خبر ہے کہ سرائے عالمگیر جیسے چھوٹے سے علاقے میں تقریباً 22 ہزار بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کی عمریں 8سال سے 14 سال کے درمیان ہیں۔ یہ بچے شاپنگ پلازوں، کھیتوں ، کوٹھیوں اور ورکشاپوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان مزدور بچوں کی ماہانہ اجرت یا روزمرہ کا معاوضہ ایک عام مزدور کی نسبت 50 فیصد کم ہوتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ایسے بچوں کو عام طور پر 40 روپے سے 80 روپے تک کی دیہاڑی ملتی ہے، چائے کے اسٹالوں، ہوٹلوں ، سموسے اور پکوڑے بیچنے والوں کے پاس آپ کو ایسے بچے اکثر نظر آئیں گے۔ ایسے مزدور بچے آپ کو کارخانوں اور بیکر ی وغیرہ پر کام کرتے ہوئے بھی نظر آئیں گے۔ عید کے دنوں میں کریانہ ، رنگ سازی منیاری جیسے شعبے خاصے معروف ہوتے ہیں جن کے اندر کام سیکھنے اور کرنے کے لیے نہایت ہی قلیل معاوضے پر بچوں کو رکھ لیا جاتا ہے۔
ان شعبوں کے مالکان عید کے موقعے پر بعض اوقات خوش ہوکر اپنے پاس کام کرنے والے ایسے بچوں کو بچاس یا سو روپے عیدی کے طور پر بھی دے دیتے ہیں جس پر شاید یہ بدنصیب بچے پھولے نہیں سماتے۔یہ بچے کون ہیں؟ یہ غریب تنگدست اور بیمار اور فاقہ زدہ گھرانوں کے بچے ہیں۔ یہ اس ملک کے بچے ہیں جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا۔ یہ اس ملک کے بچے ہیں جس کے اندر بعض گھروں کے پالتو کتے وہ خالص اور معیاری خوراک کھاتے ہیں جسے ان بیچارے بچوں کو کبھی دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ بچوں کی بیان کردہ تعداد سرائے عالمگیر جیسے چھوٹے سے شہر کی بتائی گئی ہے ذرا اندازہ لگائیں اگر پورے ملک کے اعداد شمار سامنے لائے جائیں تو ایسے مزدور بچوں کی تعداد کہاں پہنچ جائے گی۔یہ خود دار بچے ہیں۔ یہ بھیک نہیں مانگتے، یہ اپنی محنت بیچتے ہیں۔ یہ بچے اپنے بڑوں کو پالنے کے لیے اپنی محنت بیچتے ہیں۔
یہ بچپنے میں بڑے ہوجاتے ہیں کیونکہ بڑا وہ ہوتا ہے جو کفالت کرتا ہے یہ بچے اپنے گھروں کے اندر بیمار لاچار اور ضعیف والدین یا بہن بھائیوں کی کفالت کرتے ہیں۔ اندازہ لگائیں اس ہولناک کیفیت کا جس سے ان بچوں کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھنے والے گذرتے ہیں۔ وہ مجبور اور بے کس لوگ جن کی آنکھیں دن بھر دروازے کی طرف لگی رہتی ہیں کہ کب ان کے معصوم پھول جیسے بچے اپنی ننھی ننھی مٹھیوں میں چند مڑے تڑے نوٹ لے کر گھر لوٹیں گے اور تھوڑی دیر کے لیے چولہا جلے گا اور کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اگر اور کچھ ہوا تو پھر چولہا نہیں جلے گا ظاہر ہے دونوں کام بیک وقت ہوجانے کی عیاشی ایسے لوگ کہاں کرسکتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ دکھ اس بات کا ضرور ہے یعنی اس بات کا دکھ کہ ان بچوں یا ان پر تکیہ کرنے والوں کا کیا بنے گا۔ لیکن شاید اس سے کہیں زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس صورت حال کے بارے میں کہیں بھی ، کسی بھی سطح یا کسی بھی مقام پر ذرا بھی فکر نہیں ہے۔ کیونکہ یہ مسئلہ اب پاکستان کا مسئلہ رہا ہی نہیں۔
یہ مسئلہ اب صوبائی معاملہ بن چکا ہے اور صوبائی مسئلے یا معاملے قومی سطح کے معاملات سے بہرحال اوپر کی سطح کے معاملات ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ترجیحات کے زیادہ مستحق۔ اب سرائے عالمگیر کے اِن 22 ہزار بچوں کا کیا بنے گا۔ ظاہر ہے کہ جب ان کا کچھ بنے گا تو ان کی زیر کفالت مخلوق کا بھی کچھ بن پائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیسے بن پائے گا۔ اور کون ان کے درد کا درماں بنے گا۔ اس سوال کا جواب کسی ڈاکٹر ، کسی انجینئر ، کسی عہدیدار یا افسر ، کسی مامے یا کسی ٹھیکیدار کے پاس نہیں ہے۔ فیض صاحب نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ سب کچھ اسی طرح رہے گا۔ دیکھا جا رہا ہے کہ فیض صاحب نے جو کہا تھا سچ ہی کہا تھا۔ لیکن یہ بھی اس سے بڑا سچ ہے کہ یہ سلسلہ اب جاری نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ سچ پھٹنے والا ہے۔ سچ کو پھٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ہمیں پڑھایا گیا کہ ظلم کے خلاف اگر آواز بلند نہیں کرسکتے تو کم از کم اُسے دل میں تو بُرا سمجھو۔
میرا مشاہدہ ہے اور مجھے امید ہے کہ اس قسم کا مشاہدہ صرف میر ی ذات تک ہی محدود نہیں ہوگا کہ ہم نے کسی مسجد سے کبھی بھی اس قسم کے نادار مگر غیرت مند بچوں کے حق میں کوئی بات نہیں سنی۔ کسی بڑے کے منّہ سے ایک لفظ تک نہیں سنا کہ اس سلسلے میں ذاتی طور پر ہی سہی وہ ایک بڑا شخص کچھ کریگا۔ نظر میں کوئی ایک بھی بلند بانگ دعوے کرنے والی NGO نہیں آتی جس نے ان بچوں کے حق میں آواز اٹھائی ہو۔ کسی کالے کوٹ نے ان کا مقدمہ نہیں لڑا اور کسی سفید کوٹ نے ان کا مفت علاج نہیں کیا۔ ڈاکومنٹریز بنانیوالے بھی اپنی مارکیٹ دیکھ کر ہی ڈاکومنٹریاں بناتے ہیں تاکہ انھیں بیچ کر منافع کمایا جا سکے۔ کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے کوئی ان کے پاس جاکر نہیں بیٹھا۔
میرے سمیت کسی نے کچھ نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ یہ سچی حقیقیت مجھے لگتا ہے پھٹنے کو تیار بیٹھی ہے اگر یہ پھٹ گئی تو کچھ نہیں بچے گا۔رمضان المبارک کا مہینہ ہے آخری عشرہ ہے اور دوزخ سے نجات کا عشرہ ہے سفید پوش مانگتا نہیں ہے سفید پوش دست سوال دراز نہیں کرتا کیونکہ عزت نفس کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔ عزت دار صرف اور صرف سہہ جانا جانتا ہے۔ برداشت کرنا جانتا ہے اور پی جانا جانتا ہے لیکن ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے لگتا یوں ہے کہ ہم نے ساری حدیں پھلانگ ڈالی ہیں اور اس لیے اب ہم سب کو نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم ہر چیز حکومت پر چھوڑنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ بہت سارے کام حکومت کی امداد کے بغیر بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً عبدالستار ایدھی نے بہت بڑے بڑے کام حکومت کی سرپرستی کے بغیر کرڈالے ہیں۔ ہم ہر شعبے میں عبدالستار ایدھی پیدا کرسکتے ہیں ۔
اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین