پی او اے کے متوازی دھڑوں میں محاذ آرائی اور حکومت کی خاموشی

کوئی مناسب حل نہ نکالا گیا تو کھیل مزید تباہی سے دوچار ہوجائیں گے


Abbas Raza August 03, 2013
کوئی مناسب حل نہ نکالا گیا تو کھیل مزید تباہی سے دوچار ہوجائیں گے. فوٹو : فائل

دنیا میں جن ممالک کو سپرپاورز کا درجہ حاصل ہے وہ ملک کھیلوں کے میدان میں بھی ٹاپ پر ہیں، اولمپکس میں امریکا اور چین کے مابین گولڈ میڈلز کے لیے سخت مقابلہ ہوتا ہے، سیاسی اور سماجی میدان میں بھی ان دونوں ملکوں کو سب سے آگے مانا جاتا ہے، اولمپکس میں کئی ایسے ملکوں کے کھلاڑیوں نے میڈلز حاصل کئے ہیں ۔

جن کی آبادی لاکھوں میں ہے، پاکستان تو 20 کروڑ عوام کا ملک ہے،50 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے پھربھی ہم ایک میڈل نہیں جیت پاتے، وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ کھیلوں کے شعبے کو چلانے والے حکام کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو کھیلوں پر توجہ دینا ہوگی۔

ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے جب سب مل کر ذاتی مفاد کو چھوڑ کر ایک ساتھ اسپورٹس کی ترقی اور ملکی مفاد کو ترجیح دیں مگر یہاں تو کھیلوں کی خدمت کا دم بھرنے والے اپنی انا کے خول سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے دو متوازی دھڑوں کی محاذ آرائی کھیل سے دوستی کی آڑ میں دشمنی ہے جس پر حکومتی ایونوں کی پر اسرار خاموشی بھی اسپورٹس سے لگاؤ رکھنے والوں کو ہضم نہیں ہوپارہی۔

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا قیام 1948ء میں عمل میں لایا گیا، چیف پیٹرن قائداعظم تھے، انھوں نے ہی اولمپکس گیمز میں شرکت کے لیے ملک کا پہلا دستہ روانہ کیا، پی اور اے کے ساتھ34 فیڈریشنز کا الحاق ہے، اولمپکس کامن ویلتھ، ایشین گیمز میں کھلاڑی اسی کے بینر تلے شرکت کرتے ہیں ، گرانٹ بھی آئی او سی کی طرف سے ملتی ہے۔

دوسری طرف پاکستان اسپورٹس بورڈ 1962ء میں تشکیل دیاگیا، مقصد کھیلوں کے فروغ کے لیے انفرا سٹرکچر بنانا اور مختلف یونٹس کی مالی مدد کرنے کے لیے نظام وضع کرناتھا،22فیڈریشنز پی ایس بی کے ساتھ منسلک ہیں۔ دونوں تنظیموں میں اختیارات کے لیے کھینچا تانی کئی تنا زعات کا سبب بنتی ہے، بین الاقوامی سطح کے بیشتر میگا ایونٹ آئی او سی کے تحت ہوتے ہیں جبکہ دیگر انٹر نیشنل اسپورٹس فیڈریشنز بھی اسی کے چارٹر کے مطابق اپنی پالیسیاں تشکیل دیتی ہیں۔

پاکستان میں اسپورٹس پالیسی 2005 میں بنائی گئی تھی لیکن کئی سال تک اس پر عمل درآمد ممکن نہ ہوسکا، بعدازاں عدالتی چارہ جوئی کے بعد فیصلہ اسپورٹس بورڈ کے حق میں ہوا جس کے تحت قرار دیا گیا کہ کسی بھی کھیلوں کی تنظیم میں کوئی عہدیدار 2 سے زیادہ ٹرم کے لیے اختیار اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ پی او اے کے صدر عارف حسن، پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر قاسم ضیاء اور اتھلیٹ فیڈریشن کے صدر جنرل(ر)اکرم ساہی کو شکست دے کر تیسری بار منتخب ہوئے، ناکام امیدواروں نے الیکشن سے قبل اور بعد میں خوب شور مچایا کہ اسپورٹس پالیسی پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وہ ایک بار پھر عہدہ سنبھالنے کے اہل نہیں، دوسری طرف عارف حسن کا موقف تھا کہ پی او اے کسی داخلی پالیسی نہیں بلکہ آئی او سی چارٹر کے مطابق معاملات چلانے کی پابند ہے، اسپورٹس بورڈ سے فنڈز نہیں لیتے تو اس کی پالیسیوں پر عمل درآمد کیوں کریں۔



اس صورتحال میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے پاکستان میں کھیلوں کے نظام اور فیڈریشنز میں حکومتی مداخلت، سیاسی اثرو رسوخ سے عہدیداروں کی نامزدگی اور انتخاب کا نوٹس لیتے ہوئے وارننگ جاری کی کہ اولمپکس سے قبل اسپورٹس پالیسی میں متنازع شقوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیموں کی آزادانہ اور خود مختار حیثیت بر قرار رکھنے کا طرز عمل اپنایا جائے۔ پی او اے کی درخواست پر ڈیڈ لائن میںتوسیع کرتے ہوئے کھلاڑیوں کو لندن گیمز میں ملکی نمائندگی کی اجازت تو دیدی گئی تھی۔

تاہم بعد ازاں بھی آئی او سی کی دھمکیوں کے باوجود محاذ آرائی ختم کرنے کے سلسلے میں کوئی مثبت پیش رفت نہ دیکھنے میں آئی، متوازی دھڑوں کے حکام افہام و تفہیم سے کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے کے بجائے بدستور اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ نے پی او اے پر ایڈہاک لگانے کے بعد لاہور میں ہونے والے نیشنل گیمزکو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے مقابلے دوبارہ اسلام آباد میں کرائے، مخالف دھڑے کے رجوع کرنے پر عدالت نے کھیلوں کے لیے 32 ویں نیشنل گیمز کا ٹائٹل استعمال کرنے سے روک دیا لیکن پھر بھی میڈلز دھڑا دھڑ بانٹے گئے، آصف باجوہ کی سربراہی میں7 رکنی عبوری کمیٹی کے تحت نئے انتخابات میں اکرم ساہی کی صدارت میں نئی پی او اے کا قیام عمل میں لایاگیا۔

جس نے اب لاہور میں اولمپک ہاؤس کی عمارت پر اپنا حق جتاتے ہوئے قبضہ حاصل کرنے کے لیے قانون کا دروازہ بھی کھٹکھٹا دیا ہے، دوسری طرف عارف حسن گروپ کی پی او اے کے عہدیدار تاحال اس موقف پر قائم ہیں کہ اسپورٹس بورڈ کے دائرہ کار سے باہر ہونے کی وجہ وہ اس کے کسی فیصلے کے پابند نہیں، ان کا کہنا ہے کہ پی او اے کا الحاق انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی سے ہے اور وہ اسی کے چارٹر پر مکمل طور پر عمل پیرا ہیں، اولمپک ہاؤس کی عمارت سرکار کی دی ہوئی نہیں بلکہ نجی ملکیت ہے،کوئی متوازی تنظیم اس پر قبضہ کی جرات نہیں کرسکتی۔

ایک طرف محاذ آرائی ختم ہونے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا، دوسری طرف انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے حکومتی مداخلت کا سخت نوٹس لیتے ہوئے مختلف کھیلوں کی تنظیموں کیخلاف کارروائی شروع کردی ہے، عالمی باسکٹ بال فیڈریشن نے پاکستان کی رکنیت معطل کر رکھی ہے، بیڈمنٹن کی دو متوازی باڈیز ہونے کے سبب معطلی نے عالمی مقابلوں میں شرکت کا حق چھین لیا گیا۔اختیارات کی کھینچا تانی کے سبب کھیلوں کی متعدد فیڈریشنز کی طرف سے غیرملکی دوروں کے سلسلے میں پاکستان اسپورٹس بورڈ سے اجازت اور مطلوبہ فنڈز نہ ملنے کی شکایات بھی عام ہیں۔

20ویں کامن ویلتھ گیمز میں قومی ہاکی ٹیم کی شمولیت خطرے سے دوچار ہوگئی ہے، پی ایچ ایف نے 21 جولائی کی ڈیڈ لائن گزرجانے کے باوجود عارف حسن گروپ کی پی او اے کو اپنی شرکت کی تصدیق کرنے کے بجائے اصرار جاری رکھا کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ سے ہی این او سی لیں گے۔پی ایچ ایف کے صدر قاسم ضیا کا کہنا تھا کہ ہمارا الحاق پی ایس بی سے ہے لہٰذا اسپورٹس بورڈ جو کہے گا وہی کریں گے۔

عارف حسن نے کامن ویلتھ گیمز کے منتظمین کو ڈیڈ لائن میں توسیع پر قائل کر لیا تو بھی کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ اکرم ساہی گروپ نے اپنے طور پر مختلف کھیلوں میں شرکت کے لیے نام بھجوا دیئے ہیں،یہی صورتحال ونٹر اولمپکس میں شمولیت کے معاملے میں بھی درپیش ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی متوازی پی او اے کو انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی تسلیم ہی نہیں کرتی تو اپنی ذیلی تنظیموں کے تحت ہونے والے مقابلوں میں ٹیموں کو شرکت کی اجازت کیسے دے گی؟

پاکستانی اسپورٹس سے محبت کرتے ہیں، کھیل پورے ملک کے عوام کو یکجا کرتے ہیں، پاکستان کی کوئی بھی ٹیم جیتے جشن ملک بھر میں ہوتا ہے، کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں سندھی ہوں، پٹھان یا کوئی اور لیکن حکام صرف اور صرف کھنچا تانی کے ذریعے عہدے بچانے پر لگے ہوئے ہیں، اداروں کی محاذ آرائی میں نقصان ملکی اسپورٹس کا ہو رہا ہے، دنیا کے بڑے سے بڑے ملکوں میں بھی کھیلوں کے ادارے حکومتی شکنجے سے آزاد ہوکر کام کرتے ہیں لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے، کوئی بھی پالیسی یا ٹیم کو باہر بھیجنے کا کام حکام بالا کی اجازت کے بغیر ممکن ہی نہیں،دوسری طرف بد ترین حالت پیدا ہوجانے کے باوجود حکومت کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی، پراسرار خاموشی کے ساتھ متوازی فیڈریشنز کا تماشا دیکھا جارہا ہے، تنازعات کا حل نکالنے کی کوئی اعلیٰ سطحی کوشش نہ کی گئی اور اقتدارکی رسہ کشی بدستور جاری رہی تو پاکستان میں کھیل تباہی کے دہانے پر پہنچ جائیں گے۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں