پولیس اور سیاست کی چادر
ضلع اوکاڑہ کے ایک تھانے میں باپ بیٹے سے شرمناک سلوک کی خبریں میڈیا کی زینت بننے کے بعد پنجاب حکومت نے...
ضلع اوکاڑہ کے ایک تھانے میں باپ بیٹے سے شرمناک سلوک کی خبریں میڈیا کی زینت بننے کے بعد پنجاب حکومت نے نوٹس لے کر متعلقہ تھانے کے پولیس اہلکاروں کو نہ صرف معطل کردیا بلکہ اوکاڑہ میں تعینات بڑے پولیس افسران کی خبر کی نوید بھی دی گئی، ساتھ یہ فرمان بھی پھر زور و شور سے جاری کردیا گیا کہ تھانہ کلچر کو تبدیل کرکے رہیں گے۔ تھانہ کلچر کی تبدیلی کی نوید کوئی نئی نہیں بلکہ گزرے پانچ سال سے اس کی گردان جاری ہے، تھانہ کلچر میں عوام ایسی تبدیلی نہیں چاہتے کہ تھانیدار مجرم کو سیلوٹ مار رہا ہو اور اس کی ہر بات پر یس سر، یس سر کر نے لگے۔ دراصل تھانہ کلچر میں ایسی تبدیلی عوام کی دیرینہ خواہش ہے کہ جہاں مظلوم کو انصاف اور ظالم کو اپنے کیے کا حساب ملے۔
آج بھی ظالم تھانہ، چوکی اور کچہری کو اپنے مخالفین کو زچ کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے اور خوب کرتا ہے۔ ضلع اوکاڑہ کے تھانے میں رونما ہونے والا افسوسناک واقعہ نہ تو پولیس گردی کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری۔ جب تک ظلم کا یہ بازار گرم رہے گا، تھانوں میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ انصاف کی فراہمی کے باب میں تھانہ کچہری کو مظلوم کی جائے امان ہونا چاہیے لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے پولیس نظام میں تھانہ ظالم کا محفوظ ٹھکانا اور ہتھیار ہے، جو سماجی زندگی میں کمزور اور بے بس پر ظلم کرنے کے بعد اسے دو سے ضرب دینے کے لیے تھانے کچہری کی جانب دھکیل دیتا ہے، اس کے بعد مظلوم کے ساتھ ایک نیا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔ ظالم ''چمک'' اور اثر و رسوخ کو بروئے کار لاکر مظلوم پر ظلم و ستم کے مزید در مزید پہاڑ ڈھاتا ہی چلا جاتا ہے۔
تھانہ کلچر ایسا کیوں ہے کہ جہاں مظلوم اور بے بس کی جگہ فرعون کے لیے معاونت کا مادہ پایا جاتا ہے؟ تھانے میں قانون کی موٹی موٹی کتابوں سے واقفیت رکھنے والے، قانون کی الف، ب سے واقفیت کے باوجود قانون سے روگردانی کے مرتکب کیوں ہوتے ہیں اور مظلوم کو کیوں انصاف فراہم نہیں کرتے؟ قصہ دراصل یہ ہے کہ اوپر سے جب قانون کی گنگا الٹی بہہ رہی ہو تو نیچے والوں نے اس میں نہانے کے سوا اور کیا کرنا ہے؟ جب اوپر سے ہی قانون کی راج دھانی کی الٹی پٹی پڑھائی جائے پھر پولیس اہلکاروں نے مظلوموں کے ساتھ ایسا ہی شرمناک سلوک کرنا ہے۔ ہر ضلع، ہر تحصیل اور ہر تھانے میں میرٹ پر تعیناتی اور تبادلے نہیں ہوتے بلکہ سیاست دانوں کی منشا اور مرضی پر تھانوں میں ''بادشاہوں'' کا تقرر کیا جاتا ہے۔ سیاست کی مرضی سے تقرر ہونے والے ''بادشاہ'' میرٹ اور قانون کو کم اور اپنے سیاسی آقائوں کی آنکھ کی پھڑک کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
وبال اور معاشرتی انصاف کی ناپیدی کا ملال یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ معاملات کی الف، ب کی ترتیب یہاں سے غلط ہوکر پھر اسی سیڑھی پر چلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ تھانہ کلچر میں تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ''ڈھول سپاہی'' سے لے کر کوتوال شہر تک کے تقرر اور تبادلے میرٹ پر کرنے کا چلن عام نہیں کیا جاتا۔ اور اس کی ابتدا حکمرانوں کے آفس سے ہوگی، کسی اور مقام سے نہیں۔ پولیس کے ہر شرمناک فعل کے بعد پولیس اہلکاروں اور پولیس افسران کی معطلی کے پروانے جاری کردیے جاتے ہیں اور کچھ عرصے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جن پولیس اہلکاروں اور افسران کو معطل کردیا گیا تھا انھیں پہلے سے کہیں زیادہ ''زرخیز'' مقام پر تعیناتی دی گئی ہے۔ اگر معطلیوں اور تبادلوں سے پولیس کلچر درست ہوسکتا تو اب تک تمام پولیس افسران و اہلکار فرشتوں کے رتبے پر فائز ہوچکے ہوتے کہ شاید ہی کوئی ایسا خوش قسمت پولیس والا ہو جو آج تک سینے پر معطلی کا تمغہ سجانے سے بچا ہوا ہو۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ صرف ''ہٹو بچو'' جیسے اقدامات اور اعلانا ت سے پولیس اور تھانہ کلچر میں موجود خرابیاں نہ اب تک دور ہوسکی ہیں اور نہ مستقبل میں ایسی کوئی امید نظر آتی ہے۔ پولیس کے نظام میں اگر انصاف پسندی اور مظلوم پروری کا بول بالا کرنا ہے تو صرف اور صرف میرٹ کو اپنا لیجیے، پولیس اہلکاروں اور افسران کی تعیناتی میں سیاست کے بجائے میرٹ کو مدنظر رکھیے اور اپنے سیاسی کولیگز کی ایک نہ سنیے۔ پولیس کے رویے میں کافی بلکہ شافی حد تک بہتری آجائے گی۔ لیکن پورے ملک میں پولیس اہلکار اپنے افسران کے ماتحت کم اور سیاست دانوں کے ''زیر سایہ'' زیادہ ہوتے ہیں۔ اوپر سے لے کر نچلے عہدوں کے تقرر و تبادلوں میں مکمل طور پر سیاست کی دخل اندازی کی وبا عام ہے۔ سیاسی چھتری کے نمو کی وجہ سے پولیس معاشرتی اور قانونی فرائض سے مادر پدر آزاد ہوچکی ہے اور سیاست کی کامل غلام بن چکی ہے۔ پولیس کے نظام میں سیاست کے وائرس کی پائیداری کے بعد چھو ٹے سے چھو ٹے پولیس اہلکار سے لے کر ذمے دار عہدوں تک کے ہر پولیس افسر کا یہ ایمان بن گیا ہے کہ اس کی نوکری کی بقا سیاست دانوں اور حکمرانوں کی مرہون منت ہے، اگر اس کے تعلقات اعلیٰ اور مقامی حکمرانوں سے ٹھیک ہوں تو اس کے ''واروں نیاروں'' پر قدغن نہیں لگ سکتی۔
پولیس کلچر میں راسخ ہونے والی اس سیاسی بدعت کی وجہ سے پولیس میں قانون سے رو گردانی کا کینسر عام ہو چکا ہے، جس کی جھلک ہر تھانے اور ہر پولیس چوکی میں دیکھی جاسکتی ہے۔ گزرے پانچ سال میں بھی پنجاب میں تھانہ کلچر کی تبدیلی کا نعرہ مستانہ بلند ہوتا رہا، الیکشن کے موسم میں بھی یہی نعرہ ہر سو گونجتا رہا اور حکومت میں آنے کے بعد پھر تسلسل سے تھانہ کلچر کی تبدیلی کی بات ہو رہی ہے لیکن عملاً پولیس کلچر میں اس وقت تک تبدیلی ممکن نہیں جب تک پولیس کے سر سے سیاست کی چادر نہیں ہٹائی جاتی۔
آج بھی ظالم تھانہ، چوکی اور کچہری کو اپنے مخالفین کو زچ کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے اور خوب کرتا ہے۔ ضلع اوکاڑہ کے تھانے میں رونما ہونے والا افسوسناک واقعہ نہ تو پولیس گردی کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری۔ جب تک ظلم کا یہ بازار گرم رہے گا، تھانوں میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ انصاف کی فراہمی کے باب میں تھانہ کچہری کو مظلوم کی جائے امان ہونا چاہیے لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے پولیس نظام میں تھانہ ظالم کا محفوظ ٹھکانا اور ہتھیار ہے، جو سماجی زندگی میں کمزور اور بے بس پر ظلم کرنے کے بعد اسے دو سے ضرب دینے کے لیے تھانے کچہری کی جانب دھکیل دیتا ہے، اس کے بعد مظلوم کے ساتھ ایک نیا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔ ظالم ''چمک'' اور اثر و رسوخ کو بروئے کار لاکر مظلوم پر ظلم و ستم کے مزید در مزید پہاڑ ڈھاتا ہی چلا جاتا ہے۔
تھانہ کلچر ایسا کیوں ہے کہ جہاں مظلوم اور بے بس کی جگہ فرعون کے لیے معاونت کا مادہ پایا جاتا ہے؟ تھانے میں قانون کی موٹی موٹی کتابوں سے واقفیت رکھنے والے، قانون کی الف، ب سے واقفیت کے باوجود قانون سے روگردانی کے مرتکب کیوں ہوتے ہیں اور مظلوم کو کیوں انصاف فراہم نہیں کرتے؟ قصہ دراصل یہ ہے کہ اوپر سے جب قانون کی گنگا الٹی بہہ رہی ہو تو نیچے والوں نے اس میں نہانے کے سوا اور کیا کرنا ہے؟ جب اوپر سے ہی قانون کی راج دھانی کی الٹی پٹی پڑھائی جائے پھر پولیس اہلکاروں نے مظلوموں کے ساتھ ایسا ہی شرمناک سلوک کرنا ہے۔ ہر ضلع، ہر تحصیل اور ہر تھانے میں میرٹ پر تعیناتی اور تبادلے نہیں ہوتے بلکہ سیاست دانوں کی منشا اور مرضی پر تھانوں میں ''بادشاہوں'' کا تقرر کیا جاتا ہے۔ سیاست کی مرضی سے تقرر ہونے والے ''بادشاہ'' میرٹ اور قانون کو کم اور اپنے سیاسی آقائوں کی آنکھ کی پھڑک کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
وبال اور معاشرتی انصاف کی ناپیدی کا ملال یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ معاملات کی الف، ب کی ترتیب یہاں سے غلط ہوکر پھر اسی سیڑھی پر چلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ تھانہ کلچر میں تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ''ڈھول سپاہی'' سے لے کر کوتوال شہر تک کے تقرر اور تبادلے میرٹ پر کرنے کا چلن عام نہیں کیا جاتا۔ اور اس کی ابتدا حکمرانوں کے آفس سے ہوگی، کسی اور مقام سے نہیں۔ پولیس کے ہر شرمناک فعل کے بعد پولیس اہلکاروں اور پولیس افسران کی معطلی کے پروانے جاری کردیے جاتے ہیں اور کچھ عرصے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جن پولیس اہلکاروں اور افسران کو معطل کردیا گیا تھا انھیں پہلے سے کہیں زیادہ ''زرخیز'' مقام پر تعیناتی دی گئی ہے۔ اگر معطلیوں اور تبادلوں سے پولیس کلچر درست ہوسکتا تو اب تک تمام پولیس افسران و اہلکار فرشتوں کے رتبے پر فائز ہوچکے ہوتے کہ شاید ہی کوئی ایسا خوش قسمت پولیس والا ہو جو آج تک سینے پر معطلی کا تمغہ سجانے سے بچا ہوا ہو۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ صرف ''ہٹو بچو'' جیسے اقدامات اور اعلانا ت سے پولیس اور تھانہ کلچر میں موجود خرابیاں نہ اب تک دور ہوسکی ہیں اور نہ مستقبل میں ایسی کوئی امید نظر آتی ہے۔ پولیس کے نظام میں اگر انصاف پسندی اور مظلوم پروری کا بول بالا کرنا ہے تو صرف اور صرف میرٹ کو اپنا لیجیے، پولیس اہلکاروں اور افسران کی تعیناتی میں سیاست کے بجائے میرٹ کو مدنظر رکھیے اور اپنے سیاسی کولیگز کی ایک نہ سنیے۔ پولیس کے رویے میں کافی بلکہ شافی حد تک بہتری آجائے گی۔ لیکن پورے ملک میں پولیس اہلکار اپنے افسران کے ماتحت کم اور سیاست دانوں کے ''زیر سایہ'' زیادہ ہوتے ہیں۔ اوپر سے لے کر نچلے عہدوں کے تقرر و تبادلوں میں مکمل طور پر سیاست کی دخل اندازی کی وبا عام ہے۔ سیاسی چھتری کے نمو کی وجہ سے پولیس معاشرتی اور قانونی فرائض سے مادر پدر آزاد ہوچکی ہے اور سیاست کی کامل غلام بن چکی ہے۔ پولیس کے نظام میں سیاست کے وائرس کی پائیداری کے بعد چھو ٹے سے چھو ٹے پولیس اہلکار سے لے کر ذمے دار عہدوں تک کے ہر پولیس افسر کا یہ ایمان بن گیا ہے کہ اس کی نوکری کی بقا سیاست دانوں اور حکمرانوں کی مرہون منت ہے، اگر اس کے تعلقات اعلیٰ اور مقامی حکمرانوں سے ٹھیک ہوں تو اس کے ''واروں نیاروں'' پر قدغن نہیں لگ سکتی۔
پولیس کلچر میں راسخ ہونے والی اس سیاسی بدعت کی وجہ سے پولیس میں قانون سے رو گردانی کا کینسر عام ہو چکا ہے، جس کی جھلک ہر تھانے اور ہر پولیس چوکی میں دیکھی جاسکتی ہے۔ گزرے پانچ سال میں بھی پنجاب میں تھانہ کلچر کی تبدیلی کا نعرہ مستانہ بلند ہوتا رہا، الیکشن کے موسم میں بھی یہی نعرہ ہر سو گونجتا رہا اور حکومت میں آنے کے بعد پھر تسلسل سے تھانہ کلچر کی تبدیلی کی بات ہو رہی ہے لیکن عملاً پولیس کلچر میں اس وقت تک تبدیلی ممکن نہیں جب تک پولیس کے سر سے سیاست کی چادر نہیں ہٹائی جاتی۔