میڈیا جنگ اور امن کا ایجنڈا

پاکستان اور بھارت کے درمیان جو بڑا تناؤ اور جنگ وجدل کا منظرنامہ ابھرا اس میں میڈیا بھی خود ایک بڑا فریق بنا ہے۔


سلمان عابد March 03, 2019
[email protected]

دنیا بھر میں عوامی رائے عامہ اور طاقت ور فریقین یا فیصلہ ساز اداروں یا افراد میں میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ پرنٹ، الیکٹرانک یا سوشل میڈیا کی نئی طاقت ہو سب ہی اپنی اپنی سطح پر اہمیت رکھتے ہیں ۔ کیونکہ جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ میڈیا محض معلومات کا پھیلاؤ ہی نہیں کرتا بلکہ لوگوں میں تعلیم اور سیاسی و سماجی شعور کو اجاگر کرنے میں بھی اس کا کلیدی کردار ہے تو اس کی اہمیت و افادیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

میڈیا بنیادی طورپر شواہد، تحقیق اور تبصرہ وتجزیاتی بنیاد پر لوگوں کے سامنے ایک ایسے سچ کو سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے جو مجموعی طور پر ملک میں مثبت تبدیلیوں اور حالات و واقعات کو درست سمت میں سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔ریاست سے ہٹ کر دنیا بھر میں نجی شعبہ کی سطح پر میڈیا کے پھیلاؤ کے بعد اب زیادہ شدت کے ساتھ میڈیا مجموعی سیاست ، سماجیات اور معیشت سمیت اخلاقی تناظر میں اثر انداز ہوتا ہے اور اس کردار کی نفی کرکے آگے بڑھنا ممکن نظر نہیں آتا ۔

ایک ایسا میڈیا جو مجموعی طور پر منافع یا کارپوریٹ کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہو تو اس میں ذمے داری کی بحث اور زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔کیونکہ میڈیا اگر مسائل کے حل میں الجھاؤ یا بگاڑ پیدا کرنے کا حصہ دار بن جائے تو اس سے قومی مسائل اور زیادہ خرابی کی طرف چلے جاتے ہیں ۔ اس لحاظ سے میڈیا کا کام مسائل کی درست نشاندہی اور اس کی بنیاد پر مسائل کے حل کی طرف پیش قدمی ہوتا ہے ۔لیکن جب میڈیا ریٹنگ کی سیاست کا شکار ہو جائے تو مسائل کی نوعیت اور زیادہ پیچیدہ ہوجاتی ہے ۔

حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جو بڑا تناؤ اور جنگ وجدل کا منظرنامہ ابھرا اس میں میڈیا بھی خود ایک بڑا فریق بنا ہے اور اس کے کردار پر زیادہ سنجیدگی کے ساتھ بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے ۔حالیہ پاکستان اوربھارت کے بحران میں شدت پیدا کرنے میں بھارتی میڈیا نے جو کچھ کیا اس پر بھارت کے سنجیدہ حلقوں سمیت عالمی دنیا میں بھی شدید تنقید ہورہی ہے ۔ ایک طرف بھارت میں موجود انتہا پسند سیاست اور بی جے پی کا ہندواتہ کی بنیاد پر سیاسی فکر کو پھیلانا اور دوسری طرف میڈیا کو ہتھیار بنا کر اس انتہا پسندی ، مسلم دشمنی ، پاکستان دشمنی کو ایک بڑے ایجنڈے کے طور پر استعمال کرنے کے عمل نے پہلے سے موجود کشیدگی میں اور زیادہ نفرت اورجنگ کا ماحول پیدا کیا ۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ بھارت کا میڈیا حکومت اور عوام سے زیادہ جنگ کا میدان سجانا چاہتا ہے ۔

بھارت میں بالخصوص الیکٹرانک میڈیا سے جڑے اینکرز، تجزیہ کار، صحافی رپورٹر سب ہی مودی کی انتہا پسندی پر مبنی سیاست کا شکار ہوکر نفرت کی سیاست کے پھیلاو کے ذمے دار بنے ہیں ۔ان کا یہ عمل شعوری طور پر تھا یا لاشعوری لیکن اس طرز عمل نے ان تمام قوتوں یا فریقین کو مایوس کیا جو پاکستان او ربھارت کے درمیان مضبوط جمہوریت ، امن ، ترقی ، خوشحالی اور سماجی انصاف کو دیکھنے کے خواہش مند ہیں ۔اگرچہ ہم بھی پاکستان کے میڈیا کے مختلف پہلوؤں پر سخت تنقید کرتے ہیں اور ان کا بہت سا عمل تنقید کے زمرے میں آتا ہے ۔لیکن اس جنگی ماحول میں پاکستان کے میڈیا کا کردار مجموعی طور پر کافی مثبت رہا ۔بھارت کے میڈیا کی اشتعال انگیزی کے باوجود ہمارے میڈیا نے پہلے سے بھڑکی یا شدت پسندی پر مبنی آگ کو بڑھانے کی بجائے اس کو کم کرنے اور بار بار ریاستی و حکومتی موقف کو دہرایا کہ ہم امن پسند لوگ ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے معاملات بات چیت یا مذاکرات سے حل ہوں۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جو کچھ بھارت کے میڈیا میں پاکستان دشمنی یا مسلم دشمنی کا ایجنڈا شدت پسندی پر دیکھنے کو ملا اسے پوری طرح بی جے پی ، نریندر مودی حکومت سمیت ریاستی مدد حاصل تھی یا ان کا باہمی گٹھ جوڑ ہے ۔کہا جاتا ہے کہ مودی کی کامیابی یا اس کی تشہیر کی مہم میں میڈیا اس کی پشت پر کھڑا ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ مودی کا حمایت یافتہ سرمایہ دار طبقہ ہے جو میڈیا میں بڑی سرمایہ کاری کو بنیاد بنا کر انتہا پسندی کی سیاست کو ایک بڑی طاقت کے طور پر پیش کررہا ہے ۔اسی لیے بہت سے لوگ مودی میڈیا گٹھ جوڑ کو بنیاد بنا کر موجودہ کشیدگی کی سیاست کو دیکھ رہے ہیں ۔ یہ بات محض پاکستان یا عالمی ممالک سے ہی نہیں اٹھ رہی بلکہ خود بھارت سے بھی ایسی اہم آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ مودی اور میڈیا خود اس کشیدگی اورجنگی جنون کو پیدا کرنے کے بڑے ذمے دار ہیں ۔ ان کے بقول انتخابات میں مودی کا ایجنڈا پاکستان دشمنی ہے اور میڈیا اس ایجنڈے میں مودی کے ساتھ کھڑا ہے۔

پاکستان یا عالمی سطح پر لوگوں کو پچھلے تین ہفتوں میں جو تواتر کے ساتھ بھارت کے ٹی وی ٹاک شوز میں تجزیہ کاروں اور بالخصوص اینکروں کی نفرت پر مبنی سیاست کے مناظر کو دیکھنے کا موقع ملا اس نے سب کو ہی خطرات سے دوچار کیا ۔ اس حد تک نفرت، تعصب ، دشمنی ، انتہا پسندی اور پاکستان کو ایک بڑے خوف کے طور پر پیش کیا گیا ۔ اس کا مقصد یہ ہی تھا کہ پاکستان کو دہشت گرد اور ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کرکے بھارت میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہو کر اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل کیا جائے۔ دلیل ، منطق ، شواہد اور سچ سمیت ذمے داری کا احساس عملی طورپر مفلوج ہوا اور اس کی جگہ الزام تراشیوں اور نفرت پر مبنی سیاست نے لے لی ۔ حتٰی کہ بھارت کے گرفتار پائلٹ کی رہائی جو خالصتاً جذبہ خیر سگالی اور امن کو طاقت دینے کے حوالے سے تھی اس پر بھی نفرت کا کھیل سمجھ سے بالاتر تھا ۔لگتا ایسا ہے کہ یہ کھیل بھارتی میڈیا کا ختم نہیں ہوگا اورکم ازکم انتخابات کی سیاست میں اسی کو غلبہ ہوگا۔

حالانکہ میڈیا کا کام چاہے وہ بھارت کا ہو یا پاکستان کا دونوں کو نفرت، خلیج ، ڈیڈلاک ، اشتعال انگیزی ، جنگی جنون ، انتہا پسندی اور دوریوں کی سیاست کو طاقت دینے کے بجائے ان مسائل کے حل میں ریاست، حکومت اور معاشرہ کی مدد کرنی چاہیے ۔ دونوں ملکوں کے سامنے کلیدی ایجنڈا سیکیورٹی یا جنگی ریاست کے مقابلے میں فلاحی اور انسانوں پر سرمایہ کاری کرنے والی ریاست کا ہونا چاہیے اور اسی پر ان کا دباؤ دونوں ریاستوں اور حکومتوں کو مجبور کرے گا کہ وہ امن ، ترقی اور خوشحالی کے ایجنڈے کو تقویت دیں۔ دونوں جانب تعلیم ، صحت، ماحول ، روزگار، انصاف، غربت اور سیاسی ، سماجی و معاشی ناہمواریاں جیسے مسائل میڈیا سے جنگی جنوں کے مقابلے میں ایک نئے سیاسی ، جمہوری اور فلاحی کردار کی توقع رکھتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر تعلقات بہتر ہوتے ہیں اور لوگوں میں موجود دوریاں سمیت تعصب کی سیاست کا خاتمہ ہوتا ہے تو اس میں دونوں اطراف کے میڈیا کو ایک بڑے تدبر اور فہم و فراست کا کردار ادا کرنا ہے ۔پاکستان کے میڈیا میںبھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں بھارت دشمنی کا ایجنڈا رکھتے ہیں ان کو بھی اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے ۔دونوں اطراف کے حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے کو پس پشت ڈال کر امن اور ترقی کے ایجنڈے کو بنیاد بنانا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں