شخصیات ایسی ضرور رہی ہوں گی جنہوں نے اس جذبے کی پرورش میں اہم کردار ادا کیا ہو گا۔
ذرا اندازہ کیجئے، ان معصوم بچوں کا جنہوں نے آنکھ ہی ایسے علاقے میں کھولی جہاں ان کے باپ دادا برسوں سے اپنی شناخت اور آزادی کی جنگ لڑتے آئے۔ جو بچہ جھولے میں گولی کی آواز سن کر جوان ہوا، اسے گولی کا کیا خوف ہو گا اور بارود کی بو اسے کیا ستاتی ہوگی؟ جہاں ہر قدم پر ذات کی تذلیل کی جاتی ہو، ہر شخص اپنے تشخص کی بقاء کےلیے لڑ رہا ہو وہاں آپ کیسے بدلے میں محبت اور آشتی کی توقع کر سکتے ہیں؟ گو یہ رویہ کسی بھی طرح درست نہیں مگر اس رویےّ کی پرورش خود بھارت عشروں سے کرتا آرہا ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کا نقطہ آغاز، پلوامہ حملہ بنا جو ایک کشمیری نوجوان نے مقبوضہ کشمیر پر قابض بھارتی فوج کے ایک قافلے پر کیا۔ اس سے آپ سب واقف ہیں، مجھے زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
لیکن اگر کچھ غور کریں تو بھارت خود کشمیر میں برسوں سے یہی بیج تو بو رہا ہے۔ جب آپ نفرت کے بیج بو کر اسے انسانی خون سے سیراب کریں گے تو فصل بھی آگ اور خون ہی کی اُگے گی۔ اب اسے کاٹتے ہوئے اتنی تکلیف کیوں؟
دنیا کےلیے شاید یہ ایک واقعہ ہی ہو۔ مگر جن ماؤں نے سال ہا سال لوریاں سنا کر اور چوریاں کھلا کر اپنے جوان پالے، جن لڑکیوں نے ہزاروں خواب سجا کر اپنے ہاتھوں پر ان کے نام کی مہندی رچی، ان سب کی زندگیاں تو مرتے دم تک ویران ہوگئیں۔ انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور مائیں بھی سب کی سانجھی ہی ہوتی ہیں۔ کیا بارڈر کے اِس پار کی یا اُس پار کی، سب کے آنسو عرش ہلا دیتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب نے بہت سچ کہا کہ جنگ کا آغاز ہمارے اختیار میں ہوتا ہے لیکن پھر اس نے کس جانب جانا اور کہاں رکنا ہے، یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا۔
وہ قصہ تو آپ نے سنا ہوگا جس میں دو بندر ایک روٹی کے ٹکڑے پر لڑتے ہیں کہ اس پر کس کا حق زیادہ ہے، یہ سب دیکھ کر پاس سے گزرتی لومڑی ان میں فیصلہ کرانے کےلیے اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔ دونوں برابر حق کے حصول کےلیے پرجوش ہوتے ہیں، مگر لومڑی برابر تقسیم کے چکر میں پوری روٹی خود کھا جاتی ہے۔ بس پھر بندر زیادہ کے چکر میں تھوڑی سے بھی جاتے ہیں۔
ہم سب نے مل کر کشمیر کو بھی ویسا ہی روٹی کا ٹکڑا بنا دیا ہے۔ او آئی سی کا اجلاس جہاں مسلم ممالک کی بیٹھک ہوتی ہے تاکہ ایک دوسرے کو جہاں ممکن ہو مدد دی جا سکے اور اس موقعے پر جب بھارت نہ صرف کشمیر بلکہ پاکستان پر حملے کی باتیں کررہا ہے۔ معصموم انسانوں کے ضیاع کا بھی باعث بن رہا ہے۔ ایسے وقت پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا مہمانِ اعزازی کے طور پر وہاں مدعو ہونا، منافقت پر مبنی تقریر کرنا اور مسلم ممالک کے سربراہان کی جانب سے کشمیر کے معاملے پر کوئی سوال نہ اٹھانا بلاشبہ ہم سب کےلیے باعث تکلیف ہے۔
فنکار کو ہمیشہ امن کا سفیر مانا جاتا ہے لیکن افسوس یہ کہ جہاں عام رائے یہ پائی جاتی ہے کہ مودی سرکار الیکشن جیتنے کےلیے یہ سب اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے مگر وہیں بھارتی فنکار بھی وہ بندر بن کر ناچ رہے ہیں جنہیں صرف ڈگڈگی کے بجنے کا انتظار ہوتا ہے۔
رحم کیجیے حضور! ٹوئٹر پر جنگ و جدل کے پے در پے ٹویٹ داغنے سے پہلے زرا بارڈر پر کھڑے جوانوں کے بارے میں سوچیے، اور ان آوازوں کے بارے میں بھی جو ان کے گھروں سے دعا کی صورت آتی ہیں۔ جنگ میں ماؤں کی گودیں ویران ہوتی ہیں۔ بہنوں کے بھائی جان کی بازی ہارتے ہیں اور مختصر یہ کہ نسلیں برباد ہو جاتی ہیں۔
امن کی بات کیجیے، کشمیر کو روٹی کا وہ ٹکڑا نہ بنائیے جسے کوئی اور کھا جائے۔ کشمیریوں کو ان کا جائز حق ہر صورت ملنا چاہیے۔ آپ امن کے بیج بوئیں تو عزت بھی ملے گی، محبت بھی؛ جبکہ سرجیکل اسٹرائیکس کا بہانہ بنا کر جو شرمندگی آپ کو اب اُٹھانی پڑ رہی ہے، ایسی دو نمبر ڈرامے بازیاں بھی نہیں کرنی پڑیں گی۔
آپ ہندوستان میں رہتے ہیں مگر آپ کی حب الوطنی ثابت کرنے کےلیے آپ کا پاکستان سے نفرت کرنا شرط نہیں ہونا چاہیے۔ اور ایسا ہی ہم پاکستانیوں کےلیے بھی ہے۔ انا کی اس جنگ نے ہماری بہت سی نسلوں کو برباد کیا۔ اب بارود سے کھیلنا چھوڑئیے اور آئیے کہ دنیا کو امن کا سفیر بن کر دکھائیں۔
جاتے جاتے شکریہ ضرور کہوں گی کہ آپ کی اس حرکت نے ہمیں ایک ہی صف میں کھڑا کردیا۔ سیاسی جماعتوں سے لے کر افواجِ پاکستان، نوجوان اور یہاں تک کے بچے بھی ایک سوچ کے حامل ہیں۔
ہم امن کا پرچم لیے کھڑے ہیں۔ مگر اس امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھیے گا۔ ہمارے دین کی تعلیمات بھی ہمیں امن سکھاتی ہیں اور تربیت بھی انسانی جان کی اہمیت بتاتی ہے۔ اپنے نوجوانوں کو بھی بندوق نہیں قلم تھمائیے اور امن کا پیغام لکھنا سکھائیے۔
احمد ندیم قاسمی صاحب کی ایک نظم میرے وطن کے نام
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل، جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے، وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں سے بھی رویدگی محال نہ ہو
خدا کرے کہ نہ خم ہو سر وقار وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
آمین
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔