قوم کا یہی مورال برقرار رہنا چاہیے
کسی قوم کو بغیر جنگ کے غلام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں کے ذہن کنٹرول کیے جائیں۔
کرنل ڈین کے مطابق کسی طاقتور قوم کو بغیر جنگ کیے غلام بنانے کے کچھ مخصوص طریقے ہوتے ہیں۔ ایسی قوم کو بیرونی حملوں سے نہیں بلکہ اندرونی سازشوں سے توڑا جا سکتا ہے۔ اس طرح نہ تو خون خرابا ہوتا ہے نہ جائیدادوں کا نقصان۔ بس یہ طریقہ سست اور صبر آزما ہوتا ہے۔
کسی قوم کو بغیر جنگ کے غلام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں کے ذہن کنٹرول کیے جائیں۔ جب تک کسی انسان کا ذہن آزاد ہو گا، وہ غلامی کو قبول نہیں کرے گا۔ اگر کوئی عوام کا زندگی کے بارے میں نظریہ اور اقدار اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتا ہے تو وہ عوام کی سمت بھی کنٹرول کر سکتا ہے اور انھیں بڑی آسانی سے غلامی یا تباہی کی طرف بھی دھکیل سکتا ہے۔
اس کا سب سے بڑا ہتھیار عوام کا 'مورال' ڈاؤن کرنا ہے تاکہ اُس کی کارکردگی متاثر ہو۔ طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جس قوم کا مورال ڈاؤن کرنا مقصود ہویا جس ملک کو توڑنا مقصود ہو اس کی حکومت میں اپنے نظریات کے حامی افراد داخل کر دیے جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ لوگوں کا حکومت پر انحصار بڑھایا جاتا ہے تاکہ وہ خود کو غلام تصور کریں اور کسی بھی مطالبے سے عاری ہو جائیں۔
پاکستان میں بھی گزشتہ 30,35سال میں یہی کچھ ہوا۔ ہم غلامانہ سطح تک چلے گئے، جس کا نقصان یہ ہوا کہ ہماری سوچ محدود کر دی گئی، ہم کنویں کے مینڈک بن کر رہ گئے، ہم نے کنویں کو اپنا سمندر سمجھ لیا، ہم بیرونی دنیا سے کٹ گئے، ہمیں جتنا دیا جاتا اُسی پر اکتفا کرنے کی کوشش کرتے، اپنے حق کوحاصل کرنا حکمرانوں کی بے حرمتی سمجھنے لگے، ہماری ذہنی پسماندگی اور ذہنی حالت اس قدر بگڑ گئی کہ ہم نفسیاتی طور پر اپاہج ہوگئے۔ہمیں غلط کے خلاف اُٹھنے کے لیے کہا جاتا تو ہم اُسے گناہ سمجھنے لگے۔
لیکن آج ایک عرصے بعد قوم کا مورال بلند ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ اِس بحران میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے آپ کو ایک پر اعتماد لیڈر کے طور پہ ثابت کیا ہے۔ کوئی فالتو بات نہیں کی ، کوئی بڑھک اُن کی طرف سے نہیں آئی۔ نپی تلی باتیں کیں اور یہ اَمر بھی قابل تحسین سمجھا جانا چاہیے کہ اس دوران گفتگو میں بھی عمران خان نے اختصار سے کام لیا۔اُن کے رویے سے قوم کا اعتماد بڑھا ہے۔ یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ قوم کے معاملات پر اعتماد ہاتھوں میں ہیں۔ انڈین ہوا باز کو رہا کرنے کا فیصلہ بھی اچھا اقدام تھا، پوری دنیا میں سراہا گیا، یعنی ایسے لگا جیسے ایک مختصر عرصے میں پاکستان نے دنیا کے دل جیت لیے ہیں۔ ایسا کرنے سے پاکستان کا امیج اُبھرا ہے۔
یہ بات بھی عیاں ہے کہ زیادہ بڑھکیں ہندوستان کی طرف سے آرہی ہیں۔ ہمارا مجموعی رویہ ، وزیر اعظم سے لے کر میڈیا تک ، اعتدال والا ہے۔ ہندوستان کی طرف سے حملے کے بعد پاکستان نے جو ردِ عمل دکھایا وہ بھی نپا تلا تھا۔ جوابی حملے تو ہم نے کیے لیکن سیلف ڈیفنس میں اور اِس احتیاط کے ساتھ کہ کوئی جانی نقصان دوسری طرف نہ ہو۔ہندوستانی جہاز کا ہوائی لڑائی میں گرایا جانا تو ایک بونس کے طور پہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ہندوستانی ایئر فورس نے ہمارے جہازوں کو روکنے کی کوشش کی اور اِس مشق میں اپنے دو جہاز گنوا بیٹھا۔ ایک پائلٹ بھی اِس طرف گرا اور پکڑا گیا۔ اِس سے حساب صرف برابر نہ ہوا بلکہ ہمارا پلڑا کچھ بھاری ہی رہا۔ اِس سے قوم کے عزم کو تقویت پہنچی ہے۔
1974ء میں جب اسلامی سربراہ کانفرنس پنجاب اسمبلی ہال لاہور میں منعقد ہوئی تھی تو کانفرنس کے بطور چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے فرائض ایسے سرانجام دیے کہ پاکستانیوں کے دل فخر سے بھر گئے۔ وہ منظر اسکرین پہ آ رہا تھا اور یہ اچھا لگتا تھا کہ ایک پاکستانی اِس انداز سے اپنے فرائض پورے کر رہا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ایسا نعرہ دیا تھا جس کا اثر کئی دہائیوں تک رہا۔ انھوں نے مزدور اور غریب طبقے کو خواب دکھایا تھا کہ وہ اسے کھانے کو روٹی، پہننے کو کپڑا اور سر چھپانے کو مکان دیں گے۔
بھٹو ایک عام آدمی سے جڑنے کا گر جانتے تھے۔ وہ اسے خواب بیچنے میں بھی کامیاب رہے۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی کی حکومتیں اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے اسے چکنا چور کرتی رہیں۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی پاکستانی سربراہ کے رویے سے دلوں میں اُس قسم کے جذبات اُبھرے ہوں۔ ضیاء، مشرف اور جمہوریت کی دکان چلانے والے سربراہان سار ے کے سارے بس ویسے ہی تھے۔ اَب عمران خان کی کارکردگی ایسے رہی ہے کہ دل خوش ہوتا ہے کہ ایک ڈھنگ کا لیڈر پاکستان کے معاملات چلا رہا ہے۔
آج عمران خان کی وجہ سے پہلی بار مودی دفاعی پوزیشن میں کھڑا ہے۔ اور مزید ایکسپوز ہو رہا ہے۔یہ بھی شکر ہے کہ اب حکومت اور فوج دونوں ایک پیج پر ہیں۔ جس سے عوام کو قدرے ریلیف ملنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف ہوتے تو یہ ہم آہنگی دیکھنے میں نہ آتی۔ عسکری قیادت اُن سے شاکی رہتی اور نواز شریف میں بھی وہ اعتماد نہ ہوتا جو ایسی صورتحال میں درکار تھا۔ عمران خان کی دونوں تقاریر میں ہندوستان کی طرف اَمن کا ہاتھ بڑھانے کی بات جنگجوآنہ الفاظ سے زیادہ نظر آتی ہے۔
جس آدمی کو اپنے آپ پہ بھروسہ ہو وہ ہی ایسا کر سکتا ہے۔ کمزوری والا انسان تو چیخنے چلانے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔مسلح افواج کی قیادت کو بھی داد دینی پڑے گی۔ وہ بھی حوصلے سے کام لے رہی ہے۔ یہ تو صاف ظاہر ہے کہ ہر ممکنہ صورتحال کے لیے مسلح افواج تیار ہیں۔ لیکن یہ اَمر بھی قابل ستائش ہے کہ خواہ مخواہ کی نعرے بازی سے کام نہیں لیا جا رہا۔ اِس ضمن میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور تعریف کے حق دار ہیں۔ اِس دوران انھوں نے بھی مناسب بات کی جس سے عزم کا اظہار تو ہوتا تھا لیکن غیر ضروری قسم کی بڑھکوں سے اجتناب کیا۔
اگر بات کی جائے پاک بھارت موجودہ کشیدگی کی تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مودی جی سے عمران خان ضرور بہتر سیاست جانتے ہیں، جو کہ عملی طور پر ان چند مہینوں میں انھوں نے ثابت بھی کر دیا کہ کشمیر کا مسئلہ جو فائلوں میں ستر سال سے دبا ہوا تھا اس کو انھوں نے زندہ کردکھایااور مودی جی کو خبر بھی نہ ہوئی۔ عمران خان کو جو شروع سے ہی اس سچائی کا پرچار کر رہے تھے۔ کہ ہر جنگ کے بعد بھی دونوں فریقوں کوایک دن میز پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ لہٰذا یہ کام شروع میں ہی کیوں نہ کرلیا جائے؟
نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کی باتیں سچ ثابت ہوگئیں، جب کہ موجودہ حالات میں بھارت میں بھی عمران خان نے اتنے تھوڑے سے وقت میں اچھے خاصے اپنے مداح پیدا کر لیے۔ اس کی مثال یوں لے لیجیے کہ عمران خان جب اقتدار میں آئے تو انھوں نے نوجوت سنگھ سدھو کو اپنا گرویدہ بنایا ، اُس کے بعد آج بھارت میں بہت سی آوازیں عمران خان کے حق میں اُٹھ رہی ہیں ،بھارت کے سابق چیف جسٹس مرکنڈے کاٹجو وزیر اعظم عمران خان کے مداح ہو گئے ہیں، مرکنڈے کاٹجو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پہلے عمران خان کا نقاد تھا مگر تقریر دیکھنے کے بعد مداح ہو گیا ہوں۔ لہٰذامیرے نزدیک قوم کا یہی مورال بلند رہنا چاہیے، تبھی ملک ترقی کرے گا، ہر کام کرنے سے پہلے تنقید ضرور ہوتی ہے لیکن اگر کام مثبت انداز میں کیا جائے تو تنقید کرنے والے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
کسی قوم کو بغیر جنگ کے غلام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں کے ذہن کنٹرول کیے جائیں۔ جب تک کسی انسان کا ذہن آزاد ہو گا، وہ غلامی کو قبول نہیں کرے گا۔ اگر کوئی عوام کا زندگی کے بارے میں نظریہ اور اقدار اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتا ہے تو وہ عوام کی سمت بھی کنٹرول کر سکتا ہے اور انھیں بڑی آسانی سے غلامی یا تباہی کی طرف بھی دھکیل سکتا ہے۔
اس کا سب سے بڑا ہتھیار عوام کا 'مورال' ڈاؤن کرنا ہے تاکہ اُس کی کارکردگی متاثر ہو۔ طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جس قوم کا مورال ڈاؤن کرنا مقصود ہویا جس ملک کو توڑنا مقصود ہو اس کی حکومت میں اپنے نظریات کے حامی افراد داخل کر دیے جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ لوگوں کا حکومت پر انحصار بڑھایا جاتا ہے تاکہ وہ خود کو غلام تصور کریں اور کسی بھی مطالبے سے عاری ہو جائیں۔
پاکستان میں بھی گزشتہ 30,35سال میں یہی کچھ ہوا۔ ہم غلامانہ سطح تک چلے گئے، جس کا نقصان یہ ہوا کہ ہماری سوچ محدود کر دی گئی، ہم کنویں کے مینڈک بن کر رہ گئے، ہم نے کنویں کو اپنا سمندر سمجھ لیا، ہم بیرونی دنیا سے کٹ گئے، ہمیں جتنا دیا جاتا اُسی پر اکتفا کرنے کی کوشش کرتے، اپنے حق کوحاصل کرنا حکمرانوں کی بے حرمتی سمجھنے لگے، ہماری ذہنی پسماندگی اور ذہنی حالت اس قدر بگڑ گئی کہ ہم نفسیاتی طور پر اپاہج ہوگئے۔ہمیں غلط کے خلاف اُٹھنے کے لیے کہا جاتا تو ہم اُسے گناہ سمجھنے لگے۔
لیکن آج ایک عرصے بعد قوم کا مورال بلند ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ اِس بحران میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے آپ کو ایک پر اعتماد لیڈر کے طور پہ ثابت کیا ہے۔ کوئی فالتو بات نہیں کی ، کوئی بڑھک اُن کی طرف سے نہیں آئی۔ نپی تلی باتیں کیں اور یہ اَمر بھی قابل تحسین سمجھا جانا چاہیے کہ اس دوران گفتگو میں بھی عمران خان نے اختصار سے کام لیا۔اُن کے رویے سے قوم کا اعتماد بڑھا ہے۔ یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ قوم کے معاملات پر اعتماد ہاتھوں میں ہیں۔ انڈین ہوا باز کو رہا کرنے کا فیصلہ بھی اچھا اقدام تھا، پوری دنیا میں سراہا گیا، یعنی ایسے لگا جیسے ایک مختصر عرصے میں پاکستان نے دنیا کے دل جیت لیے ہیں۔ ایسا کرنے سے پاکستان کا امیج اُبھرا ہے۔
یہ بات بھی عیاں ہے کہ زیادہ بڑھکیں ہندوستان کی طرف سے آرہی ہیں۔ ہمارا مجموعی رویہ ، وزیر اعظم سے لے کر میڈیا تک ، اعتدال والا ہے۔ ہندوستان کی طرف سے حملے کے بعد پاکستان نے جو ردِ عمل دکھایا وہ بھی نپا تلا تھا۔ جوابی حملے تو ہم نے کیے لیکن سیلف ڈیفنس میں اور اِس احتیاط کے ساتھ کہ کوئی جانی نقصان دوسری طرف نہ ہو۔ہندوستانی جہاز کا ہوائی لڑائی میں گرایا جانا تو ایک بونس کے طور پہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ہندوستانی ایئر فورس نے ہمارے جہازوں کو روکنے کی کوشش کی اور اِس مشق میں اپنے دو جہاز گنوا بیٹھا۔ ایک پائلٹ بھی اِس طرف گرا اور پکڑا گیا۔ اِس سے حساب صرف برابر نہ ہوا بلکہ ہمارا پلڑا کچھ بھاری ہی رہا۔ اِس سے قوم کے عزم کو تقویت پہنچی ہے۔
1974ء میں جب اسلامی سربراہ کانفرنس پنجاب اسمبلی ہال لاہور میں منعقد ہوئی تھی تو کانفرنس کے بطور چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے فرائض ایسے سرانجام دیے کہ پاکستانیوں کے دل فخر سے بھر گئے۔ وہ منظر اسکرین پہ آ رہا تھا اور یہ اچھا لگتا تھا کہ ایک پاکستانی اِس انداز سے اپنے فرائض پورے کر رہا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ایسا نعرہ دیا تھا جس کا اثر کئی دہائیوں تک رہا۔ انھوں نے مزدور اور غریب طبقے کو خواب دکھایا تھا کہ وہ اسے کھانے کو روٹی، پہننے کو کپڑا اور سر چھپانے کو مکان دیں گے۔
بھٹو ایک عام آدمی سے جڑنے کا گر جانتے تھے۔ وہ اسے خواب بیچنے میں بھی کامیاب رہے۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی کی حکومتیں اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے اسے چکنا چور کرتی رہیں۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی پاکستانی سربراہ کے رویے سے دلوں میں اُس قسم کے جذبات اُبھرے ہوں۔ ضیاء، مشرف اور جمہوریت کی دکان چلانے والے سربراہان سار ے کے سارے بس ویسے ہی تھے۔ اَب عمران خان کی کارکردگی ایسے رہی ہے کہ دل خوش ہوتا ہے کہ ایک ڈھنگ کا لیڈر پاکستان کے معاملات چلا رہا ہے۔
آج عمران خان کی وجہ سے پہلی بار مودی دفاعی پوزیشن میں کھڑا ہے۔ اور مزید ایکسپوز ہو رہا ہے۔یہ بھی شکر ہے کہ اب حکومت اور فوج دونوں ایک پیج پر ہیں۔ جس سے عوام کو قدرے ریلیف ملنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف ہوتے تو یہ ہم آہنگی دیکھنے میں نہ آتی۔ عسکری قیادت اُن سے شاکی رہتی اور نواز شریف میں بھی وہ اعتماد نہ ہوتا جو ایسی صورتحال میں درکار تھا۔ عمران خان کی دونوں تقاریر میں ہندوستان کی طرف اَمن کا ہاتھ بڑھانے کی بات جنگجوآنہ الفاظ سے زیادہ نظر آتی ہے۔
جس آدمی کو اپنے آپ پہ بھروسہ ہو وہ ہی ایسا کر سکتا ہے۔ کمزوری والا انسان تو چیخنے چلانے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔مسلح افواج کی قیادت کو بھی داد دینی پڑے گی۔ وہ بھی حوصلے سے کام لے رہی ہے۔ یہ تو صاف ظاہر ہے کہ ہر ممکنہ صورتحال کے لیے مسلح افواج تیار ہیں۔ لیکن یہ اَمر بھی قابل ستائش ہے کہ خواہ مخواہ کی نعرے بازی سے کام نہیں لیا جا رہا۔ اِس ضمن میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور تعریف کے حق دار ہیں۔ اِس دوران انھوں نے بھی مناسب بات کی جس سے عزم کا اظہار تو ہوتا تھا لیکن غیر ضروری قسم کی بڑھکوں سے اجتناب کیا۔
اگر بات کی جائے پاک بھارت موجودہ کشیدگی کی تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مودی جی سے عمران خان ضرور بہتر سیاست جانتے ہیں، جو کہ عملی طور پر ان چند مہینوں میں انھوں نے ثابت بھی کر دیا کہ کشمیر کا مسئلہ جو فائلوں میں ستر سال سے دبا ہوا تھا اس کو انھوں نے زندہ کردکھایااور مودی جی کو خبر بھی نہ ہوئی۔ عمران خان کو جو شروع سے ہی اس سچائی کا پرچار کر رہے تھے۔ کہ ہر جنگ کے بعد بھی دونوں فریقوں کوایک دن میز پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ لہٰذا یہ کام شروع میں ہی کیوں نہ کرلیا جائے؟
نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کی باتیں سچ ثابت ہوگئیں، جب کہ موجودہ حالات میں بھارت میں بھی عمران خان نے اتنے تھوڑے سے وقت میں اچھے خاصے اپنے مداح پیدا کر لیے۔ اس کی مثال یوں لے لیجیے کہ عمران خان جب اقتدار میں آئے تو انھوں نے نوجوت سنگھ سدھو کو اپنا گرویدہ بنایا ، اُس کے بعد آج بھارت میں بہت سی آوازیں عمران خان کے حق میں اُٹھ رہی ہیں ،بھارت کے سابق چیف جسٹس مرکنڈے کاٹجو وزیر اعظم عمران خان کے مداح ہو گئے ہیں، مرکنڈے کاٹجو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پہلے عمران خان کا نقاد تھا مگر تقریر دیکھنے کے بعد مداح ہو گیا ہوں۔ لہٰذامیرے نزدیک قوم کا یہی مورال بلند رہنا چاہیے، تبھی ملک ترقی کرے گا، ہر کام کرنے سے پہلے تنقید ضرور ہوتی ہے لیکن اگر کام مثبت انداز میں کیا جائے تو تنقید کرنے والے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔