منیر حسین‘ کیا آواز تھی
منیر حسین اپنے پیچھے اردو کرکٹ کمنٹری اور شو بزنس سمیت انسانی دلچسپیوں کی ڈھیر ساری حسیں اور۔۔۔
منیر حسین اپنے پیچھے اردو کرکٹ کمنٹری اور شو بزنس سمیت انسانی دلچسپیوں کی ڈھیر ساری حسیں اور خوشگوار یادیں چھوڑکرابدی نیند سو گئے ۔اس متحرک مگر متلون مزاج و جفا کش شخص کی رفاقت ، رہنمائی اور شگفتہ گفتگو میں ہمارے صحافتی پیشے کے وقفے وقفے سے چالیس برس گزرگئے ، تاہم ''جنوں میں جتنی بھی گزری بکار نہیں گزری'' منیر حسین کنگ میکر تھے،کرکٹرز کی ایک نسل تیار کرگئے،ان کے حقوق کے لیے لڑتے رہے، جنرلوں، بیوروکریٹس اور کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتائوں کے سامنے ڈٹ جاتے تھے۔ ان سے ہم نے زندگی کا چلن سیکھا۔وضع دارانہ تہذیب ،آداب مجلس ، تعلقات عامہ کی سحر انگیز اورنفیس ترین باریکیوں سے حاصل ہونے والی پیشہ ورانہ فتوحات، مخالفین سے چومکھی لڑائی کا ہنراور رسالہ کی ریڈرشپ برقرار رکھنے یا بڑھانے کے لیے قارئین کی دلچسپی ،قبولیت،اور قلمی و جذباتی شراکت کے نت نئے انداز۔ وہ لارڈ تھامپسن کے خیالات اور صحافتی اہداف سے متاثر تھے ۔
ابتداً میں نے عاجزی سے معذرت کی کہ کرکٹ بورژوائی کھیل ہے ، میری دلچسپی فٹ بال یا باکسنگ سے ہے ،لیکن کچھ نکات لکھوا کر کہنے لگے اے ایچ کاردار کے خلاف ایک دھانسو مضمون لکھو ۔جب مضمون پڑھا تو قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگے، پلیز آئیے کرکٹ جریدہ کی ادارت سنبھال لیجیے، ان دنوں کیری پیکر سیریز سر پر کھڑی تھی ، تراجم کے انبار لگ گئے۔ ایک سینئر صحافی کی تلاش میں تھے جو کرکٹ کے انگریزی مضامین یا انڑویوزکا اردو میں ترجمہ کرسکے ،جس سے ملاقات کرائی گئی وہ کرکٹ کی دلچسپیوں سے دور اور کھیل کی اصطلاحات سے نابلد تھے مگر جب تراجم دیکھے تو منیر بھائی کی خوشی دیدنی تھی یوں سید محمد صوفی ان کے کرکٹ جریدے کے مدیر بنے۔ میں متنازعہ موضوعات پر ان کا گھوسٹ رائٹر بھی بنا۔ائیر مارشل نور خان کے خلاف آسٹرو ٹرف کے حوالہ سے ان کا مضمون کئی روز تک موضوع بحث بنا رہا۔
ایک دن عمران خان کو دعوت دی کہ آکر رسالہ کو ایڈٹ کریں، عمران تذبذب، حیرت اورالجھن کے باوجود ہنستے ہوئے پیسٹنگ میز کے سامنے کچھ دیر کھڑے ہوئے اور پھر گھنٹے دو گھنٹے بیٹھ کر اداریہ ، مضامین کلر تصاویر، ٹرانسپیرنسیز اور لے آئوٹ طے کرکے چلے گئے۔مرحوم ارشد حسین رسالہ کے منیجر تھے،وہ قائد تحریک الطاف حسین کے نیاز مند بھی تھے ۔ نائن زیرو سے متصل ان کی رہائش تھی ، منیر بھائی سے ایک دن کہنے لگے قائد تحریک کا فوٹو سیشن گلیمر کے لیے کیسا رہے گا۔منیر بھائی چونکے'' ابے مروائو گے؟ '' پھر یہ ہوا کہ قائد تحریک مصروف رہتے ہوئے بھی گلیمر کو فوٹو سیشن دینے پر راضی ہوگئے۔یہ یادگار سیشن گلیمر کے صفحات پر آج بھی محفوظ ہوگا۔کیری پیکر کے انتظامی افسر لنٹن ٹیلر منیر بھائی کے ذاتی دوست بن گئے، اسی طرح شارجہ کپ کے منتظم عبدالرحماٰن بخاتر اورآصف اقبال منیر بھائی کے گرویدہ تھے۔
ایک دلچسپ عوامی کیریکٹر راشد گوادری شاہی فوٹوگرافر کا تھا جو گلف کے رائل حلقوں میں بہت مقبول تھا ۔ کہنے لگے شارجہ کپ کے دوران ہی بھارتی فلم ساز اور اداکار راجکپور کو اپنی فلم ''حنا '' کے لیے کسی پاکستانی ہیروئن کی ضرورت پڑ گئی۔ان دنوں ٹی وی سیریلز ''تنہائیاں''پاکستان ،بھارت اور گلف میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑ چکی تھی ،شہناز شیخ کا اس زمانے میں ناراض ساحرہ کے طور پر طوطی بولتا تھا، انہیں بطور خاص شارجہ بھیجا گیا ، میچ کے خاتمہ پر ہوٹل میں راجکپور سے ان کی ملاقات کرائی گئی ۔ شہناز کو دیکھ کر راجکپور کا کہنا تھا کہ مجھے ایک پری وش اور معصوم دوشیزہ کا چہرہ چاہیے ، شہناز بہت اچھی اور باکمال اداکارہ ہے مگر اسکرین پر وہ مطلوبہ دوشیزگی نظر نہیں آئیگی ۔ بعد میں زیبا بختیار کو ''حنا'' کے لیے چن لیا گیا ۔دلیپ کمار کو فلم ایشیا بھارت میں پابندی سے ملتا تھا،یوسف بھائی کے نام منیر صاحب کے کئی خطوط لوگ بھارت جاتے ہوئے ان کے گھر پہنچاتے،دلیپ اور سائرہ بیگم کو میٹھے رس دار پاکستانی کینو بے حد پسند تھے،منیر بھائی ان کے لیے کینو بھجواتے تھے۔
دلیپ کمار پہلی بار پاکستان آئے تو ان کا پی ٹی وی پر انٹرویو لینا ایک مسئلہ بن گیا تھا ، دلیپ نے مشکل یہ کہہ کر آسان کردی کہ میرا انٹرویو کراچی سٹیشن سے صرف منیر حسین کریں گے میرا کوئی پینل انٹرویو نہیں ہوگا ۔ یہ بات چیت اظہر وقار عظیم نے ریکارڈ کی اور اس کے خلاف کراچی کے شام کے اخبارات نے مخالفانہ خبریں بھی خوب چلائیں ،اور بعض نے گفتگو کو شاندار قرار دیا، دلیپ کمار نے منیر حسین سے قطعی بے تکلفانہ اور دوستانہ بات چیت کی ،اس گفتگو میں اداکار کے علاوہ ایک ورلڈ ویو رکھنے والے امن پسند بھارتی سپر اسٹار، مرنجان مرنج ، انسان دوست دانشور، اداکاری کے تخلیقی پہلوئوں پر ادبی ذوق کے حامل اور فلم میکنگ آرٹ کے منجھے ہوئے نقاد نظر آئے ۔منیر بھائی کو یاد کرنا آسان مگر بھلانا بہت مشکل ہے ۔
ان کی آواز ہوا کے دوش پر رہتی اور ہم نوجوان صحافی اسپورٹس جرنلزم کے دشت میں سے ہوتے ہوئے کوئے صحافت کی دشنام گلیوں میں مڑ گئے ۔مرحوم اپنی آواز کے جادو سے بھی آگے بڑھ کر کئی بڑے کام کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہتے تھے ، وہ سخن دلنواز رکھتے تھے اور ہم ہمہ تن گوش بر آواز ۔ یوں ان کے دفتر میں اسپورٹس جرنلسٹوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوئی جو آج صحافت، مارکیٹنگ،اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں اپنی ایک انفرادیت رکھتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ منیر حسین نے ریڈیو اور ٹی وی کی نوکر شاہی سے اردو کرکٹ کمنٹری کے جنون آمیز مشن کی ہنسی مذاق میں تکمیل نہیں کرائی بلکہ انھیں دو دیو مالائی شخصیتوں اسلم اظہراور عمر قریشی کی حوصلہ افزا کمک نہ ملتی توجنٹلمینزگیم کی یہ شمع کبھی نہ جلتی ۔
منیر حسین کی یادیں تلاطم خیز ہیں انھیں سمیٹنے اور قلمبند کرنے کے لیے تنگیٔ داماں کی شکایت بے جا نہ ہوگی کیونکہ ایک تو دنیائے کرکٹ میں صرف اردو کمنٹری ہی ان کی تنہا شناخت نہیں تھی ، وہ کے سی سی اے کی مقامی کرکٹ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دیگر تمام کھیلوں سے وابستہ اسٹار کھلاڑیوں کے بارے میں ایک روزنامے میں ہفتہ وار مضمون لکھا کرتے تھے ۔ منیر حسین کو میں نے انسانی ہمدردی کے سفیر کی شکل میں پایا۔قومی فٹبال ٹیم کے مرحوم کپتان تراب علی پر انھوںنے دو بار مہربانی کی ، ان پر درد انگیز فیچر لکھا جب وہ غربت کے باعث ٹیکسی چلاتے تھے،تراب پھر بیمار پڑ گئے تو ایک بینک سے انھیں ڈھائی لاکھ روپے مینر بھائی نے ایک تقریر کرکے دلائے۔اسی قسم کی ایک ڈرامائی تقریر بابائے کرکٹ عیسی ٰ جعفر کے ذریعے کرواکے وہ جنرل ضیاء الحق کو عمران خان سے استعفیٰ واپس لینے میں کامیاب ہوئے۔
ابتدا میں وہ کراچی بھر میں 'اسکرین پبلسٹی 'کے نام سے انگریزی اور اردو اخبارات کو فلمی اشتہارات جاری کرتے تھے ۔ایک بار انکشاف کیا کہ ڈان گروپ کے سربراہ محمود ہارون نے خواہش ظاہر کی کہ ''منیر! آپ کا دفتر دیکھنا چاہتا ہوں۔'' منیر بھائی کا کہنا تھا کہ اس وقت دو روپے یومیہ کا دفتر نگار ہوٹل کی اندر کی سیڑھی کے نیچے خالی جگہ پر واقع تھا،چنانچہ دو گھنٹے کے لیے ایک کمرہ کرایہ پر لیا گیا جہاں محمود ہارون تشریف لائے اور کہنے لگے کہ ''ڈان میں ڈیلی کیش پر چھپنے والے فلمی اشتہار کے صفحات ہم تبدیل کرنا چاہتے ہیں،کیونکہ کلاسیفائیڈ کا سیلاب آنے والا ہے ۔'' ایک بار فلم ایگزیبیٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین حاکم علی زرداری فلمی اشتہارات کے ریٹ بڑھانے پر ناراض ہوگئے،چنانچہ سارے اشتہارات بند ہوگئے،منیر حسین نے صلح کرائی ۔ نیف ڈیک کے خلاف مضامین کی قسطیں راقم سے لکھوائیں یہاں تک کہ جوش مرحوم کے بھتیجے جمال خان کے خلاف بھی فلمی گوریلا کے قلم سے مضامین کا سلسلہ چلا۔
فلم ساز جے سی آنند نے ایک دن علی الصبح انھیں فون کیا ، منیر بھائی کہنے لگے فون اہلیہ نے اٹھا تو آواز آئی ''منیر کہاں ہیں؟'' جواب دیا کہ وہ تو سو رہے ہیں۔ مجھے دفتر بلاکر سر زنش کی اور کہا 'منیر صبح اٹھ کر نماز اور قرآن پڑھو ، اتنے بڑے مذہب کے ماننے والے ہو اور سو رہے ہو۔' ایک اور موقعے پر اسی جگدیش چند آنند نے فلمی ڈیزائن محض اس لیے ڈسٹ بن میں پھینک دیا کہ میں ان کے طے شدہ وقت پر ان کے سامنے نہیں پہنچا ۔ان کا اپنا کرکٹ جریدہ 'اخبار وطن 'کرکٹ شائقین کا کریز بنا، فلمی رسالہ 'فلم ایشیا' کے سر ورق پر ٹی وی سیریل ''تنہائیاں'' کی سپر اسٹار شہناز شیخ اور مرینہ خان کی جینز پہنے رنگین ٹائیٹل چھپا تو پی ٹی وی کے جنرل منیجر عبدالکریم بلوچ نے کہا کہ 'شوبز میں ہتھوڑا گروپ آگیا'۔ان دنوں دو اور بھی فلمی جرائد خاصے مقبول تھے۔اس کے علاوہ ان کے اور ان کے صاحبزادے اقبال منیر کے کریڈٹ پر انگریزی میں گلیمر Glamourنام سے انتہائی خوبصورت جریدہ بھی تھا جب کہ 'دہلیز' کے نام سے ڈائجسٹ اور کرکٹ پر ایک انگلش میگزین 'ورلڈ آف کرکٹ' بھی ان کی ادارت میں شائع ہوئے۔ مگر یہ سب بند ہوگئے صرف کرکٹ میگزین 'اخبار وطن' شائع ہو رہا ہے۔منیر حسین کی سحر انگیز اردو کمنٹری نصف صدی کا قصہ ہے۔ انگریزی زبان کے متوازی کرکٹ کی اردوکمنٹری کی پزیرائی کوئی معمولی واقعہ نہیں ۔
مرنے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں
ابتداً میں نے عاجزی سے معذرت کی کہ کرکٹ بورژوائی کھیل ہے ، میری دلچسپی فٹ بال یا باکسنگ سے ہے ،لیکن کچھ نکات لکھوا کر کہنے لگے اے ایچ کاردار کے خلاف ایک دھانسو مضمون لکھو ۔جب مضمون پڑھا تو قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگے، پلیز آئیے کرکٹ جریدہ کی ادارت سنبھال لیجیے، ان دنوں کیری پیکر سیریز سر پر کھڑی تھی ، تراجم کے انبار لگ گئے۔ ایک سینئر صحافی کی تلاش میں تھے جو کرکٹ کے انگریزی مضامین یا انڑویوزکا اردو میں ترجمہ کرسکے ،جس سے ملاقات کرائی گئی وہ کرکٹ کی دلچسپیوں سے دور اور کھیل کی اصطلاحات سے نابلد تھے مگر جب تراجم دیکھے تو منیر بھائی کی خوشی دیدنی تھی یوں سید محمد صوفی ان کے کرکٹ جریدے کے مدیر بنے۔ میں متنازعہ موضوعات پر ان کا گھوسٹ رائٹر بھی بنا۔ائیر مارشل نور خان کے خلاف آسٹرو ٹرف کے حوالہ سے ان کا مضمون کئی روز تک موضوع بحث بنا رہا۔
ایک دن عمران خان کو دعوت دی کہ آکر رسالہ کو ایڈٹ کریں، عمران تذبذب، حیرت اورالجھن کے باوجود ہنستے ہوئے پیسٹنگ میز کے سامنے کچھ دیر کھڑے ہوئے اور پھر گھنٹے دو گھنٹے بیٹھ کر اداریہ ، مضامین کلر تصاویر، ٹرانسپیرنسیز اور لے آئوٹ طے کرکے چلے گئے۔مرحوم ارشد حسین رسالہ کے منیجر تھے،وہ قائد تحریک الطاف حسین کے نیاز مند بھی تھے ۔ نائن زیرو سے متصل ان کی رہائش تھی ، منیر بھائی سے ایک دن کہنے لگے قائد تحریک کا فوٹو سیشن گلیمر کے لیے کیسا رہے گا۔منیر بھائی چونکے'' ابے مروائو گے؟ '' پھر یہ ہوا کہ قائد تحریک مصروف رہتے ہوئے بھی گلیمر کو فوٹو سیشن دینے پر راضی ہوگئے۔یہ یادگار سیشن گلیمر کے صفحات پر آج بھی محفوظ ہوگا۔کیری پیکر کے انتظامی افسر لنٹن ٹیلر منیر بھائی کے ذاتی دوست بن گئے، اسی طرح شارجہ کپ کے منتظم عبدالرحماٰن بخاتر اورآصف اقبال منیر بھائی کے گرویدہ تھے۔
ایک دلچسپ عوامی کیریکٹر راشد گوادری شاہی فوٹوگرافر کا تھا جو گلف کے رائل حلقوں میں بہت مقبول تھا ۔ کہنے لگے شارجہ کپ کے دوران ہی بھارتی فلم ساز اور اداکار راجکپور کو اپنی فلم ''حنا '' کے لیے کسی پاکستانی ہیروئن کی ضرورت پڑ گئی۔ان دنوں ٹی وی سیریلز ''تنہائیاں''پاکستان ،بھارت اور گلف میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑ چکی تھی ،شہناز شیخ کا اس زمانے میں ناراض ساحرہ کے طور پر طوطی بولتا تھا، انہیں بطور خاص شارجہ بھیجا گیا ، میچ کے خاتمہ پر ہوٹل میں راجکپور سے ان کی ملاقات کرائی گئی ۔ شہناز کو دیکھ کر راجکپور کا کہنا تھا کہ مجھے ایک پری وش اور معصوم دوشیزہ کا چہرہ چاہیے ، شہناز بہت اچھی اور باکمال اداکارہ ہے مگر اسکرین پر وہ مطلوبہ دوشیزگی نظر نہیں آئیگی ۔ بعد میں زیبا بختیار کو ''حنا'' کے لیے چن لیا گیا ۔دلیپ کمار کو فلم ایشیا بھارت میں پابندی سے ملتا تھا،یوسف بھائی کے نام منیر صاحب کے کئی خطوط لوگ بھارت جاتے ہوئے ان کے گھر پہنچاتے،دلیپ اور سائرہ بیگم کو میٹھے رس دار پاکستانی کینو بے حد پسند تھے،منیر بھائی ان کے لیے کینو بھجواتے تھے۔
دلیپ کمار پہلی بار پاکستان آئے تو ان کا پی ٹی وی پر انٹرویو لینا ایک مسئلہ بن گیا تھا ، دلیپ نے مشکل یہ کہہ کر آسان کردی کہ میرا انٹرویو کراچی سٹیشن سے صرف منیر حسین کریں گے میرا کوئی پینل انٹرویو نہیں ہوگا ۔ یہ بات چیت اظہر وقار عظیم نے ریکارڈ کی اور اس کے خلاف کراچی کے شام کے اخبارات نے مخالفانہ خبریں بھی خوب چلائیں ،اور بعض نے گفتگو کو شاندار قرار دیا، دلیپ کمار نے منیر حسین سے قطعی بے تکلفانہ اور دوستانہ بات چیت کی ،اس گفتگو میں اداکار کے علاوہ ایک ورلڈ ویو رکھنے والے امن پسند بھارتی سپر اسٹار، مرنجان مرنج ، انسان دوست دانشور، اداکاری کے تخلیقی پہلوئوں پر ادبی ذوق کے حامل اور فلم میکنگ آرٹ کے منجھے ہوئے نقاد نظر آئے ۔منیر بھائی کو یاد کرنا آسان مگر بھلانا بہت مشکل ہے ۔
ان کی آواز ہوا کے دوش پر رہتی اور ہم نوجوان صحافی اسپورٹس جرنلزم کے دشت میں سے ہوتے ہوئے کوئے صحافت کی دشنام گلیوں میں مڑ گئے ۔مرحوم اپنی آواز کے جادو سے بھی آگے بڑھ کر کئی بڑے کام کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہتے تھے ، وہ سخن دلنواز رکھتے تھے اور ہم ہمہ تن گوش بر آواز ۔ یوں ان کے دفتر میں اسپورٹس جرنلسٹوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوئی جو آج صحافت، مارکیٹنگ،اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں اپنی ایک انفرادیت رکھتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ منیر حسین نے ریڈیو اور ٹی وی کی نوکر شاہی سے اردو کرکٹ کمنٹری کے جنون آمیز مشن کی ہنسی مذاق میں تکمیل نہیں کرائی بلکہ انھیں دو دیو مالائی شخصیتوں اسلم اظہراور عمر قریشی کی حوصلہ افزا کمک نہ ملتی توجنٹلمینزگیم کی یہ شمع کبھی نہ جلتی ۔
منیر حسین کی یادیں تلاطم خیز ہیں انھیں سمیٹنے اور قلمبند کرنے کے لیے تنگیٔ داماں کی شکایت بے جا نہ ہوگی کیونکہ ایک تو دنیائے کرکٹ میں صرف اردو کمنٹری ہی ان کی تنہا شناخت نہیں تھی ، وہ کے سی سی اے کی مقامی کرکٹ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دیگر تمام کھیلوں سے وابستہ اسٹار کھلاڑیوں کے بارے میں ایک روزنامے میں ہفتہ وار مضمون لکھا کرتے تھے ۔ منیر حسین کو میں نے انسانی ہمدردی کے سفیر کی شکل میں پایا۔قومی فٹبال ٹیم کے مرحوم کپتان تراب علی پر انھوںنے دو بار مہربانی کی ، ان پر درد انگیز فیچر لکھا جب وہ غربت کے باعث ٹیکسی چلاتے تھے،تراب پھر بیمار پڑ گئے تو ایک بینک سے انھیں ڈھائی لاکھ روپے مینر بھائی نے ایک تقریر کرکے دلائے۔اسی قسم کی ایک ڈرامائی تقریر بابائے کرکٹ عیسی ٰ جعفر کے ذریعے کرواکے وہ جنرل ضیاء الحق کو عمران خان سے استعفیٰ واپس لینے میں کامیاب ہوئے۔
ابتدا میں وہ کراچی بھر میں 'اسکرین پبلسٹی 'کے نام سے انگریزی اور اردو اخبارات کو فلمی اشتہارات جاری کرتے تھے ۔ایک بار انکشاف کیا کہ ڈان گروپ کے سربراہ محمود ہارون نے خواہش ظاہر کی کہ ''منیر! آپ کا دفتر دیکھنا چاہتا ہوں۔'' منیر بھائی کا کہنا تھا کہ اس وقت دو روپے یومیہ کا دفتر نگار ہوٹل کی اندر کی سیڑھی کے نیچے خالی جگہ پر واقع تھا،چنانچہ دو گھنٹے کے لیے ایک کمرہ کرایہ پر لیا گیا جہاں محمود ہارون تشریف لائے اور کہنے لگے کہ ''ڈان میں ڈیلی کیش پر چھپنے والے فلمی اشتہار کے صفحات ہم تبدیل کرنا چاہتے ہیں،کیونکہ کلاسیفائیڈ کا سیلاب آنے والا ہے ۔'' ایک بار فلم ایگزیبیٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین حاکم علی زرداری فلمی اشتہارات کے ریٹ بڑھانے پر ناراض ہوگئے،چنانچہ سارے اشتہارات بند ہوگئے،منیر حسین نے صلح کرائی ۔ نیف ڈیک کے خلاف مضامین کی قسطیں راقم سے لکھوائیں یہاں تک کہ جوش مرحوم کے بھتیجے جمال خان کے خلاف بھی فلمی گوریلا کے قلم سے مضامین کا سلسلہ چلا۔
فلم ساز جے سی آنند نے ایک دن علی الصبح انھیں فون کیا ، منیر بھائی کہنے لگے فون اہلیہ نے اٹھا تو آواز آئی ''منیر کہاں ہیں؟'' جواب دیا کہ وہ تو سو رہے ہیں۔ مجھے دفتر بلاکر سر زنش کی اور کہا 'منیر صبح اٹھ کر نماز اور قرآن پڑھو ، اتنے بڑے مذہب کے ماننے والے ہو اور سو رہے ہو۔' ایک اور موقعے پر اسی جگدیش چند آنند نے فلمی ڈیزائن محض اس لیے ڈسٹ بن میں پھینک دیا کہ میں ان کے طے شدہ وقت پر ان کے سامنے نہیں پہنچا ۔ان کا اپنا کرکٹ جریدہ 'اخبار وطن 'کرکٹ شائقین کا کریز بنا، فلمی رسالہ 'فلم ایشیا' کے سر ورق پر ٹی وی سیریل ''تنہائیاں'' کی سپر اسٹار شہناز شیخ اور مرینہ خان کی جینز پہنے رنگین ٹائیٹل چھپا تو پی ٹی وی کے جنرل منیجر عبدالکریم بلوچ نے کہا کہ 'شوبز میں ہتھوڑا گروپ آگیا'۔ان دنوں دو اور بھی فلمی جرائد خاصے مقبول تھے۔اس کے علاوہ ان کے اور ان کے صاحبزادے اقبال منیر کے کریڈٹ پر انگریزی میں گلیمر Glamourنام سے انتہائی خوبصورت جریدہ بھی تھا جب کہ 'دہلیز' کے نام سے ڈائجسٹ اور کرکٹ پر ایک انگلش میگزین 'ورلڈ آف کرکٹ' بھی ان کی ادارت میں شائع ہوئے۔ مگر یہ سب بند ہوگئے صرف کرکٹ میگزین 'اخبار وطن' شائع ہو رہا ہے۔منیر حسین کی سحر انگیز اردو کمنٹری نصف صدی کا قصہ ہے۔ انگریزی زبان کے متوازی کرکٹ کی اردوکمنٹری کی پزیرائی کوئی معمولی واقعہ نہیں ۔
مرنے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں