دورۂ زمبابوے میں سینئرز کو آرام کا موقع دینا چاہیے
نجم سیٹھی اختیارات مانگنے کے بجائے انتخابات کروانے پر توجہ دیں
SUKKUR:
پی سی بی کے معاملات ان دنوں جمود کا شکارہیں، نگراں چیئرمین نجم سیٹھی نے بجائے انتخابات پر توجہ دینے کے اختیارات میں اضافے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔
انھوں نے میڈیا پر ایسے حالات پیش کیے جیسے عدالت نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور روزمرہ کے امور بھی انجام نہیں دیے جا سکتے، درحقیقت معاملات ایسے بھی نہیں جیسے بیان کیے گئے،اگر کوئی چاہے تو ہر مسئلے کا حل موجود ہے، پہلے بھی تجویز دی جا چکی تھی کہ اگر سلیکشن کمیٹی کا تقرر ممکن نہیں تو اقبال قاسم تیار ہیں انھیں بلا لیا جائے یا باقی سلیکٹرز کو ہی ٹیمیں منتخب کرنے کا ٹاسک دے دیں،شکر ہے اس پر عمل کرتے ہوئے اے سی سی ایمرجنگ ٹیم کپ کے لیے انڈر23اسکواڈ منتخب کر لیا گیا، رہی بات سینٹرل کنٹریکٹ کی وہ تو پلیئرز کو ہر سال ہی کئی ماہ تاخیر سے دیا جاتا ہے۔
اس بار بھی اگر کچھ دیر ہو گئی تو کیا قباحت ہے،یقیناً عدالت یہ نہیں چاہتی کہ بورڈ ملازمین یا پلیئرز تنخواہوں کے لیے مارے مارے پھریں، حقیقی اخراجات کے لیے رقم نکالنے کا معاملہ بھی حل ہونا ممکن ہے، اصل تنازع ٹیلی ویژن رائٹس کی وجہ سے پیدا ہوا، نجم سیٹھی کا گروپ بھی اس کے حصول میں دلچسپی رکھتا ہے، چیئرمین کی ایمانداری پر کوئی انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن یہ معاملہ اب مشکوک ہو چکا، جو بھی طریقہ استعمال کیا گیا ان کی موجودگی میں اعتراضات ہی سامنے آئیں گے، ایسے میں کوئی درمیانی حل نکالنا ہو گا،ویسے عدالت نے نجم سیٹھی کو انتخابات کے لیے 3 ماہ دیے اب تک انھوں نے اس حوالے سے کیا کیا ہے؟ بورڈ میں بڑے بڑے گدھ موجود ہیں ان کی چڑیا تو بیچاری انھیں دیکھ کر ہی اڑ گئی ہو گی، پی سی بی کیخلاف عدالت جانے والوں نے جو اعتراضات اٹھائے انھیں دور کرنا مشکل نہیں۔
اصل بات نیت کی ہے اگر کوئی چاہے تو انتخابات کرانا ناممکن نہ ہو گا، مگر عملی اقدامات تو کیے جائیں۔ جن لوگوں نے مشکوک الیکشن کے ذریعے ذکاء اشرف کی کشتی ڈبوئی، اب وہی نجم سیٹھی کو مستقل چیئرمین بننے کی راہیں دکھا رہے ہیں، انھیں یہ سوچنا چاہیے کہ کئی سربراہ آئے اور گئے یہ لوگ ویسے ہی موجود ہیں، ان کی باتوں میں آکر اپنی ساکھ داؤ پر نہیں لگانی چاہیے۔ نئی سلیکشن کمیٹی، سینٹرل کنٹریکٹ، ٹی وی رائٹس، انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی یہ سب کام نئے چیئرمین پر چھوڑ دینا مناسب ہوگا، عارضی حل موجود ہیں ان پر عمل کریں، تمام ایسوسی ایشنز کی ایک کانفرنس بلانی چاہیے جس میں موجودہ اورجن عہدوں کی معیاد مکمل ہو چکی انھیں بلا کر مسائل پوچھے جائیں، اچھی ساکھ کے حامل منتظمین کو بھی شرکت کی دعوت دیں، سب کی تجاویز سے متفقہ طور پر انتخابی عمل کے لیے اقدامات کریں۔
تاکہ کل کو پھر کوئی عدالت نہ چلا جائے۔ ویسے معذرت کے ساتھ پاکستان کھیلوں میں بہت پیچھے چلا گیا اور معاملات کورٹس میں چلائے جا رہے ہیں، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سمیت دیگر کھیلوں کی کئی تنظیموں کا یہی حال ہے، جس سے ملکی اسپورٹس کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، ان لوگوں سے ذرا پوچھا جائے کہ عالمی ایونٹس میں کتنے میڈلز جتوائے جو اب اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے دست گریباں ہیں، ایک کرکٹ ٹیم ہی بچی ہے جو کبھی کبھی کوئی ایونٹ جیت جاتی تھی اب اس کھیل کو بھی مسائل کا شکار کر دیا گیا،اس رحجان کی عدالتوں کو خود ہی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، پاکستان کو کئی سنگین بحرانوں کا سامنا ہے عدلیہ کو کھیلوں کے تنازعات سلجھانے میں لگا دیا تو دیگر معاملات کا کیا ہو گا۔
سابق کپتان راشد لطیف نے ذکا اشرف کے بعد نجم سیٹھی کی تقرری پربھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا، یقینا انھیں اس کا شوق نہیں ہے، سابق کپتان کو بلا کر پوچھنا چاہیے کہ مسائل کا حل کیا ہے اس سے فائدہ ضرور ہو گا، جس طرح پی او اے کئی ماہ سے پاکستان پر آئی او سی کی پابندی لگنے کا کہہ کر ڈراتی رہی اسی بات کو نجم سیٹھی نے بھی پکڑ لیا، اب وہ بھی یہی بات کر رہے ہیں کہ معاملات ٹھیک نہ ہوئے تو آئی سی سی پاکستان کو بین کر دے گی، یہ سراسر گمراہ کن بات ہے۔ دراصل انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے چند برس قبل بھارتی ایما پر یہ قانون بنایا کہ حکومتی مداخلت پر کسی ملک کی رکنیت معطل کر دی جائے گی، وہاں سیاستدان کئی برس سے اس چکر میں ہیں کہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی بی سی سی آئی کو کسی طرح قابو میں کیا جائے، اس سے نمٹنے کے لیے یہ قانون سامنے لایاگیا۔
مگر جب آئی سی سی نے اس حوالے سے بھارتی حکومت کو خط لکھا تو اتنا سخت جواب ملا کہ اعلیٰ حکام کے پسینے چھوٹ گئے، اس میں تحریر تھا کہ آپ لوگ کون ہوتے ہیں ہمیں ڈکٹیٹ کرنے والے، ہماری جو مرضی ہوئی کریں گے رکنیت معطل کرنی ہے تو کر دیں، اس سے کونسل کے دماغ ٹھکانے آ گئے اور اس معاملے پر خاموشی اختیار کر لی، ویسے بھی آئی سی سی کے فل ممبر 10تو ہیں ،ان میں سے بھی کسی پر پابندی لگا دی تو بچے گا کیا، فٹبال کی عالمی تنظیم کی 209نیشنل ایسوسی ایشنز ممبر ہیں وہ 1،2پر پابندی لگا دے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، بنگلہ دیش کرکٹ میں کئی ماہ سے بورڈ کے الیکشن التوا کا شکار ہیں، سری لنکا میں تو ٹیم کی منظوری بھی وزیر کھیل دیتے ہیں،انھیں بھی کچھ نہیں کہا جا رہا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کونسل کا اس حوالے سے رویہ زیادہ سخت نہیں رہا۔ پہلے نجم سیٹھی نے سابق آفیشلز پر الزام لگایا کہ وہ آئی سی سی میٹنگ میں پاکستانی رکنیت معطل کرانے کے درپے رہے اب خود ایسی باتیں کر رہے ہیں، '' کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے''۔
پاکستان کرکٹ ٹیم ان دنوں ویسٹ انڈیز کیخلاف فتح سے لطف اندوز ہو رہی ہے، یہ درست ہے کہ حریف سائیڈ زیادہ مضبوط نہیں تھی مگر کامیابی چاہے جس کیخلاف بھی ملے اس سے اعتماد میں اضافہ تو ہوتا ہے، حالیہ ناقص کارکردگی کے بعد تو گرین شرٹس کو اس جیت کی اشد ضرورت تھی، شاہد آفریدی نے ٹور کے 2میچز کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ جیت کر اہلیت منوا لی، یہ درست ہے کہ آل راؤنڈر اس وقت پاکستان کے مقبول ترین کرکٹر ہیں مگر اسی کے ساتھ ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو انھیں پسند نہیں کرتے، ٹیم 100رنز پر آؤٹ ہو جائے آفریدی 40 رنز بنائیں مگر اس کے باوجود سب سے زیادہ بُرا بھلا انہی کو کہا جاتا ہے، قومی ٹیم کے کوچ ڈیوواٹمور سے میری بات ہو رہی تھی تو اس بارے میں انھوں نے کہا کہ ''چونکہ آفریدی سے سب کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں اسی لیے وہ تنقید کی زد میں بھی زیادہ آتے ہیں''۔ ان کے بارے میں اس سے بہتر رائے کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ چیمپئنز ٹرافی کے دوران جب آفریدی کی ٹیم میں واپسی کے لیے ٹی وی پر کہا اوراخبار میں لکھا تو تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن وقت نے ثابت کر دکھایا کہ جارح مزاج آل راؤنڈر ٹیم کی ضرورت ہیں،میں ان کے مخالفین سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ قومی ٹیم سے اگر آفریدی کو نکال دیا جائے تو کون سا میچ ونر بچتا ہے؟ کیا کوئی ایسا پلیئر ہے جو 3میچز میں ناکام ہو تو اگلا تن تنہا جتوا دے ؟ دورئہ جنوبی افریقہ اور چیمپئنز ٹرافی میں متواتر کئی کھلاڑیوں کو مواقع دیے گئے انھوں نے کتنے میچز جتوا دیے۔
حتیٰ کہ ویسٹ انڈیز میں بھی ایسے چند نام نہاد سپر اسٹارز ناکامی کا شکار ہوئے، مصباح الحق یقیناً بہت اچھے بیٹسمین ہیں لیکن ان کے لیے بھی پوری ٹیم کو اکیلے سنبھالنا آسان نہیں ہوتا،اب آفریدی کی آمد سے ان پر دباؤ کم ہوا تو زیادہ اعتماد سے کھیل رہے ہیں، ویسٹ انڈیز میں تسلسل کے ساتھ عمدہ بیٹنگ اس کا واضح ثبوت ہے،آج کے دور میں تو سچن ٹنڈولکر سے ہر میچ میں رنز نہیں بنتے ایسے میں آفریدی سے یہ توقع رکھنا مناسب نہیں، ہمیں انھیں ''جہاں ہے جیسا بھی ہے'' کی بنیاد پر قبول کرنا ہو گا اور جس دن ایسا محسوس ہو کہ ان سے بہتر آل راؤنڈر مل گیا تو یقیناً ٹیم سے ہٹا دیں، فی الوقت ایسا نہیں ہے جس کا ثبوت چیمپئنز ٹرافی تھی، قومی ٹیم میں آل راؤنڈرز کہہ کر اس وقت ایسے پلیئرز آزمائے جا رہے ہیں جو خود اپنے نام کے سامنے یہ پڑھ کر شرمندہ ہو جاتے ہوں گے۔
یہ درست ہے کہ آفریدی کی کارکردگی میں تسلسل نہیں، مگر ایک بات طے ہے کہ ان کی موجودگی سے حریف ٹیمیں خوف کا شکار ہو جاتی اور ساتھی پلیئرز میں بھی کچھ کر دکھانے کا جذبہ بڑھ جاتا ہے، وہ کرپٹ نہیں اور ہر میچ میں سو فیصد پرفارم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بیٹنگ کو بونس سمجھتے ہوئے ان کی بولنگ اور فیلڈنگ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے، اگر ہمیں ورلڈکپ جیتنا ہے تو آفریدی جیسے کھلاڑی کی اشد ضرورت پڑے گی ، میگا ایونٹس میں بڑے کھلاڑیوں کا ساتھ نہ ہو تو چیمپئنز ٹرافی جیسا حال ہوتا ہے، ناقدین کو اب آفریدی کا پیچھا چھوڑ دینا چاہیے۔
کیریبیئن جزائر میں پاکستانی ٹیم کے لیے عمر اکمل نے بہترین پرفارم کیا۔ طویل عرصے بعد پاکستان کو اتنا باصلاحیت بیٹسمین ملا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے ٹیلنٹ سے درست انداز میں فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا تھا۔ یہ درست ہے کہ بعض اوقات انھوں نے غلط شاٹس کھیل کر وکٹ گنوائی لیکن یہ خامی دور کرائی جا سکتی تھی۔ اب عمر نے اپنی صلاحیت ثابت کر دی وہ نوجوان اور کافی عرصے تک ٹیم کے کام آ سکتے ہیں۔ وکٹ کیپنگ کے اضافی بوجھ سے ان کی کارکردگی پر اثر پڑے گا۔ یہ اسپیشلسٹ کا کام ہے اور کسی باصلاحیت وکٹ کیپر بیٹسمین کو تلاش کرنا چاہیے ورنہ عمر اکمل کی عمدہ بیٹنگ پر ناقص کیپنگ پانی پھیرتی رہے گی۔اب تک گوکہ وہ اس شعبے میں زیادہ ناکام ثابت تو نہیں ہوئے لیکن ''ٹائی میچ'' جیسی غلطیاں ان کے کیریئر کے لیے خطرناک بن سکتی ہیں۔ انھیں بطور بیٹسمین نیچرل گیم کھیلنے دیا جائے تو دنیا ویرات کوہلی کو بھول جائے گی۔
مصباح الحق 40 سال کے ہونے والے ہیں مگر ان کی کارکردگی نوجوانوں سے بہتر ہے، کافی عرصے بعد پاکستان کو تسلسل سے پرفارم کرنے والا کوئی پلیئر ملا، مستقبل کا اس وقت سوچا جاتا ہے جب آپ کا حال بہت اچھا ہو ، بدقسمتی سے ویسٹ انڈیز جیسی کمزور سائیڈ کے سوا ہماری ٹیم کی حالیہ پرفارمنس بہت شاندار نہیں، ایسے میں ہمیں ابھی اس وقت کا ہی سوچنا چاہیے، مصباح اگر اسی طرح مسلسل رنز کرتے رہے تو ورلڈ کپ کھلانے میں بھی کوئی قباحت نہیں، عمر کو بھول جائیں، ان کی فٹنس بھی اچھی ہے لہذا ٹیم کے کام ہی آ سکتے ہیں۔
اب ویسٹ انڈیز سے بھی کمزور زمبابوین سائیڈ پاکستان کی منتظر ہے، سلیکٹرز کو نوجوان پلیئرز آزمانے کا اس سے اچھا موقع مل ہی نہیں سکتا، بھارت نے زمبابوے کا جو حشر کیا وہ سب کے سامنے ہے، ایسے میں اگر مصباح الحق، محمد حفیظ اور سعید اجمل کو آرام کا موقع دے دیا جائے تو یہ خود ان کے لیے بھی مناسب ہو گا، مسلسل کرکٹ کھیل کروہ خود تھکاوٹ کا شکار ہو گئے ہوں گے،مصباح اور سعید کو تو چیمپئنز لیگ کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں بھی شرکت کرنی ہے، ایسے میں قیادت شاہدآفریدی کو سونپ کر عمر اکمل کو نائب بنایا جا سکتا ہے جنھیں مستقبل کے لیے گروم ہونے کا موقع ملے گا۔ یقینا پاکستانی نوجوان بھی زمبابوین ٹیم کو آسانی سے قابو کر لیں گے، انھیں متواتر صلاحیتیں آزمانے کا موقع تو دینا چاہیے، دیکھتے ہیں کہ سلیکٹرز اس حوالے سے کیا قدم اٹھاتے ہیں۔
برطانوی میڈیا نے ایک بار پھر پاکستانی ٹیم پر فکسنگ کا الزام لگا دیا مگر افسوس کہ بورڈ نے چند ای میلز جاری کرنے کے سوا کچھ نہ کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے خود اپنے کھلاڑیوں پر یقین نہیں کہ کہیں اخبار کو نوٹس بھیج دیا تو لینے کے دینے نہ پڑ جائیں، ماضی میں سابق چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ نے سلمان بٹ، آصف اور عامر کو بے گناہ قرار دیا مگر بعد میں انھیں ای سی بی سے معافی مانگنا پڑی تھی۔
ہمیں اس حوالے سے سخت موقف اپنانا ہو گا ورنہ ہر کوئی ایراغیرا اٹھ کر الزامات لگاتا رہے گا، برطانوی اخبار سے پوچھا چاہیے کہ کس بنیاد پر الزام لگایا، ثبوت دو ورنہ ہرجانے کا دعویٰ کر دیا جائے، پھر اگر رقم ملے تو وہ کھلاڑیوں میں تقسیم کر دیں جن کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ دنیا بھر میں فکسنگ ہو رہی ہے جس کی اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں مگر آئی سی سی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتی البتہ پاکستانی پلیئرز آسان ہدف ہیں انھیں جو چاہے کہہ دو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کرپشن میں چاہے پاکستان یا دنیا کی کسی بھی ٹیم کا کھلاڑی ملوث ہو ایک جیسی سزا دینی چاہیے ورنہ کھیل کا دامن مسلسل داغدار ہوتا رہے گا۔
skhaliq@express.com.pk
پی سی بی کے معاملات ان دنوں جمود کا شکارہیں، نگراں چیئرمین نجم سیٹھی نے بجائے انتخابات پر توجہ دینے کے اختیارات میں اضافے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔
انھوں نے میڈیا پر ایسے حالات پیش کیے جیسے عدالت نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور روزمرہ کے امور بھی انجام نہیں دیے جا سکتے، درحقیقت معاملات ایسے بھی نہیں جیسے بیان کیے گئے،اگر کوئی چاہے تو ہر مسئلے کا حل موجود ہے، پہلے بھی تجویز دی جا چکی تھی کہ اگر سلیکشن کمیٹی کا تقرر ممکن نہیں تو اقبال قاسم تیار ہیں انھیں بلا لیا جائے یا باقی سلیکٹرز کو ہی ٹیمیں منتخب کرنے کا ٹاسک دے دیں،شکر ہے اس پر عمل کرتے ہوئے اے سی سی ایمرجنگ ٹیم کپ کے لیے انڈر23اسکواڈ منتخب کر لیا گیا، رہی بات سینٹرل کنٹریکٹ کی وہ تو پلیئرز کو ہر سال ہی کئی ماہ تاخیر سے دیا جاتا ہے۔
اس بار بھی اگر کچھ دیر ہو گئی تو کیا قباحت ہے،یقیناً عدالت یہ نہیں چاہتی کہ بورڈ ملازمین یا پلیئرز تنخواہوں کے لیے مارے مارے پھریں، حقیقی اخراجات کے لیے رقم نکالنے کا معاملہ بھی حل ہونا ممکن ہے، اصل تنازع ٹیلی ویژن رائٹس کی وجہ سے پیدا ہوا، نجم سیٹھی کا گروپ بھی اس کے حصول میں دلچسپی رکھتا ہے، چیئرمین کی ایمانداری پر کوئی انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن یہ معاملہ اب مشکوک ہو چکا، جو بھی طریقہ استعمال کیا گیا ان کی موجودگی میں اعتراضات ہی سامنے آئیں گے، ایسے میں کوئی درمیانی حل نکالنا ہو گا،ویسے عدالت نے نجم سیٹھی کو انتخابات کے لیے 3 ماہ دیے اب تک انھوں نے اس حوالے سے کیا کیا ہے؟ بورڈ میں بڑے بڑے گدھ موجود ہیں ان کی چڑیا تو بیچاری انھیں دیکھ کر ہی اڑ گئی ہو گی، پی سی بی کیخلاف عدالت جانے والوں نے جو اعتراضات اٹھائے انھیں دور کرنا مشکل نہیں۔
اصل بات نیت کی ہے اگر کوئی چاہے تو انتخابات کرانا ناممکن نہ ہو گا، مگر عملی اقدامات تو کیے جائیں۔ جن لوگوں نے مشکوک الیکشن کے ذریعے ذکاء اشرف کی کشتی ڈبوئی، اب وہی نجم سیٹھی کو مستقل چیئرمین بننے کی راہیں دکھا رہے ہیں، انھیں یہ سوچنا چاہیے کہ کئی سربراہ آئے اور گئے یہ لوگ ویسے ہی موجود ہیں، ان کی باتوں میں آکر اپنی ساکھ داؤ پر نہیں لگانی چاہیے۔ نئی سلیکشن کمیٹی، سینٹرل کنٹریکٹ، ٹی وی رائٹس، انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی یہ سب کام نئے چیئرمین پر چھوڑ دینا مناسب ہوگا، عارضی حل موجود ہیں ان پر عمل کریں، تمام ایسوسی ایشنز کی ایک کانفرنس بلانی چاہیے جس میں موجودہ اورجن عہدوں کی معیاد مکمل ہو چکی انھیں بلا کر مسائل پوچھے جائیں، اچھی ساکھ کے حامل منتظمین کو بھی شرکت کی دعوت دیں، سب کی تجاویز سے متفقہ طور پر انتخابی عمل کے لیے اقدامات کریں۔
تاکہ کل کو پھر کوئی عدالت نہ چلا جائے۔ ویسے معذرت کے ساتھ پاکستان کھیلوں میں بہت پیچھے چلا گیا اور معاملات کورٹس میں چلائے جا رہے ہیں، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سمیت دیگر کھیلوں کی کئی تنظیموں کا یہی حال ہے، جس سے ملکی اسپورٹس کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، ان لوگوں سے ذرا پوچھا جائے کہ عالمی ایونٹس میں کتنے میڈلز جتوائے جو اب اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے دست گریباں ہیں، ایک کرکٹ ٹیم ہی بچی ہے جو کبھی کبھی کوئی ایونٹ جیت جاتی تھی اب اس کھیل کو بھی مسائل کا شکار کر دیا گیا،اس رحجان کی عدالتوں کو خود ہی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، پاکستان کو کئی سنگین بحرانوں کا سامنا ہے عدلیہ کو کھیلوں کے تنازعات سلجھانے میں لگا دیا تو دیگر معاملات کا کیا ہو گا۔
سابق کپتان راشد لطیف نے ذکا اشرف کے بعد نجم سیٹھی کی تقرری پربھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا، یقینا انھیں اس کا شوق نہیں ہے، سابق کپتان کو بلا کر پوچھنا چاہیے کہ مسائل کا حل کیا ہے اس سے فائدہ ضرور ہو گا، جس طرح پی او اے کئی ماہ سے پاکستان پر آئی او سی کی پابندی لگنے کا کہہ کر ڈراتی رہی اسی بات کو نجم سیٹھی نے بھی پکڑ لیا، اب وہ بھی یہی بات کر رہے ہیں کہ معاملات ٹھیک نہ ہوئے تو آئی سی سی پاکستان کو بین کر دے گی، یہ سراسر گمراہ کن بات ہے۔ دراصل انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے چند برس قبل بھارتی ایما پر یہ قانون بنایا کہ حکومتی مداخلت پر کسی ملک کی رکنیت معطل کر دی جائے گی، وہاں سیاستدان کئی برس سے اس چکر میں ہیں کہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی بی سی سی آئی کو کسی طرح قابو میں کیا جائے، اس سے نمٹنے کے لیے یہ قانون سامنے لایاگیا۔
مگر جب آئی سی سی نے اس حوالے سے بھارتی حکومت کو خط لکھا تو اتنا سخت جواب ملا کہ اعلیٰ حکام کے پسینے چھوٹ گئے، اس میں تحریر تھا کہ آپ لوگ کون ہوتے ہیں ہمیں ڈکٹیٹ کرنے والے، ہماری جو مرضی ہوئی کریں گے رکنیت معطل کرنی ہے تو کر دیں، اس سے کونسل کے دماغ ٹھکانے آ گئے اور اس معاملے پر خاموشی اختیار کر لی، ویسے بھی آئی سی سی کے فل ممبر 10تو ہیں ،ان میں سے بھی کسی پر پابندی لگا دی تو بچے گا کیا، فٹبال کی عالمی تنظیم کی 209نیشنل ایسوسی ایشنز ممبر ہیں وہ 1،2پر پابندی لگا دے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، بنگلہ دیش کرکٹ میں کئی ماہ سے بورڈ کے الیکشن التوا کا شکار ہیں، سری لنکا میں تو ٹیم کی منظوری بھی وزیر کھیل دیتے ہیں،انھیں بھی کچھ نہیں کہا جا رہا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کونسل کا اس حوالے سے رویہ زیادہ سخت نہیں رہا۔ پہلے نجم سیٹھی نے سابق آفیشلز پر الزام لگایا کہ وہ آئی سی سی میٹنگ میں پاکستانی رکنیت معطل کرانے کے درپے رہے اب خود ایسی باتیں کر رہے ہیں، '' کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے''۔
پاکستان کرکٹ ٹیم ان دنوں ویسٹ انڈیز کیخلاف فتح سے لطف اندوز ہو رہی ہے، یہ درست ہے کہ حریف سائیڈ زیادہ مضبوط نہیں تھی مگر کامیابی چاہے جس کیخلاف بھی ملے اس سے اعتماد میں اضافہ تو ہوتا ہے، حالیہ ناقص کارکردگی کے بعد تو گرین شرٹس کو اس جیت کی اشد ضرورت تھی، شاہد آفریدی نے ٹور کے 2میچز کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ جیت کر اہلیت منوا لی، یہ درست ہے کہ آل راؤنڈر اس وقت پاکستان کے مقبول ترین کرکٹر ہیں مگر اسی کے ساتھ ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو انھیں پسند نہیں کرتے، ٹیم 100رنز پر آؤٹ ہو جائے آفریدی 40 رنز بنائیں مگر اس کے باوجود سب سے زیادہ بُرا بھلا انہی کو کہا جاتا ہے، قومی ٹیم کے کوچ ڈیوواٹمور سے میری بات ہو رہی تھی تو اس بارے میں انھوں نے کہا کہ ''چونکہ آفریدی سے سب کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں اسی لیے وہ تنقید کی زد میں بھی زیادہ آتے ہیں''۔ ان کے بارے میں اس سے بہتر رائے کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ چیمپئنز ٹرافی کے دوران جب آفریدی کی ٹیم میں واپسی کے لیے ٹی وی پر کہا اوراخبار میں لکھا تو تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن وقت نے ثابت کر دکھایا کہ جارح مزاج آل راؤنڈر ٹیم کی ضرورت ہیں،میں ان کے مخالفین سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ قومی ٹیم سے اگر آفریدی کو نکال دیا جائے تو کون سا میچ ونر بچتا ہے؟ کیا کوئی ایسا پلیئر ہے جو 3میچز میں ناکام ہو تو اگلا تن تنہا جتوا دے ؟ دورئہ جنوبی افریقہ اور چیمپئنز ٹرافی میں متواتر کئی کھلاڑیوں کو مواقع دیے گئے انھوں نے کتنے میچز جتوا دیے۔
حتیٰ کہ ویسٹ انڈیز میں بھی ایسے چند نام نہاد سپر اسٹارز ناکامی کا شکار ہوئے، مصباح الحق یقیناً بہت اچھے بیٹسمین ہیں لیکن ان کے لیے بھی پوری ٹیم کو اکیلے سنبھالنا آسان نہیں ہوتا،اب آفریدی کی آمد سے ان پر دباؤ کم ہوا تو زیادہ اعتماد سے کھیل رہے ہیں، ویسٹ انڈیز میں تسلسل کے ساتھ عمدہ بیٹنگ اس کا واضح ثبوت ہے،آج کے دور میں تو سچن ٹنڈولکر سے ہر میچ میں رنز نہیں بنتے ایسے میں آفریدی سے یہ توقع رکھنا مناسب نہیں، ہمیں انھیں ''جہاں ہے جیسا بھی ہے'' کی بنیاد پر قبول کرنا ہو گا اور جس دن ایسا محسوس ہو کہ ان سے بہتر آل راؤنڈر مل گیا تو یقیناً ٹیم سے ہٹا دیں، فی الوقت ایسا نہیں ہے جس کا ثبوت چیمپئنز ٹرافی تھی، قومی ٹیم میں آل راؤنڈرز کہہ کر اس وقت ایسے پلیئرز آزمائے جا رہے ہیں جو خود اپنے نام کے سامنے یہ پڑھ کر شرمندہ ہو جاتے ہوں گے۔
یہ درست ہے کہ آفریدی کی کارکردگی میں تسلسل نہیں، مگر ایک بات طے ہے کہ ان کی موجودگی سے حریف ٹیمیں خوف کا شکار ہو جاتی اور ساتھی پلیئرز میں بھی کچھ کر دکھانے کا جذبہ بڑھ جاتا ہے، وہ کرپٹ نہیں اور ہر میچ میں سو فیصد پرفارم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بیٹنگ کو بونس سمجھتے ہوئے ان کی بولنگ اور فیلڈنگ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے، اگر ہمیں ورلڈکپ جیتنا ہے تو آفریدی جیسے کھلاڑی کی اشد ضرورت پڑے گی ، میگا ایونٹس میں بڑے کھلاڑیوں کا ساتھ نہ ہو تو چیمپئنز ٹرافی جیسا حال ہوتا ہے، ناقدین کو اب آفریدی کا پیچھا چھوڑ دینا چاہیے۔
کیریبیئن جزائر میں پاکستانی ٹیم کے لیے عمر اکمل نے بہترین پرفارم کیا۔ طویل عرصے بعد پاکستان کو اتنا باصلاحیت بیٹسمین ملا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے ٹیلنٹ سے درست انداز میں فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا تھا۔ یہ درست ہے کہ بعض اوقات انھوں نے غلط شاٹس کھیل کر وکٹ گنوائی لیکن یہ خامی دور کرائی جا سکتی تھی۔ اب عمر نے اپنی صلاحیت ثابت کر دی وہ نوجوان اور کافی عرصے تک ٹیم کے کام آ سکتے ہیں۔ وکٹ کیپنگ کے اضافی بوجھ سے ان کی کارکردگی پر اثر پڑے گا۔ یہ اسپیشلسٹ کا کام ہے اور کسی باصلاحیت وکٹ کیپر بیٹسمین کو تلاش کرنا چاہیے ورنہ عمر اکمل کی عمدہ بیٹنگ پر ناقص کیپنگ پانی پھیرتی رہے گی۔اب تک گوکہ وہ اس شعبے میں زیادہ ناکام ثابت تو نہیں ہوئے لیکن ''ٹائی میچ'' جیسی غلطیاں ان کے کیریئر کے لیے خطرناک بن سکتی ہیں۔ انھیں بطور بیٹسمین نیچرل گیم کھیلنے دیا جائے تو دنیا ویرات کوہلی کو بھول جائے گی۔
مصباح الحق 40 سال کے ہونے والے ہیں مگر ان کی کارکردگی نوجوانوں سے بہتر ہے، کافی عرصے بعد پاکستان کو تسلسل سے پرفارم کرنے والا کوئی پلیئر ملا، مستقبل کا اس وقت سوچا جاتا ہے جب آپ کا حال بہت اچھا ہو ، بدقسمتی سے ویسٹ انڈیز جیسی کمزور سائیڈ کے سوا ہماری ٹیم کی حالیہ پرفارمنس بہت شاندار نہیں، ایسے میں ہمیں ابھی اس وقت کا ہی سوچنا چاہیے، مصباح اگر اسی طرح مسلسل رنز کرتے رہے تو ورلڈ کپ کھلانے میں بھی کوئی قباحت نہیں، عمر کو بھول جائیں، ان کی فٹنس بھی اچھی ہے لہذا ٹیم کے کام ہی آ سکتے ہیں۔
اب ویسٹ انڈیز سے بھی کمزور زمبابوین سائیڈ پاکستان کی منتظر ہے، سلیکٹرز کو نوجوان پلیئرز آزمانے کا اس سے اچھا موقع مل ہی نہیں سکتا، بھارت نے زمبابوے کا جو حشر کیا وہ سب کے سامنے ہے، ایسے میں اگر مصباح الحق، محمد حفیظ اور سعید اجمل کو آرام کا موقع دے دیا جائے تو یہ خود ان کے لیے بھی مناسب ہو گا، مسلسل کرکٹ کھیل کروہ خود تھکاوٹ کا شکار ہو گئے ہوں گے،مصباح اور سعید کو تو چیمپئنز لیگ کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں بھی شرکت کرنی ہے، ایسے میں قیادت شاہدآفریدی کو سونپ کر عمر اکمل کو نائب بنایا جا سکتا ہے جنھیں مستقبل کے لیے گروم ہونے کا موقع ملے گا۔ یقینا پاکستانی نوجوان بھی زمبابوین ٹیم کو آسانی سے قابو کر لیں گے، انھیں متواتر صلاحیتیں آزمانے کا موقع تو دینا چاہیے، دیکھتے ہیں کہ سلیکٹرز اس حوالے سے کیا قدم اٹھاتے ہیں۔
برطانوی میڈیا نے ایک بار پھر پاکستانی ٹیم پر فکسنگ کا الزام لگا دیا مگر افسوس کہ بورڈ نے چند ای میلز جاری کرنے کے سوا کچھ نہ کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے خود اپنے کھلاڑیوں پر یقین نہیں کہ کہیں اخبار کو نوٹس بھیج دیا تو لینے کے دینے نہ پڑ جائیں، ماضی میں سابق چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ نے سلمان بٹ، آصف اور عامر کو بے گناہ قرار دیا مگر بعد میں انھیں ای سی بی سے معافی مانگنا پڑی تھی۔
ہمیں اس حوالے سے سخت موقف اپنانا ہو گا ورنہ ہر کوئی ایراغیرا اٹھ کر الزامات لگاتا رہے گا، برطانوی اخبار سے پوچھا چاہیے کہ کس بنیاد پر الزام لگایا، ثبوت دو ورنہ ہرجانے کا دعویٰ کر دیا جائے، پھر اگر رقم ملے تو وہ کھلاڑیوں میں تقسیم کر دیں جن کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ دنیا بھر میں فکسنگ ہو رہی ہے جس کی اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں مگر آئی سی سی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتی البتہ پاکستانی پلیئرز آسان ہدف ہیں انھیں جو چاہے کہہ دو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کرپشن میں چاہے پاکستان یا دنیا کی کسی بھی ٹیم کا کھلاڑی ملوث ہو ایک جیسی سزا دینی چاہیے ورنہ کھیل کا دامن مسلسل داغدار ہوتا رہے گا۔
skhaliq@express.com.pk