غلطی مان لینا بڑا پن ہے
انسان خطا کا پتلا ہے، غلطی ہوجاتی ہے، بڑے بڑے عالم، فاضل غلطی کرجاتے ہیں، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ کوئی اس...
انسان خطا کا پتلا ہے، غلطی ہوجاتی ہے، بڑے بڑے عالم، فاضل غلطی کرجاتے ہیں، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ کوئی اس فعل سے مبرا نہیںہے اور غلطی اکثر زبان کرواتی ہے، انسانی جسم میں سب سے کم وزن عضو مگر یہ کم وزن عضو بہت زیادہ خطرناک ہے، اک ذرا سی زبان پھسلی اور بندہ عرش سے فرش پر آجاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ''پہلے تولو پھر بولو'' مگر اس تولو بولو پر عمل خاصا مشکل ہوتا ہے، جب دل پر چوٹ لگتی ہے تو ذہن بھڑک اٹھتا ہے اور زبان سے اول فول نکل جاتا ہے، دل پر چوٹ، دماغ پر اثر اور زبان کا چلنا، یہ تینوں کام لمحوں میں ہوجاتے ہیں اور وہ جو کہاوت ہے کہ کمان سے نکلا تیرا اور زبان سے نکلی بات کبھی واپس نہیں آتے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا ہے ماشاء اﷲ انھیں خدا نے بڑے بڑے مرتبے عطا فرمائے ہیں، بہت زیادہ پڑھے لکھے انسان ہیں، بیرون ملک اعلیٰ خدمات انجام دی ہیں، ذوالفقار علی بھٹو، وزیراعظم پاکستان کے کہنے پر وطن واپس آئے، بہت بڑی تنخواہ چھوڑ آئے، عیش وآرام رد کردیا، پر فضا نظاروں کی پرواہ نہیں کی اور وطن کے لیے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنادیا۔ قوم نے اس کارنامے پر انھیں محسن پاکستان کے خطاب سے نواز۔ 18 کروڑ انسان ڈاکٹر صاحب سے محبت، عقیدت رکھتے ہیں، ان کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ اچانک بالکل ایک ایسا منحوس لمحہ ان کی زندگی میں آیا کہ جب ڈاکٹر قدیر خان اچانک عرش سے فرش پر آگرے۔ ہوا یوں کہ ہمارے نو منتخب صدر ممنون حسین کو ن لیگ نے صدارتی امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا۔ ممنون حسین کی بطور صدر پاکستان کامیابی صاف نظر آرہی تھی جب کہ دو چار روز قبل ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک ٹی وی چینل پر اس خواہش کا اظہار کررہے تھے کہ اگر میاں نواز شریف نے چاہا تو میں صدر پاکستان بننے کے لیے حاضر ہوں۔ مگر نواز شریف صاحب نے ممنون حسین صاحب کے لیے چاہت کا فیصلہ کردیا، بس برائی یہیں سے شروع ہوگئی، ڈاکٹر صاحب کے دل پر چوٹ لگی، ذہن بھڑکا اور دو تولہ وزنی زبان چلنے لگی ''اب جوتے بیچنے والے دودھ بیچنے والے صدر پاکستان بنیں گے''۔
میں پھر کہوں گا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بہت اچھے انسان ہیں، بس زبان پھسل گئی اور یوں انھوں نے کروڑوں غریب و متوسط لوگوں کو دلی تکلیف پہنچائی۔ اور صرف چند ہزار وڈیرے جاگیردار، سرمایہ دار، خان، اونچے شملوں والے زمیندار، خانقاہوں والے، ان کے بیان پر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ضرور کہہ رہے ہوںگے کہ ''ڈاکٹر صاحب صحیح کہہ رہے ہیں، کیا اب ایلے میلے ہمارے ملک کے صدر بنیںگے، غریب غربا ایوان صدر میں بیٹھیںگے۔ گنگو تیلی راجہ بھوج کو دھکا دیکر ایوان صدر کا رخ کریگا۔''
اس لمحے مجھے ہندوستان کے کانگریسی رہنما ولب بھائی پٹیل یاد آگئے ہیں، جنہوںنے ہندوستان کی آزادی کے چند دن بعد ہی اپنے ملک سے رجواڑوں اور مہاراجوں، ریاستوں کا خاتمہ کروا دیا تھا اور نواب جواہر لعل نہرو سمیت سب نے یہ کارنامہ انجام دے ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک ارب آبادی والے ملک ہندوستان کی پارلیمان میں جا بجا نچلی ذات کے لوگ براجمان نظر آتے ہیں۔ یہاں ہمارے ملک میں آج بھی اندھیرے، بالکل گھپ اندھیرے چھائے ہوئے ہیں، لگتا ہے جیسے یہ ملک ان ہی ''اندھیروں'' نے خاص اپنے لیے بنایا تھا اور آج بھی یہ اندھیرے اس سورج کو نکلنے ہی نہیں دے رہے، جالب کا شعر یہاں بہت خوب رہے گا، سنیے!
وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے، نہ اپنے دن بدلتے ہیں
ڈاکٹر صاحب! ملک کی شکستہ کشتی منجدھار میں ڈول رہی ہے ، آپ اچھے انسان ہیں بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے کروڑوں غریب پاکستانیوں کی دل آزاری پر معذرت کرلیں۔ آپ کا کچھ نہیں بگڑے گا، بلکہ آیندہ کے لیے بہت کچھ سنور جائے گا۔ آپ سے بہتر بھلا کون جان سکتا ہے کہ ''انسان وہی بڑا ہے جو غلطی تسلیم کرلے''
ممنون حسین کا تعلق ایک تاجر گھرانے سے ہے، ان کے والد صاحب کا جوتے بنانے کا چھوٹا سا کارخانہ تھا اور ممنون حسین صاحب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں، گورنمنٹ کامرس کالج سے بی کام کیا اور پھر 1965 میں کراچی یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے MBA کی سند حاصل کی۔ تاریخ کا بہت بڑا کردار منصور حلاج ایک روئی دھننے والے کا بیٹا تھا، اور بھی ایسے بڑے انسانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ہمارے نبیؐ نے تو فیصلہ دے دیا، آخری خطبہ میں رسول اﷲ ؐ نے کہا ''آج میں تمام قبائلی عظمتوں کو اپنے پیروں تلے روندتا ہوں، یہ قبیلے یہ ذات پات محض پہچان کے لیے ہیں، کسی گورے کو کالے پر، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، بزرگی کا معیار فقط تقویٰ ہے۔''
خود ہمارے گھر میں یہ مثال موجود ہے کہ ایک عظیم عوامی شاعر حبیب جالب کے والد پنجابی کھسہ (جوتی) بنانے کے کاریگر تھے اور اماں محنت مزدوری کرتی تھیں۔ غریبوں کے بچے اعلیٰ پوزیشنوں کے ساتھ تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں، انشاء اﷲ مستقبل ہنرمند، پڑھے لکھے، غریبوں کا ہے۔ جالب کے شعر کے ساتھ اجازت۔
رستہ کہیں سورج کا کوئی روک سکا ہے
ہوتی ہے کہاں رات کے زنداں میں سحر بند
ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا ہے ماشاء اﷲ انھیں خدا نے بڑے بڑے مرتبے عطا فرمائے ہیں، بہت زیادہ پڑھے لکھے انسان ہیں، بیرون ملک اعلیٰ خدمات انجام دی ہیں، ذوالفقار علی بھٹو، وزیراعظم پاکستان کے کہنے پر وطن واپس آئے، بہت بڑی تنخواہ چھوڑ آئے، عیش وآرام رد کردیا، پر فضا نظاروں کی پرواہ نہیں کی اور وطن کے لیے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنادیا۔ قوم نے اس کارنامے پر انھیں محسن پاکستان کے خطاب سے نواز۔ 18 کروڑ انسان ڈاکٹر صاحب سے محبت، عقیدت رکھتے ہیں، ان کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ اچانک بالکل ایک ایسا منحوس لمحہ ان کی زندگی میں آیا کہ جب ڈاکٹر قدیر خان اچانک عرش سے فرش پر آگرے۔ ہوا یوں کہ ہمارے نو منتخب صدر ممنون حسین کو ن لیگ نے صدارتی امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا۔ ممنون حسین کی بطور صدر پاکستان کامیابی صاف نظر آرہی تھی جب کہ دو چار روز قبل ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک ٹی وی چینل پر اس خواہش کا اظہار کررہے تھے کہ اگر میاں نواز شریف نے چاہا تو میں صدر پاکستان بننے کے لیے حاضر ہوں۔ مگر نواز شریف صاحب نے ممنون حسین صاحب کے لیے چاہت کا فیصلہ کردیا، بس برائی یہیں سے شروع ہوگئی، ڈاکٹر صاحب کے دل پر چوٹ لگی، ذہن بھڑکا اور دو تولہ وزنی زبان چلنے لگی ''اب جوتے بیچنے والے دودھ بیچنے والے صدر پاکستان بنیں گے''۔
میں پھر کہوں گا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بہت اچھے انسان ہیں، بس زبان پھسل گئی اور یوں انھوں نے کروڑوں غریب و متوسط لوگوں کو دلی تکلیف پہنچائی۔ اور صرف چند ہزار وڈیرے جاگیردار، سرمایہ دار، خان، اونچے شملوں والے زمیندار، خانقاہوں والے، ان کے بیان پر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ضرور کہہ رہے ہوںگے کہ ''ڈاکٹر صاحب صحیح کہہ رہے ہیں، کیا اب ایلے میلے ہمارے ملک کے صدر بنیںگے، غریب غربا ایوان صدر میں بیٹھیںگے۔ گنگو تیلی راجہ بھوج کو دھکا دیکر ایوان صدر کا رخ کریگا۔''
اس لمحے مجھے ہندوستان کے کانگریسی رہنما ولب بھائی پٹیل یاد آگئے ہیں، جنہوںنے ہندوستان کی آزادی کے چند دن بعد ہی اپنے ملک سے رجواڑوں اور مہاراجوں، ریاستوں کا خاتمہ کروا دیا تھا اور نواب جواہر لعل نہرو سمیت سب نے یہ کارنامہ انجام دے ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک ارب آبادی والے ملک ہندوستان کی پارلیمان میں جا بجا نچلی ذات کے لوگ براجمان نظر آتے ہیں۔ یہاں ہمارے ملک میں آج بھی اندھیرے، بالکل گھپ اندھیرے چھائے ہوئے ہیں، لگتا ہے جیسے یہ ملک ان ہی ''اندھیروں'' نے خاص اپنے لیے بنایا تھا اور آج بھی یہ اندھیرے اس سورج کو نکلنے ہی نہیں دے رہے، جالب کا شعر یہاں بہت خوب رہے گا، سنیے!
وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے، نہ اپنے دن بدلتے ہیں
ڈاکٹر صاحب! ملک کی شکستہ کشتی منجدھار میں ڈول رہی ہے ، آپ اچھے انسان ہیں بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے کروڑوں غریب پاکستانیوں کی دل آزاری پر معذرت کرلیں۔ آپ کا کچھ نہیں بگڑے گا، بلکہ آیندہ کے لیے بہت کچھ سنور جائے گا۔ آپ سے بہتر بھلا کون جان سکتا ہے کہ ''انسان وہی بڑا ہے جو غلطی تسلیم کرلے''
ممنون حسین کا تعلق ایک تاجر گھرانے سے ہے، ان کے والد صاحب کا جوتے بنانے کا چھوٹا سا کارخانہ تھا اور ممنون حسین صاحب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں، گورنمنٹ کامرس کالج سے بی کام کیا اور پھر 1965 میں کراچی یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے MBA کی سند حاصل کی۔ تاریخ کا بہت بڑا کردار منصور حلاج ایک روئی دھننے والے کا بیٹا تھا، اور بھی ایسے بڑے انسانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ہمارے نبیؐ نے تو فیصلہ دے دیا، آخری خطبہ میں رسول اﷲ ؐ نے کہا ''آج میں تمام قبائلی عظمتوں کو اپنے پیروں تلے روندتا ہوں، یہ قبیلے یہ ذات پات محض پہچان کے لیے ہیں، کسی گورے کو کالے پر، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، بزرگی کا معیار فقط تقویٰ ہے۔''
خود ہمارے گھر میں یہ مثال موجود ہے کہ ایک عظیم عوامی شاعر حبیب جالب کے والد پنجابی کھسہ (جوتی) بنانے کے کاریگر تھے اور اماں محنت مزدوری کرتی تھیں۔ غریبوں کے بچے اعلیٰ پوزیشنوں کے ساتھ تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں، انشاء اﷲ مستقبل ہنرمند، پڑھے لکھے، غریبوں کا ہے۔ جالب کے شعر کے ساتھ اجازت۔
رستہ کہیں سورج کا کوئی روک سکا ہے
ہوتی ہے کہاں رات کے زنداں میں سحر بند