’’پلوامہ حملے کے فوری بعد پاکستان نے تحقیقات کی تھی‘‘
کوئی براہ راست یا بالواسطہ رابطہ اس واقعے سے نہیں پایا گیا، ذرائع کی ’’ ایکسپریس ٹریبیون‘‘ سے بات چیت
پلوامہ حملے کے فوراً بعد یہ تحقیقات شروع کردی گئی تھیں کہ اس حملے میں پاکستانی سرزمین استعمال ہوئی ہے یا نہیں۔
14 فروری کو جب پاکستان سعودی ولی عہد کے استقبال کے تیاریاں کررہا تھا، مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں پلوامہ میں انڈین سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے قافلے پر مقامی کشمیری نوجوان کے خودکش حملے کے بعد جب اس کی ذمے داری کالعدم جیش محمد نے قبول کی تو پاکستانی حکام فوراً یہ سمجھ گئے تھے کہ بھارت اس کے لیے پاکستان کو موردالزام ٹھہرائے گا۔
باخبر ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کوبتایا کہ حملے کے فوراً بعد یہ تحقیقات شروع کردی گئی تھیں کہ اس حملے میں پاکستانی سرزمین استعمال ہوئی ہے یا نہیں۔ سعودی ولی عہد کے دورے کے اختتام کے ساتھ ہی پاکستانی حکام پلوامہ حملے پر اپنی ابتدائی تحقیقات مکمل کرچکے تھے جس کی رپورٹ نیشنل سیکیورٹی کونسل میں جمع کرادی گئی تھی۔
تحقیقات کے مطابق پاکستان کا کوئی براہ راست یا بالواسطہ ربط اس واقعے سے نہیں پایا گیا۔ ذرائع کاکہنا تھا کہ پاکستان مشترکہ تحقیقات یا تھرڈ پارڈی انویسٹی گیشن کے لیے تیار تھا۔
14 فروری کو جب پاکستان سعودی ولی عہد کے استقبال کے تیاریاں کررہا تھا، مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں پلوامہ میں انڈین سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے قافلے پر مقامی کشمیری نوجوان کے خودکش حملے کے بعد جب اس کی ذمے داری کالعدم جیش محمد نے قبول کی تو پاکستانی حکام فوراً یہ سمجھ گئے تھے کہ بھارت اس کے لیے پاکستان کو موردالزام ٹھہرائے گا۔
باخبر ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کوبتایا کہ حملے کے فوراً بعد یہ تحقیقات شروع کردی گئی تھیں کہ اس حملے میں پاکستانی سرزمین استعمال ہوئی ہے یا نہیں۔ سعودی ولی عہد کے دورے کے اختتام کے ساتھ ہی پاکستانی حکام پلوامہ حملے پر اپنی ابتدائی تحقیقات مکمل کرچکے تھے جس کی رپورٹ نیشنل سیکیورٹی کونسل میں جمع کرادی گئی تھی۔
تحقیقات کے مطابق پاکستان کا کوئی براہ راست یا بالواسطہ ربط اس واقعے سے نہیں پایا گیا۔ ذرائع کاکہنا تھا کہ پاکستان مشترکہ تحقیقات یا تھرڈ پارڈی انویسٹی گیشن کے لیے تیار تھا۔