حب ڈیم میں آیا پانی ضایع ہونے سے بچائیں
حب ڈیم میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے ترسے ہوئے عوام کو مزید پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے کہ اُس نے ہمیشہ کی طرح اُس وقت نوازا جب لوگ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے مایوس ہو رہے تھے اور ان کے ذہنوں میں مختلف قسم کے خدشات پیدا ہو رہے تھے ۔ میں یہ بات کسی اور واقعے یا معاملے کی نہیں کر رہا بلکہ کراچی میں '' قلت آب '' کے مسئلے کی ہے ۔ کچھ دن قبل جب یہ اطلاعات اور خبریں سامنے آئیں کہ شہر کراچی کو پانی فراہم کرنے والا بڑا ذریعہ ''حب ڈیم '' خشک ہوگیا ہے اور اب شہر میں پانی کی فراہمی کا ٹوٹا پھوٹا سلسلہ مزید ابتری کا شکار ہوجائے گا تو شہری شدید تشویش میں مبتلا ہوگئے تھے ۔
لوگوں نے حب ڈیم کی حالت خود جا کر دیکھی اور دوسروں کو بتائی ۔ حب ڈیم میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے ترسے ہوئے عوام کو مزید پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا اور جہاں پانی مہینے میں ایک آدھ بار آجاتا تھا وہاں بھی مہینے ڈیڑھ مہینے بعد پانی ملا لیکن پھر آج صَد شُکرکہ اس وقت حب ڈیم تقریباً بھر چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق حب ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 339 فٹ ہے اورگزشتہ چند روز میں وہ 301 فٹ تک پہنچ چکا ہے جس میں مزید اضافے کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ یہ صورتحال اطمینان بخش اور خوشی کی بات تو ہے لیکن اس کی وجہ سے ارباب اقتدار ، متعلقہ حکام پر زیادہ اور کسی حد تک شہریوں پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ حب ڈیم میں آئے ہوئے پانی کو ضایع نہ ہونے دیں ۔ ماہرین نے ڈیم کی موجودہ سطح آب سے اندازہ لگایا ہے کہ کہ اس وقت حب ڈیم میں موجود پانی شہرکراچی کی تقریباً ایک سال کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے۔( اللہ کرے ایسا ہی ہو)۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پانی کو کس طرح ضایع ہونے سے بچایا جائے ۔اس کے لیے بہت سی تجاویز ہیں جن پر عمل کرکے متعلقہ حکام کئی اقدامات کرسکتے ہیں جن کے ذریعے شہرکراچی میں پانی کی ترسیل بھی جاری رہے، تمام علاقوں کو برابری کی بنیاد پر پانی ملے اورپانی ضایع بھی نہ ہو۔ واٹر بورڈ، سندھ حکومت، وزارت بلدیات میں بہت سینئر اور تجربے کار لوگ بیٹھے ہیں جوحب ڈیم کی صورتحال کو مانیٹرکر رہے ہیں ، ہماری تجاویز بھی ان کے کام میں حصہ ڈالنے کے لیے ہیں کیونکہ سب کا مقصد ایک ہی ہونا چاہیے کہ شہر کراچی کو پانی ملتا رہے۔
اپنی چند تجاویز سے قبل حب ڈیم کے حوالے سے کچھ معلومات نذرقارئین کرتا چلوں۔1960ء میں حکومت نے واپڈا کو حب ڈیم کی منصوبہ بندی کا حکم دیا، باقاعدہ طور پر حب ڈیم کی تعمیر کی منظوری 1963ء میں دی گئی ۔ اْس وقت حب ڈیم کی تعمیر کے اخراجات کی لاگت کا جو اندازہ لگایا گیا تھا وہ 8 کروڑ 68 لاکھ روپے تھا ، حب ڈیم دریائے حب شہر کے قریب ہونے کی وجہ سے حب ڈیم کہلایا۔ اس کی تعمیر 1979ء میں مکمل کی گئی،ماہرین کے اعداد وشمار کے مطابق حب ڈیم کا بند سطح زمین سے 352 فٹ کی بلندی پر ہے اور پانی کی سطح 339 فٹ مقرر ہے۔ 1984ء میں پہلی مرتبہ حب ڈیم جھیل اپنی پوری گنجائش کی ساتھ بھرچکی ہے۔ حب ڈیم کا کام تقریباً 7ماہ میں 29 مئی 1979ء میں مکمل ہُوا تھا۔28 جولائی 2003ء میں حب ڈیم اپنی انتہائی سطح 339 فٹ سے بھی بلند ہوگیا تھا اور اس وقت پانی کی انتہائی سطح 342 سے بھی زائد پہنچ گئی تھی۔
اب حب ڈیم کے پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کی کچھ تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔
1۔ڈیم سے شہر تک پانی آنے کے راستے میں جہاں جہاں رساؤ ہیں، انھیں جنگی بنیادوں پر درست کیا جائے۔ 2۔ پائپ لائنوں کی موثر مرمت کرکے انھیں کئی برسوں تک قابل استعمال رہنے کے قابل بنایا جائے۔
3 ۔کراچی کے مختلف علاقوں میں مہینوں پانی نہ آنے کی وجہ فراہمی آب کا غیر مساویانہ نظام بھی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ جب مختلف علاقوں کے مکین پانی نہ آنے کی وجہ سے پریشان ہورہے ہوتے ہیں ، بورنگ کا پانی لے کر گزارہ کررہے ہوتے ہیں یا ٹینکر کے ذریعے مہنگا پانی خریدکر ضرورت پوری کرتے ہیں تو اُسی وقت شہر کے کچھ علاقوں میں پانی گھروں کی ٹنکیوں اور زیرزمین ٹینک سے نکل کر گلیوں میں بہہ رہا ہوتا ہے اور اس کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ضروری ہوگیا ہے کہ متعلقہ ادارے جن میں واٹر بورڈ سب سے اہم ہے ، ایسی ٹیمیں تشکیل دیں جو پانی آنے کے اوقات میں علاقوں میں باقاعدگی سے جاکر پانی کو چیک کریں اور اُن علاقوں میں بھی جائیں جہاں پانی انتہائی کم اوقات کے لیے آتا ہے۔
4 ۔ تمام بڑے سر جوڑ کر بیٹھیں اور پورے شہر میں پانی کی تقسیم کا جامع فارمولا بنائیں جس کے ذریعے کوئی علاقہ پانی سے محروم نہ رہے۔
5 ۔ اس وقت اللہ کے کرم سے شہر کو پانی فراہم کرنے والا سب سے بڑا ذریعہ ''حب ڈیم '' مکمل بھرا ہُوا ہے۔ اب کسی کے پاس کوئی حیلہ بہانہ نہیں کہ فلاں علاقے میں پانی اس وجہ سے نہیں پہنچ رہا کیونکہ حب ڈیم میں پانی نہیں ہے۔ موجودہ پانی کئی ماہ شہر کو سیراب کرسکتا ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ تقسیم ِ آب کا نظام شفاف ہوجائے۔
6۔ شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی لائنوں میں لوگوں نے غیر قانونی کنکشن لیے ہوئے ہیں جن کو ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔
7۔ مین لائن سے گھروں تک پانی پہنچانے والی لائنیں بھی بہت پرانی ہوچکی ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ شہر کی ترقی کے بڑے بڑے منصوبے بنانے کے ساتھ ساتھ پانی کی ان چھوٹی چھوٹی لائنوں کو بھی درست کرنے کا ''آپریشن'' شروع کردے کیونکہ اس چھوٹے سے کام سے شہر کی مجموعی صورتحال بہتر ہوجائے گی۔
8 ۔ اس کے علاوہ شہریوں کو بھی پانی کے استعمال میں احتیاط، اس کی فضول خرچی سے اجتناب اور دوسروں کو بھی اس حوالے سے آگاہی دینے کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔ یہ ہم کسی دوسرے کے لیے نہیں کریں گے بلکہ ایسا کرنے سے ہمیں اور ہماری نسلوں کو فائدہ ہوگا۔
9 ۔ابھی موسم گرما نہیں آیا، اپریل، مئی، جون ، جولائی، اگست، ستمبر حتیٰ کہ اکتوبر بھی کراچی میں گرم ہوتے ہیں۔ حب ڈیم کے پانی کی سب سے زیادہ ضرورت ہمیں گرمیوں میں ہی ہوگی جس کے لیے ابھی سے کوششیں کرنا ہونگی۔
کہتے ہیں کہ حالت امن میں حالت جنگ کی تیاری کرنی چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہیں کروگے تو جنگ کے موقع پر جنگ کی تیاری نہیں ہوسکتی، صرف جنگ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو بڑا موقع دیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل حب ڈیم میں سطح آب ڈیڈ لیول پر تھی اور اب پانی over flow ہونے کے قریب ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ مل کر ایسے اقدامات کریں، اپنی اپنی سطح پر ، اپنی اپنی حیثیت میں پانی کی قدر کرنے کے اقدامات کریں تاکہ مشکل حالات میں کوئی پریشانی نہ ہو۔
لوگوں نے حب ڈیم کی حالت خود جا کر دیکھی اور دوسروں کو بتائی ۔ حب ڈیم میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے ترسے ہوئے عوام کو مزید پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا اور جہاں پانی مہینے میں ایک آدھ بار آجاتا تھا وہاں بھی مہینے ڈیڑھ مہینے بعد پانی ملا لیکن پھر آج صَد شُکرکہ اس وقت حب ڈیم تقریباً بھر چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق حب ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 339 فٹ ہے اورگزشتہ چند روز میں وہ 301 فٹ تک پہنچ چکا ہے جس میں مزید اضافے کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ یہ صورتحال اطمینان بخش اور خوشی کی بات تو ہے لیکن اس کی وجہ سے ارباب اقتدار ، متعلقہ حکام پر زیادہ اور کسی حد تک شہریوں پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ حب ڈیم میں آئے ہوئے پانی کو ضایع نہ ہونے دیں ۔ ماہرین نے ڈیم کی موجودہ سطح آب سے اندازہ لگایا ہے کہ کہ اس وقت حب ڈیم میں موجود پانی شہرکراچی کی تقریباً ایک سال کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے۔( اللہ کرے ایسا ہی ہو)۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پانی کو کس طرح ضایع ہونے سے بچایا جائے ۔اس کے لیے بہت سی تجاویز ہیں جن پر عمل کرکے متعلقہ حکام کئی اقدامات کرسکتے ہیں جن کے ذریعے شہرکراچی میں پانی کی ترسیل بھی جاری رہے، تمام علاقوں کو برابری کی بنیاد پر پانی ملے اورپانی ضایع بھی نہ ہو۔ واٹر بورڈ، سندھ حکومت، وزارت بلدیات میں بہت سینئر اور تجربے کار لوگ بیٹھے ہیں جوحب ڈیم کی صورتحال کو مانیٹرکر رہے ہیں ، ہماری تجاویز بھی ان کے کام میں حصہ ڈالنے کے لیے ہیں کیونکہ سب کا مقصد ایک ہی ہونا چاہیے کہ شہر کراچی کو پانی ملتا رہے۔
اپنی چند تجاویز سے قبل حب ڈیم کے حوالے سے کچھ معلومات نذرقارئین کرتا چلوں۔1960ء میں حکومت نے واپڈا کو حب ڈیم کی منصوبہ بندی کا حکم دیا، باقاعدہ طور پر حب ڈیم کی تعمیر کی منظوری 1963ء میں دی گئی ۔ اْس وقت حب ڈیم کی تعمیر کے اخراجات کی لاگت کا جو اندازہ لگایا گیا تھا وہ 8 کروڑ 68 لاکھ روپے تھا ، حب ڈیم دریائے حب شہر کے قریب ہونے کی وجہ سے حب ڈیم کہلایا۔ اس کی تعمیر 1979ء میں مکمل کی گئی،ماہرین کے اعداد وشمار کے مطابق حب ڈیم کا بند سطح زمین سے 352 فٹ کی بلندی پر ہے اور پانی کی سطح 339 فٹ مقرر ہے۔ 1984ء میں پہلی مرتبہ حب ڈیم جھیل اپنی پوری گنجائش کی ساتھ بھرچکی ہے۔ حب ڈیم کا کام تقریباً 7ماہ میں 29 مئی 1979ء میں مکمل ہُوا تھا۔28 جولائی 2003ء میں حب ڈیم اپنی انتہائی سطح 339 فٹ سے بھی بلند ہوگیا تھا اور اس وقت پانی کی انتہائی سطح 342 سے بھی زائد پہنچ گئی تھی۔
اب حب ڈیم کے پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کی کچھ تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔
1۔ڈیم سے شہر تک پانی آنے کے راستے میں جہاں جہاں رساؤ ہیں، انھیں جنگی بنیادوں پر درست کیا جائے۔ 2۔ پائپ لائنوں کی موثر مرمت کرکے انھیں کئی برسوں تک قابل استعمال رہنے کے قابل بنایا جائے۔
3 ۔کراچی کے مختلف علاقوں میں مہینوں پانی نہ آنے کی وجہ فراہمی آب کا غیر مساویانہ نظام بھی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ جب مختلف علاقوں کے مکین پانی نہ آنے کی وجہ سے پریشان ہورہے ہوتے ہیں ، بورنگ کا پانی لے کر گزارہ کررہے ہوتے ہیں یا ٹینکر کے ذریعے مہنگا پانی خریدکر ضرورت پوری کرتے ہیں تو اُسی وقت شہر کے کچھ علاقوں میں پانی گھروں کی ٹنکیوں اور زیرزمین ٹینک سے نکل کر گلیوں میں بہہ رہا ہوتا ہے اور اس کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ضروری ہوگیا ہے کہ متعلقہ ادارے جن میں واٹر بورڈ سب سے اہم ہے ، ایسی ٹیمیں تشکیل دیں جو پانی آنے کے اوقات میں علاقوں میں باقاعدگی سے جاکر پانی کو چیک کریں اور اُن علاقوں میں بھی جائیں جہاں پانی انتہائی کم اوقات کے لیے آتا ہے۔
4 ۔ تمام بڑے سر جوڑ کر بیٹھیں اور پورے شہر میں پانی کی تقسیم کا جامع فارمولا بنائیں جس کے ذریعے کوئی علاقہ پانی سے محروم نہ رہے۔
5 ۔ اس وقت اللہ کے کرم سے شہر کو پانی فراہم کرنے والا سب سے بڑا ذریعہ ''حب ڈیم '' مکمل بھرا ہُوا ہے۔ اب کسی کے پاس کوئی حیلہ بہانہ نہیں کہ فلاں علاقے میں پانی اس وجہ سے نہیں پہنچ رہا کیونکہ حب ڈیم میں پانی نہیں ہے۔ موجودہ پانی کئی ماہ شہر کو سیراب کرسکتا ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ تقسیم ِ آب کا نظام شفاف ہوجائے۔
6۔ شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی لائنوں میں لوگوں نے غیر قانونی کنکشن لیے ہوئے ہیں جن کو ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔
7۔ مین لائن سے گھروں تک پانی پہنچانے والی لائنیں بھی بہت پرانی ہوچکی ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ شہر کی ترقی کے بڑے بڑے منصوبے بنانے کے ساتھ ساتھ پانی کی ان چھوٹی چھوٹی لائنوں کو بھی درست کرنے کا ''آپریشن'' شروع کردے کیونکہ اس چھوٹے سے کام سے شہر کی مجموعی صورتحال بہتر ہوجائے گی۔
8 ۔ اس کے علاوہ شہریوں کو بھی پانی کے استعمال میں احتیاط، اس کی فضول خرچی سے اجتناب اور دوسروں کو بھی اس حوالے سے آگاہی دینے کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔ یہ ہم کسی دوسرے کے لیے نہیں کریں گے بلکہ ایسا کرنے سے ہمیں اور ہماری نسلوں کو فائدہ ہوگا۔
9 ۔ابھی موسم گرما نہیں آیا، اپریل، مئی، جون ، جولائی، اگست، ستمبر حتیٰ کہ اکتوبر بھی کراچی میں گرم ہوتے ہیں۔ حب ڈیم کے پانی کی سب سے زیادہ ضرورت ہمیں گرمیوں میں ہی ہوگی جس کے لیے ابھی سے کوششیں کرنا ہونگی۔
کہتے ہیں کہ حالت امن میں حالت جنگ کی تیاری کرنی چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہیں کروگے تو جنگ کے موقع پر جنگ کی تیاری نہیں ہوسکتی، صرف جنگ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو بڑا موقع دیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل حب ڈیم میں سطح آب ڈیڈ لیول پر تھی اور اب پانی over flow ہونے کے قریب ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ مل کر ایسے اقدامات کریں، اپنی اپنی سطح پر ، اپنی اپنی حیثیت میں پانی کی قدر کرنے کے اقدامات کریں تاکہ مشکل حالات میں کوئی پریشانی نہ ہو۔