ٹارگٹ کلنگ اور ڈبل سواری پر پابندی
کراچی شہر میں گزشتہ 3 ماہ سے موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی عائد ہے مگر ان 3 مہینوں کے دوران 850 افراد...
کراچی شہر میں گزشتہ 3 ماہ سے موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی عائد ہے مگر ان 3 مہینوں کے دوران 850 افراد ٹارگٹ کلنگ کی نذر ہوگئے ہیں۔ موبائل اور پرس چھیننے کی واداتیں بھی ہزاروں کی تعداد میں ہوئی ہیں۔ شہر میں امن و امان کی صورتحال مسلسل خراب ہے۔ ہیومن رائٹس آف پاکستان کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ 6 ماہ کے دوران 1726 افراد قتل ہوئے، لہٰذا 3 ماہ قبل موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا، مگر شہر میں 20 لاکھ موٹر سائیکل سوار اتنی ہی تعداد میں اپنے عزیزوں کو اپنے ساتھ بٹھا کر منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتے۔ یہ 20 لاکھ افراد کس طرح اپنی منزل تک پہنچے، اس المیے پر حکمراں توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عوام کو مشکلات برداشت کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ کراچی میں موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی امن و امان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ شہر کے پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام سے بھی منسلک ہے۔ کراچی شہر میں کبھی ٹرام، سرکلر ریلوے اور بڑی بسیں چلا کرتی تھیں، پھر ٹرانسپورٹ مافیا کے مضبوط ہونے کے ساتھ ڈیزل سے چلنے والی ٹرام پر اعتراضات ہونے لگے۔ شہر کا نظام چلانے والی بیوروکریسی کو یہ بات سمجھائی گئی کہ ٹرام وے کی پٹری سے سڑک پر دوسری گاڑیوں کے دوڑنے کی گنجائش کم ہوجاتی ہے، یوں امراء کی کاروں کا سفر دیر سے مکمل ہوتا ہے۔
نتیجتاً سرکلر ریلوے کو بتدریج ختم کیا گیا۔ ریل گاڑیاں لیٹ اور انجن خراب ہونے لگے، بعدازاں ریل گاڑیوں کے اوقات کار اس طرح تبدیل کیے گئے کہ اکثریت کا ریل گاڑی سے دفتروں کو وقت پر پہنچنا اور واپسی مشکل ہوگئی اور عوام کا اعتماد مجروح ہونا شروع ہوا۔ ریل گاڑیوں میں بجلی غائب ہوگئی، بیت الخلا میں صفائی کرنا چھوڑ دی گئی۔ جب اس صورتحال میں مسافروں کی تعداد کم ہونا شروع ہوئی تو ریلوے انتظامیہ نے اپنی سروس پر توجہ دینے کے بجائے ریل گاڑیوں کی تعداد کم کردی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ سرکلر ریلوے ختم ہوگئی۔ سرکاری اداروں بشمول پولیس کے محکمے نے ریلوے کی زمینوں پر تھانے اور دوسرے دفاتر قائم کرلیے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے بیوروکریسی کی مدد سے ریلوے لائن پر کچی بستیاں آباد کرنا شروع کیں۔ کچھ علاقوں میں باقاعدہ پلاٹ بنا کر فروخت کیے گئے۔ اس طرح سفر کرنے کا یہ طریقہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری شعبے میں چلنے والی کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کو بدعنوان انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا۔ جدید بسوں سے پبلک ایڈریس سسٹم غائب ہوا، کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹنے کے بعد تبدیل نہیں ہوئے، بلب کی روشنی کے بغیر بسیں چلنے لگیں۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن میں خسارہ اس حد تک بڑھ گیا کہ بسوں کو ڈیزل اور فاضل پرزے ملنا بند ہوگئے۔ ملازمین کی تنخواہوں کا بحران پیدا ہوا، غرض یہ کہ بالآخر ایک دن کے ٹی سی کی بڑی بسیں بند ہوگئیں۔ بسوں کا کاروبار کرنے والے پرانے لوگوں نے کچھ روٹس پر بسوں کا چلانا جاری رکھا مگر شہر میں ہونے والے ہنگاموں میں بسوں کو نذر آتش کرنا معمول بن گیا۔ حکومت نے بس مالکان کے مسائل کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں، جب بھی ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتیں بڑھائی گئیں، بسوں کی ٹکٹوں کی قیمت بھی بڑھا دی گئی۔ بڑی بسوں کی جگہ منی بسوں اور کوچز کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مسلم لیگ کے دور حکومت میں منی بسوں کو کوچز کے نام پر چلایا گیا اور اس کا کرایہ منی بس سے زیادہ رکھا گیا۔ محکمہ ٹرانسپورٹ نے کوچز کے پرمٹ جاری کرتے وقت یہ شرط رکھی تھی کہ ان کوچز میں صرف نشستوں پر ہی مسافروں کو بٹھایا جائے گا۔
جب مالکان پولیس افسروں کے بھتے میں کمی کردیتے ہیں تو ٹریفک پولیس کے اہلکار ایک دو دن زیادہ مسافر بٹھانے پر کوچز کا چالان کرتے ہیں، پھر معاملہ طے ہوجاتے ہی بسوں پر پھر سے زائد مسافر بٹھانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ کراچی میں ایک زمانے میں آٹو رکشہ اور ٹیکسیوں کی بھرمار ہوتی تھی، رکشہ اور ٹیکسیاں میٹر کے مطابق چلتے تھے۔ متوسط طبقے کے مردوں اور خواتین کے لیے یہ بہتر سواری تھی۔ میاں نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں پیلی ٹیکسوں کی بہار آگئی۔ اب سوزوکی ٹیکسی سے مرسڈیز ٹیکسیاں سڑکوںپر دوڑنے لگیں۔ یہ ٹیکسیاں کراچی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے طے شدہ نرخ کے تحت میٹر کے مطابق چلتی تھیں مگر کراچی کے شہریوں کی بدقسمتی کہ یہ پیلی ٹیکسیاں سڑکوں سے غائب ہونے لگیں۔ کچھ ٹیکسیوں کے مالکان نے بینکوں کا قرضہ ادا نہیں کیا لہٰذا ان بینکوں نے اپنی ٹیکسیاں ضبط کرلیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بہت سی ٹیکسیاں افغانستان اسمگل کردی گئی تھیں۔ جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خان کراچی کے ناظم بنے تو انھوں نے بڑی بسیں چلانے پر توجہ دی۔ بینکوں نے نجی شعبے کو اس مقصد کے لیے قرضے دیے۔
کراچی میں پہلی دفعہ جدید ممالک کی طرح آٹومیٹک ڈور والی بسیں چلنے لگیں۔ ان بسوں کے مالکان نے ٹکٹوں کی فروخت سے خوب رقم کمائی مگر بینکوں کے قرضے ادا نہیں کیے گئے۔ لہٰذا بینکوں نے بہت سی بسیں ضبط کرلیں۔ کچھ مالکان کراچی کے مخدوش حالات کی بناء پر بسیں پنجاب لے گئے۔ نعمت اﷲ خان کی ناظم کی حیثیت سے میعاد ختم ہونے کے ساتھ ہی یہ بسیں بھی غائب ہوگئیں۔ سابق ناظم مصطفیٰ کمال نے اپنے دور کے آخری حصے میں گرین بسوں کا پروجیکٹ شروع کیا جس سے لوگوں کو خاطر خواہ سہولتیں حاصل ہوئیں مگر ان کے رخصت ہونے کے بعد یہ منصوبہ سرخ فیتے کا شکار ہوگیا۔ مصطفیٰ کمال کے دور میں چین کے تیار کردہ موٹر سائیکل چنگ چی رکشے پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال ہونے لگے۔ یہ رکشے کسی طور پر بھی پبلک ٹرانسپورٹ کی تعریف میں نہیں آتے۔ کم عمر بچے بغیر لائسنس کے یہ رکشے چلاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پورے شہر میں بسوں کی جگہ لے رہے ہیں۔ اب بسوں میں نصب ایل پی جی سلینڈر مزید حادثات کا سبب بن رہے ہیں۔ ادھر حکومت جاپان نے حکومت سندھ کی سرکلر ریلوے کی بحالی میں عدل دلچسپی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ 20 لاکھ افراد موٹر سائیکل پر پابندی کی بنا پر سفر نہیں کرتے، یہ لوگ بچی کچھی بسوں، منی بسوں اور کوچز میں کبھی دروازے کے ساتھ لٹک کر اور کبھی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ بسوں کی چھتوں پر سفر کسی شہری کے لیے کتنا خطرناک ہے اس پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ ان دنوں کے دوران بس اسٹاپوں پر عورتوں اور مردوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔ اس وقت عجیب صورتحال ہوتی ہے جب بڑے بس اسٹاپوں پر ہجوم بسوں کا انتظار کررہا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سی این جی رکشے قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ رکشے سی این جی کی بندش والے دن بڑی تعداد میں پیٹرول پر چلتے ہیں۔ ان رکشوں کے ڈرائیور مسافروں کو اپنے رکشہ میں بٹھانا چاہتے ہیں مگر مسافر رکشہ میں سفر کی استطاعت نہیں رکھتے۔
اس موقع پر لوگ موٹر سائیکل پر سفر کرتے ہیں تو پولیس والے ان کا چالان کرتے ہیں ۔ جو لوگ فوراً پولیس والوں کو معقول رقم نہیں دے پاتے وہ رات حوالات میں گزارتے ہیں۔ دوسرے دن 24 گھنٹے کے بعد ان لوگوں کو جن میں نوجوان زیادہ ہوتے ہیں ہتھکڑیاں لگا کر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ افطار کے بعد خریداری کے لیے جانے والے نوجوان پولیس کا شکار بنتے ہیں۔ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ سندھ کے حکام نے ٹرانسپورٹ مافیا کے ساتھ ملی بھگت سے ڈبل سواری پر پابندی عائد کی ہے کیونکہ اس پابندی کا فائدہ صرف ٹرانسپورٹ مافیا کو ہوتا ہے۔ کراچی کے لوگ اس پابندی کا شکار ہیں مگر ٹارگٹ کلنگ میں کمی نہیں آئی۔ حکام نے ناجائز اسلحہ کی بازیابی، قاتلوں کی گرفتاری اور امن و امان کو بہتر بنانے کے بجائے عوام کو سزا دینے کا طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔ کیا عوام کے مفاد میں اس پابندی کو ختم کر کے ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کے لیے دوسرے جدید طریقے استعمال نہیں کیے جاسکتے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب صرف انتظامیہ ہی دے سکتی ہے۔