’دشمنی‘ ناداں کی ہے
ایٹمی پاکستان اور اس کا دشمن ایٹمی ہمسائیہ بھارت دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ دونوں کے مفاد میں نہیں۔
دسمبر1971ء کی ایک غمناک شام کو نوجوان قدیر خان نے جب دیار غیر کے ٹیلی ویژن پر ڈھاکا کا وہ منظر دیکھا جس میں پاکستانی فوج کی شکست دکھائی جا رہی تھی تو اس کی آنکھوں میں آنسو تو تھے ہی لیکن غمزدہ دل میں یہ عزم بھی تھا کہ اس کے وطن عزیز پر پھر یہ وقت نہیں آئے گا چنانچہ اس نے اس وقت کے حکمران کے نام خط لکھا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ ایک گمنام پاکستانی سائنسدان کا خط وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کر دیا گیا۔
اس گمنام سائنس دان قدیر خان کو فوری طور پر بلا لیا گیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے وزیر اعظم کو بتایا کہ وہ جوہری سائنس اور توانائی کے شعبے میں اپنے ملک کی کیا خدمت کر سکتے ہیں ۔ بھٹو کی نظر شناسی کام کر گئی اور اس نے اس نوجوان کو پاکستان کے لیے قابو کر لیا اور ان کو جوہری سائنس کے شعبے میں کام پر لگا دیا۔
ڈاکٹر قدیر خان کو مکمل آزادی کے ساتھ کام کرنے کی درخواست کی گئی لیکن ہماری افسر شاہی نے ان کے راستے میں حسب عادت روڑے اٹکانے شروع کر دیے اور ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ ڈاکٹر صاحب رخصت لینے وزیر اعظم بھٹو صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ وزیر اعظم نے شدید برہمی کے عالم میں سیکریٹری خزانہ غلام اسحاق خان کو بلایا اور کہا کہ آیندہ سے ڈاکٹر صاحب صرف میرے اور آپ کے ساتھ رابطہ رکھیں گے کوئی تیسرا بیچ میں نہیں آئے گا ۔
اس کے بعد غلام اسحاق خان نے ڈاکٹر صاحب کو کوئی مشکل پیش نہ آنے دی اور ناقابل بیان محنت اور مشقت کے بعد وہ دن آگیا جب پاکستان یورینیم کو اس مقام تک لے گیا جس کے نتیجے میں کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ ذہین بھٹو نے اس دوران دنیا کو ایک اور چکر میں الجھائے رکھا اور وہ تھا فرانس سے ری پروسسنگ پلانٹ کا حصول ، امریکا وغیرہ اس غلط فہمی میں رہے کہ پاکستان کے پاس کچھ نہیں اور وہ فرانس سے یہ پلانٹ کچھ بنانے کے لیے لینا چاہتا ہے ۔ دنیا کو پاکستان کی ایٹمی توانائی میں ترقی کا علم اس وقت ہوا جب جب ڈاکٹر قدیر خان اپنا کام مکمل کر کے محسن پاکستان بن چکے تھے۔ اس عظیم کام کے نتیجے میں بھٹو صاحب اقتدار کے ساتھ اپنی جان بھی پاکستان پر قربان کر گئے۔
یہ اس طویل داستان کا مختصر سا حصہ ہے اس داستان میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن پاکستان بالآخر پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بن گیا ۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی اس اہم کام کے شروع کرنے سے لے کر میاں نواز شریف کے ایٹمی دھماکوں تک ہر حکمران نے ایٹمی پاکستان کے لیے اپنا حصہ ضرور ڈالا کیونکہ پاکستان کے ہر حکمران کو اس بات کا ادراک تھا کہ اس کا پالا کس طرح کے دشمن سے ہے جو چھپ کر وار کرتا ہے اور عددی برتری کے علاوہ فوجی طاقت میں بھی اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے اس کا مقابلہ صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے پاس کوئی ایسا ہتھیار ہو جو بھارت جیسے بڑے دشمن کو اس کے ناپاک ارادوں سے باز رکھ سکے ۔ اور یہی وہ وجہ تھی جو کہ ایٹم کی صلاحیت رکھنے کی بنیادی وجہ بن گئی اور ڈاکٹر قدیر خان نے پاکستان کو عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت بنا دیا۔
ایٹمی پاکستان اور اس کا دشمن ایٹمی ہمسائیہ بھارت دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ دونوں کے مفاد میں نہیں کیونکہ اب پاکستان اور بھارت کے درمیان روایتی جنگ نہیں ہو گی بلکہ جدید ہتھیاروں کی جنگ ہو گی جس کی دونوں ملکوں کے پاس کوئی کمی نہیں ہے اور دونوں ملک یہ بات اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اگر و ہ جنگ کے شکار ہو گئے تو پھر وہ اس خطے بلکہ دنیا کی تیسری عالمی جنگ کی بنیاد رکھ دیں گے اور یہ جنگ ایسی بھیانک ہو گی کہ دنیا ہیرو شیما اور ناگا ساکی کو بھول جائے گی لیکن اس جنگ کے نتیجے میں جو تباہ کاریاں ہوں گی وہ آنے والی کئی نسلیں بھگتتی رہیں گی۔
یہ بات نہ صرف بھارت اور پاکستان جانتے ہیں بلکہ دنیا میں موجود ان کے خیر خواہ ممالک کو بھی اچھی طرح علم ہے کہ پاکستان پر بھارت کی جانب سے اگر جنگ مسلط کی گئی تو اس جنگ کا آغاز جو کہ بھارت نے کیا ہو گا اس کا اختتام کسی کے بس میں نہیں ہو گا اور وقت ہی اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ جس ملک نے جارحیت کی اس کا خمیازہ بھی وہی بھگتے گا۔ ہم بھارت اور پاکستان کے عوام دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ جنگیں بھی دیکھ چکے ہیں اور ان کے نتائج بھی ان کے سامنے ہیں ۔
پاکستان دو لخت بھی ہوا اور کارگل میں پاکستان کی جیت کا سودا بھی کیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ اس طرح کے نشیب و فراز سے بھری پڑی ہے پاکستان کی سالمیت اور بقاء کے سودے بھی کیے گئے پاکستان کے حصے کا پانی تک بیچ دیا گیا اور بھارت نے ڈیم پر ڈیم بنا لیے ۔ شنید تو یہی تھی کہ پاکستان اور بھارت کی آیندہ جنگ پانی کے مسئلے پر ہو گی لیکن شاید کچھ طاقتیں اپنا اسلحہ فروخت کرنے کے لیے بے تاب ہیں اس لیے انھوں نے بھارت میں دہشت گردی کو بہانا بنا کر پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔
آپ کو یاد ہونا چاہیے کہ ایک مرتبہ کانگریس کی رہنماء سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ بھارت پاکستان سے جنگ جیت چکا ہے ۔ہم پاکستان کے گھر گھر میں اپنے ڈراموں کے ذریعے اپنا پیغام پہنچا چکے ہیں اب دو بدو جنگ کی ضرورت نہیں رہی ۔ ایسی ہی خواہشیں ہمارے کچھ نام نہاد دانشوروں کی بھی ہیں جو کہ پاکستان کا کھاتے ہیں لیکن بھارت کا دم بھرتے ہیں۔
سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد ان کو دہلی میں پناہ مل گئی اور انھوں نے ہندوستان پاکستان دوستی کا راگ الاپنا شروع کر دیا لیکن یہ دوستی ڈاکٹر قدیر خان نے اسی دن ختم کر دی تھی جب ضیاء الحق نے راجیو گاندھی کو ہندوستان کے ایئر پورٹ پر یہ پیغام دیا تھا کہ ہمارے پاس بھی وہ سب کچھ ہے جو آپ کے پاس ہے بلکہ ہماری ٹیکنالوجی آپ سے بہتر ہے اس لیے کسی بھی قسم کی مہم جوئی سے باز رہیے گا۔ یہ وہ وقت تھا جب آج کی طرح بھارت نے فوجیں بارڈر پر لگا دی تھیں اور جنرل ضیاء الحق کرکٹ ڈپلومیسی کے تحت بھارت پاکستان کا میچ دیکھنے پہنچ گئے تھے۔ دراصل وہ براہ راست پیغام پہنچانے گئے تھے تا کہ بھارت کو کوئی غلط فہمی نہ رہے۔ تب کی دور کی ہوئی غلط فہمی دوبارہ پیدا تو نہیں ہونی چاہیے لیکن کیا کیجیے کہ 'دشمنی' ناداں کی ہے۔