اہم ترین قومی مسائل پر اختلاف رائے
جن ملکوں کے سیاست دانوں کو قوم وملک کے مفادات اور ان کے بہتر مستقبل کا خیال ہوتا ہے وہ ذاتی اور جماعتی مفادات کو ...
جن ملکوں کے سیاست دانوں کو قوم وملک کے مفادات اور ان کے بہتر مستقبل کا خیال ہوتا ہے وہ ذاتی اور جماعتی مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنی قوم، اپنے ملک کے اہم مسائل پر بلاجھجک اتفاق رائے کا اظہار کرتے ہیں اور جن ملکوں کے سیاست دانوں کو ذاتی اور جماعتی مفادات عزیز ہوتے ہیں وہ اہم ترین قومی مسائل پر اختلاف رائے میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ایسا کرنے والوں کے طبقاتی مفادات کا یہی تقاضا ہوتا ہے۔ اس وقت پاکستان کو دو ایسے مسائل کا سامنا ہے جو ملک وقوم کے مستقبل کے تعین میں اہم حیثیت کے حامل ہیں لیکن ہمارے حکمران اور اپوزیشن ان دونوں اہم ترین قومی مسائل پر بدترین اختلاف رائے کا مظاہرہ کررہے ہیں، یہ دو مسائل ہیں دہشت گردی اور بلدیاتی انتخابات۔ دہشت گردی ایک مسلح منظم منصوبہ بند بغاوت کی شکل میں پاکستان کے ہر علاقے میں نہ صرف حکومتی رٹ کو اپنے جوتوں سے رگڑ رہی ہے، بلکہ بے گناہ عوام اور سیکیورٹی فورسز کا قتل عام کررہی ہے اور اہم ترین قومی تنصیبات کو تباہ کرکے حکومت کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ ''تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے''۔
ایسی خطرناک صورت حال میں سیاست دان اور حکمرانوں کا ضمیر خواہ کتنا ہی مردہ کیوں نہ ہو، انھیں ذاتی اور جماعتی مفادات کتنے ہی عزیز کیوں نہ ہوں، سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اس عفریت کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے سیاست دانوں کی عوام اور ملک دوستی کا عالم یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ایک موثر اور قابل عمل پالیسی بنانے کے لیے اے پی سی میں بیٹھنے کے لیے ایسی احمقانہ شرائط، ایسے قابل افسوس رویوں کا مظاہرہ کررہے ہیں کہ عوام ان رویوں کو حیرت اور نفرت سے دیکھ رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن ذاتی اور جماعتی مفادات کی خاطر یہ لوگ ان مجرمانہ رویوں کا مظاہرہ کررہے ہیں کیا انھیں اس سے کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ جب ملک ہی دہشت گردوں کے قبضے میں چلا جائے گا تو پھر ان کے ذاتی اور جماعتی مفادات کہاں رہیںگے۔
ملک کا دوسرا اہم ترین مسئلہ بلدیاتی انتخابات کا ہے۔ جس کا تعلق ملک کی 65 سالہ سیاست میں بتدریج تبدیلی، نچلی سطح سے سیاسی قیادت کے ابھرنے اور عوام کے مسائل ان کے علاقوں میں حل کرنے سے ہے لیکن اس اہم ترین مسئلے پر بھی حکمران اور اپوزیشن ذاتی اور جماعتی مفادات کو قومی اور ملکی مفادات پر ترجیح دے رہے ہیں اور انتہائی ڈھٹائی سے کمشنری اور مجسٹریٹی نظاموں کو عوام کے سروں پر مسلط کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو اپنی اصل میں عوام دشمن، ملک وقوم دشمن نظام ہیں۔ اس حقیقت سے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اچھی طرح واقف ہیں کہ 65 سال کے دوران کسی منتخب جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کرانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی، جو جمہوریت کے فروغ اور نچلی سطح سے سیاسی قیادت ابھارنے میں شرط اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک میں بلدیاتی انتخابات ان ہی جمہوریت دشمن فوجی آمروں نے کرائے جن کو سیاست دان جمہوریت کے دشمن قرار دیتے ہیں۔
ان دو اہم ترین مسائل پر اہل سیاست جس موقع پرستی کا مظاہرہ کررہے ہیں اس کی دو بڑی وجوہات نظر آتی ہیں، ایک کہ یہ حضرات جن طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں ان طبقات کی فکری اور روایتی خواہش یہ ہوتی ہے کہ حکومت کے سارے اختیارات ان کے ہاتھوں میں مرتکز رہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ایسا بلدیاتی نظام رائج ہو جو انتظامی اور مالی اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کردے تو انتظامی اختیارات کے ساتھ ساتھ انھیں ان مالی اختیارات سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے جو ان کی لوٹ مار میں معاون ہوتے ہیں۔ عوام کے دبائو سے اور میڈیا کی کوششوںکے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے پریشر سے حکمران طبقات مجبوراً بلدیاتی انتخابات کرانے پر نیم دلی کے ساتھ راضی تو ہورہے ہیں لیکن ان کی کوشش یہی ہے کہ ایسا بلدیاتی نظام تشکیل دیں جو صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں رہے۔ اس کے لیے یہ طبقات جو بہانے تراش رہے ہیں ان میں سب سے بڑا بہانہ یہ ہے کہ نچلی سطح تک انتظامی اور مالی اختیارات منتقل کرنے سے کرپشن کی راہ ہموار ہوتی ہے، اس حوالے سے یہ 'پاکباز' لوگ ناظمین کے نظام پر کرپشن کا الزام لگاتے ہوئے اسے مسترد کرتے ہیں۔
حیرت ہے کہ یہ الزام ناظمین کے نظام پر وہ لوگ لگا رہے ہیں جن کی پوری تاریخ کرپشن سے بھری ہوئی ہے، جو سر سے پیر تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں جن کے کارناموں سے میڈیا بھرا ہوا ہے۔ آج صدر، وزیراعظم، وزرا و قومی اداروں اور اپوزیشن کے معززین کی کرپشن کی جو داستانیں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، کیا ان داستانوں میں کسی ناظم کا نام آرہا ہے؟ اصل مسئلہ یہی ہے کہ فیڈرل اور فیڈرل ذہنیت کے سیاستدان انتظامی اور مالی اختیارات میں نچلی سطح کے لوگوں کی شراکت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ضیاء الحق نے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ترقیاتی کاموں کے نام پر جو کروڑوں روپوں کے فنڈ بطور رشوت دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا اسے ایک دوسرے فوجی آمر مشرف نے ناظمین کے نظام کے ذریعے روکنے کی کوشش کی۔
ہمارے انتخابی نظام کی خوبی یہ ہے کہ قومی اور صوبائی انتخابی نظام سرمایہ کاری اور تجارت کے نظام میں بدل گیا ہے۔ انتخابی مہم پر جو کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں ان کی بھاری سود سمیت واپسی کا راستہ ضیاء الحق کی فنڈنگ کے نظام سے گزرتا ہے۔ ضیاء الحق کی روایت پر چلتے ہوئے ہمارے آمر مخالف حکمران اپنے انتخاب لڑنے والے ارکان کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ انتخابی مہم پر انھوں نے جو سرمایہ کاری کی ہے وہ رقم انھیں سود سمیت ترقیاتی پروگراموں کے نام پر واپس مل جائے گی۔ ماضی میں ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کو ترقیاتی پروگراموں کے نام پر جو کروڑوں روپے دیے جاتے رہے ہیں ان کے استعمال کی داستانیں بھی میڈیا میں آتی رہی ہیں۔ 2013 کی انتخابی مہم پر جو سرمایہ کاری کی گئی ہے اگر انتظامی اور مالی اختیارات کو نچلی سطح پر پہنچانے والا کوئی بلدیاتی نظام اختیار کیا جاتا ہے تو انتخابی مہم پر خرچ کیے جانے والے کروڑوں روپوں کی سود سمیت واپسی خطرے میں پڑجاتی ہے اور حکمرانوں کے لیے اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو قابو میں رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بلدیاتی نظام کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نظام سے صوبائی اور مرکزی رہنمائوں کے کھانے پینے کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔
وزیراعظم نے جاتی عمرہ میں منعقد ہونے والی اکابرین کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''نئے بلدیاتی نظام میں عوام کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور عوام کے گھروں کی دہلیز پر ان کے مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے جائیں۔'' میاں صاحب کی اس خواہش کی تعریف کی جانی چاہیے لیکن پچھلی حکومت کے دوران پنجاب میں جو کمشنری نظام نافذ کیا گیا، کیا وہ اس قابل تھا کہ اس میں عوام کے مسائل حل ہوسکیں اور عوام کی دہلیز پر ان کے مسائل کے حل کا انتظام کیا جاسکے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ اور وڈیرہ شاہی جمہوریت تو ہر قیمت پر انتظامی اور مالی اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے لیے کمشنری نظام کی وکالت کرتی ہے لیکن مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے چھوٹے صوبوں کے حکمرانوں کی طرف سے کمشنری نظام کی حمایت کا مطلب کیا ہے؟
سپریم کورٹ نے ستمبر میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا واضح حکم دے دیا ہے لیکن چاروں صوبوں کے حکمران مختلف بہانوں سے ستمبر میں بلدیاتی الیکشن کرانے سے گریزاں ہیں۔ ہوسکتا ہے سپریم کورٹ ان بہانوں کو قبول کرتے ہوئے بلدیاتی الیکشن کی تاریخ میں توسیع کردے لیکن حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عوام اب ایسے کسی بلدیاتی نظام کو قبول نہیں کریںگے جس میں انتظامی اور مالی اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہ ہوں اور اس میں کسی قسم کی صوبائی مداخلت ہو۔
ایسی خطرناک صورت حال میں سیاست دان اور حکمرانوں کا ضمیر خواہ کتنا ہی مردہ کیوں نہ ہو، انھیں ذاتی اور جماعتی مفادات کتنے ہی عزیز کیوں نہ ہوں، سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اس عفریت کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے سیاست دانوں کی عوام اور ملک دوستی کا عالم یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ایک موثر اور قابل عمل پالیسی بنانے کے لیے اے پی سی میں بیٹھنے کے لیے ایسی احمقانہ شرائط، ایسے قابل افسوس رویوں کا مظاہرہ کررہے ہیں کہ عوام ان رویوں کو حیرت اور نفرت سے دیکھ رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن ذاتی اور جماعتی مفادات کی خاطر یہ لوگ ان مجرمانہ رویوں کا مظاہرہ کررہے ہیں کیا انھیں اس سے کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ جب ملک ہی دہشت گردوں کے قبضے میں چلا جائے گا تو پھر ان کے ذاتی اور جماعتی مفادات کہاں رہیںگے۔
ملک کا دوسرا اہم ترین مسئلہ بلدیاتی انتخابات کا ہے۔ جس کا تعلق ملک کی 65 سالہ سیاست میں بتدریج تبدیلی، نچلی سطح سے سیاسی قیادت کے ابھرنے اور عوام کے مسائل ان کے علاقوں میں حل کرنے سے ہے لیکن اس اہم ترین مسئلے پر بھی حکمران اور اپوزیشن ذاتی اور جماعتی مفادات کو قومی اور ملکی مفادات پر ترجیح دے رہے ہیں اور انتہائی ڈھٹائی سے کمشنری اور مجسٹریٹی نظاموں کو عوام کے سروں پر مسلط کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو اپنی اصل میں عوام دشمن، ملک وقوم دشمن نظام ہیں۔ اس حقیقت سے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اچھی طرح واقف ہیں کہ 65 سال کے دوران کسی منتخب جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کرانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی، جو جمہوریت کے فروغ اور نچلی سطح سے سیاسی قیادت ابھارنے میں شرط اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک میں بلدیاتی انتخابات ان ہی جمہوریت دشمن فوجی آمروں نے کرائے جن کو سیاست دان جمہوریت کے دشمن قرار دیتے ہیں۔
ان دو اہم ترین مسائل پر اہل سیاست جس موقع پرستی کا مظاہرہ کررہے ہیں اس کی دو بڑی وجوہات نظر آتی ہیں، ایک کہ یہ حضرات جن طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں ان طبقات کی فکری اور روایتی خواہش یہ ہوتی ہے کہ حکومت کے سارے اختیارات ان کے ہاتھوں میں مرتکز رہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ایسا بلدیاتی نظام رائج ہو جو انتظامی اور مالی اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کردے تو انتظامی اختیارات کے ساتھ ساتھ انھیں ان مالی اختیارات سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے جو ان کی لوٹ مار میں معاون ہوتے ہیں۔ عوام کے دبائو سے اور میڈیا کی کوششوںکے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے پریشر سے حکمران طبقات مجبوراً بلدیاتی انتخابات کرانے پر نیم دلی کے ساتھ راضی تو ہورہے ہیں لیکن ان کی کوشش یہی ہے کہ ایسا بلدیاتی نظام تشکیل دیں جو صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں رہے۔ اس کے لیے یہ طبقات جو بہانے تراش رہے ہیں ان میں سب سے بڑا بہانہ یہ ہے کہ نچلی سطح تک انتظامی اور مالی اختیارات منتقل کرنے سے کرپشن کی راہ ہموار ہوتی ہے، اس حوالے سے یہ 'پاکباز' لوگ ناظمین کے نظام پر کرپشن کا الزام لگاتے ہوئے اسے مسترد کرتے ہیں۔
حیرت ہے کہ یہ الزام ناظمین کے نظام پر وہ لوگ لگا رہے ہیں جن کی پوری تاریخ کرپشن سے بھری ہوئی ہے، جو سر سے پیر تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں جن کے کارناموں سے میڈیا بھرا ہوا ہے۔ آج صدر، وزیراعظم، وزرا و قومی اداروں اور اپوزیشن کے معززین کی کرپشن کی جو داستانیں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، کیا ان داستانوں میں کسی ناظم کا نام آرہا ہے؟ اصل مسئلہ یہی ہے کہ فیڈرل اور فیڈرل ذہنیت کے سیاستدان انتظامی اور مالی اختیارات میں نچلی سطح کے لوگوں کی شراکت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ضیاء الحق نے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ترقیاتی کاموں کے نام پر جو کروڑوں روپوں کے فنڈ بطور رشوت دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا اسے ایک دوسرے فوجی آمر مشرف نے ناظمین کے نظام کے ذریعے روکنے کی کوشش کی۔
ہمارے انتخابی نظام کی خوبی یہ ہے کہ قومی اور صوبائی انتخابی نظام سرمایہ کاری اور تجارت کے نظام میں بدل گیا ہے۔ انتخابی مہم پر جو کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں ان کی بھاری سود سمیت واپسی کا راستہ ضیاء الحق کی فنڈنگ کے نظام سے گزرتا ہے۔ ضیاء الحق کی روایت پر چلتے ہوئے ہمارے آمر مخالف حکمران اپنے انتخاب لڑنے والے ارکان کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ انتخابی مہم پر انھوں نے جو سرمایہ کاری کی ہے وہ رقم انھیں سود سمیت ترقیاتی پروگراموں کے نام پر واپس مل جائے گی۔ ماضی میں ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کو ترقیاتی پروگراموں کے نام پر جو کروڑوں روپے دیے جاتے رہے ہیں ان کے استعمال کی داستانیں بھی میڈیا میں آتی رہی ہیں۔ 2013 کی انتخابی مہم پر جو سرمایہ کاری کی گئی ہے اگر انتظامی اور مالی اختیارات کو نچلی سطح پر پہنچانے والا کوئی بلدیاتی نظام اختیار کیا جاتا ہے تو انتخابی مہم پر خرچ کیے جانے والے کروڑوں روپوں کی سود سمیت واپسی خطرے میں پڑجاتی ہے اور حکمرانوں کے لیے اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو قابو میں رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بلدیاتی نظام کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نظام سے صوبائی اور مرکزی رہنمائوں کے کھانے پینے کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔
وزیراعظم نے جاتی عمرہ میں منعقد ہونے والی اکابرین کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''نئے بلدیاتی نظام میں عوام کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور عوام کے گھروں کی دہلیز پر ان کے مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے جائیں۔'' میاں صاحب کی اس خواہش کی تعریف کی جانی چاہیے لیکن پچھلی حکومت کے دوران پنجاب میں جو کمشنری نظام نافذ کیا گیا، کیا وہ اس قابل تھا کہ اس میں عوام کے مسائل حل ہوسکیں اور عوام کی دہلیز پر ان کے مسائل کے حل کا انتظام کیا جاسکے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ اور وڈیرہ شاہی جمہوریت تو ہر قیمت پر انتظامی اور مالی اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے لیے کمشنری نظام کی وکالت کرتی ہے لیکن مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے چھوٹے صوبوں کے حکمرانوں کی طرف سے کمشنری نظام کی حمایت کا مطلب کیا ہے؟
سپریم کورٹ نے ستمبر میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا واضح حکم دے دیا ہے لیکن چاروں صوبوں کے حکمران مختلف بہانوں سے ستمبر میں بلدیاتی الیکشن کرانے سے گریزاں ہیں۔ ہوسکتا ہے سپریم کورٹ ان بہانوں کو قبول کرتے ہوئے بلدیاتی الیکشن کی تاریخ میں توسیع کردے لیکن حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عوام اب ایسے کسی بلدیاتی نظام کو قبول نہیں کریںگے جس میں انتظامی اور مالی اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہ ہوں اور اس میں کسی قسم کی صوبائی مداخلت ہو۔