اپنے محسنوں کے ساتھ ہمارا سلوک
بھارت میں وہاں کے لوگوں نے اپنے ایسے ہی محسن کو عزت وقار سے نوازا۔ باوجوہ کہ وہ ایک مسلمان شخص تھا۔
ISLAMABAD:
گزشتہ بیس برسوں میں یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ پاکستان اوربھارت کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہوچکی ہوں اورکشیدگی کا ماحول اتنا خراب ہوچکا ہوکہ ایسا لگے کہ باقاعدہ جنگ ابھی ہوئی کہ تب ہوئی ۔ اِس سے پہلے بھی ایک سے زائد مرتبہ بھارت نے بہت کوشش کی کہ اُس کی اپنی طرف سے لگائے گئے یکطرفہ بے بنیاد الزامات کے تحت پاکستان کو سبق سکھایا جائے اور کھلم کھلا اِس کا اعلان بھی کیا مگر وہ سرحدوں پر بلااشتعال کاروائیوں سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔
کوئی نہ کوئی انجانا خوف اور ڈر اُس کے ارادوں کو پامال کرتا رہا، اُس کے قدم ڈگمگاتا رہا ۔ یہ انجانا خوف کیا تھا اورکیا ہے۔ صرف اور صرف ہمارا بحیثیت ایک ایٹمی قوت کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہونا ۔ ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ بھارت ہم پر اب تک چڑھائی نہ کرچکا ہوتا ۔ ہم رقبہ ، عسکری ، معاشی اور اقتصادی طور پر بھار ت کے مقابلے میں بہت چھوٹی حیثیت رکھتے ہیں ۔ بھارت ہماری نسبت ایک بہت بڑی معاشی قوت بھی ہے۔اِسی وجہ سے دنیا کا جھکاؤ بڑی حد تک اس کے حق میں ہے۔ دنیا اُسے ایک بڑی معیشت کے طور پر جانتی ہے۔
ہماری حیثیت اُس کے مقابلے میں ابھی بہت کم اور چھوٹی ہے ۔ ہمیں اُس کے برابر پہنچنے میں ابھی وقت درکار ہے، مگر خدا کے فضل وکرم سے اِس کے باوجود وہ ہم سے لڑتے ہوئے خوف کھاتا ہے ، وہ ہر بار مسلح ہوکر اپنے بدبخت ارادوں کے ساتھ ہمیں للکارتا ضرور ہے لیکن پھر خود ہی اُلٹے پاؤں واپس ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہم نے 2002ء میں بھی دیکھا تھا ۔ جب دونوں ملکوں کی افواج ایک دوسرے کے خلاف مکمل صف آراء ہوچکی تھیں مگر پھر ہماری مسلمہ ایٹمی حیثیت نے اُس کے قدم لڑکھڑا دیے۔وہ چند لمحوں کے لیے بھول جاتا ہے کہ ہم بھی اُس کی طرح دنیا کے ایک ایٹمی قوت ہیں اور بلاوجہ ہم سے محاذآرائی پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ پھر اچانک اُسے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بے شک اُس کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک ہے لیکن اُس کی ایٹمی صلاحیت کسی بھی لحاظ سے کسی سے کم نہیں ہے اور جس سے سر ٹکرانے کا مطلب خود اُس کی اپنی موت ہے۔
پاکستان کو ایک ایٹمی قوت بنانے میں ہمارے جن محسنوں کا ہم پر احسان رہا ہے ، ہمیں آج اِس موقعے پر انھیں ہرگز نہیں بھولنا چاہیے ۔ سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو جنھوں نے 1974ء میں بھار ت کے جانب سے پہلے نیوکلیئر ٹیسٹ کے بعد یہ اعلان کر ڈالا کہ اب ہم بھی خود کو ایٹمی قوت بنائیں گے ۔ خواہ اِس کے لیے ہمیں گھاس ہی کھانا کیوں نہ پڑے لیکن ہم یہ کام ضرور کر کے دکھائیں گے۔1974ء میں ہم سب جانتے ہیں ہمارے حالات کیسے تھے۔ ہمارا ملک ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں دولخت ہوچکا تھا۔ اندرونی او ر بیرونی لڑائی کے باعث ہماری معیشت دگرگوں ہوچکی تھی۔ نفسیاتی طور پر ہماری قوم انتہائی دباؤکا شکار تھی ۔ وہ مایوسیوں اور نا اُمیدیوں کے دلدل میں دھنس چکی تھی ۔آدھا ملک گنوا دینے کے احساس نے ہمیں شدید صدمے سے دوچارکردیا تھا۔
ہم دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔ ایسے میں بھٹو صاحب ہی تھے جنہوں نے اِس قوم کو دوبارہ کھڑا کیا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بہرحال ایک مشکل وقت میں قوم کو سہارا دیا۔اُسے حوصلہ دیا اور اُسے مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے اندھیروں سے نکال کر ایک روشن مستقبل کی جانب رواں دواں کیا ۔دیکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑا مشکل کام تھا ۔ اُس وقت کے ہمارے کسی رہنما میں یہ صلاحیت اور ہمت نہیں تھی کہ اِس مشکل اور کٹھن وقت میں صدمے سے دوچار قوم کا ہاتھ تھامے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اِس انتہائی مشکل کام کا بیڑہ اُٹھایا اور پھر اُسے کسی حد تک کامیابی سے ہمکنار بھی کیا ۔ انھوں نے بہت ہی مختصر عرصے میں ایک ڈی مورالائزڈ قوم کو باوقار اور باہمت قوم بنادیا ۔
انھوں نے پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کرکے اسلامی دنیا میں پاکستان کی قائدانہ صلاحیتوں کو تسلیم کروایا اور پھر چند سال میں اُس ایٹمی پرگرام کی داغ بیل ڈالی جس نے آگے جاکر اُسے پہلی اسلامی ایٹمی ریاست کا درجہ دلوادیا ، یہ کام کوئی اتنا آسان نہیں تھا ۔ ہمارے عالمی دشمن کبھی نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان یہ مقام حاصل کر لے ۔ بھٹو صاحب جانتے تھے کہ اِس کام کے کرنے سے کون کون سا ملک اُن سے ناراض اور خفا ہوجائے گا اور اِس کا خمیازہ بھی انھیں بھگتنا پڑے گا، لیکن انھوں نے پھربھی یہ کام کر دکھایا۔
اِس کام کو شروع کرنے کے لیے انھوں نے جس شخص کو سب سے پہلے آمادہ کیا وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے ، جو اُس وقت ہالینڈ میں ملازمت کر رہے تھے۔ انھیں واپس آکر یہاں اِس منصوبے پر کام کرنے کے لیے بھٹو صاحب ہی نے رضا مند کیاتھا اور یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی تھے جنہوں نے اِس کا کام میں بھٹو صاحب کا مکمل ساتھ نبھایا ۔وہ ایک ایسے مشن پر جُت گئے جو بظاہر اُس وقت ایک بہت ہی مشکل اور ناممکن دکھائی دیتا تھا۔مگر اللہ تعالیٰ کی مدد اورفضل وکرم سے یہ مشن بالآخر 1998ء میں پورا ہوا۔
1998ء میں بھٹو صاحب گرچہ اِسے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہے تھے لیکن جب اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تمام پابندیوں اور دھمکیوں کے باوجود پاکستان کو ایک ایٹمی ریاست کادرجہ دلوانے کے لیے ایک ہی جست میں چھ نیوکلیئر دھماکے کرڈالے تو ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ہمارے لوگوں نے اِس اہم کام کے روح ِ رواں کے طور پر یاد رکھا۔ہماری ایٹمی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی ہمارے اِن تین محسنوں کاذکر ضرور آئے گا ۔ سیاسی مخالفت سے قطع نظر یہ تین بڑے لوگ وہ ہیں جنہوں نے اِس ملک اور قوم کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ تمام خدشات اور خطرات کے باوجود انھوں نے اپنا مشن جاری رکھا ۔ وہ اِس جرم کی پاداش میں نہ صرف اپنے اقتدار سے محروم کردیے گئے بلکہ نشان عبرت بھی بنادیے گئے لیکن اپنی قوم کو ایساتحفہ دے گئے جس کے ثمرات سے وہ ہمیشہ لطف اندوز ہوتی رہے گی۔
بھارت میں وہاں کے لوگوں نے اپنے ایسے ہی محسن کو عزت وقار سے نوازا۔ باوجوہ کہ وہ ایک مسلمان شخص تھا لیکن انھوں نے اُسے اپنے ملک کا صدر بھی بنوا دیا ۔ دوسری جانب ہم ہیں کہ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنہوں نے ایک مشکل اورکٹھن وقت میں یہ کام شروع کیا پھانسی پر لٹکا دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ریڈیو اور ٹی وی پر ساری قوم کے سامنے معافی مانگنے پر مجبورکیا اور جس شخص نے امریکا کے سخت دباؤ کے سامناکرتے ہوئے نیوکلیئر ٹیسٹ کرڈالے اُسے مبہم اور مشکوک الزامات کے تحت آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ۔ ہم نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ سوچا کہ ہم اپنے اِن محسنوں کے ساتھ یہ کیا سلوک کر رہے ہیں۔
نائن الیون کے واقعے کے بعد رچرڈ آرمٹیج کے مطالبوں کے آگے ڈھیر ہوجانے والے کمانڈو کو تو ہم نے ایک روزکے لیے بھی جیل میں نہیں ڈالا لیکن اپنے اِن تین بڑے محسنوں کو نشان عبرت بنا ڈالا۔اِس کے بعد ہم کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ کوئی مرد آہن اِس ملک میں آیندہ پیدا ہوسکے جو عالمی دباؤ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے اوراِس قوم کو ایک عظیم قوم بنادے ۔
یہاں ایسے عزائم اور ارادوں والا شخص کیونکر آگے بڑھے جس نے اپنے سے پہلے آنے والوں کا یہ حشر دیکھ لیاہو ۔ بحیثیت قوم اب ہمیں اپنے اِس طرز عمل پر غورکرنا ہوگا۔ ہم نے اپنے کسی محسن کو آج تک نہیں بخشا ۔ ہم جن کی محنتوں اور کاوشوں کے ثمرات سے ہر روز لطف اندوز ہوتے رہے ہیں ہم نے انھیں اپنا ہیرو بنانے کی بجائے نیست ونابود کردیا ہے۔ ہم صرف اُسی کو اپنا ہیرو مانتے ہیں جو عالمی قوتوں کے سامنے ڈھیر ہوجائے اورپتھروں کے دور میں چلے جانے کا خوف دلا کر اُصولوں پر سمجھوتہ کرلیا کرے ۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر قوم کو بے قوف بنایاکرے اور پھر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرکے وطن سے دور بھاگتا پھرے ۔
گزشتہ بیس برسوں میں یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ پاکستان اوربھارت کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہوچکی ہوں اورکشیدگی کا ماحول اتنا خراب ہوچکا ہوکہ ایسا لگے کہ باقاعدہ جنگ ابھی ہوئی کہ تب ہوئی ۔ اِس سے پہلے بھی ایک سے زائد مرتبہ بھارت نے بہت کوشش کی کہ اُس کی اپنی طرف سے لگائے گئے یکطرفہ بے بنیاد الزامات کے تحت پاکستان کو سبق سکھایا جائے اور کھلم کھلا اِس کا اعلان بھی کیا مگر وہ سرحدوں پر بلااشتعال کاروائیوں سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔
کوئی نہ کوئی انجانا خوف اور ڈر اُس کے ارادوں کو پامال کرتا رہا، اُس کے قدم ڈگمگاتا رہا ۔ یہ انجانا خوف کیا تھا اورکیا ہے۔ صرف اور صرف ہمارا بحیثیت ایک ایٹمی قوت کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہونا ۔ ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ بھارت ہم پر اب تک چڑھائی نہ کرچکا ہوتا ۔ ہم رقبہ ، عسکری ، معاشی اور اقتصادی طور پر بھار ت کے مقابلے میں بہت چھوٹی حیثیت رکھتے ہیں ۔ بھارت ہماری نسبت ایک بہت بڑی معاشی قوت بھی ہے۔اِسی وجہ سے دنیا کا جھکاؤ بڑی حد تک اس کے حق میں ہے۔ دنیا اُسے ایک بڑی معیشت کے طور پر جانتی ہے۔
ہماری حیثیت اُس کے مقابلے میں ابھی بہت کم اور چھوٹی ہے ۔ ہمیں اُس کے برابر پہنچنے میں ابھی وقت درکار ہے، مگر خدا کے فضل وکرم سے اِس کے باوجود وہ ہم سے لڑتے ہوئے خوف کھاتا ہے ، وہ ہر بار مسلح ہوکر اپنے بدبخت ارادوں کے ساتھ ہمیں للکارتا ضرور ہے لیکن پھر خود ہی اُلٹے پاؤں واپس ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہم نے 2002ء میں بھی دیکھا تھا ۔ جب دونوں ملکوں کی افواج ایک دوسرے کے خلاف مکمل صف آراء ہوچکی تھیں مگر پھر ہماری مسلمہ ایٹمی حیثیت نے اُس کے قدم لڑکھڑا دیے۔وہ چند لمحوں کے لیے بھول جاتا ہے کہ ہم بھی اُس کی طرح دنیا کے ایک ایٹمی قوت ہیں اور بلاوجہ ہم سے محاذآرائی پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ پھر اچانک اُسے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بے شک اُس کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک ہے لیکن اُس کی ایٹمی صلاحیت کسی بھی لحاظ سے کسی سے کم نہیں ہے اور جس سے سر ٹکرانے کا مطلب خود اُس کی اپنی موت ہے۔
پاکستان کو ایک ایٹمی قوت بنانے میں ہمارے جن محسنوں کا ہم پر احسان رہا ہے ، ہمیں آج اِس موقعے پر انھیں ہرگز نہیں بھولنا چاہیے ۔ سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو جنھوں نے 1974ء میں بھار ت کے جانب سے پہلے نیوکلیئر ٹیسٹ کے بعد یہ اعلان کر ڈالا کہ اب ہم بھی خود کو ایٹمی قوت بنائیں گے ۔ خواہ اِس کے لیے ہمیں گھاس ہی کھانا کیوں نہ پڑے لیکن ہم یہ کام ضرور کر کے دکھائیں گے۔1974ء میں ہم سب جانتے ہیں ہمارے حالات کیسے تھے۔ ہمارا ملک ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں دولخت ہوچکا تھا۔ اندرونی او ر بیرونی لڑائی کے باعث ہماری معیشت دگرگوں ہوچکی تھی۔ نفسیاتی طور پر ہماری قوم انتہائی دباؤکا شکار تھی ۔ وہ مایوسیوں اور نا اُمیدیوں کے دلدل میں دھنس چکی تھی ۔آدھا ملک گنوا دینے کے احساس نے ہمیں شدید صدمے سے دوچارکردیا تھا۔
ہم دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔ ایسے میں بھٹو صاحب ہی تھے جنہوں نے اِس قوم کو دوبارہ کھڑا کیا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بہرحال ایک مشکل وقت میں قوم کو سہارا دیا۔اُسے حوصلہ دیا اور اُسے مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے اندھیروں سے نکال کر ایک روشن مستقبل کی جانب رواں دواں کیا ۔دیکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑا مشکل کام تھا ۔ اُس وقت کے ہمارے کسی رہنما میں یہ صلاحیت اور ہمت نہیں تھی کہ اِس مشکل اور کٹھن وقت میں صدمے سے دوچار قوم کا ہاتھ تھامے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اِس انتہائی مشکل کام کا بیڑہ اُٹھایا اور پھر اُسے کسی حد تک کامیابی سے ہمکنار بھی کیا ۔ انھوں نے بہت ہی مختصر عرصے میں ایک ڈی مورالائزڈ قوم کو باوقار اور باہمت قوم بنادیا ۔
انھوں نے پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کرکے اسلامی دنیا میں پاکستان کی قائدانہ صلاحیتوں کو تسلیم کروایا اور پھر چند سال میں اُس ایٹمی پرگرام کی داغ بیل ڈالی جس نے آگے جاکر اُسے پہلی اسلامی ایٹمی ریاست کا درجہ دلوادیا ، یہ کام کوئی اتنا آسان نہیں تھا ۔ ہمارے عالمی دشمن کبھی نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان یہ مقام حاصل کر لے ۔ بھٹو صاحب جانتے تھے کہ اِس کام کے کرنے سے کون کون سا ملک اُن سے ناراض اور خفا ہوجائے گا اور اِس کا خمیازہ بھی انھیں بھگتنا پڑے گا، لیکن انھوں نے پھربھی یہ کام کر دکھایا۔
اِس کام کو شروع کرنے کے لیے انھوں نے جس شخص کو سب سے پہلے آمادہ کیا وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے ، جو اُس وقت ہالینڈ میں ملازمت کر رہے تھے۔ انھیں واپس آکر یہاں اِس منصوبے پر کام کرنے کے لیے بھٹو صاحب ہی نے رضا مند کیاتھا اور یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی تھے جنہوں نے اِس کا کام میں بھٹو صاحب کا مکمل ساتھ نبھایا ۔وہ ایک ایسے مشن پر جُت گئے جو بظاہر اُس وقت ایک بہت ہی مشکل اور ناممکن دکھائی دیتا تھا۔مگر اللہ تعالیٰ کی مدد اورفضل وکرم سے یہ مشن بالآخر 1998ء میں پورا ہوا۔
1998ء میں بھٹو صاحب گرچہ اِسے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہے تھے لیکن جب اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تمام پابندیوں اور دھمکیوں کے باوجود پاکستان کو ایک ایٹمی ریاست کادرجہ دلوانے کے لیے ایک ہی جست میں چھ نیوکلیئر دھماکے کرڈالے تو ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ہمارے لوگوں نے اِس اہم کام کے روح ِ رواں کے طور پر یاد رکھا۔ہماری ایٹمی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی ہمارے اِن تین محسنوں کاذکر ضرور آئے گا ۔ سیاسی مخالفت سے قطع نظر یہ تین بڑے لوگ وہ ہیں جنہوں نے اِس ملک اور قوم کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ تمام خدشات اور خطرات کے باوجود انھوں نے اپنا مشن جاری رکھا ۔ وہ اِس جرم کی پاداش میں نہ صرف اپنے اقتدار سے محروم کردیے گئے بلکہ نشان عبرت بھی بنادیے گئے لیکن اپنی قوم کو ایساتحفہ دے گئے جس کے ثمرات سے وہ ہمیشہ لطف اندوز ہوتی رہے گی۔
بھارت میں وہاں کے لوگوں نے اپنے ایسے ہی محسن کو عزت وقار سے نوازا۔ باوجوہ کہ وہ ایک مسلمان شخص تھا لیکن انھوں نے اُسے اپنے ملک کا صدر بھی بنوا دیا ۔ دوسری جانب ہم ہیں کہ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنہوں نے ایک مشکل اورکٹھن وقت میں یہ کام شروع کیا پھانسی پر لٹکا دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ریڈیو اور ٹی وی پر ساری قوم کے سامنے معافی مانگنے پر مجبورکیا اور جس شخص نے امریکا کے سخت دباؤ کے سامناکرتے ہوئے نیوکلیئر ٹیسٹ کرڈالے اُسے مبہم اور مشکوک الزامات کے تحت آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ۔ ہم نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ سوچا کہ ہم اپنے اِن محسنوں کے ساتھ یہ کیا سلوک کر رہے ہیں۔
نائن الیون کے واقعے کے بعد رچرڈ آرمٹیج کے مطالبوں کے آگے ڈھیر ہوجانے والے کمانڈو کو تو ہم نے ایک روزکے لیے بھی جیل میں نہیں ڈالا لیکن اپنے اِن تین بڑے محسنوں کو نشان عبرت بنا ڈالا۔اِس کے بعد ہم کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ کوئی مرد آہن اِس ملک میں آیندہ پیدا ہوسکے جو عالمی دباؤ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے اوراِس قوم کو ایک عظیم قوم بنادے ۔
یہاں ایسے عزائم اور ارادوں والا شخص کیونکر آگے بڑھے جس نے اپنے سے پہلے آنے والوں کا یہ حشر دیکھ لیاہو ۔ بحیثیت قوم اب ہمیں اپنے اِس طرز عمل پر غورکرنا ہوگا۔ ہم نے اپنے کسی محسن کو آج تک نہیں بخشا ۔ ہم جن کی محنتوں اور کاوشوں کے ثمرات سے ہر روز لطف اندوز ہوتے رہے ہیں ہم نے انھیں اپنا ہیرو بنانے کی بجائے نیست ونابود کردیا ہے۔ ہم صرف اُسی کو اپنا ہیرو مانتے ہیں جو عالمی قوتوں کے سامنے ڈھیر ہوجائے اورپتھروں کے دور میں چلے جانے کا خوف دلا کر اُصولوں پر سمجھوتہ کرلیا کرے ۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر قوم کو بے قوف بنایاکرے اور پھر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرکے وطن سے دور بھاگتا پھرے ۔