غربت کا آتش فشاں
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کس قدر غربت اپنی بے رحمی پر اتر آئی ہے اور خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے...
لاہور:
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کس قدر غربت اپنی بے رحمی پر اتر آئی ہے اور خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی زندگی کس قدر اذیت ناک ہوگئی ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں پسی ہوئی مفت راشن کے حصول اور اپنے اہل خانہ کو رمضان المبارک میں فاقوں سے بچانے کے لیے جانے والی دونوں خواتین کی میتیں جب ان کی رہائش گاہ پہنچیں تو کہرام مچ گیا، جب کہ علاقے کی فضا سوگوار ہوگئی۔
واقعہ یہ ہے کہ کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں مخیر شخص کی جانب سے مستحق خواتین میں مفت راشن تقسیم کیاجانا تھا، صبح سے ہی مفت راشن کے حصول کے لیے ہال کے اندر اور باہر بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی جیسے ہی ہال میں مفت راشن کی تقسیم شروع ہوئی باہر کھڑے بیشتر افراد نے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کی جس سے دھکم پیل شروع ہوگئی۔ اس دوران بھگدڑ مچ گئی، مفت راشن کے حصول کے لیے کھڑی خواتین گر گئیں اور ایک دوسرے کے پیروں تلے دب گئیں جس کے نتیجے میں2خواتین ہلاک، متعدد زخمی اور بے ہوش ہوگئیں اس افسوسناک واقعے کے بعد بھی خواتین کی بڑی تعداد ہال کے باہر موجود رہی اور واقعے کے بعد جب ایک مرتبہ پھر مفت راشن تقسیم شروع ہوئی تو خواتین کے ہمراہ آئے ہوئے مردوں نے بھی اس دوران لوٹ مار شروع کردی جس کے ہاتھ جو لگا لے کر فرار ہوگیا۔
اطلاعات کے مطابق 400لوگوں میں راشن تقسیم کیے جانے کا انتظام کیا گیا تھا تاہم اس کے برعکس 4ہزار سے زائد لوگ وہاں پہنچ گئے تھے۔ جس کے باعث بد نظمی کے نتیجے میں افسوسناک واقعہ رونما ہوا۔ تھانہ گلشن اقبال کراچی نے قتل خطا کے الزام میں گرفتار منتظم اور ان کے تین ملازمین کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے رو برو پیش کیا تھا اس موقع پر ریمانڈ پیپر میں ملزمان کے خلاف قابل ضمانت سیکشن کا اندراج تھا جس پر عدالت نے منتظم کو 3لاکھ اور ملازمین کی فی کس 50ہزار روپے کی ضمانت پر رہا کر دیا ہے۔
مستحقین میں مفت راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچ جانے کا ایسا ہی واقعہ4سال قبل 23رمضان المبارک 14ستمبر2009کو کھارادر کے علاقے کھوڑی گارڈن جوڑیا بازار میں پیش آیاتھا۔ بھگدڑ میں 18خواتین کچلے جانے اور دم گھٹنے کے باعث جاں بحق ہوگئی تھیں۔ کھارادر پولیس نے مذکورہ واقعے کا مقدمہ قتل خطا کی دفعہ319کے تحت ٹوکن دینے والے شخص کے خلاف درج کرکے اسے حراست میں لے لیا تھا۔ اس واقعے سے بھی قبل یعنی ماہ رمضان 16ستمبر2008کو اسی طرح کا ایک دل خراش واقعہ کوئٹہ میں پیش آیا تھا، بینظیر رمضان پیکیج کے تحت ایک صوبائی وزیر کی طرف سے مستحق خواتین میں آٹے کی تقسیم کے دوران چھینا جھپٹی سے خواتین آپس میں لڑ پڑتی ہیں جنھیں قابو کرنے کے لیے ان پر روایتی لاٹھی چارج کیا جاتا ہے، کئی غریب مسکین خواتین زخمی ہوجاتی ہیں، آٹا زمین پر بکھر جاتاہے بے بس اور حسرت بھری نگاہوں سے اور لرزتے ہوئے ہاتھوں سے غریب خواتین زمین پر بکھرا آٹا اکٹھا کرتی ہیں۔
اس واقعے سے ایک روز قبل یعنی15ستمبر2008کو انڈونیشیا کے صوبے مشرقی جاوا کے قصبے پاسوروان میں بھی اسی طرح کا واقعہ رونما ہواتھا جب ایک دولت مند خاندان کی طرف سے فی کس 30ہزار انڈونیشی روپے خیرات کے طورپر تقسیم کیے جارہے تھے تو دھکم پیل اور بھگدڑ مچ جانے سے چند خواتین زمین پر گرجاتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کے پائوں تلے کچل جاتی ہیں، ان میں سے 25خواتین کی ہلاکت اور 8خواتین کی زخمی ہونے کی تصدیق کی جاتی ہے۔ انڈونیشیا کے صدر سوسیلو بمبانگ اس واقعے پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے خیرات کا انتظام کرنے والوں کو اس واقعے کا ذمے دار قرار دیتے ہیں جب کہ دوسری طرف ہمارے جس موصوف وزیرنے کوئٹہ میں اس کار نیک کا اہتمام کیاتھا ایک لفظ افسوس کا کہہ نہ سکے تھے مذکورہ واقعات ایک ہی کہانی ''ہائے غربت! ہڑپ کر گئی کئی خاندان'' سنارہی ہے۔
یہ غریب مسکین لوگوں کی بد قسمتی نہیں بلکہ فرسودہ معاشی نظام کا شاخسانہ ہے کہ ہر دور میں غریبوں کی امداد مذاق کے طورپر کی جاتی رہی ہے۔ کبھی زکوٰۃ کے نام پر اقربا پروری کی جاتی رہی ہے تو کبھی غربت مٹائو مہم اور کبھیکوئی پروگرام تو کبھی خود روزگار اسکیموں کے تحت انھیں جھانسہ دیا گیا اور کبھی عارضی امداد کے نام پر ان کی آرزوئوں کا خون کیا گیا۔ اس کے باوجود غریبوں نے چھلکتے ہوئے گلاس سے ایک ٹپکتے ہوئے بوند کو بھی اپنے لیے سیراب سمجھا۔ ان دنوں ''بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام'' کے بڑے چرچے ہیں جس کے تحت مستحق خواتین کو ہر تین ماہ بعد 3ہزار روپے دینے کا احسان مند دعوے کیے جارہے ہیں یعنی یومیہ فی کس ادائیگی33روپے33پیسے بنتی ہے۔
یہ تقسیم کس طرح کی جاتی ہے اس کا طریقہ کار کیا ہے۔ اس کا ذکر یقیناً فائلوں میں بہتر ہوگا مگر عملاً بڑا اذیت ناک اور پریشان کن ہے۔ سب سے پہلے غربت سروے کیاگیا جس میں مستحق اور غیر مستحق خواتین پر یہ سہولت میسر ہو لیکن ڈاکیا حضرات نے چائے پانی کے نام پر ان امدادی رقم تین ہزار روپے میں سے فی کس 100روپے وصول کرنا شروع کیے جس کی عوامی سطح پر شکایت کی گئی اور ازالے کے لیے براہ راست ڈاک خانے میں انتظام کیاگیا یہاں ذلت آمیز رش کے علاوہ یہاں بھی ڈاک خانے کے عملے نے اپنے لیے کمیشن کا انتظام کیا یہ طریقہ بھی ناکام ہوا تو ATMبینک کا بندوبست کیاگیا ہے لیکن یہاں بھی غبن کا ٹیکنیکل طریقہ استعمال کیا جارہا ہے یعنی یہ امداد تین ہزار روپے تین مہینے کے بجائے6ماہ بعد ادا کی جارہی ہے اس طرح ہر تین مہینے کے فی کس تین ہزار روپے ہڑپ کیے جارہے ہیں اور یہ غبن مرکز سے ہو رہا ہے۔
اس تمام دورانیے میں مستحق خواتین کو کن کن مراحل سے گزرنا ہوتا ہے یہ الگ تحقیق طلب ہے جس میں بہت سی پریشانیاں ہیں اس صورتحال کو اجاگر کرنے کے لیے الیکٹرونک میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، الغرض غربیوں کی تنگ دستی نے ان کی عزت نفس کو مجروح کر رکھا ہے۔غربت کے نتائج بھیانک صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ لوگوں کی غریبی جن کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے ایک آتش فشاں کی صورت پھٹ سکتاہے۔ ایک لاوا ہے جو اندر ہی اندر دہک رہا ہے اور حکمران بے خبر ہیں اس سے پہلے کہ غربت کے آتش فشاں کے اس لاوے میں سب کچھ جل کر بھسم ہوجائے خیرات وزکوٰۃ کی تقسیم سے ہٹ کر بھی ملک سے غربت کے خاتمے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔