پنجاب کانفرنس
پنجابی کی مزاحمتی شاعری بھی پنجاب کی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے ملک بھر میں سالانہ ادبی کانفرنسوں کا خوب چرچا رہا اور ملک کے بڑے بڑے شہروں میں قومی زبانوں کے ادیبوں، شاعروں، نقادوں اور دانشوروں کے آنے جانے کا سلسلہ بھی تسلسل سے جاری ہے۔کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ ایسی کانفرنسوں میں زیادہ تر وہی لکھاری اور نقاد بلائے جاتے ہیں جن پر صرف کانفرنسوں کا ہی ٹھپہ لگا ہوتا ہے۔
ہوسکتا ہے ان کا اندازہ درست ہو مگر منتظمین باہمی مشاورت کے بعد ہی اپنے پروگرام ترتیب دیتے ہیں اور ایسے لکھنے والوں کو بھی دعوت دی جاتی ہے جو بڑے شہروں کے علاوہ دیہی علاقوں میں بیٹھ کر اپنی اپنی زبانوں کا ادب تخلیق کر رہے ہیں ۔اس کی مثال ''پنجاب:تاریخ تے ثقافت'' کے عنوان سے ایک نجی یونیورسٹی میں منعقدہ کانفرنس کو دیکھتے ہوئے دی جا سکتی ہے جو تین روز تک لاہور میں انتہائی کامیابی سے جاری رہی۔
اس کانفرنس میں نہ صرف یورپ ،کینیڈا اور بھارت کے مندوبین شامل ہوئے بلکہ ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے شعرا ، ادبا اور فنون لطیفہ سے جڑے افراد بھی کثیر تعداد میں موجود تھے۔ جن موضوعات پرگفتگو کی گئی، اُن میں لاہور کی نئی تاریخ، ناول کے ذریعے پنجاب کی پہچان ، تقسیم کی یادیں ، پنجاب کی مزاحمتی شاعری ، مقامی زبانوں میں ادب کی تعلیم ، پنجاب میں لغت نویسی ، مادری زبان میں بنیادی تعلیم ، پنجاب کی انقلابی سیاست ،گورمکھی اور شاہ مکھی کی ڈیجیٹل لکھائی اور پنجاب میں فلم اور اسٹریٹ تھیٹر کے علاوہ دیگر کئی اہم موضوعات بھی موضوع بحث رہے ۔
کانفرنس میںماضی سے لے کر اب تک چھپ کر سامنے آنیوالی پنجابی کی اہم لغات اور مرتبین پر گفتگو کا سلسلہ چلا تومقصود ثاقب اور جمیل احمد پال جیسے پنجابی کے اہم محققین کے ساتھ صغریٰ صدف اور طاہر اسیر نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ چاروں مرتبین اور محققین نے پنجابی لغت کے شعبے میں جو کام کیا اُس پر بھی بات ہوئی اور طاہر اسیر کی مرتب شدہ ''پنجابی ڈکشنری'' کو بھی موضوع بحث بنایا گیا جس کے ٹائٹل پر ''کیمبل پوری لہجہ'' کے الفاظ درج تھے۔
طاہر اسیر کا شمار اٹک کے نوجوان ادیبوں اور شاعروں میں ہوتا ہے جو وہاں کے مضافاتی گائوں اکھوڑی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ انھوں نے اپنی مادری زبان کے جذبے سے سرشار ہوکر یہ لغت مرتب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا کہ اس میں ایسے الفاظ بھی شامل ہوں جو گھیبی اور چھاچھی لہجے میں بولے جاتے ہیں ۔ پنجابی کے معروف ادیب اور محقق مقصود ثاقب نے اب تک چھپی لغات پر گفتگو کرتے ہوئے پنجاب کے نمایندہ اور صوفی شعرا کے کلام میں استعمال ہونیوالے الفاظ اور علاقائی لہجوں کے ساتھ مرکزی زبان پر ان کے اثرات کا بھر پور جائزہ لیا۔
پنجابی کی مزاحمتی شاعری بھی پنجاب کی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے لیکن تقسیم کے بعد مشرقی ومغربی پنجاب میں پیش آنیوالے آمرانہ ، سیاسی اور سماجی حالات بالکل مختلف تھے جن کے خلاف دونوں طرف بسنے والے شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں مزاحمتی شاعری کا سہارا لیا۔
راقم الحروف نے مشرقی اور مغربی پنجاب کے علاوہ کینیڈا، برطانیہ، امریکا اور دوسرے ممالک میں رہنے والے پنجابی ادیبوں اور شاعروں کی مزاحمتی تخلیقات کے تاریخی جائز ے کے ساتھ امرتا پریتم ، درشن سنگھ آوارہ، احمد راہی اور دیگر مزاحمتی شاعروں کا حوالہ بھی دیا اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیر اثر دونوں ممالک میں رہنے والے پنجابی ادیبوں کی شاعری کے حوالے بھی پیش کیے۔پنجابی زبان میںکی گئی مزاحمتی شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ پنجابی ناول پر بھی اس کانفرنس کے ایک سیشن میں بھر پور گفتگو ہوئی۔
اس گفتگو میں تقسیم سے قبل اور بعد میں لکھے گئے ناول کی تاریخ ، اسلوب اور کردار نگاری کے ساتھ ملک میں اب تک چھپنے والے ناولوں کی تعداد کی طرف بھی اشارہ کیا گیا جو مشرقی پنجاب کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی۔ کینیڈا، برطانیہ، امریکا اور مشرقی پنجاب میں چھپنے والے ناولوں تک قاری کی پہنچ بھی زیر بحث آئی اور الگ الگ رسم الخط کی مشکلات کا بھی ذکر ہوا ۔ اس کے ساتھ ناول نگاروں کی مالی صورتحال اور ناول لکھنے کے بعد اُن کے چھپنے کی مشکلات بھی زیر بحث آئیں۔
تین دن تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں جہاں ملکی اور غیر ملکی ،شعرا، ادبا ، ماہرین تعلیم و لسانیات اور تاریخ و ثقافت سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات شامل تھیں وہاں LUMS کے شعبۂ تاریخ کے سربراہ ڈاکٹر علی عثمان قاسمی اور پنجابی کے معروف ناول نگار و ادیب زاہد حسن نے بھی انتظامی امور ، شرکا ء کی دیکھ بھال اورکانفرنس کے ادبی میعارکو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی سرگرمی کا مظاہرہ کیا ، لیکن اس سے بھی حوصلہ افزا بات یہ رہی کہ یونیورسٹی کے بانی اور پنجابی تاریخ و ثقافت اور ادب کے دلدادہ سید بابر علی بھی پیرانہ سالی کے باوجود کانفرنس کے تقریباً ہر سیشن میں تشریف فرما رہے۔
ماضی میں فخر زمان نے'' پنجابی عالمی کانفرنس'' کی بنیاد رکھی اور بہت ساری کامیاب کانفرنسوں کے انعقاد کے ساتھ ان میں مختلف موضوعات پر بھرپورگفتگو کا بھی اہتمام کیا گیا جس کے بعد گجرات ، فیصل آباد، لاہور، شیخوپورہ اور دوسرے شہروں میں ایسی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوا جو اب عروج پر پہنچ چکا ہے۔ LUMS میں منعقدہ یہ کانفرنس دوسروں سے اس لیے مختلف تھی کہ اس میں پنجابی کے علاوہ اردو اور انگریزی میں بھی گفتگو ہوئی اور یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کے ساتھ صرف ان افراد کو ہی اس میں مدعوکیا گیا جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرنا تھا یا جنہوں نے کہی گئی باتوں پر گفتگو یا سوالات کرنا تھے، چونکہ یہ کانفرنس کسی میدان، ہوٹل یا عوامی مقام کے بجائے ایک درس گاہ کے احاطے میں منعقد کروائی گئی تھی اس لیے بھی کچھ دوستوں کو یہ ماضی میں کروائی گئی کانفرنسوں سے مختلف دکھائی دی ۔
کانفرنس کے افتتاحی خطاب میںپروفیسر جاوید مجید نے Citizenship and nationality in colonial linguistics کے تناظر میں پنجاب ، پنجابی زبان اوراس کی ترویج و ترقی پر گفتگو کی اور اس سے قبل ڈین سوشل سائنسزکامران اصدر علی نے مندوبین کو پنجابی میں خوش آمدید کہنے کے بعد انگریزی زبان میں مختصر خطاب کیا جس کے بعد پوری کانفرنس کے دوران وہ اپنی منفرد شخصیت کے ساتھ علمی وسماجی شعور کے چراغ روشن کرتے رہے ۔ انھوں نے نہ صرف بلھے شاہ کو خراج عقیدت پیش کیا بلکہ پنجاب کی دھرتی کو امن ، محبت اور رواداری کا ضامن قرار دیا۔
پاک بھارت کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس کشیدگی کے دوران اگرکوئی ادیب ، شاعر یا دانشور یہاں سے وہاں جاکر یا وہاں سے یہاں آکر مشرقی اور مغربی پنجاب بلکہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے قریب لانے کے لیے امن و محبت اور بھائی چارے کی بات کرتا ہے تو اس کی تعریف اور حوصلہ افزائی نہ کرنا انتہائی افسوس ناک عمل ہوگا۔کانفرنس کے دوران دونوں ممالک کے سر پر جنگ کے سائے بھی منڈلاتے رہے اور میڈیا پرآنیوالی خبروں سے بھی امن پسندوں کو تکلیف پہنچی، لیکن پٹیالہ سے آنیوالے گرپریت سنگھ لال اور ہرویندر بھٹی نے لڑائی کے ہر خدشے کو رد کرتے ہوئے دونوں ممالک میں امن و محبت کی بات کرنیوالی طاقتوں کو سراہا اور مستقبل میں ایسی مزید کانفرنسوں کے انعقاد کی خواہش کا بھی اظہارکیا۔
ہوسکتا ہے ان کا اندازہ درست ہو مگر منتظمین باہمی مشاورت کے بعد ہی اپنے پروگرام ترتیب دیتے ہیں اور ایسے لکھنے والوں کو بھی دعوت دی جاتی ہے جو بڑے شہروں کے علاوہ دیہی علاقوں میں بیٹھ کر اپنی اپنی زبانوں کا ادب تخلیق کر رہے ہیں ۔اس کی مثال ''پنجاب:تاریخ تے ثقافت'' کے عنوان سے ایک نجی یونیورسٹی میں منعقدہ کانفرنس کو دیکھتے ہوئے دی جا سکتی ہے جو تین روز تک لاہور میں انتہائی کامیابی سے جاری رہی۔
اس کانفرنس میں نہ صرف یورپ ،کینیڈا اور بھارت کے مندوبین شامل ہوئے بلکہ ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے شعرا ، ادبا اور فنون لطیفہ سے جڑے افراد بھی کثیر تعداد میں موجود تھے۔ جن موضوعات پرگفتگو کی گئی، اُن میں لاہور کی نئی تاریخ، ناول کے ذریعے پنجاب کی پہچان ، تقسیم کی یادیں ، پنجاب کی مزاحمتی شاعری ، مقامی زبانوں میں ادب کی تعلیم ، پنجاب میں لغت نویسی ، مادری زبان میں بنیادی تعلیم ، پنجاب کی انقلابی سیاست ،گورمکھی اور شاہ مکھی کی ڈیجیٹل لکھائی اور پنجاب میں فلم اور اسٹریٹ تھیٹر کے علاوہ دیگر کئی اہم موضوعات بھی موضوع بحث رہے ۔
کانفرنس میںماضی سے لے کر اب تک چھپ کر سامنے آنیوالی پنجابی کی اہم لغات اور مرتبین پر گفتگو کا سلسلہ چلا تومقصود ثاقب اور جمیل احمد پال جیسے پنجابی کے اہم محققین کے ساتھ صغریٰ صدف اور طاہر اسیر نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ چاروں مرتبین اور محققین نے پنجابی لغت کے شعبے میں جو کام کیا اُس پر بھی بات ہوئی اور طاہر اسیر کی مرتب شدہ ''پنجابی ڈکشنری'' کو بھی موضوع بحث بنایا گیا جس کے ٹائٹل پر ''کیمبل پوری لہجہ'' کے الفاظ درج تھے۔
طاہر اسیر کا شمار اٹک کے نوجوان ادیبوں اور شاعروں میں ہوتا ہے جو وہاں کے مضافاتی گائوں اکھوڑی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ انھوں نے اپنی مادری زبان کے جذبے سے سرشار ہوکر یہ لغت مرتب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا کہ اس میں ایسے الفاظ بھی شامل ہوں جو گھیبی اور چھاچھی لہجے میں بولے جاتے ہیں ۔ پنجابی کے معروف ادیب اور محقق مقصود ثاقب نے اب تک چھپی لغات پر گفتگو کرتے ہوئے پنجاب کے نمایندہ اور صوفی شعرا کے کلام میں استعمال ہونیوالے الفاظ اور علاقائی لہجوں کے ساتھ مرکزی زبان پر ان کے اثرات کا بھر پور جائزہ لیا۔
پنجابی کی مزاحمتی شاعری بھی پنجاب کی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے لیکن تقسیم کے بعد مشرقی ومغربی پنجاب میں پیش آنیوالے آمرانہ ، سیاسی اور سماجی حالات بالکل مختلف تھے جن کے خلاف دونوں طرف بسنے والے شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں مزاحمتی شاعری کا سہارا لیا۔
راقم الحروف نے مشرقی اور مغربی پنجاب کے علاوہ کینیڈا، برطانیہ، امریکا اور دوسرے ممالک میں رہنے والے پنجابی ادیبوں اور شاعروں کی مزاحمتی تخلیقات کے تاریخی جائز ے کے ساتھ امرتا پریتم ، درشن سنگھ آوارہ، احمد راہی اور دیگر مزاحمتی شاعروں کا حوالہ بھی دیا اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیر اثر دونوں ممالک میں رہنے والے پنجابی ادیبوں کی شاعری کے حوالے بھی پیش کیے۔پنجابی زبان میںکی گئی مزاحمتی شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ پنجابی ناول پر بھی اس کانفرنس کے ایک سیشن میں بھر پور گفتگو ہوئی۔
اس گفتگو میں تقسیم سے قبل اور بعد میں لکھے گئے ناول کی تاریخ ، اسلوب اور کردار نگاری کے ساتھ ملک میں اب تک چھپنے والے ناولوں کی تعداد کی طرف بھی اشارہ کیا گیا جو مشرقی پنجاب کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی۔ کینیڈا، برطانیہ، امریکا اور مشرقی پنجاب میں چھپنے والے ناولوں تک قاری کی پہنچ بھی زیر بحث آئی اور الگ الگ رسم الخط کی مشکلات کا بھی ذکر ہوا ۔ اس کے ساتھ ناول نگاروں کی مالی صورتحال اور ناول لکھنے کے بعد اُن کے چھپنے کی مشکلات بھی زیر بحث آئیں۔
تین دن تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں جہاں ملکی اور غیر ملکی ،شعرا، ادبا ، ماہرین تعلیم و لسانیات اور تاریخ و ثقافت سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات شامل تھیں وہاں LUMS کے شعبۂ تاریخ کے سربراہ ڈاکٹر علی عثمان قاسمی اور پنجابی کے معروف ناول نگار و ادیب زاہد حسن نے بھی انتظامی امور ، شرکا ء کی دیکھ بھال اورکانفرنس کے ادبی میعارکو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی سرگرمی کا مظاہرہ کیا ، لیکن اس سے بھی حوصلہ افزا بات یہ رہی کہ یونیورسٹی کے بانی اور پنجابی تاریخ و ثقافت اور ادب کے دلدادہ سید بابر علی بھی پیرانہ سالی کے باوجود کانفرنس کے تقریباً ہر سیشن میں تشریف فرما رہے۔
ماضی میں فخر زمان نے'' پنجابی عالمی کانفرنس'' کی بنیاد رکھی اور بہت ساری کامیاب کانفرنسوں کے انعقاد کے ساتھ ان میں مختلف موضوعات پر بھرپورگفتگو کا بھی اہتمام کیا گیا جس کے بعد گجرات ، فیصل آباد، لاہور، شیخوپورہ اور دوسرے شہروں میں ایسی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوا جو اب عروج پر پہنچ چکا ہے۔ LUMS میں منعقدہ یہ کانفرنس دوسروں سے اس لیے مختلف تھی کہ اس میں پنجابی کے علاوہ اردو اور انگریزی میں بھی گفتگو ہوئی اور یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کے ساتھ صرف ان افراد کو ہی اس میں مدعوکیا گیا جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرنا تھا یا جنہوں نے کہی گئی باتوں پر گفتگو یا سوالات کرنا تھے، چونکہ یہ کانفرنس کسی میدان، ہوٹل یا عوامی مقام کے بجائے ایک درس گاہ کے احاطے میں منعقد کروائی گئی تھی اس لیے بھی کچھ دوستوں کو یہ ماضی میں کروائی گئی کانفرنسوں سے مختلف دکھائی دی ۔
کانفرنس کے افتتاحی خطاب میںپروفیسر جاوید مجید نے Citizenship and nationality in colonial linguistics کے تناظر میں پنجاب ، پنجابی زبان اوراس کی ترویج و ترقی پر گفتگو کی اور اس سے قبل ڈین سوشل سائنسزکامران اصدر علی نے مندوبین کو پنجابی میں خوش آمدید کہنے کے بعد انگریزی زبان میں مختصر خطاب کیا جس کے بعد پوری کانفرنس کے دوران وہ اپنی منفرد شخصیت کے ساتھ علمی وسماجی شعور کے چراغ روشن کرتے رہے ۔ انھوں نے نہ صرف بلھے شاہ کو خراج عقیدت پیش کیا بلکہ پنجاب کی دھرتی کو امن ، محبت اور رواداری کا ضامن قرار دیا۔
پاک بھارت کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس کشیدگی کے دوران اگرکوئی ادیب ، شاعر یا دانشور یہاں سے وہاں جاکر یا وہاں سے یہاں آکر مشرقی اور مغربی پنجاب بلکہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے قریب لانے کے لیے امن و محبت اور بھائی چارے کی بات کرتا ہے تو اس کی تعریف اور حوصلہ افزائی نہ کرنا انتہائی افسوس ناک عمل ہوگا۔کانفرنس کے دوران دونوں ممالک کے سر پر جنگ کے سائے بھی منڈلاتے رہے اور میڈیا پرآنیوالی خبروں سے بھی امن پسندوں کو تکلیف پہنچی، لیکن پٹیالہ سے آنیوالے گرپریت سنگھ لال اور ہرویندر بھٹی نے لڑائی کے ہر خدشے کو رد کرتے ہوئے دونوں ممالک میں امن و محبت کی بات کرنیوالی طاقتوں کو سراہا اور مستقبل میں ایسی مزید کانفرنسوں کے انعقاد کی خواہش کا بھی اظہارکیا۔