قومی اسمبلی میں دوسرا منی بجٹ منظور اپوزیشن کا احتجاج
فنانس بل 2019 کی منظوری کے دوران ایوزیشن کی تمام ترامیم مسترد
حکومت نے رواں مالی سال کا تیسرا بجٹ قومی اسمبلی سے منظور کرالیا ہے جب کہ اپوزیشن کی تمام ترامیم کو مسترد کردیا گیا ہے۔
اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزیر اسد عمر نے رواں مالی سال کا دوسرا ضمنی بجٹ منظوری کے لیے پیش کیا۔ منی بجٹ کی منظوری کے دوران اپوزیشن کی جانب سے نعرے بازی کی گئی اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کے باوجود قومی اسمبلی میں فنانس بل 2019 کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا جب کہ اپوزیشن کی تمام بجٹ تجاویز کو مسترد کردیا گیا۔
فنانس بل منظوری کے لیے پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ اپوزیشن نے اہم معاملات اٹھائے ہیں، شہباز شریف چاہتے ہیں سب مل کر میثاق معیشت کریں، ہم ان کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہیں، معیشت جن مشکلات کا شکار ہے، ان سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ ملک کی لیڈر شپ ایک میثاق معیشت بنائے۔
اسد عمر نے کہا کہ اپوزیشن کی تقریروں میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ زیادہ ہوتی ہے، اپوزیشن کی جانب سے کوئی ایک تجویز ہمارے سامنے نہیں رکھی جاتی، پچھلے 10سال میں معیشت کا جو حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے، معیشت پر تنقید کرنے والے سیاستدان اپنے ادوار پر نظر ڈالیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ خوشی ہوئی شہباز شریف کو مہنگائی کی بھی فکر ہے، شہباز شریف معیشت کو گہری کھائی میں گرا کر گئے۔ انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ پرانے قرضے اتارنے کے لئے نئے قرض لے رہے ہیں،(ن) لیگ کی حکومت آئی تو 61 ارب ڈالر کے قرضے تھے لیکن جب ختم ہوئی تو قرضوں کا حجم 95 ارب ڈالر تک ہوگیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ آج تو بلاول بھٹو زرداری نے افراط زر کی بات کرکے کمال کردیا، کاش انہیں اپنی حکومت میں افراط زر کی فکر ہوتی، پیپلزپارٹی دور حکومت کے پہلے 6 ماہ میں افراط زر کی شرح 10 فیصد تھی جب کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں افراط زر میں سب سے کم اضافہ ہوا۔
واضح رہے کہ حکومت نے 23 جنوری کو قومی اسمبلی میں رواں مالی سال کا تیسرا بجٹ اور دوسرا منی بجٹ پیش کیا تھا، فنانس بل 2019 میں فائلرز کے لیے بینکنگ ٹرانزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے فوری خاتمے، شادی ہالوں کے ٹیکس میں کمی جب کہ موبائل اور سیٹلائٹ فونز پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجاویز شامل ہیں۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد منی بجٹ سینیٹ میں پیش کیا جائے گا، ایوان بالا سے منظوری کے بعد اس کی منظوری صدر مملکت دیں گے۔
اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزیر اسد عمر نے رواں مالی سال کا دوسرا ضمنی بجٹ منظوری کے لیے پیش کیا۔ منی بجٹ کی منظوری کے دوران اپوزیشن کی جانب سے نعرے بازی کی گئی اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کے باوجود قومی اسمبلی میں فنانس بل 2019 کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا جب کہ اپوزیشن کی تمام بجٹ تجاویز کو مسترد کردیا گیا۔
فنانس بل منظوری کے لیے پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ اپوزیشن نے اہم معاملات اٹھائے ہیں، شہباز شریف چاہتے ہیں سب مل کر میثاق معیشت کریں، ہم ان کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہیں، معیشت جن مشکلات کا شکار ہے، ان سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ ملک کی لیڈر شپ ایک میثاق معیشت بنائے۔
اسد عمر نے کہا کہ اپوزیشن کی تقریروں میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ زیادہ ہوتی ہے، اپوزیشن کی جانب سے کوئی ایک تجویز ہمارے سامنے نہیں رکھی جاتی، پچھلے 10سال میں معیشت کا جو حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے، معیشت پر تنقید کرنے والے سیاستدان اپنے ادوار پر نظر ڈالیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ خوشی ہوئی شہباز شریف کو مہنگائی کی بھی فکر ہے، شہباز شریف معیشت کو گہری کھائی میں گرا کر گئے۔ انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ پرانے قرضے اتارنے کے لئے نئے قرض لے رہے ہیں،(ن) لیگ کی حکومت آئی تو 61 ارب ڈالر کے قرضے تھے لیکن جب ختم ہوئی تو قرضوں کا حجم 95 ارب ڈالر تک ہوگیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ آج تو بلاول بھٹو زرداری نے افراط زر کی بات کرکے کمال کردیا، کاش انہیں اپنی حکومت میں افراط زر کی فکر ہوتی، پیپلزپارٹی دور حکومت کے پہلے 6 ماہ میں افراط زر کی شرح 10 فیصد تھی جب کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں افراط زر میں سب سے کم اضافہ ہوا۔
واضح رہے کہ حکومت نے 23 جنوری کو قومی اسمبلی میں رواں مالی سال کا تیسرا بجٹ اور دوسرا منی بجٹ پیش کیا تھا، فنانس بل 2019 میں فائلرز کے لیے بینکنگ ٹرانزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے فوری خاتمے، شادی ہالوں کے ٹیکس میں کمی جب کہ موبائل اور سیٹلائٹ فونز پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجاویز شامل ہیں۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد منی بجٹ سینیٹ میں پیش کیا جائے گا، ایوان بالا سے منظوری کے بعد اس کی منظوری صدر مملکت دیں گے۔