تین سال تک لوڈشیڈنگ فری ملک
پہلے جب جناب خواجہ آصف صاحب نے کہا تھا کہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لیے بجلی کے نرخ بڑھانا ناگزیر ہے تو ...
پہلے جب جناب خواجہ آصف صاحب نے کہا تھا کہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لیے بجلی کے نرخ بڑھانا ناگزیر ہے تو بات کچھ ہمارے پلے نہیں پڑی تھی، دراصل ہم عام لوگ اتنے سمجھ دار ہوتے تو اب تک وزیر نہ بن چکے ہوتے اور وزیر تو وزیر ہوتے ہیں جو زیادہ تر باتدبیر بھی ہوتے ہیں چنانچہ وہ بات جو تب سمجھ میں نہیں آئی تھی، اب سمجھ میں آ گئی ہے کیوں کہ اس دوران آئی ایم ایف کا قرضہ پیکیج آیا جس میں بجلی پر سے سب سڈی ختم کرنے کا حکم صادر ہوا اور اس پر ہنگامی انداز میں ''غور'' کے اس حوض میں غوطے لگائے گئے جو آئی ایم ایف نے تحفے میں دیا تھا، ''غور'' کے اس حوض کے تیراکوں نے باہر سر نکالے تو ایک ''اصولی فیصلہ'' سب کی چونچ میں تھا اور خبر آئی کہ بجلی پر سے سب سڈی ختم کر کے چودہ روپے فی یونٹ کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا، فیصلے کے ساتھ یہ ''اصولی'' کی دم لگانے کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا لیکن خود کو عوام سمجھ کر فرض کر لیا گیا کہ
رموز سلطنت خویش خسرواں دانند
گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش
صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے چنانچہ اب جو وزیر بجلی محترم خواجہ آصف کا بیان آیا ہے اس نے سب کچھ سمجھا دیا وہ بھی جو سمجھ میں آیا تھا وہ بھی جو سمجھ میں نہیں آیا اور وہ بھی جو کبھی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ محترم وزیر صاحب نے فرمایا ہے کہ تین سال میں ملک کو ''لوڈ شیڈنگ فری'' بنا دیں گے۔ یعنی پھر روز گوشت پکے گا اور شام پلاؤ کھائیں گے، چین کی بانسری بجائیں گے اور خلیل خان فاختے اڑائیں گے
بہشت آں جا کہ لوڈ شیڈے نہ باشد
کسے را باکسے کارے نہ باشد
سب سے پہلے تو اس لفظ ''لوڈ شیڈنگ فری'' سے پورا پورا لطف اٹھانے دیجیے ایسا لگتا جسے منہ میں بتاشہ گُھل گیا ہو، لوڈ شیڈنگ فری یوں کہئے کہ دو دو لچھے دار پراٹھے ایک ساتھ کھانے کو مل رہے ہوں یا چلیے وعدہ سہی لیکن لچھے دار پراٹھوں اور وہ بھی دو دو کا تصور ہی پیٹ اور نیت دونوں بھرنے کے لیے کافی ہے
کلکتہ کا جو نام لیا تو نے ہم نشین
اک تیر مرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
اگر یہ بات صرف خواجہ آصف نے کہی ہوتی تو ہم اسے ''وزیر کا بیان'' سمجھ کر وہی سلوک کرتے جو وزیروں کے بیانات کے ساتھ ہونا چاہیے اور ہوتا ہے کیوں کہ اکثر وزیروں کے بیانات کی عمر اخبار کی عمر سے بھی کم ہوتی ہے اخبار تو پھر بھی چوبیس گھنٹے تک زندہ رہتا ہے وزیروں کے بیانات تو ایک گھنٹے میں بھی تبدیل ہو جاتے ہیں یا کوئی دوسرا وزیر کسی دوسرے بیان سے اس کی ہوا نکال دیتا ہے، ویسے بعض اوقات وزیروں کے بیانات کے غبارے اپنے اندر خود ہی ایک عدد کانٹا بھی رکھتے ہیں کہ ادھر پھولتے ہیں اٹھتے ہیں اور ادھر وہ کانٹا چبھ کر اسے پھس کر دیتا ہے
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
لیکن یہ بات صرف خواجہ آصف نے نہیں کہی تھی یا یوں کہئے کہ انھوں نے تو صرف بات کی تھی لیکن چند روز بعد آئی ایم ایف نے اپنی شرائط میں اس پر مہر تصدیق بھی ثبت کر دی کہ ''سب سڈی از گو وینٹ گان'' ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورد کسے ۔۔۔ بکرے کی ماں مر چکی ہے اور اب اس کی خیر منانے والا کوئی نہیں اس لیے چھری پھیر ڈال، تب قصاب نے یہ لمبا اور چمکتا ہوا چھرا لہرایا، بجلی کا نرخ چودہ روپے فی یونٹ کرنے کا اصولی فیصلہ کر دیا گیا، اکتوبر سے عمل درآمد کر دیا جائے گا، گویا یوں یہ مرحلہ مکمل ہو گیا اور خواجہ آصف کو یہ خوش خبری سنانے کا کہا گیا کہ تین سال میں ملک ''لوڈ شیڈنگ فری'' ہو جائے گا اور یہ بالکل پکی بات ہے ایسا ہی ہو جائے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ تین سال انتظار کرنے کی نوبت ہی نہ آئے اور اگلے سال ہی ملک لوڈ شیڈنگ فری ہو جائے لیکن تین سال کا عرصہ محض احتیاطاً بتا دیا گیا ہے، پہلے تو چودہ روپے یونٹ ہونے کے بعد آدھے سے زیادہ لوگ بجلی جلانا چھوڑ دیں گے کم از کم وہ لوگ تو اس سے مکمل توبہ کر لیں گے جو حلال کی روزی محنت کر کے کماتے ہیں۔
پھر ایسے لوگ ہیں جو غربت کی لکیر کے نیچے ہیں، وہیں پر پیدا ہوتے ہیں، پلتے ہیں، روتے ہیں، کراہتے ہیں، تڑپتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بجلی تو غربت کی لکیر سے اوپر ہوگی اور یہ نیچے پڑے ہوئے بے چارے ہاتھ کتنے ہی لمبے کیوں نہ کریں اس تک پہنچ نہیں پائیں گے۔ یوں بجلی اور ان کا رشتہ جو آج تک برا بھلا چل رہا تھا کٹ جائے گا، اس وقت دو باتیں بیک وقت ہو جائیں گی لکیر کے نیچے والا علاقہ بجلی فری ہو جائے گا اور اوپر والا علاقہ مکمل طور پر لوڈ شیڈنگ فری۔ مثلاً ایوب خان کے زمانے سے حکومتیں کہتی آئی ہیں کہ ملک آیندہ سال غلے میں خود کفیل ہو جائے گا، لیکن ہوتا نہیں کیوں کہ غلے کے ساتھ ساتھ اس کے کھانے والے بھی اگلے سال اور پیدا ہو جاتے ہیں
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا
چنانچہ یہاں بھی اگر نتیجہ وہی نہیں نکلا جو باتدبیروں نے آئی ایم ایف کی مدد سے سوچا ہے۔ ورنہ دوسرے سال دوسرا پیکیج دوسری شکل میں نازل ہو جائے گا، تب تک پانچ ارب 30 لاکھ ڈالر جو آئی ایم ایف دے چکا ہے حصہ بقدر جثہ ٹھکانے لگایا جا چکا ہو گا اور حکومت نیا درخواستِ قرضہ لیے اس کے در پہ کھڑی بلکہ ''لیٹی ہوئی'' ہو گی باریابی ہو گی تھوڑی سی گوشمالی ہو گی اور جب یہ پاؤں پڑ جائیں گے تو نیا قرضہ نئی شرائط کے ساتھ مرحمت ہو جائے گا جس میں بجلی مہنگی کرنا تو گیت کا مکھڑا ہے ممکن ہے مکھڑے کے ساتھ اس مرتبہ سورج یا ہوا پر بھی سب سڈی ختم کرنے کی شرط ہو، لیکن خبر وہ بعد میں دیکھیں گے پہلے ملک کو ''لوڈ شیڈنگ فری'' تو کرلیں۔
اندازہ ہے کہ اس مرتبہ روپے کی قدر کچھ اور بھی گھٹ چکی ہو گی اس لیے بجلی کا نرخ کم از کم دگنا یعنی اٹھائیس روپے تو ہو ہی جائے گا جس میں دو روپے ٹیکس ڈال کر تیس روپے کا راونڈ فگر نکل آئے گا، اس کا فوری فائدہ یہ ہو گا کہ کچھ لوگ جو غربت کی لکیر بلکہ لائن آف کنٹرول کو غیر قانونی طور پر پار کرتے رہتے ہیں یا دونوں طرف کے لائن کے قریب رہنے والے جو ایک دوسرے سے رابطے میں ہوتے ہیں وہ بھی زد میں آ جائیں گے، نتیجہ لازمی طور پر لوڈ شیڈنگ فری اور بجلی فری کے الگ الگ زونوں کی صورت میں نکلے گا اس طرح گویا دوسرے سال میں ٹاسک مکمل ہو جائے گا۔ ویسے یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم چونکہ خود ملک کے اس حصے سے تعلق رکھتے ہیں جس کا نام عوام اور مخلص کالانعام ہے اور غربت کی لکیر کے نیچے بسا ہوا ہے اس لیے ہم نے خواہ مخواہ وہاں کا ذکر بھی ساتھ ساتھ کیا ہوا ہے۔
لیکن حکومت کے کھاتے میں ''ملک'' صرف اس حصے کو کہتے ہیں جہاں حکم ران ان کے حالی موالی مددگار و معاون اور حاکمان و اعیان رہتے ہیں۔ چنانچہ اس مرتبہ ''ملک'' سو فیصد لوڈ شیڈنگ فری ہو جائے گا، کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ جس ''ملک'' کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں یہ تو اب بھی لوڈ شیڈنگ فری ہے یہاں نہ سورج غروب ہوتا ہے نہ بجلی غروب ہوتی ہے پھر اسے ''لوڈ شیڈنگ فری'' بنانا کیا مشکل ہے تو اس کے لیے آپ کو پاکستانی حکومت اور سرکاری غیر محررہ قانون کا علم ہونا ضروری ہے یہاں کا مستقل اصولی قانون کی واحد دفعہ اور حکومت کی پہلی ترجیح ہمیشہ یہ رہی ہے کہ قرضہ ان کو دیا جائے جن کو قرضے کی ضرورت نہیں ہوتی، ملازمین ان کو دیے جائیں جو فنڈز کے محتاج ہی نہیں ہیں ٹھیک اسی اصول کے تحت ''لوڈ شیڈنگ فری'' بھی ان لوگوں کو کیا جائے گا جن کو لوڈ شیڈنگ فری ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔