بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں
پشین میں حرمزئی اور چربادیزئی میںدو افراد ریلے میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے
بلوچستان میں حالیہ شدید بارشوں اور مسلسل برف باری کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، برف باری سے زیارت ، قلعہ سیف اللہ اور قلعہ عبداللہ کے کئی دیہات کا تیسرے روز بھی ملک بھر سے رابطہ منقطع ہے، ریلوے ٹریک متاثر ہونے سے پاک ایران ٹرین سروس معطل ہے، فوج کو طلب کرلیا گیا ہے ۔ طوفانی بارشوں اور شدید برف باری نے نظام زندگی درہم برہم کردیا ہے ۔اس وقت وطن عزیز میں قدرتی آفات جس بڑے پیمانے پر انسانی تباہی کا باعث بن رہی ہیں، وہ کسی آزمائش سے کم نہیں۔ بلاشبہ یہ آزمائش کی گھڑی ہے، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان کے عوام اس آزمائش کا پہلی بار سامنا کرنا پڑا ہے؟ نہیں، یہ ایک تسلسل ہے جو جاری رہتا ہے اوراس کے خاتمے کے آثار برسوں سے نظر نہیں آرہے ہیں ۔
بلوچستان کی بد نصیبی ہے کہ ملک کے کل رقبے کا تنتالیس فیصد ہونے کے باوجود یہ بنیادی انفرا اسٹرکچر سے محروم ہے۔ ایکسپریس کے نمایندگان نے بلوچستان بھر سے جو رپورٹس ارسال کی ہیں وہ اتنہائی درد انگیز ہیں ۔ قلعہ عبداللہ سمیت دس سے زائد اضلاع میں سیلابی ریلوں نے آبادیوں کا رخ کیا جس سے سیکڑوں مکانات منہدم ہوگئے جب کہ ہزاروں مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ قلعہ عبداللہ اور چمن میں مختلف مقامات پر تین بچوں سمیت چار افراد چھت گرنے اور برساتی ریلے میں بہنے سے جاں بحق ہوئے۔ پشین میں حرمزئی اور چربادیزئی میںدو افراد ریلے میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے جن میںنو سالہ بچہ بھی شامل ہے۔ چاغی میں ایک شخص کی ریلے میں بہنے سے موت ہوئی۔ مجموعی طور پر مختلف حادثات میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعدادآٹھ تک پہنچ گئی۔
دو روز سے جاری بارشوں سے ندی نالیوں میں طغیانی بارشوں سے سنجاوی ٹو زیارت کوئٹہ سنجاوی ہرنائی کے راستے بند ، تیر میں سب سے زیادہ برف باری ریکارڈ ہوئی جو دو فٹ سے زیادہ ہوئی، سنجاوی میں طویل ترین خشک سالی کا دور ختم ہوگیا۔ صورتحال کی سنگینی کے باعث بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کے جوان پہنچ گئے، متاثرہ افراد کو آرمی ایوی ایشن ہیلی کاپٹرز کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ مکران، لسبیلہ شمالی بلوچستان کے برف پوش علاقوں میں میڈیکل کیمپس قائم کر دیے گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاک آرمی ہر مشکل کی گھڑی میں اہل وطن کی مدد کو پہنچتی ہے لیکن سول انتظامیہ کے پاس قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ اگر بارشوں اور برف باری کا مزید سلسلہ جاری رہا تو ابھی بڑے سیلاب کا خطرہ موجود ہے۔
پاکستان کے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے پارٹی کارکنوں کو ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جا کر امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔دوسری جانب اہل کراچی کے لیے خوش خبری ہے کہ حب ڈیم میں بلوچستان سے آنے والے سیلابی ریلوں کے نتیجے میں پانی کا وافر ذخیرہ جمع ہوگیا ہے جس سے کراچی کے شہریوں کو ایک سال تک پانی فراہم کیا جاسکے گا ۔ اس کے باوجود اس مشکل گھڑی میں سیلاب زدگان کے جان و مال کی حفاظت کی اصل ذمے داری وفاقی اور صوبائی حکمرانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ وہ ان خامیوں اور کوتاہیوں پر قابو پائیں جو بالخصوص بلوچستان میں سیلابی ریلا آنے سے تباہ کاریوں کا باعث بنی ہیں۔ قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمرانوں میں اخلاص ہوگا تو عوام بھی قومی جذبے کے تحت ان کے شانہ بشانہ امدادی کاموں میں حصہ لیں گے، بصورت دیگر قومی انتشارکی بنیاد آزمائش کے ایسے مراحل میں ناکامی کے باعث ہی پڑاکرتی ہے۔
بلوچستان کی بد نصیبی ہے کہ ملک کے کل رقبے کا تنتالیس فیصد ہونے کے باوجود یہ بنیادی انفرا اسٹرکچر سے محروم ہے۔ ایکسپریس کے نمایندگان نے بلوچستان بھر سے جو رپورٹس ارسال کی ہیں وہ اتنہائی درد انگیز ہیں ۔ قلعہ عبداللہ سمیت دس سے زائد اضلاع میں سیلابی ریلوں نے آبادیوں کا رخ کیا جس سے سیکڑوں مکانات منہدم ہوگئے جب کہ ہزاروں مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ قلعہ عبداللہ اور چمن میں مختلف مقامات پر تین بچوں سمیت چار افراد چھت گرنے اور برساتی ریلے میں بہنے سے جاں بحق ہوئے۔ پشین میں حرمزئی اور چربادیزئی میںدو افراد ریلے میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے جن میںنو سالہ بچہ بھی شامل ہے۔ چاغی میں ایک شخص کی ریلے میں بہنے سے موت ہوئی۔ مجموعی طور پر مختلف حادثات میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعدادآٹھ تک پہنچ گئی۔
دو روز سے جاری بارشوں سے ندی نالیوں میں طغیانی بارشوں سے سنجاوی ٹو زیارت کوئٹہ سنجاوی ہرنائی کے راستے بند ، تیر میں سب سے زیادہ برف باری ریکارڈ ہوئی جو دو فٹ سے زیادہ ہوئی، سنجاوی میں طویل ترین خشک سالی کا دور ختم ہوگیا۔ صورتحال کی سنگینی کے باعث بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کے جوان پہنچ گئے، متاثرہ افراد کو آرمی ایوی ایشن ہیلی کاپٹرز کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ مکران، لسبیلہ شمالی بلوچستان کے برف پوش علاقوں میں میڈیکل کیمپس قائم کر دیے گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاک آرمی ہر مشکل کی گھڑی میں اہل وطن کی مدد کو پہنچتی ہے لیکن سول انتظامیہ کے پاس قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ اگر بارشوں اور برف باری کا مزید سلسلہ جاری رہا تو ابھی بڑے سیلاب کا خطرہ موجود ہے۔
پاکستان کے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے پارٹی کارکنوں کو ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جا کر امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔دوسری جانب اہل کراچی کے لیے خوش خبری ہے کہ حب ڈیم میں بلوچستان سے آنے والے سیلابی ریلوں کے نتیجے میں پانی کا وافر ذخیرہ جمع ہوگیا ہے جس سے کراچی کے شہریوں کو ایک سال تک پانی فراہم کیا جاسکے گا ۔ اس کے باوجود اس مشکل گھڑی میں سیلاب زدگان کے جان و مال کی حفاظت کی اصل ذمے داری وفاقی اور صوبائی حکمرانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ وہ ان خامیوں اور کوتاہیوں پر قابو پائیں جو بالخصوص بلوچستان میں سیلابی ریلا آنے سے تباہ کاریوں کا باعث بنی ہیں۔ قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمرانوں میں اخلاص ہوگا تو عوام بھی قومی جذبے کے تحت ان کے شانہ بشانہ امدادی کاموں میں حصہ لیں گے، بصورت دیگر قومی انتشارکی بنیاد آزمائش کے ایسے مراحل میں ناکامی کے باعث ہی پڑاکرتی ہے۔