قائد اعظم کا پاکستان دیکھ
ویسے تو کیانی صاحب’’پکی پکی‘‘’’ساس‘‘ تھے کہ کہتے ’’بیٹی‘‘ کو تھے لیکن ’’سناتے‘‘ ’’بہو‘‘ کوتھے
ہم کچھ کہنا بھی چاہتے ہیں اور دکھانا بھی چاہتے ہیں لیکن ڈر بھی رہے ہیں کہ کچھ دکھاتے دکھاتے خود ہی ''دیکھنے'' اور نہ دیکھنے کے لائق ہوجائیں اور کچھ کہتے کہتے کہنے اور کہے جانے کا موضوع نہ بن جائیں حالانکہ دیکھنا دکھانا اور کہنا سنانا پاکستان میں عام بات ہے بلکہ یہ ہی سب سے زیادہ خاص بات بھی ہے۔
ہوا یوں کہ ہم جسٹس محمدرستم کیانی کی تقاریر پر مبنی کتاب افکار پریشان دوبارہ دیکھ رہے تھے، پہلی بار اس وقت دیکھی جب یہ کتاب تازہ تازہ چھپی تھی اور بیسٹ سیلر بھی۔
ویسے تو کیانی صاحب''پکی پکی''''ساس'' تھے کہ کہتے ''بیٹی'' کو تھے لیکن ''سناتے'' ''بہو'' کوتھے۔ بات میں ''طنزومزاح'' کو کچھ اس طرح ''کوفتہ بیختہ'' کرتے تھے کہ سننے والا سیدھا سیدھا سنجیدگی تک پہنچ کر رنجیدہ ہوجاتاتھا۔
کیانی صاحب نے ایک مقدمے کا ذکر کیاتھا جس میں ایک شاعر کو وطن دشمنی اور بغاوت کا ملزم ٹھہرایا گیاتھا، اس پر الزام تھا کہ اس نے یہ شعر کہاتھا کہ
دیکھتا کیاہے میرے منہ کی طرف
''قائداعظم'' کا پاکستان دیکھ
میں نے مقدمہ سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ غریب شاعر نے اس شعر میں ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے جس سے ملک یا قائداعظم کی توہین کا پہلو نکلتاہے وہ تو کہہ رہا ہے کہ ''میرے منہ'' کی طرف مت دیکھو اور قائداعظم کے پاکستان کو دیکھ۔اب کسی کو کسی طرف دیکھنے یا نہ دیکھنے کے لیے کہنا تو کوئی جرم ہے ہی نہیں وہ بچارا توصرف کسی چیز کی طرف دیکھنے یا نہ دیکھنے کو کہہ رہاہے بلکہ اگر ممانعت بھی کررہاہے تو ''اپنے چہرے'' کو دیکھنے کی کررہاہے اور اس کا چہرہ تو اپنا چہرہ ہے اگر وہ ہی دیکھنے کو منع کررہاہے تو اس میں کسی اور کو اعتراض کا کیا حق ہے۔
ہمارا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے، ہم بھی اپنے پڑھنے والوں کو کچھ دکھانا چاہتے ہیں بلکہ صرف دیکھنے کو کہہ رہے ہیں، باقی ان کی مرضی ہے کہ دیکھیں یا نہ دیکھیں، کوئی زبردستی نہیں ہے۔اب حضرت علامہ کو دیکھیے، انھوں نے تو خدا کی ''بنائی'' ہوئی چیزوں کو دیکھنے کی دعوت دی ہے کہ
کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ فضاء دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس میں تو خدا کی قدرتوں کو دیکھنے کی دعوت ہے جنھیں خود خدا نے بھی کہاہے کہ دیکھو غور کرو اور سوچو۔ لیکن ہم تو۔یا وہ شاعر جس نے ''قائداعظم'' کے پاکستان کو دیکھنے کے لیے کہا۔باقی قائد اعظم کے پاکستان یا قائد عوام کے پاکستان یا نیاپرانا پاکستان کو دیکھنے پر بھی پابندی نہیں اور دکھانے پر بھی کوئی جرم سرزد نہیں۔بلکہ ہم تو اس شاعر سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر کہنا چاہتے ہیں کہ
''ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ''
لیکن معاملہ یہاں تھوڑا سا گڑبڑ ہوگیاہے کہ ہمیں ڈر لگ رہاہے کہ ہمیں جسٹس کیانی جیسا جج اگر نہیں ملا تو؟ سوچنے والی بات تو ہے، اگر آپ غور کریں بلکہ آپ سے کیا پردہ ایک بار ہم بھگت بھی چکے ہیں یعنی
سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر گزری ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے ''چاہت'' آگ لگائے تو
صرف''چاہت'' ہی تو آگ نہیں لگاتی بلکہ اور بھی بہت کچھ اس ''پت یا ات'' کے قافیے ہیں۔ہوا یوں بلکہ اس کیانی صاحب کے مقدمے سے کچھ ہلکا معاملہ تھا کیونکہ اس شاعر نے تو قائداعظم کے ''پورے'' پاکستان کو دیکھنے کے لیے کہاتھا جب کہ ہم نے قائدعوام کے ''ادھورے'' پاکستان کی بات کی تھی جو ''شکر ہے بچ گیاتھا''
اب اس کی سزا کیاملی، اس تفصیل کو رہنے دیجیے، آگے کی بات کرتے ہیں۔ آج کل ایک مرتبہ پھر ہماری زبان میں خارش اور قلم میں ''کھجلی'' ہورہی ہے اور ایک ''نئی چیز'' کو ''دیکھنے'' کی دعوت دینا مقصود ہے لیکن۔جی ہاں وہی لیکن۔ جو ہمارے سر پر مستقل ڈنڈا لیے کھڑا رہتا ہے اور ڈراتارہتاہے اور یہ تو ہم نے آپ کو کئی بار بتایاہے کہ ''ڈر'' بڑی قیمتی چیز ہے اسے اپنے ساتھ رکھو، سنبھالو، کھونے نہ دو ورنہ بقول ہزار لکھنوی ورنہ کہیں ''تقدیر'' تماشا نہ بنادے بلکہ تحریر اور تقریر تماشا نہ بنادے۔سردار سنگھ نے بھی سردار گبرسنگھ کی تردید کرتے ہوئے کہاہے کہ ''جوڈرگیا وہ گھر گیا(آرام کے ساتھ)بلکہ بچ گیا انعام کے ساتھ۔
اب آپ سوچیں گے کہ ''ہم دکھانا کیاچاہتے ہیں'' جس کے ساتھ ہم مداری کے ''سفیدسانپ'' کا سلسلہ چلارہے ہیں یعنی اس پٹاری میں جو سانپ ہے جو ابھی میں تم کو دکھاوں گا، یہ بڑا خطرناک سانپ ہے، دودھ کی طرح سفید اور موت کی طرح کالاہے۔ یہ اگر کسی کو ڈس لے تو ''جانے'' اور''آنے'' والی سات نسلیں راکھ ہوجاتی ہیں۔ یہ ہاتھی کے گوبر میں رہتاتھا اور اس گوبر سے ''سبز'' دھواں نکلتاہے۔ کچھ ایسی ہی بات ہے جو ہم ڈر رہے ہیں ورنہ نام لینے میں کیا لگتاہے۔ایسا کرتے ہیں کہ ہم صرف''دیکھنے'' کے لیے کہتے ہیں اور باقی آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ آج کل کونسی چیزدیکھنے بلکہ بار بار دیکھنے اور ساتھ ہی باربار رونے کے لائق ہے۔ ہماری یا ہمارے چہرے کی طرف مت دیکھیں۔
اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
تم کو بھی ''حماقت'' کہیں مجھ سا نہ بنادے
کھلے صاف صاف تو اس ''قابل دید'' چیز کا نام نہیں بتائیں گے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ جان جائے پر ''ڈر'' نہ جائے لیکن تھوڑا بہت اشارہ دے سکتے ہیں۔ یہ چیز جسے ہم دیکھنے کی دعوت دے رہے ہیں بالکل نئی نویلی اور نوی نکور ہے اور''آسوبلا'' چور ہے لیکن ہمیں آپ کی ذہانت اور لیاقت پر پورا ''بھروسہ'' ہے کہ آپ پھربھی بوجھ نہیں پائیں گے اور معاملہ ان دو چرسیوں کا ساہوجائے گا جو ''نشے'' میں ''بوجھو تو جانیں'' کھیل رہے تھے۔ ایک جس کی مٹھی میں انڈا تھا،دوسرے سے پوچھنے لگا بتاؤ میری مٹھی میں کیاہے؟ دوسرے نے کہا، کچھ اشارہ تو دو۔ اس پر دوسرے نے تقریباً ایک بھری ہوئی سگریٹ جتنا وقت لیتے ہوئے کہا، بوجھ لیا۔تمہاری مٹھی میں صولفیاں ہیں جن کے اندر تم نے ''گاجریں'' رکھی ہیں، اس قسم کے ایک اور لطیفے میں مٹھی کے اندر سلگتی ہوئی سگریٹ تھی جس سے دھواں بھی نکل رہاتھا، اس کا جواب دوسرے چرسی نے یہ دیاتھا کہ تم نے اپنی مٹھی میں ریل گاڑی چھپائی ہوئی ہے۔
ہوا یوں کہ ہم جسٹس محمدرستم کیانی کی تقاریر پر مبنی کتاب افکار پریشان دوبارہ دیکھ رہے تھے، پہلی بار اس وقت دیکھی جب یہ کتاب تازہ تازہ چھپی تھی اور بیسٹ سیلر بھی۔
ویسے تو کیانی صاحب''پکی پکی''''ساس'' تھے کہ کہتے ''بیٹی'' کو تھے لیکن ''سناتے'' ''بہو'' کوتھے۔ بات میں ''طنزومزاح'' کو کچھ اس طرح ''کوفتہ بیختہ'' کرتے تھے کہ سننے والا سیدھا سیدھا سنجیدگی تک پہنچ کر رنجیدہ ہوجاتاتھا۔
کیانی صاحب نے ایک مقدمے کا ذکر کیاتھا جس میں ایک شاعر کو وطن دشمنی اور بغاوت کا ملزم ٹھہرایا گیاتھا، اس پر الزام تھا کہ اس نے یہ شعر کہاتھا کہ
دیکھتا کیاہے میرے منہ کی طرف
''قائداعظم'' کا پاکستان دیکھ
میں نے مقدمہ سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ غریب شاعر نے اس شعر میں ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے جس سے ملک یا قائداعظم کی توہین کا پہلو نکلتاہے وہ تو کہہ رہا ہے کہ ''میرے منہ'' کی طرف مت دیکھو اور قائداعظم کے پاکستان کو دیکھ۔اب کسی کو کسی طرف دیکھنے یا نہ دیکھنے کے لیے کہنا تو کوئی جرم ہے ہی نہیں وہ بچارا توصرف کسی چیز کی طرف دیکھنے یا نہ دیکھنے کو کہہ رہاہے بلکہ اگر ممانعت بھی کررہاہے تو ''اپنے چہرے'' کو دیکھنے کی کررہاہے اور اس کا چہرہ تو اپنا چہرہ ہے اگر وہ ہی دیکھنے کو منع کررہاہے تو اس میں کسی اور کو اعتراض کا کیا حق ہے۔
ہمارا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے، ہم بھی اپنے پڑھنے والوں کو کچھ دکھانا چاہتے ہیں بلکہ صرف دیکھنے کو کہہ رہے ہیں، باقی ان کی مرضی ہے کہ دیکھیں یا نہ دیکھیں، کوئی زبردستی نہیں ہے۔اب حضرت علامہ کو دیکھیے، انھوں نے تو خدا کی ''بنائی'' ہوئی چیزوں کو دیکھنے کی دعوت دی ہے کہ
کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ فضاء دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس میں تو خدا کی قدرتوں کو دیکھنے کی دعوت ہے جنھیں خود خدا نے بھی کہاہے کہ دیکھو غور کرو اور سوچو۔ لیکن ہم تو۔یا وہ شاعر جس نے ''قائداعظم'' کے پاکستان کو دیکھنے کے لیے کہا۔باقی قائد اعظم کے پاکستان یا قائد عوام کے پاکستان یا نیاپرانا پاکستان کو دیکھنے پر بھی پابندی نہیں اور دکھانے پر بھی کوئی جرم سرزد نہیں۔بلکہ ہم تو اس شاعر سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر کہنا چاہتے ہیں کہ
''ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ''
لیکن معاملہ یہاں تھوڑا سا گڑبڑ ہوگیاہے کہ ہمیں ڈر لگ رہاہے کہ ہمیں جسٹس کیانی جیسا جج اگر نہیں ملا تو؟ سوچنے والی بات تو ہے، اگر آپ غور کریں بلکہ آپ سے کیا پردہ ایک بار ہم بھگت بھی چکے ہیں یعنی
سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر گزری ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے ''چاہت'' آگ لگائے تو
صرف''چاہت'' ہی تو آگ نہیں لگاتی بلکہ اور بھی بہت کچھ اس ''پت یا ات'' کے قافیے ہیں۔ہوا یوں بلکہ اس کیانی صاحب کے مقدمے سے کچھ ہلکا معاملہ تھا کیونکہ اس شاعر نے تو قائداعظم کے ''پورے'' پاکستان کو دیکھنے کے لیے کہاتھا جب کہ ہم نے قائدعوام کے ''ادھورے'' پاکستان کی بات کی تھی جو ''شکر ہے بچ گیاتھا''
اب اس کی سزا کیاملی، اس تفصیل کو رہنے دیجیے، آگے کی بات کرتے ہیں۔ آج کل ایک مرتبہ پھر ہماری زبان میں خارش اور قلم میں ''کھجلی'' ہورہی ہے اور ایک ''نئی چیز'' کو ''دیکھنے'' کی دعوت دینا مقصود ہے لیکن۔جی ہاں وہی لیکن۔ جو ہمارے سر پر مستقل ڈنڈا لیے کھڑا رہتا ہے اور ڈراتارہتاہے اور یہ تو ہم نے آپ کو کئی بار بتایاہے کہ ''ڈر'' بڑی قیمتی چیز ہے اسے اپنے ساتھ رکھو، سنبھالو، کھونے نہ دو ورنہ بقول ہزار لکھنوی ورنہ کہیں ''تقدیر'' تماشا نہ بنادے بلکہ تحریر اور تقریر تماشا نہ بنادے۔سردار سنگھ نے بھی سردار گبرسنگھ کی تردید کرتے ہوئے کہاہے کہ ''جوڈرگیا وہ گھر گیا(آرام کے ساتھ)بلکہ بچ گیا انعام کے ساتھ۔
اب آپ سوچیں گے کہ ''ہم دکھانا کیاچاہتے ہیں'' جس کے ساتھ ہم مداری کے ''سفیدسانپ'' کا سلسلہ چلارہے ہیں یعنی اس پٹاری میں جو سانپ ہے جو ابھی میں تم کو دکھاوں گا، یہ بڑا خطرناک سانپ ہے، دودھ کی طرح سفید اور موت کی طرح کالاہے۔ یہ اگر کسی کو ڈس لے تو ''جانے'' اور''آنے'' والی سات نسلیں راکھ ہوجاتی ہیں۔ یہ ہاتھی کے گوبر میں رہتاتھا اور اس گوبر سے ''سبز'' دھواں نکلتاہے۔ کچھ ایسی ہی بات ہے جو ہم ڈر رہے ہیں ورنہ نام لینے میں کیا لگتاہے۔ایسا کرتے ہیں کہ ہم صرف''دیکھنے'' کے لیے کہتے ہیں اور باقی آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ آج کل کونسی چیزدیکھنے بلکہ بار بار دیکھنے اور ساتھ ہی باربار رونے کے لائق ہے۔ ہماری یا ہمارے چہرے کی طرف مت دیکھیں۔
اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
تم کو بھی ''حماقت'' کہیں مجھ سا نہ بنادے
کھلے صاف صاف تو اس ''قابل دید'' چیز کا نام نہیں بتائیں گے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ جان جائے پر ''ڈر'' نہ جائے لیکن تھوڑا بہت اشارہ دے سکتے ہیں۔ یہ چیز جسے ہم دیکھنے کی دعوت دے رہے ہیں بالکل نئی نویلی اور نوی نکور ہے اور''آسوبلا'' چور ہے لیکن ہمیں آپ کی ذہانت اور لیاقت پر پورا ''بھروسہ'' ہے کہ آپ پھربھی بوجھ نہیں پائیں گے اور معاملہ ان دو چرسیوں کا ساہوجائے گا جو ''نشے'' میں ''بوجھو تو جانیں'' کھیل رہے تھے۔ ایک جس کی مٹھی میں انڈا تھا،دوسرے سے پوچھنے لگا بتاؤ میری مٹھی میں کیاہے؟ دوسرے نے کہا، کچھ اشارہ تو دو۔ اس پر دوسرے نے تقریباً ایک بھری ہوئی سگریٹ جتنا وقت لیتے ہوئے کہا، بوجھ لیا۔تمہاری مٹھی میں صولفیاں ہیں جن کے اندر تم نے ''گاجریں'' رکھی ہیں، اس قسم کے ایک اور لطیفے میں مٹھی کے اندر سلگتی ہوئی سگریٹ تھی جس سے دھواں بھی نکل رہاتھا، اس کا جواب دوسرے چرسی نے یہ دیاتھا کہ تم نے اپنی مٹھی میں ریل گاڑی چھپائی ہوئی ہے۔