پاک بھارت جنگ
دونوں ممالک کے حکمران امن کی جانب رخ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں
حالیہ پاک بھارت جنگ تو نہیں بلکہ جنگ کی ہلکی سے جھلک کہہ سکتے ہیں۔ یہ جھڑپ کیونکر اورکن حالات میںہوئی اس کا غیر جانبدارجائزہ لینا، ان حالات میں ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے اور وہ بھی ایک ایسے کالم نویس کے لیے جوکسی بھی صورت حال اور موقعے پرجنگ کے حق میںنہ ہو ۔ پاک بھارت تنازعات کوئی نئی بات نہیں بلکہ ستر سالہ تسلسل کا نتیجہ ہے۔ جنگی جھڑپ کے پس منظر اورعالمی منظر نامے کو سامنے رکھے بغیرہم قطعی طور پرکوئی نتیجہ نہیں نکال سکتے۔
پہلی عالمی جنگ شروع ہو نے سے قبل جرمن اور فرانس کی کمیونسٹ پارٹیوں نے جنگ کے خلاف اور امن کے حق میںمشترکہ موقف اختیارکیا تھا ، اس وقت ہٹلر ایک مزدور فیڈریشن کا جنرل سیکریٹری تھا، جس نے جنگ کی حمایت میں فرانس کے خلاف بیان دیا ۔ جس پر فیڈریشن نے اسے سیکریٹری شپ اور رکنیت سے نکال دیا ۔پھر ہٹلر نے نیشنل سوشلسٹ ورکرز پار ٹی یعنی (نازی پارٹی ) تشکیل دی اور جنگی جنون کو ابھارا اور اس کے نتیجے میں صرف روس میں ڈھائی کروڑ انسان جان سے جاتے رہے ۔ اس مو قعے پر ساحر لدھیانوی کے اشعار یاد آ تے ہیں۔
ٖٖٖفتح کا جشن ہوکہ ہارکا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اورخون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھرکی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے
جنگ سرمائے کے تسلط سے
امن جمہورکی خوشی کے لیے
جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن، پر امن زندگی کے لیے
یہ نظم کے اشعار1947سے قبل لکھے گئے تھے، لیکن آج بھی اس کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی کل تھی ۔ ماضی کی جنگوںسے دنیا کے حکمرانوں اور عوام نے کچھ سیکھا اورمزید سیکھ رہے ہیں۔ امریکی دانشور پروفیسر نوم چومسکی کے بقول اب تک امریکی سامراج نے دنیا کے88ملکوںمیں بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت کی ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوںکا قتل ہوا ۔ اب معاشی میدان میںعالمی سرمایہ داری بحران کا شکار ہے ۔
اس لیے امریکا یوکرائن، شام، عراق اورافغانستان میں شکست سے دو چار ہوکر اپنی فوج کو واپس بلا رہا ہے ۔ وینزویلا کے مسئلے پر دنیا کے بیشتر ممالک سو شلسٹ صدر مادوروکی حمایت کر رہے ہیں ۔کم جونگ ان کے ویت نام پہنچنے پر ویتنام کی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان نے سرخ پرچم کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا۔سوڈان، الجزائر اور نائیجیریا میں فوجی آمروں اور دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف ہفتوں سے احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ امریکی صدر ٹرمپ پر عاید الزامات کی تحقیق ہورہی ہے۔ پاکستان کوکئی ممالک سے اربوں ڈالرکے قرضے ملے، ہندوستان کے نریندر مودی کو سعودی عرب نے تاریخ کا سب سے بڑا اعزاز عطا کیا لیکن حالیہ پاک وہند جنگ میں کسی فریق کی حمایت نہیں کی ۔ سب نے تحمل، بردباری اور امن کی ہی بات کی ۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی سمیت اکیس حزب اختلاف کی جماعتوں نے مودی سر کار کے خلاف قرار داد پیش کی ۔ اسمبلی میں کیجریوال نے تو جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں زبردست اظہارخیال کیا ۔
پاکستان میں بھی پاک انڈین پیپلز فورم کی جانب سے اسلام آباد ، لاہور ، پشاور اورکرا چی میں جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں زبردست مظاہرے ہوئے اور مظاہرین '' جنگ نہیں امن چاہیے، بم نہیں قلم چاہیے''کے نعرے بلند کر رہے تھے ۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کراچی کے اجلاس میں جنگ مخالف اور امن کے پیغام کے لیے شعرا نے اپنے منظوم کلام پیش کیے ۔سولجر بازار کراچی میں ہندوؤں کے مندر پر رجعتی جماعت کی شرانگیز ی کرنے کے خلاف فیصل ایدھی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے نمایندوں نے ہندوؤں سے اپنی یکجہتی اور تعاون کا یقین دلایا ۔ یعنی ہر طرف سے ، ہر شعبہ ہائے زندگی ، ممالک اور تنظیموں کی جانب سے جنگ مخالف اور امن کی آواز بلند ہو رہی ہے۔ اس عمل سے دونوں ممالک کے حکمران امن کی جانب رخ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
چونکہ بھارت میںگزشتہ سال پانچ صوبوں کے انتخابات میںبی جے پی کو شکست ہوئی ہے ۔ تین صوبوں میں کانگریس، ایک میں مقامی پارٹی اور ایک میں کمیونسٹ کامیاب ہوئے ہیں ۔ہندوستان میں گزشتہ ماہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑی ہڑتال کمیونسٹ پارٹی اور بائیں بازو کے اتحادکی کال پر ہوئی جب کہ کیرالامیں خواتین کا سب سے بڑا جلوس نکلا،جس میں پچاس لاکھ خواتین نے شر کت کی ، ان میں سے دو خواتین ، مردوں کے راج کو للکارتے ہو ئے مندر میںگھس گئیں ۔ بھارت میں جنونی طبقہ مسائل پیدا کر رہا ہے،انتہا پسند ہندو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو قبول کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں۔یہ انتہا پسند کبھی مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں تو کبھی کسی اور مذہب کے ماننے والوں پر۔انتہا پسند ہندو پورے خطے کی سالمیت اور بقا کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔یہ بات وہاں کے باشعور لوگوں کو بخوبی معلوم ہے وہ جب کبھی انتہا پسندوں کے خلاف بولتے ہیں تو انھیں بھی دھمکیاں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔
یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک بھوک ، افلاس ، غربت ، جہالت، بیماری ، بے روزگاری، مہنگائی اورآئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور دیگر سامراجی اور امیر ملکوں کے قرض تلے دبے ہوئے ہیں اور دوسری طرف یہ ممالک اربوں ڈالرز صرف اسلحے کی پیداوار پر خرچ کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے اندر آج بھی کروڑوں لوگوں کو چھت نصیب نہیں اور وہ فٹ پاتھ پر سونے پر مجبور ہیں۔
اس وقت ہندوستان میں چھتیس کروڑ لوگ بے روزگار ہیں ، ستر فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں ۔پا کستان میں بھی ساڑھے چارکروڑ لوگ بے روزگار ہیں، اسی فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ۔ ہندوستان میں روزانہ لا علاجی اور بھوک سے ہزاروں اور پا کستان میں سیکڑوں لوگ جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں ۔دونوں ممالک سامراجیوں کے قرضے میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ دونوں ملکوں میں ایک لاکھ خواتین میں سے سا ڑھے چار سو خواتین زچگی کے دوران مر رہی ہیں ۔ان دو ملکوں میں دنیا کی چالیس فیصد غربت پلتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ خواتین اور لڑکیوں کا قتل، عصمت دری اوربے حر متی انھیں ملکوں میں ہوتی ہے ۔خودکشیاں بھی یہیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔
ان بدترین مسائل کے باوجود دنیا کے نو ملکوں میں سے دو ہندوستان اور پاکستان جن کے پاس ایٹم بم ہیں ۔کھربوں ڈالرز ہم اسلحے کی پیداوار اور خریدو فروخت پر خرچ کر تے ہیں ، دونوں ممالک اگر اسلحے کی پیداوار بند کردیں تو نہ صرف ان ملکوں میں بھوک اور افلاس کا خاتمہ ہوسکتا ہے بلکہ یہ دنیا کا خوشحال ترین خطہ بن سکتا ہے ۔ اس لیے کہ یہاں معدنیات، اجناس، پانی، پھل ، مچھلی اور زرخیز زمین ہے جو دنیا میں بہت کم جگہوں پہ پائی جاتی ہے۔ پھر ساحر کے شعر یاد آ تے ہیں۔
آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکرکی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
دونوں ممالک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو جنگ کے بجائے امن کی بات کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کا احساس دلاتے ہیں کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا۔جو جذباتی لوگ جنگ چاہتے ہیں ابھی انھیں اس کا ادراک نہیں کہ جنگ سے کتنی تباہی پھیلے گی اور شہروں کے شہر تباہ ہو جائیں گے۔ ہر چند کہ برصغیرکے مسائل کا واحد حل ایک غیرطبقاتی، امداد باہمی یا پنچایتی اسٹیٹ لیس سوسایٹی میں ہی مضمر ہے مگرفی الحال اسلحے کی پیداوار کو روک کر اگر بھوک ، افلاس، غربت،جہالت اور بیماریوں سے بچایا جاسکتا ہے اور عوام کو خوشیاں نصیب ہوسکتی ہیں ۔
پہلی عالمی جنگ شروع ہو نے سے قبل جرمن اور فرانس کی کمیونسٹ پارٹیوں نے جنگ کے خلاف اور امن کے حق میںمشترکہ موقف اختیارکیا تھا ، اس وقت ہٹلر ایک مزدور فیڈریشن کا جنرل سیکریٹری تھا، جس نے جنگ کی حمایت میں فرانس کے خلاف بیان دیا ۔ جس پر فیڈریشن نے اسے سیکریٹری شپ اور رکنیت سے نکال دیا ۔پھر ہٹلر نے نیشنل سوشلسٹ ورکرز پار ٹی یعنی (نازی پارٹی ) تشکیل دی اور جنگی جنون کو ابھارا اور اس کے نتیجے میں صرف روس میں ڈھائی کروڑ انسان جان سے جاتے رہے ۔ اس مو قعے پر ساحر لدھیانوی کے اشعار یاد آ تے ہیں۔
ٖٖٖفتح کا جشن ہوکہ ہارکا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اورخون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھرکی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے
جنگ سرمائے کے تسلط سے
امن جمہورکی خوشی کے لیے
جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن، پر امن زندگی کے لیے
یہ نظم کے اشعار1947سے قبل لکھے گئے تھے، لیکن آج بھی اس کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی کل تھی ۔ ماضی کی جنگوںسے دنیا کے حکمرانوں اور عوام نے کچھ سیکھا اورمزید سیکھ رہے ہیں۔ امریکی دانشور پروفیسر نوم چومسکی کے بقول اب تک امریکی سامراج نے دنیا کے88ملکوںمیں بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت کی ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوںکا قتل ہوا ۔ اب معاشی میدان میںعالمی سرمایہ داری بحران کا شکار ہے ۔
اس لیے امریکا یوکرائن، شام، عراق اورافغانستان میں شکست سے دو چار ہوکر اپنی فوج کو واپس بلا رہا ہے ۔ وینزویلا کے مسئلے پر دنیا کے بیشتر ممالک سو شلسٹ صدر مادوروکی حمایت کر رہے ہیں ۔کم جونگ ان کے ویت نام پہنچنے پر ویتنام کی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان نے سرخ پرچم کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا۔سوڈان، الجزائر اور نائیجیریا میں فوجی آمروں اور دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف ہفتوں سے احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ امریکی صدر ٹرمپ پر عاید الزامات کی تحقیق ہورہی ہے۔ پاکستان کوکئی ممالک سے اربوں ڈالرکے قرضے ملے، ہندوستان کے نریندر مودی کو سعودی عرب نے تاریخ کا سب سے بڑا اعزاز عطا کیا لیکن حالیہ پاک وہند جنگ میں کسی فریق کی حمایت نہیں کی ۔ سب نے تحمل، بردباری اور امن کی ہی بات کی ۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی سمیت اکیس حزب اختلاف کی جماعتوں نے مودی سر کار کے خلاف قرار داد پیش کی ۔ اسمبلی میں کیجریوال نے تو جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں زبردست اظہارخیال کیا ۔
پاکستان میں بھی پاک انڈین پیپلز فورم کی جانب سے اسلام آباد ، لاہور ، پشاور اورکرا چی میں جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں زبردست مظاہرے ہوئے اور مظاہرین '' جنگ نہیں امن چاہیے، بم نہیں قلم چاہیے''کے نعرے بلند کر رہے تھے ۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کراچی کے اجلاس میں جنگ مخالف اور امن کے پیغام کے لیے شعرا نے اپنے منظوم کلام پیش کیے ۔سولجر بازار کراچی میں ہندوؤں کے مندر پر رجعتی جماعت کی شرانگیز ی کرنے کے خلاف فیصل ایدھی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے نمایندوں نے ہندوؤں سے اپنی یکجہتی اور تعاون کا یقین دلایا ۔ یعنی ہر طرف سے ، ہر شعبہ ہائے زندگی ، ممالک اور تنظیموں کی جانب سے جنگ مخالف اور امن کی آواز بلند ہو رہی ہے۔ اس عمل سے دونوں ممالک کے حکمران امن کی جانب رخ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
چونکہ بھارت میںگزشتہ سال پانچ صوبوں کے انتخابات میںبی جے پی کو شکست ہوئی ہے ۔ تین صوبوں میں کانگریس، ایک میں مقامی پارٹی اور ایک میں کمیونسٹ کامیاب ہوئے ہیں ۔ہندوستان میں گزشتہ ماہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑی ہڑتال کمیونسٹ پارٹی اور بائیں بازو کے اتحادکی کال پر ہوئی جب کہ کیرالامیں خواتین کا سب سے بڑا جلوس نکلا،جس میں پچاس لاکھ خواتین نے شر کت کی ، ان میں سے دو خواتین ، مردوں کے راج کو للکارتے ہو ئے مندر میںگھس گئیں ۔ بھارت میں جنونی طبقہ مسائل پیدا کر رہا ہے،انتہا پسند ہندو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو قبول کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں۔یہ انتہا پسند کبھی مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں تو کبھی کسی اور مذہب کے ماننے والوں پر۔انتہا پسند ہندو پورے خطے کی سالمیت اور بقا کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔یہ بات وہاں کے باشعور لوگوں کو بخوبی معلوم ہے وہ جب کبھی انتہا پسندوں کے خلاف بولتے ہیں تو انھیں بھی دھمکیاں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔
یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک بھوک ، افلاس ، غربت ، جہالت، بیماری ، بے روزگاری، مہنگائی اورآئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور دیگر سامراجی اور امیر ملکوں کے قرض تلے دبے ہوئے ہیں اور دوسری طرف یہ ممالک اربوں ڈالرز صرف اسلحے کی پیداوار پر خرچ کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے اندر آج بھی کروڑوں لوگوں کو چھت نصیب نہیں اور وہ فٹ پاتھ پر سونے پر مجبور ہیں۔
اس وقت ہندوستان میں چھتیس کروڑ لوگ بے روزگار ہیں ، ستر فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں ۔پا کستان میں بھی ساڑھے چارکروڑ لوگ بے روزگار ہیں، اسی فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ۔ ہندوستان میں روزانہ لا علاجی اور بھوک سے ہزاروں اور پا کستان میں سیکڑوں لوگ جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں ۔دونوں ممالک سامراجیوں کے قرضے میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ دونوں ملکوں میں ایک لاکھ خواتین میں سے سا ڑھے چار سو خواتین زچگی کے دوران مر رہی ہیں ۔ان دو ملکوں میں دنیا کی چالیس فیصد غربت پلتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ خواتین اور لڑکیوں کا قتل، عصمت دری اوربے حر متی انھیں ملکوں میں ہوتی ہے ۔خودکشیاں بھی یہیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔
ان بدترین مسائل کے باوجود دنیا کے نو ملکوں میں سے دو ہندوستان اور پاکستان جن کے پاس ایٹم بم ہیں ۔کھربوں ڈالرز ہم اسلحے کی پیداوار اور خریدو فروخت پر خرچ کر تے ہیں ، دونوں ممالک اگر اسلحے کی پیداوار بند کردیں تو نہ صرف ان ملکوں میں بھوک اور افلاس کا خاتمہ ہوسکتا ہے بلکہ یہ دنیا کا خوشحال ترین خطہ بن سکتا ہے ۔ اس لیے کہ یہاں معدنیات، اجناس، پانی، پھل ، مچھلی اور زرخیز زمین ہے جو دنیا میں بہت کم جگہوں پہ پائی جاتی ہے۔ پھر ساحر کے شعر یاد آ تے ہیں۔
آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکرکی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
دونوں ممالک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو جنگ کے بجائے امن کی بات کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کا احساس دلاتے ہیں کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا۔جو جذباتی لوگ جنگ چاہتے ہیں ابھی انھیں اس کا ادراک نہیں کہ جنگ سے کتنی تباہی پھیلے گی اور شہروں کے شہر تباہ ہو جائیں گے۔ ہر چند کہ برصغیرکے مسائل کا واحد حل ایک غیرطبقاتی، امداد باہمی یا پنچایتی اسٹیٹ لیس سوسایٹی میں ہی مضمر ہے مگرفی الحال اسلحے کی پیداوار کو روک کر اگر بھوک ، افلاس، غربت،جہالت اور بیماریوں سے بچایا جاسکتا ہے اور عوام کو خوشیاں نصیب ہوسکتی ہیں ۔