برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر

گزشتہ کئی عشروں میں لاکھوں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش، پاکستان، سعودی عرب، میں ہجرت کر چکے ہیں۔

گزشتہ کئی عشروں میں لاکھوں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش، پاکستان، سعودی عرب، میں ہجرت کر چکے ہیں۔ فوٹو : فائل

برما (موجودہ نام میانمار) کی ریاست راکھائن کے باسی روہنگیا مسلمانوںکی حالت تاریخ کے تناظر میں دنیا کے سب سے مظلوم اور مقہور انسانوں کی ہے جو انتہا درجے کی مشکلات کا شکار ہیں، یہ مشکلات اور ناداری ان پر برما کی آزاد ریاست کے آغاز سے ہی طاری ہے بلکہ شاید اس سے بھی پہلے سے ہی۔ تاہم اس کمیونٹی کی حد درجے کی مشکلات کا آغاز 1982ء سے ہوا جب ان سے اس ملک کی شہریت کا حق چھین لیا گیا جو ان کا آبائی وطن تھا۔

برما حکومت کے اس فیصلے کو تبدیل کرنے کے لیے اس پر کوئی حقیقی دباؤ بھی نہیں ڈالا گیا۔یوں برما کی یہ روہنگیا کمیونٹی رکھائن کے علاقے میں جمع ہو گئی جہاں پر ان کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا گیا اور ان پر ریاست کی طرف سے کڑی نگاہ رکھی جانے لگی۔ ان لوگوں کی بدقسمتی کہ انھیں ملک کے 135 نسلی گروپوں کی فہرست میں بھی شامل نہیں کیا گیا۔ اس طرح وہ اپنے ہی ملک میں غیرملکی بن گئے۔ ان لوگوں کی بے بسی کا اندازہ لگائیں کہ اس وقت دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جو انھیں اپنانے کے لیے یا پناہ دینے کے لیے تیار ہو۔

یہاں تک برما کے ہمسایہ ممالک بنگلہ دیش، بھارت اور چین بھی انھیں قبول نہیں کرتے۔ گویا وہ دنیا بھر کے لیے پناہ گزین کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ اس وقت دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جسے وہ اپنا ملک کہہ سکیں۔ گزشتہ کئی عشروں میں لاکھوں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش، پاکستان، سعودی عرب، میں ہجرت کر چکے ہیں،جن لوگوں نے دہائیوں پہلے ہجرت کی، وہ تو کسی نہ کسی طرح دوسرے ملکوں میں بسنے میں کامیاب ہوگئے لیکن 2016ء میں دنیا نے برما یا میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تاریخ کا بدترین ظلم دیکھا جب ان کی نسل کُشی کی باضابطہ کوششیں کی گئیں۔


یہ وہ وقت تھا جب وہاں اجتماعی قبریں دریافت کی گئیں۔ ان کا قتل عام برما کی فوج کی نگرانی میں کیا گیا۔ روہنگیا کی بستیوں کو چاروں اطراف سے گھیر کر ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی حتیٰ کہ ان کی آبادیوں کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ ہزاروں عورتیں بچے اور بوڑھے خطرناک سمندری پانی میں گھر کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اگست 2016ء سے دسمبر 2017ء کے درمیان سات لاکھ سے زیادہ افراد نے اپنا ملک چھوڑ دیا جب کہ صرف پچھلے سال میں سولہ ہزار روہنگیا بنگلہ دیش میں داخل ہوئے۔ تاہم اب بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ نے اقوام متحدہ کو مطلع کیا ہے کہ اس کے پاس مزید روہنگیا کو اپنے ہاں جگہ دینے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ انھوں نے اس بات کی کڑی مذمت کی کہ عالمی برادری کا اس انسانی المیے کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں۔ یہاں ہمیں شاعر مشرق کا یہ الہامی شعر یاد آتا ہے:

نعمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر

برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
Load Next Story