اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت…
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے ایٹمی سائنسدان اور انتہائی قابل احترام شخصیت ہیں، ملک کے متعدد حلقوں کی خواہش کے ...
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے ایٹمی سائنسدان اور انتہائی قابل احترام شخصیت ہیں، ملک کے متعدد حلقوں کی خواہش کے باوجود بھارت کی طرح ہم اپنے ایٹمی سائنسدان کو منصب صدارت پر فائز نہیں کرسکے، اس کے باوجود بھی ڈاکٹر قدیر خان کو عوام محسن پاکستان سمجھتے ہیں۔ نجانے کیوں بعض غیر متعلق ایشوز پر بیانات د ے کر وہ خود اپنے بارے میں لوگوں کو رائے زنی کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا حالیہ بیان بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اور اس سے قوم کے ان گنت افراد کے دلوں میں موجود ان کی قدرومنزلت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، انتہائی احترام کے ساتھ اختلاف کی جرات کررہے ہیں کہ یہ بیان ان کے شایان شان نہیں۔
خیر! ڈاکٹرصاحب پر ہی کیا موقوف دیگر محترم صحافتی و سیاسی شخصیات بھی آیندہ پانچ سال کے لیے منتخب صدر پاکستان سے متعلق یاوہ گوئیوں میں مصروف ہیں، حالانکہ خیال یہی تھاکہ پاکستان کے باشعور و جمہوریت پسند اہل سیاست و صحافت ممنون حسین سمیت تین بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد شخصیات کا مثبت خیرمقدم کریں گے۔ یہ تو بالکل علیحدہ بات ہے کہ کامیاب کوئی ایک ہوا لیکن جمہوریت اور سیاسی کارکنوں کی اس سے بڑی سیاسی فتح کیا ہوگی کہ تینوں جماعتوں نے سیاسی کارکن رضا ربانی، ممنون حسین اور ممتاز قانون داں جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کو نامزد کیا، تینوں کا تعلق کسی اعلیٰ حکمران طبقے سے نہیں، نہ ہی ان کی نامزدگی کے لیے کوئی دباؤ استعمال کیا گیا۔ اس سے کم ازکم یہ تو ثابت ہوا کہ پاکستان میں اب بھی میرٹ پر نامزدگیاں ہوسکتی ہیں اور وہ بھی ملک کے انتہائی اعلیٰ منصب کے لیے ۔
ممنون حسین نے 1965 میں بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا تھا اور بقول ان کے برادر بزرگ اختر حسین ان دنوں پاکستان میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم متعارف کرائی گئی تھی اور غیرملکی اساتذہ اس کے مضامین پڑھایا کرتے تھے جب کہ اس سے پہلے ممنون حسین درس نظامی کی تعلیم بھی لے چکے تھے اور قرات میں بھی امتیاز رکھتے تھے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے کپڑے کی تجارت کو ترجیح دی۔ کاروبار کے انتخاب کے حوالے سے مزید بات ہم آگے کریں گے لیکن اس سے پہلے ڈاکٹر قدیر خان صاحب سے چند سوالات کی جسارت... اول تو ممنون حسین کا تعلق دودھ جلیبی کے کاروبار سے ہے نہیں۔ اگر ہوتا بھی تو دودھ جلیبی کے کاروبار کی اس قدر تحقیر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا یہ کوئی غیرشرعی، معیوب اور غیر طیب تجارت ہے؟ کیا مسلمانانِ برصغیر میں سے کارہائے نمایاں انجام دینے والی شخصیات کے والدین عام طور پر تجارت و زراعت پیشہ نہیں تھے اور کیا ڈاکٹر صاحب ہم سے زیادہ بہتر طور پر نہیں جانتے کہ برصغیر میں تجارت پیشہ مسلمان صرف ایسے شعبوں میں کامیاب تھے جو ہندو بوجوہ اختیار نہیں کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب یقیناً یہ بھی جانتے ہوں گے کہ مسلمانان برصغیر کا ایک طبقہ انگریز کی نوکری کو حرام سمجھتا تھا، اس لیے تعلیم حاصل کرکے بھی وہ سرکارکی نوکری کے بجائے تجارت کو ترجیح دیتے تھے۔ ممنون حسین کا خاندان بھی مسلمانوں کے ایسے ہی گروہ سے تعلق رکھتا ہے اور اب یہ روایت اس قدر مستحکم ہوگئی کہ قیام پاکستان کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی ان کے خاندان کے کسی فرد نے سرکاری نوکری نہیں کی، تجارت کو ہی ترجیح دی۔ ان کے والد حاجی اظہر حسین جو کہ تجارت سے وابستہ تھے بلکہ ممنون حسین کے والد ہی کیا آگرہ کے اکثر مسلمان اس پیشے سے رزق حلال کماتے رہے بلکہ دہلی تک ان کا کاروبار پھیلا ہوا تھا۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ر) اجمل میاں کا خاندانی کام جوتے کی تجارت تھا۔ سابق گورنر سندھ، سابق وزیر داخلہ معین الدین حیدر کا سسرالی خاندان بھی آگرہ میں اسی تجارت سے وابستہ تھا۔ حلال تجارت کو ہمارے مذہب میں بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ ایماندار تاجر کا مرتبہ عابد کے برابر فرمایا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے نہ معلوم کیوں تجارت کو تحقیر کا نشانہ بنایا، کیا تاجروں کو اعلیٰ سرکاری منصب پر پہنچنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا؟ یقیناً تاجر طبقے کا بھی یہ حق ہے خواہ وہ دودھ جلیبی ہی کیوں نہ بیچتے ہوں۔ اب ذرا ان لوگوں کے لیے بھی جو واقعی لاعلم ہیں، محض سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ممنون حسین ایک عرصے سے سیاست میں سرگرم ہیں، اچانک کسی نے ان کا نام پرچی پر لکھ آگے نہیں بڑھا دیا۔ 1997 کی لیاقت جتوئی کی کابینہ میں وہ سماجی بہبود کے مشیر تھے، 97 میں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر منتخب ہوئے، بس یہیں سے ان کی سیاسی زندگی نے ایک اہم موڑ لیا۔
کراچی کا امن، 80 کی دہائی کے وسط سے ہر آنے والی حکومت کے لیے مسئلہ بنا رہاہے۔ جون 99 کے تیسرے ہفتے میں کراچی چیمبر آف کامرس کی جانب سے ایک تقریب میں وزیراعظم نوازشریف مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے اور ممنون حسین میزبان۔ اس تقریب میں میزبان نے روایت کے مطابق خطبہ استقبالیہ پیش کیا مگر یہ سپاس نامہ روایت سے ذرا ہٹ کر تھا، جس میں تاجروں کے مسائل کے ساتھ شہریوں کے مسائل اس عمدگی اور دردمندی کے ساتھ بیان کیے گئے کہ میاں نوازشریف جو بھاری مینڈیٹ کے ساتھ ملک کے وزیراعظم تھے، متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکے۔ وہ دو تہائی اکثریت کے باجود کراچی کے حالات سے پریشان تھے، خصوصاً حکیم سعید کی شہادت کے بعد سندھ کابینہ برطرف کرکے گورنر راج نافذ کر چکے تھے مگر گورنر سندھ معین الدین حیدر ان کی توقعات پر پورے نہ اترسکے تھے۔ وزیراعظم مختلف آپشنز پر غور کر رہے تھے کہ ممنون حسین کی تقریر سپاس ان کے دل پر اثر کر گئی۔
اگلے روز اسلام آباد پہنچتے ہی انھوں نے ممنون حسین کو وہاں طلب کیا اور انھیں ان کی نئی ذمے داریوں سے آگاہ کیا۔ ممنون حسین نے 12 اکتوبر 99 تک گورنر کے فرائض بخوبی انجام دیے اور پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالتے ہی انھوں نے از خود استعفیٰ نہ صرف صدر رفیق تارڑ کو پیش کردیا بلکہ پرویز مشرف کی بغاوت کے خلاف بیان بھی داغ دیا۔ اس کے بعد میاں نواز شریف پر چلنے والے طیارہ سازش کیس کے دوران ہر پیشی پرآنے والے لوگ بدلتے رہے بلکہ غائب ہوتے رہے مگرممنون حسین مستقل رہے۔ بیگم کلثوم نواز جن دنوں پرویز مشرف کے خلاف اور اپنے شوہر کو بچانے نکلیں تو ممنون حسین ان کے ساتھ ساتھ رہے، کراچی میں ان کی میزبانی کا اہتمام کرتے رہے، ایسے وقت میں وہ مسلم لیگ ن سے چمٹے رہے جب پارٹی چھوڑنے پر مراعات کی بارش ہورہی تھی ان کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی۔
صدارت کے لیے قرعہ فال جب سندھ یا کراچی کے نام نکلا تو اس قدر مضبوط اعصاب کے مالک سیاسی کارکن کے ہوتے ہوئے کسی اور پر نظر کیسے ٹھہرتی؟ میاں نوازشریف اپنے مشکل وقت کے ساتھی کو کیوں ترجیح نہ دیتے۔صحافت میں معروضیت بہت اہم ہے، منفی پہلوؤں پر بات کی جاتی ہے لیکن مثبت اور روشن پہلو کو دانستہ چھپانے کی کوشش نہیں جاتی ۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ میاں نوازشریف نے کوئی تابعدار صدر تلاش کرلیا تو اٹھارہویں ترمیم کے بعد کیا کسی اسمبلی توڑ صدر کی گنجایش موجود ہے؟ صدرکا ایک آئینی کردار ہے۔ ممنون حسین بطور گورنر سندھ احسن طریقے سے یہ آئینی کردارنبھا چکے ہیں۔ ناقدین آخر بے اختیار صدر ثابت کرکے ممنون صاحب سے کون سا غیر آئینی کام کرانے کے خواہشمند ہیں کہ وہ انھیں بااختیار، آنکھیں دکھانے والے اور مضبوط صدر نظرآئیں؟